Skip to content

تڑکا

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر124

تڑکا

حمزہ حسن شیخ

ڈیرہ اسماعیل خان ۔ پاکستان

باسی سبزیوں اور پھلوں کاڈھیرہمیشہ اُس خوبصورت لڑکے کا انتظار کرتا جس کے سفید معصوم چہرے پر سُرخی جھلکتی تھی۔ وہ شہر کی سبزی منڈی سے باسی سبزیاں اور پھل اکٹھے کیا کرتا۔ جب سے اُس نے ہوش سنبھالا تھا یہ بات اُس کے دماغ میں سرایت کر چکی تھی کہ اُسے اپنی اور ماں کی زندگی کے لیے یہ کام کرنا ہو گا۔ اب یہ اُس کا معمول بن چکا تھا کہ صبح سویرے وہ اپنا رُخ سبزی منڈی کی جانب کر تا اور وہاں روزمرہ کی حسب ضرورت سبزی اکٹھی کرنے کے بعد واپس گھر لوٹتا اور پھر اسکول جاتا جو اُس کے لیے حصول تعلیم کا ایک اچھا موقع تھا۔ اسکول کی کوئی باقاعدہ یونیفارم نہیں تھی اور سارے بچے وہاں روزمرہ کے ملبوسات میں آتے۔ کچھ طلباء کے پاس کتابیں ہوتیں اوروہ مل جُل کے پڑھتے۔ علاوہ ازیں، آدھے سے زیادہ بچوں کے پاس جُوتے نہیں تھے جبکہ اُن میں سے اکثر بچے پلاسٹک کے چپل پہنتے جو زیادہ تر مٹی سے بھرے ہوتے جیسے پوری زندگی میں کبھی بھی نہ دُھلے ہوں۔ غربت اور محرومیوں کے داغ ہر بچے کے چہرے پر نمایاں تھے لیکن ان بد قسمت داغوں نے کبھی بھی اُن کی قسمت کے سکے کو پلٹنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔اس پسماندہ علاقے میں رہنے والے زیادہ تربچے محرومیوں کا شکار تھے جہاں غربت صدیوں سے راج کر رہی تھی اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ اس نے اُن کی قسمت کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا تھا۔

یہاں زندگی کے معنی بھی غربت کے ترازو کے ساتھ تبدیل ہوتے تھے جس کے باٹ کبھی بھی یکساں نہ ہو پاتے۔

اس چھوٹی سی عمر میں، اُسے یاد نہ تھا کہ اُس نے کبھی کوئی سبزی مکمل طور پر چکھی ہوکیونکہ زیادہ تر اُن کے گھر پکنے والاسالن مختلف سبزیوں کے نا پسندیدہ ملاپ پر مشتمل ہوتا۔ اُس کے ہاتھ روزانہ مختلف سبزیوں کو چُھوتے جن میں سے اکثر باسی ہوتیں۔ کبھی کبھار، سبزیوں کو ٹرک پر لادنے اور اُتارنے کے دوران، گاڑیوں سے کچھ سبزیاں زمین پر گر جاتیں اوراس طرح، تازہ سبزیاں اُن کا مقدر بنتیں ورنہ باسی اور گلی سڑی سبزیوں کا ڈھیر اُس کے انتظار میں ہوتا۔ ٹماٹر، پیاز، بھنڈیاں، شلجم، سبز مرچیں، آلو، مٹر، بند گوبھی، پھول گوبھی، لہسن، گاجریں، شملہ مرچ اور کھیرے وہاں باسی ہونے کے لیے دنوں تک پڑے رہتے، جو فضا میں بد بُو چھوڑتے جس سے ساری سبزی منڈی کی فضامیں ناگواری سی رہتی۔ منڈی کے چوکیدار بھی اس غریب لڑکے کا انتظار کرتے تاکہ باسی ہونے کے بجائے وہ یہ سبزیاں لے جائے کیونکہ اس طرح وہ اس بدبُو سے محفوظ رہتے جبکہ لڑکے کے خاندان کو بھی روٹی کے ساتھ سالن نصیب ہو جاتا۔

غریب لڑکے کا باپ اُس کے بچپن میں ہی وفات پا گیا تھا۔ اب گھر میں، وہ اور اُس کی ماں ہی تھے جہاں اُن کے لیے کوئی بھی کمانے والا نہ تھا۔ زندگی مصائب سے لب ریز تھی جو کم ہونے میں نہیں آ رہی تھیں۔ اُن کے لیے صرف یہ ایک خوش نصیبی تھی کہ شہرکی سبزی منڈی قریب تھی۔ اس لیے لڑکے کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ روزمرہ استعمال کے لیے سبزیاں وہاں سے جمع کر سکے اوربعد میں اسکول جا ئے۔

اُس کی زندگی چار دیواروں کے حصار میں بند تھی جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ پُرانی اور بوسیدہ ہوتی جا رہی تھیں لیکن ایسے وقت میں گھر کی مرمت کے کوئی ذرائع نہ تھے جب ایک دن کے کھانے کا بندوبست بھی بہت مشکل تھا۔ صبح کے تڑکے کے ساتھ ہی اُن کے لیے زندگی کا مطلب، طلوع ہونے والے دن کے کھانے کے لیے سوچنا ہوتا تھا۔ اُس لڑکے کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ ماں اور اپنے لیے کھانے کا انتظام کرے۔ خوراک کی ضرورت ہمیشہ اُس کے سرپر یوں منڈلاتی رہتی جس طرح گندگی کے ڈھیر پر منڈلاتی ہوئی چیلیں۔ کئی بار، منڈی کے ڈھیر سے سبزیاں اکٹھے کرتے ہوئے؛ بہت سی چیلیں اور کوے اُس کی آنکھوں کے سامنے آتے جو شام کے دھندلکوں میں ان ڈھیروں کے اُوپر منڈلاتے رہتے۔ وہ خود کو بھی ان ڈھیروں پر منڈلانے والے صبح کے پہلے پرندے کی طرح، ایک چیل اور کوا تصور کرتاپرندوں کے بارے میں سوچتے ہوئے، اُس کے وجود میں خواہش نے انگڑائی لی کہ وہ بھی پرندہ بن کر اُڑ جائے۔ اس خواہش سے اُس میں پائلٹ بننے کی اُمنگ نے جنم لیا تا کہ وہ بغیر کسی رُکاوٹ اور پابندی کے ہوا میں اُڑ سکے اور اس خواہش پہ، وہ ہمیشہ بہت پُرجوش اور جذبے سے سرشار ہو جاتا کہ اُس نے ہر حال میں اسکول جاری رکھنا ہے۔ خوابوں اور خواہشوں کے اس جال نے ہمیشہ اُس کو اُڑنے اور آسمان کو چُھونے کے لیے پُرجوش بنایا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں، دو مختلف کناروں کی طرح، اُس نے خوابوں اور اُن کے حصول میں رُکاٹوں کے ساتھ مقابلہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ نہ ہی وہ اپنے خوابوں کو قتل کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی زندگی کی مُشکلات سے شکست کھانا چاہتا تھا۔ اس کشمکش میں، وہ اتنا بڑا ہو گیا کہ اُس نے زندگی کے بارے میں، کسی پر انحصار کئے بغیر اپنی آنکھوں میں بسے خوابوں کو پُورا کرنے کے لیے اپنے زوایوں اور فکر سے سوچنا شروع کر دیا تھا۔

زندگی بغیر کسی تبدیلی اور ترقی کے اپنے مدار میں ر واں تھی۔ صبح سویرے اُٹھنا اور پھر مارکیٹ جانا، اُس کے لیے روز کا معمول تھا۔ جمع شدہ سبزیاں ماں کے حوالے کرنے کے بعد، وہ اسکول چلا جاتا۔ کبھی کبھار، اگر اسکول سے چھٹی ہوتی یا ماں رات کو کھانا پکاتی تو تب وہ ماں کے ساتھ بیٹھ کر سالن کی خوشبودار مہک کا مزہ لیتا۔ گھی میں بھنے ہوئے پیازوں کی خوشبو اُس کو بہت بھلی لگتی اور پھرجب ٹماٹروں اور سرخ مرچوں کاتڑکا اس کو لال کر دیتا تو یہ رنگ اُسے ہمیشہ بھاتا۔ پسے ہوئے سُرخ ٹماٹروں کا سالن اُس کی بُھوک کو مزید جلا بخشتا اور پھر اپنی ناقابل برداشت بُھوک مٹانے کے لیے وہ سالن اور روٹیوں پر نظریں جمائے رکھتا لیکن تازہ سالن اور روٹیوں کی خوشبو اُس کی بُھوک کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیتے۔ کبھی کبھار اس سالن کے کئی ذائقے ہوتے اور شاذونادر ہی وہ ایک سبزی کا ذائقہ چکھتے۔ وہ بغیر کسی تبدیلی کے، روزانہ کی بنیاد پہ زندگی کے اس رُخ سے روشناس تھے۔ غربت دن بہ دن بڑھ رہی تھی،جس پر قابُوپانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ جب تک کہ لڑکے کی تعلیم مکمل نہ ہوتی۔ اس وسیع و عریض اندھیری دُنیا میں وہ ماں کی بہتر زندگی کے لیے واحد اُمید تھااس لیے وہ ماں کی آنکھوں کا تاراتھا۔ اُس کا زیادہ تر وقت گھر پر گزرتا کیونکہ اُس کی ماں نے اُسے کبھی باہر کھیلنے کی اجازت نہ دی اور نہ ہی اُسے گھر سے باہر زیادہ وقت گزارنے کی اجازت تھی۔ دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کا سہارا تھے اور اُن دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے جُڑی تھی۔ اُس کے لیے زندگی سبزی منڈی، اسکول اور گھر تک مشتمل تھی اور اس کا دن ان جگہوں کے درمیان فاصلہ طے کرتے ہوئے گزرتا تھا۔

منڈی کے سارے محافظ، مالک اور کام کرنے والے لوگ نہ صرف اُس لڑکے سے اچھی طرح آشنا تھے بلکہ وہ اُس کی سبزیاں جمع کرنے میں بھرپُور مدد کرتے۔ وہاں پر ہر شخص اُن کے حالات سے خوب واقف تھا۔ وہ گلابی رخساروں اور غربت کے داغ دھبوں والا چھوٹا لڑکا ہر کسی کو پُر کشش لگتا۔ یہاں تک کہ گلے سڑے پیاز، ٹماٹر، بھنڈیاں، سبز مرچیں، شلجم، بند گوبھی اور گوبھی بھی اس کا انتظار کرتیں کیونکہ گلنے سڑنے سے بہتر تھا کہ کوئی اُن کو کھا لے اور پورے علاقے میں اس چھوٹے لڑکے کے علاوہ کوئی بھی اُن کو لے جانے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ کبھی کبھار ان ناقابل استعمال اور گلی سڑی سبزیوں کا ڈھیر بہت ہی بدبُودار ہو جاتا اور کوئی بھی اس کے قریب جانا گوارا نہ کرتا سوائے اس چھوٹے لڑکے کے جس نے نہ کبھی منہ بنایا تھا ا ور نہ کبھی اپنا ناک سنکوڑا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گلی سڑی سبزیوں کا ڈھیر اُسکی محبت اورعاجزانہ طبیعت کی وجہ سے اُس کو پسند کرتا۔

سبزیاں جمع کرتے ہوئے، کبھی کبھار اُس کے ہاتھ بہت گندے ہو جاتے جو اُسے بالکل پسند نہ تھے۔ وہ ان کو صابن کے ساتھ دھوتا جو وہ ایک دُکان سے حاصل کرتا۔ جس طریقے سے وہ یہ سبزیا ں جمع کرتا تو وہ روزانہ فیصلہ کرتا کہ وہ ایک لقمہ بھی نہیں کھائے گا لیکن جس طرح اُس کی ماں ذائقہ دارکھانا بناتی تو وہ خود کو کھانے سے رُوک نہ پاتا۔ گھی میں بُھنے ہوئے پیازوں اور ٹماٹروں کو جب سرخ مرچوں کا تڑکا لگتا تو یہ سرخ رنگ اُس کو کھانے کی جانب اُکساتا۔ سرخ رنگ کا سالن اُس کی کمزوری تھا اور وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتا۔

معمول کا عام سا دن تھا اور حسب معمول وہ اپنا فرض نبھانے کے لیے صبح سویرے اُٹھا۔ وہ منڈی پہنچا تومعمول کی زندگی جاگ رہی تھی اور لوگ سبزیاں اور پھل ٹرکوں اور گاڑیوں سے لاد اور اُتار رہے تھے۔ وہ سبزیوں کے ڈھیر کی جانب بڑھا جو پہلے ہی اُس کے انتظار میں تھا لیکن آج یہ ڈھیر چاہ رہا تھاکہ یہ چھوٹا لڑکا اُس کے قریب مت آئے لیکن اپنی فطری مجبوری کے سبب وہ اپنے خوبصورت دوست کو روکنے سے قاصر تھا۔ ہر ایک اپنے اپنے کام میں مگن تھاکہ اچانک ساری فضا ایک گونج دار دھماکے سے لرز اُٹھی اور ہر چیز ٹکڑوں میں بٹ کر فضاوں میں بکھر گئی۔ اب مزید کوئی ڈھیر باقی نہیں رہا تھا اور تمام سبزیاں فضا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔ چھوٹا لڑکا چیٹھڑوں میں بٹ گیا تھا۔ اُس کا چہرہ اور جسم اُس کے اپنے لہو سے نہا گیا تھا اور ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ اُس کے نازک بدن پر اُس کی ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے سالن کا تڑکا لگا دیا گیا تھا کہ وہ موت کے وقت بھی اس آخری لُقمے کا مزہ لے سکے۔

Published inحمزہ حسن شیخعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply