عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 73
عنوان تماشہ
فرحان دِل، مالیگاؤں، مہاراشٹر، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی انگلیاں ڈھولک پر ایسے تھرک رہی ہیں، جیسے اسی کے لیے بنائی گئی ہوں، بڑی ہی تیز رفتاری اور ایک مخصوس وقفے سے ڈھولک پر پڑتی جا رہی ہیں ـ وہ ادھر ادھر دیکھتی جارہی ہےـ بھیڑ میں نئے آنے والوں اور جانے والوں پر اس کی نگاہ ہےـ وہ زمین پر پالتی مار کر بیٹھی ہوئی ہےـ ایک بہت ہی چھوٹی چھوٹی آستینوں والا فراک اس کےبدن پر ہے جو کمر کے پاس آ کر ختم ہوگیا ہےـ وہ فراک کم از کم پچاس کپڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہےـ ہر ٹکڑا الگ رنگ کا ہےـ یہ الگ بات کہ ہر رنگ اپنی تابانی کھو چکا ہے مگر میلا کچیلا فراک بہر حال رنگین ہی نظر آرہا ہےـ فراک کے نیچے ایک لہنگا ہے ـ لہنگا بھی کئی جگہوں سے پھٹ چکا ہے جس پر الگ الگ کپڑوں کے پیوند لگے ہوئے ہیں ـ لہنگے اور فراک کے درمیان سے اس کے پیٹ کمر اور پیٹھ کا حصّہ جھانک رہا ہے جس پر جھریوں کے علاوہ میل جمی ہوئی نظر آرہی ہےـ ایسا لگ رہا ہے کہ کئی مہینوں سے اس بدن کو پانی سے دھویا بھی نہیں گیا ہوـ اس کے چہرے پر پڑی جھریوں کی ایک ایک لکیر میں غریبی، یاسیت، مجبوری اور لاچاری کے افسانے لکھے ہوئے ہیں ـ یعنی اس کا چہرہ ایک درد بھرے افسانوں کا مجموعہ نظر آ رہا ہےـ جس کی ہر سطر چیخ چیخ کر اس کی زبوں حالی پر مرثیہ پڑھ رہی ہےـ وہ ادھر ادھر دیکھتی جا رہی ہے مگر مجال ہے جو اس کی انگلیوں کی تیز رفتاری یا تواتر میں رتّی برابر بھی فرق پڑجائے لاشعوری طور پر اس کی انگلیاں ڈھولک پر پڑتی جا رہی ہیں ـ اس کی عمر لگ بھگ پچپن سال ہو چکی ہے مگر حالات نے اس پر اتنے وار کیے ہیں کہ اس کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال لگنے لگی ہےـ پانچ سال پہلے وہ پچاس کی ہو کر بھی چالیس کی لگتی تھی مگر ایک واقعے نے اسے بوڑھا کر دیا ہےـ یہ واقعہ پانچ سال قبل ہوا تھ ـ اس کے بالکل پاس ہی مٹّی پر دو بچے بیٹھے ہوئے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی ـ لڑکی کی عمر تقریبا دس سال ہےـ اس کے بدن پر ایک نہایت پرانا لباس ہے جو پھٹ چکا ہے اور جگہ جگہ سے چیتھڑوں کی شکل میں جھول رہا ہےـ یہ لباس پانچ سال پہلے شاید بہت مہنگا اور بالکل نیا رہا ہوگاـ اس لڑکی کے سر کے بال مٹّی میں اٹے ہوئے ہیں ـ چہرہ مٹی اور آنسوؤں سے ایسا گندھا ہوا ہے کہ گالوں پر نشان بن چکا ہےـ ناک بہہ کر ہونٹوں پر جم چکی ہےـ جسے کبھی کبھی وہ لڑکی آستین سے صاف کر لیتی ہے ـ دونوں آستینوں پر اس کا نشان کافی واضح ہو چکا ہےـ اس کی گود میں کپڑے کی بنی ہوئی گڑیا لیٹی ہوئی ہے جس کی دھجیاں باہر کی طرف جھانک رہی ہیں ـ میلی کچیلی گڑیا ہر طرح سے مر چکی ہے مگر اس کی بٹن جیسی آنکھیں مسکرا رہی ہیں ـ لڑکی زمین پر انگلی سے کچھ بنا رہی ہےـ لڑکے کے بدن پر صرف ایک چڈی ہےـ اس کی عمر نو سال کے لگ بھگ ہےـ اس کا سارا بدن مٹّی سے اٹا ہوا ہےـ وہ اپنے اسی گندے حلیے میں لڑکی کے پاس بیٹھا لوگوں کو اور خاص طور سے لوگوں کے ساتھ آئے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا ہےـ اس کی نگاہیں ان بچوں کے کپڑوں، جوتوں اور ان کے ہاتھوں میں موجود کھلونوں یا کھانے کی چیزوں پر لگاتار بھٹک رہی ہیں ـ آنکھوں سے ندیدہ پن نمایاں ہے ـ زبان بار بار ہونٹوں پر جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی نادیدہ چیز کو نگل رہا ہےـ
بڑھیا کے آگے تقریباً چار پانچ قدم کی دوری پر ایک بوڑھا جس کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال ہےـ بدن پر صرف ایک لنگوٹ باندھے ہوئےـ ہاتھ پیر دبلے پتلے اور کسے ہوئےـ پیٹ اندر کو دھنسا ہواـ پسلیاں باہر کو جھانکتی ہوئیـ سینہ مضبوط لیکن پچکا ہواـ ننگے پیرـ رنگ کالا اور پورا بدن جھریوں سے بھرا ہواـ چہرے پر تناؤ اتنا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اس کے سارے بدن کا خون سمٹ کر چہرے پر آ گیا ہوـ ایک ہاتھ زمین پر ٹیک کر اس نے اپنا سارا بدن ہوا میں اٹھا رکھا ہے۔ پیر آسمان کی طرف ہیں ـ ہاتھوں کی لرزش صرف اور صرف اسے ہی محسوس ہو رہی ہےـ جو اب کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی ہے ڈھولک کی آواز متواتر آ رہی ہےـ ان چاروں کے آس پاس تقریباً تیس چالیس لوگ دائرہ بنائے ہوئے کھڑے ہیں ـ سب کے کان ڈھولک پر اور آنکھیں اس بوڑھے پر جمی ہوئی ہیں اس بھیڑ میں ہر طبقے کے لوگ ہیں ـ دو تین ننگ دھڑنگ میلے کچیلے بچے ہاتھوں میں روٹیاں دبائے اس کھیل کو دیکھ رہے ہیں ـ
ایک جوڑا جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہےـ بیوی کے ہاتھ میں ایک دو ڈھائی سالہ بچہ جس کے ہاتھ میں ایک جھنجھنا ہے جسے وہ رہ رہ کر بجا رہا ہےـ اچانک بوڑھا سیدھا ہوا اور زمین پر کھڑا ہو گیاـ اب اس کی پیٹھ ڈھولک بجاتی ہوئی بڑھیا کی طرف ہو گئی ہےـ اب اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنے تھامے اور سر جھکانا شروع کیا، سر جھکتے جھکتے گٹھنوں پر ٹک گیا اور پھر اس نے دونوں گٹھنوں کے درمیان میں جگہ بنا کر سر اندر ڈال دیا، اب اس کا سر اس کی دونوں ٹانگوں سے اس کی پیٹھ کی طرف نکل گیا ہےـ اس کی نگاہوں میں وہ آ گئی جو ابھی بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ڈھول بجا رہی ہے ـ وہ الٹی ہےـ زمین اوپر کی جانب ہے اور وہ زمین سے لٹکی ہوئی ڈھولک بجا رہی ہےـ
تماشہ دیکھنے والے ایک امیر جوڑے کے ساتھ کھڑے ہوئے لڑکے نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا سینڈوِچ جو وہ کھا رہا ہے زمین پر پھینک دیا ہےـ شاید اس کا جی بھر گیا ہے کیونکہ امیروں کے یہاں کھانا اسی وقت تک کھایا جاتا ہے جب تک جی نہ بھرےـ کپڑا اس وقت تک پہنا جاتا ہے جب تک جی نہ بھرےـ ان کے یہاں ہر چیز کی اہمیت بس جی بھرنے تک ہی ہوتی ہےـ زمین پر بیٹھا ہوا لڑکا تیزی سے اٹھا اور بھاگتا ہوا اس سینڈوچ کی طرف بڑھا جیسے اسے ڈر ہو کہ اس سے پہلے کوئی وہ سینڈوچ اٹھا لےگاـ سینڈوچ لوگوں کے پیروں کے پاس سے اٹھا کر وہ اس پر لگی ہوئی مٹی صاف کرتا ہوا آیا اور اپنی جگہ بیٹھ گیاـ لڑکی نے انگلی سے زمین پر تصویر بنانا چھوڑا اور بچے کا منہ دیکھنے لگیـ
” اے ہَریا !!! آدھا آدھا ” اس نے بچے کو مخاطب کیا اور بچّے نے اس مٹی لگے سینڈوچ کو آدھا آدھا کر لیاـ بہت دیر تک موازنہ کرنے کے بعد اپنی دانست میں بڑا ٹکڑا اپنے پاس رکھتے ہوئے اس نے دوسرا ٹکڑا لڑکی کی طرف بڑھا دیاـ لڑکی نے فراک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ٹکڑا فوراً لے لیا اور کھانے لگیـ اس کی نگاہیں پاس ہی بیٹھی ہوئی اپنی بوڑھی دادی سے ملیں جو ڈھولک بجاتے ہوئے سارا منظر دیکھ رہی ہے اور ایک اداس سی مسکراہٹ لیے اپنی پوتی کو دیکھ رہی ہے۔
اس کی بوڑھی اور بجھی بجھی آنکھوں میں پچاس سال پہلے کا منظر رقص کرنے لگاـ ایسا ہی لوگوں کا بنایا ہوا ایک دائرہ اور ایسے ہی دائرے میں بیٹھی ڈھولک بجاتی ہوئی اس کی بیس پچیس سالہ ماں اور ایسے ہی مٹی پر کرتب بتاتا ہوا اس کا تیس پینتیس سالہ باپ اور پانچ سال کی وہ، ایسے ہی زمین پر بیٹھی لوگوں کی بھیڑ پر نظر دوڑاتی ہوئی یہ دیکھ رہی تھی کہ کون کب پیسے دو پیسے کے کچھ سکّے اس کے باپ کی جانب اچھالے اور وہ دوڑتی ہوئی جائے اور وہ سکّہ اٹھا لائےـ بس دور بدلا تھاـ لوگ بدلے تھےـ جگہ بدلی تھیـ شہر بدلا تھا مگر تماشہ تب بھی وہی جاری تھا۔ اس کا باپ نئے نئے کرتب دکھاتا جا رہا تھا اور لوگ ایک، ایک، دو، دو پیسے کے سکّے زمین پر پھینکتے جا رہے تھےـ وہ دوڑ دوڑ کر ہر سکّہ زمین سے اٹھاتی جاتی ـ
اس کا نام سندری تھاـ اسے سندر سندر گڑیا لینے کا بہت شوق تھا ـ اور اس کا باپ جس جس میلے کے میدان میں اپنا کرتب دکھاتا، اس میلے میں گڑیا ضرور ہوتی تھیـ ایک سے بڑھ کر ایک سندر گڑیاـ کپڑوں کی بنی ہوئی ـ پلاسٹک سے بنی ہوئی گڑیاـ کسی کسی دوکان پر تو اس نے کانچ کی بنی ہوئی گڑیا بھی دیکھی تھی مگر وہ دوکاندار اچھے نہیں ہوتے تھےـ اس کو دوکان کے سامنے زیادہ دیر رکنے بھی نہیں دیتے تھے فوراً دھتکار دیتے تھےـ وہ بھی اب ان دوکانوں کے آگے نہیں رکتی تھی ـ ویسے بھی اسے کانچ کی گڑیا زیادہ پسند نہیں آئی تھی ـ اتنی نازک گڑیا کس کام کی، اسے تو روئی اور کپڑوں سے بنی ہوئی گڑیا بہت اچھی لگتی تھی ـ نرم نرم ہاتھ پاؤں اور کالے کالے ریشمی بالـ ہاتھ پیر جیسے چاہو ویسے موڑ لوـ ٹوٹنے کا ڈر بھی نہیں ـ جب اس کا باپ کرتب نہ دکھاتا تو وہ پورے میلے میں گھوم گھوم کر ان گڑیوں کی قیمت پوچھتی رہتی تھی ـ اور ہاں اسے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ میلے کچھ ہی دنوں کے ہوتے تھے، بیس دن پچیس دن کےـ بس وہ ہر دوکاندار سے گڑیوں کی قیمت پوچھتی اور کہتی کہ ” میرے باپو مداری ہیں ‘ اسی میلے میں ہم بھی کرتب دکھاتے ہیں، جب جانے لگیں گے تو ای گڑیا خرید کے لے جائیں گے۔ ” اور میلے والے دوکاندار بھی اسے قیمت بتا دیتے اور اسے گھنٹوں کھڑے رہ کر گڑیا کو دیکھنے دیتے تھےـ آخر میلہ ختم ہو جاتا اور وہ گڑیا نہ خرید پاتی ـ کیونکہ میلے، ضرورت اور مہنگائی کا کوئی تال میل نہ تھاـ میلہ ختم ہوتا مگر ضرورت اور مہنگائی بڑھ چکے ہوتے تھےـ اس کا باپ ہر دن کرتب سے حاصل ہونے والے سکّے گنتا اور اس کی آنکھیں بجھ جاتیں
“ایسا کب تک چلے گا۔ ” وہ اکثر بڑبڑاتاـ ” محنت زیادہ ہوتی جا رہی ہے اور کمائی کم ہوتی جارہی ہے۔”، ” ابھی بدن جوان ہے تو اتنی کمائی ہے۔”، ” جیسے جیسے عمر ڈھلے گی بدن کمزور ہوتا جائے گا اور کرتب میں وہ بات نہ رہے گی۔”، ” لوگ پیسہ بھی نہیں دیں گے۔” ، ” ان کو خطرناک کرتب چاہیےـ” کبھی کبھی وہ بیٹھا بیٹھا کہنے لگتا؛ “لوگ کہتے ہیں کہ پہلے تم دھندے کو پالو پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ دھندہ تمہیں پالے گا مگر ہمارا دھندہ تو ایسا ہے کہ آخری سانس تک ہم ہی دھندے کو پالتے ہیں۔” کھانے پینے کا سامان لانے کے بعد کبھی اتنا پیسہ نہ بچتا کہ وہ ایک گڑیا لے لے حالانکہ پھر بھی وہ روز روتی تھی کہ “مجھے گڑیا دلادیو ” مگر پیسہ ہی نہ بچتاـ کبھی یہ بھی ہوتا کہ بچا بچا کر دو تین روپیہ بچ جاتا مگر یا تو اس کی ماں بیمار پڑ جاتی یا پھر باپ اور باپ کا بیمار پڑنا تو عذاب تھا کیونکہ دھندہ ہی بند ہوجاتا تھاـ بس بچی ہوئی پونجی علاج میں چلی جاتی تھی ـ یونہی دن مہینوں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے گئےـ شہر اور میلے بدلتے گئے یہاں تک کہ اس کے ماں باپ بوڑھے ہو گئے اور گڑیوں کا شوق رکھنے والی سندری انیس سال کی ہو گئی ـ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ایک چیز سیکھ لی تھی اور وہ تھا ڈھولک بجاناـ گھر میں اور تو کچھ ایسا نہ تھا جس سے دل بہلایا جا سکتا اور ڈھول سے تو شاید ہی کسی مداری کا جی بہلتا ہوـ کوئی بھی کام جب کام سمجھ کر کیا جانے لگے تو اس سے اکتاہٹ اور گھبراہٹ ہی ہوتی ہے اور جب اس کام سے خاطر خواہ آمدنی بھی نہ ہو تو وہ کام عذاب کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ جو کام خدا بھی نہیں کروا پاتا وہ مجبوری کروا لیتی ہےـ پیٹ کی آگ سے بڑی کوئی آگ نہیں ہے اور جب یہ آگ بھڑکتی ہے تو اسے بجھانے میں تمام خوابوں، ارمانوں اور احساسات کو جھونک دینا پڑتا ہےـ سو اس نے گڑیوں کی امید چھوڑ دی اور ڈھولک پکڑ لی ـ ماں نے جونہی دیکھا کہ اب اس کا کام آسان ہوا وہ یہ کہہ کر مطمئن ہو گئی کہ اب میں جی بھر کے سوؤں گی اور ایک دن ایسا سوئی کہ کسی کے اٹھانے سے نہ اٹھی ـ نہ اس کے اٹھانے سے نہ اس کے باپ کے اٹھانے سےـ تب مجبوراً اس کے باپ نے محلّے کے لوگوں کو بلوایا اور چار لوگوں نے مل کر اس کو اٹھایاـ باپ ہوشیار تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اب کمائی کم ہوتی چلی جائے گی کیونکہ اس کے ہاتھ پیر بھی کمزور ہو رہے تھے حالانکہ اب وہ دو ہی جَنے بچے تھےـ اب تو کمائی بچ سکتی تھی مگر ایک دشواری یہ تھی کہ بیس پچیس سالہ رفاقت میں وہ ڈھولک کی اس آواز کا عادی ہو چکا تھا جس میں دھیما پن تھا اور سندری چونکہ بالکل جوان تھی تو کرتب کے دوران وہ کسی بھی طور اس کی ڈھولک کی تھاپ کا ساتھ نہ دے پاتا اور ہانپ جاتا تھاـ جو تال میل اس کے کرتب اور سندری کی ماں کی ڈھولک میں تھا وہ یہاں نہیں بن سکتا تھاـ اسے اکثر اپنی بیوی کی ڈھولک کی آواز آتی جو کہیں دور سے اسے بلاتی رہتی تھی ـ وہ ٹوٹ چکا تھا اور چاہتا تھا کہ جلدی سے اس جگہ چلا جائے جہاں اس کی بیوی سکون سے بیٹھی ڈھول بجاتی رہتی تھی اور پھر اسے ایک دن ایک میلے میں وہ پچیس سالہ کرتب باز بھی مل گیا جو اپنی ماں کی ڈھولک کی دھیمی دھیمی تھاپ پر مجبوراً رک رک کر کرتب دکھا رہا تھاـ اس نے اس نوجوان کی بوڑھی ماں سے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس نوجوان کی شادی سندری سے کر دے تاکہ دونوں کا تال میل بیٹھ جائےـ جہیز میں اس نے سندری کو وہ ڈھولک دی اور ڈھولک کی آواز اور لَے سن کر وہ نوجوان اور اس کی ماں بھی تیار ہو گئےـ
ایک نیا دور شروع ہواـ شہر بدلے، تماشائی بدلے مگر تماشہ وہی پرانا رہاـ ایک سال ہو گیا ـ سندری بیس کی ہو گئی ـ سندری کا باپ ایک دن بنا کسی کو کچھ بتائے کہیں چلا گیاـ کہاں گیا کسی کو نہ کوئی خبر ہو سکی اور نہ پرواـ بس سندری ہی تھی جو روتی رہتی مگر وہ بھی کتنا روتی ـ جب اس کے پیٹ سے ایک جان باہر آئی اور اس نے رونا شروع کیا تو سندری کا رونا خود بہ خود بند ہو گیا اور وہ اسے چپ کرانے کے لیے پھر ڈھولک بجانے لگی ـ بچے کو سینے سے لگائے وہ ڈھول بجاتی رہتی اور دھرما کرتب دکھاتا رہتاـ دھرما کی بوڑھی ماں دھیرے دھیرے چل چل کر لوگوں کے پھینکے ہوئے سکّے اٹھاتی رہتی ـ ایک دن شاید سکّوں کا بوجھ نہ سہار سکی اور خود گر گئی ـ دھرما اس وقت زمین پر الٹا کھڑا تھاـ اس کی ماں زمین پر پڑی تھی مگر اسے ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی ماں آسمان سے چپکی ہوئی ہے کیوںکہ زمین آسمان ہو چکی تھی ـ وہ فوراً سیدھا ہوا اور زمین پر کھڑا ہو گیاـ وہ تو سیدھا ہوگیا مگر بساط الٹ چکی تھی ـ اس نے اپنی ماں کو اٹھایا جب وہ نہیں اٹھی تو اس کے آس پاس پڑے سکّے اٹھا لیے اور سندری کے ہاتھ میں تھما دیےـ دھرما کچھ لوگوں کے ساتھ آیا اور اپنی ماں کو کاندھوں پر ڈال کر چلا گیاـ اور جب وہ لوٹا تو اس کے کاندھوں سے اس کی ماں کا بوجھ اتر چکا تھاـ دھرما نئے نئے کرتب سیکھتا رہا اور سندری ڈھول بجاتی رہی اور ان کا بیٹا لاکھا دو آنے چار آنے کے سکّے جمع کرتا رہا جو کہ اب چلنے پھرنے لگا تھاـ پھر لاکھا بھاگنے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ وقت بھی بھاگنے لگا جیسے دونوں میں ٹھن گئی ہوـ
پھر اچانک وہ ہوا جس کا نہ سندری کو گمان تھا نہ دھرما کو ہوا یہ کہ۔۔۔۔۔ تماشہ بدل گیا۔۔۔۔۔ لاکھا بچپن ہی سے کرتب سیکھنے میں کمال کرنے لگاـ ایسے ایسے کرتب اور ایسی ایسی حرکت کرتا کہ تماشائی اس سات سال کے بچے پر سکّوں کی برسات کرنے لگےـ دھرما کو اپنی ماں اور سندری کو اپنے ماں باپ آسمان میں مسکراتے ہوئے نظر آنے لگےـ لاکھا نے تماشے کا نظریہ ہی بدل دیاـ اس نے میلے میں آنے والے جادوگروں سے جادو سیکھ سیکھ کر اپنا ایک نیا ہی انداز پیدا کرلیا جو کرتب اور جادو کی ملی جلی شکل تھی ـ وقت کی رفتار حالات کی رفتار سے دھیمی ہو گئی اور بہت کم وقت میں دھرما اور سندری نے وہ زندگی دیکھ لی جس کا ان کے ماں باپ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھےـ لاکھا جوان ہوتا گیا اور دھرما اور سندری بڑھاپے کی طرف جاتے ہوئے بھی جوان ہی نظر آئے ـ جب آسودگی ہو تو عمر کا ہر وار جسم پر اور خاص طور پر چہرے پر خالی ہی جاتا ہےـ ادھر لاکھا پچیس سال کا ہوا اور ادھر سندری پینتالیس کی اور دھرما پچاس برس کاـ دھرما ایک دن اپنا کرتب دکھاتا اور لاکھا ایک دن ـ دھرما نے کرتب دکھانا نہیں چھوڑا تھاـ بس اتنا تھا کہ جو کرتب وہ پیسوں کے لیے دکھاتا تھا اب اس میں صحت کی فکر اور بدن کو عادت کے مطابق ورزش کروانا شامل ہوگئے تھےـ
شہر بدلتے رہے میلے کی حالتیں بدلیں اور ان لوگوں کے ٹھکانے ـ آخر لاکھا نے ایک جگہ رکنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک غریبوں کی بستی میں ایک جھونپڑی خرید لی ـ سندری نے ڈھولک بجانا چھوڑ دیا اور چین کی بانسری بجانے لگی ـ دھرما نے کرتب دکھانا چھوڑا اور محلے کے لوگوں کو رعب دکھانے لگا ـ لاکھا کما کما کر لاتا اور دھرما خوب دل کھول کر اڑاتا ـ سندری نے ایک سندر سی لڑکی دیکھی اور اسے لاکھا کے لیے اپنے گھر لے آئی ـ لاجو کے آنے سے گھر میں بہار آئی اور دو ہی سالوں میں دوپھول کھلا گئی ـ نِمّو اور ہَریاـ سندری نے اپنی پوتی نِمّو کو ایک کپڑے کی خوبصورت سی گڑیا خرید کر دی جسے نِمّو رات دن گود میں سلائے رکھتی تھی ـ سندری نے زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ دیکھ لیے تھےـ دھرما بھی لوگوں سے کہتا پھرتا کہ”بس اب کیا رہ گیا ہے، جی لی ہم نے زندگی، اب بس تماشہ دیکھنا ہے” اور ادھر زندگی دینے والا کہہ رہا تھا کہ “ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے، ابھی تو دنیا تمہارا تماشہ دیکھے گی، تم بھول گئے کہ تم صرف تماشہ دکھانے کے لیے پیدا ہوئے ہو، دیکھنے کے لیے نہیں۔” نِمّو پانچ کی ہو گئی اور ہَریا چار کا، تب دادا دادی کے ساتھ گھومنے نکلے ـ تیرتھ یاترا کی اور خوب ندیوں میں غوطے لگائےـ دو مہینے وہ شہر شہر گھومتے رہےـ سندری اور دھرما کو یہ خوشی تھی کہ پہلی مرتبہ وہ گھومنے پھرنے کے لیے شہر بدل رہے ہیں، پیٹ کے لیے نہیں اور دو مہینوں بعد جب دوپہر کے وقت وہ چاروں اپنے گاؤں واپس آئے تو پتہ چلا کہ کچھ دنوں پہلے ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھاـ جس میں لاجو اور لاکھا غوطے لگاتے لگاتے نہ جانے کہاں چلے گئے۔ پہلے تو لوگ یہ سمجھ کر کہ لاکھا کرتب دکھا رہا ہے بہت زور زور سے تالیاں پیٹتے رہے مگر جب بہت دیر تک لاکھا پانی سے باہر نہ آیا تو سب اپنا اپنا سینہ پیٹنے لگےـ لاکھا اور لاجو تو گئے اور اپنے ساتھ ساتھ گھر کی ایک ایک چیز بھی لے گئےـ سندری اور دھرما کی تو دنیا اندھیر ہوگئی ـ دھیرے دھیرے ان کے ارد گرد سارا گاؤں جمع ہوگیاـ سندری زمین پر پالتی مارے بیٹھی اپنے بال نوچ رہی تھی ـ نِمو اور ہَریا دادی کے پاس آ کر بیٹھ گئے، دھرما ایک جگہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوگیاـ گھر بہہ چکا تھاـ صرف میدان رہ گیا تھا جس میں سندری، دھرما، نمو اور ہَریا تھےـ لوگ تماشائی بنے ان کی حالت دیکھ رہے تھےـ اچانک ایک عورت آئیـ اس کے ہاتھ میں سندری کی ڈھولک تھی ـ
” ای لو بہن تمری ڈھولک ” اس نے ڈھولک سندری کی گود میں رکھ دی ـ ” جب سیلاب کا پانی ہمرے گھر ما گھسا تو تمری ای ڈھولک بہہ کے ہمرے گھر ما آ گئی رہی ـ” سندری نے ایک نظر گود میں پڑی ڈھولک کو دیکھاـ اس پر ہاتھ پھیرا اور اس کی انگلیاں ڈھولک پر تھرکنے لگیں ـ دھرما کے ہاتھوں پیروں میں عجیب سے اینٹھن ہونے لگی اور اس نے ایک ہاتھ زمین پر رکھا اور اپنے پورے بدن کو اوپر اٹھا لیا۔
بھیڑ بڑھتی جا رہی ہےـ پانچ سال گذر گئےـ نِمو کے کپڑے پھٹ چکے ہیں ـ ہَریا کے تو سب کپڑے پھٹ گئے اب صرف چڈی بچی ہےـ نمّو کی گڑیا کی دھجیاں بکھر چکی ہیں ـ شہر بدل رہے ہیں، تماشائی بدل رہے ہیں، موسم بدل رہے ہیں،’ مگر تماشہ اب بھی جاری ہے،’ لوگوں نے ایک اور دو روپیوں کے سکّے پھینکنے شروع کر دیے ہیں ـ نمو اور ہَریا دوڑ دوڑ کر سکّے جمع کر رہے ہیں مگر سندری جانتی ہے کہ جمع ہونے والے ان سکّوں میں صرف پیٹ بھرے گاـ اس کی بوڑھی اور بجھی بجھی آنکھیں نم ہو رہی ہیں مگر انگلیاں ڈھولک پر ایسے تھرک رہی ہیں کہ نہ ان کی تیز رفتاری پر فرق پڑ رہا ہے اور نہ وقفوں کے تواتر پرـ سندری کی نگاہیں ہَریا پر ہیں جو اچانک زمین پر عجیب ڈھنگ کی لوٹ لگانے لگا ہے اور لوگ اس کے اس کرتب سے محظوظ ہو رہے ہیں ـ ہَریا کے آس پاس لوگوں کے پھینکے ہوئے سکّوں کی تعداد میں ناقابلِ یقین اضافہ ہو رہا ہے۔ اچانک سندری کی بجھی بجھی نگاہوں میں امید کی ایک کرن چمکنے لگی ہے۔۔۔ کہ شاید۔۔۔۔ایک مرتبہ پھر تماشہ بدل جائےـ
Urdu short stories and writers
Be First to Comment