عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 125
تلاش
رمّانہ تبسم پٹنہ -انڈیا
گوپال اپنی بیوی بچوں کے ساتھ چار پائی پر سویا ہوا تھا،کہ تیز آندھی اور گرج کے ساتھ اولے گرنے کی آواز سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔ وہ چارپائی پر سے بے تحاشہ اٹھ کر دروازے پر آگیا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ آنکھ میں دھول پڑنے سے اس کی آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں ۔ دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو رگڑ کر بد بدانے لگا ۔
’’سبھی فصلیں تیارہو چکی تھی کچھ ہی دنوں میں اس کی کٹائی شروع ہونی تھی ۔ ‘‘آندھی کے ساتھ اس کا دل بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ دالان میں ٹنگا لالٹین بھی آندھی کی وجہ کرہل رہا تھا ۔ اس نے آہستہ آہستہ دھول سے بھر ی آنکھ کھولی اور کھونٹی میں ٹنگا چھاتا نکالا اور لالٹین لے کر باہر جانے لگا ۔
’’تمہارا دماغ کھراب(خراب )ہے… اتنی تیز آندھی میں کہاں جا رہے ہو‘‘ اس کی بیوی گوری نے ہاتھ سے چھاتا اور لالٹین لے کر دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ۔
’’کھیت پر فصلیں دیکھنے ۔ ‘‘ گوپال نے لالٹین دوبارہ گوری کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
’’اتنی تیز آندھی اور اولے گرنے میں باہر نکلے کاہے ۔ باہر آندھی میں لالٹین بھی ٹھہرے گا،گھر میں تو بجھا جا رہا ہے،صبح ہوگی تو دیکھ لینا بھگوان کو جومنجور( منظور) ہوگا وہی ہوگا ۔ ‘‘گوری نے گوپال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
’’جب تک صبح ہوگی گوری ساری فصلیں برباد ہو جائےں گی ۔ ‘‘گوپال نے اداس لہجہ میں گوری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’دھیرج رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘‘گوری نے آہستہ سے کہا ۔
’’کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا گوری، ہم کسانوں کی توقسمت ہی کھراب ( خراب) ہے، دن بھر اپنا کھون( خون) پسینہ بہا کر کھیتی کرتے ہیں ،جب فصلیں تیار ہونے کو آتی ہیں تو اوپر والے کا قہر برسنے لگتا ہے ۔ ‘‘
گوپال دوبارہ چارپائی پر جاکرلیٹ گیا ۔ چارپائی کے پاس چھپر سے پانی ٹپک رہا تھا ۔ گوری نے بچے کو اٹھا کر دوسری جگہ سلا دیا ۔ گوپال بستر موڑکر آدھے کھلے چارپائی پر لیٹ گیا ۔ بستر موڑتے موڑتے تکیہ کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔
’’ایک کمرہ ہو لیکن چھت والا ہو ۔ ‘‘
گوپال نے اپنے دونوں گھٹنے پیٹ میں اڑالئے اور بدبداتے ہوئے کہا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔ آہستہ آہستہ آندھی تھمنے لگی اوراولے گرنے کی آواز بھی کم ہو گئی ۔ مرغ کی بانگ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ نے صبح ہونے کا احساس کرایا ۔ وہ جلدی سے اٹھا اور دھوتی موڑتے ہوئے تیز تیزقدم اٹھاتا ہوا کھیت کی طرف جانے لگا ۔ گوپال کو باہر جاتے ہوئے دیکھ کرگوری بھی اس کے پیچھے نکل پڑی ۔ راستے میں آم ،لیچی کے درخت گرے ہوئے تھے ۔ جس سے کھیت تک پہنچنے میں کافی پریشانی ہو رہی تھی ۔ گوپال نے گوری کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ کسی طرح گوپا ل اور گوری کھیت تک پہنچے ۔ کھیت میں فصلوں کی حالت دیکھ کر گوپال کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار گرنے لگے ۔ کھیت میں لگے نیم پختہ گیہوں کی بالی لگے پودے زمین پر گرے ہوئے تھے ۔ جو پانی میں سنے ہونے کی وجہ کر اٹھ نہیں پا رہے تھے ۔ بارش سے پوری فصلیں برباد ہو چکی تھیں ۔ گوپال پانی میں سنے گیہوں کی فصلوں کو دیکھتا اور کبھی دلہن اور تلہن کی فصلوں کواور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا ،لیکن پانی میں سنے ہونے کی وجہ کر اٹھ نہیں پائے تو وہ مایوس ہو کر فصلوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھ سر پر رکھ کررونے گا ۔
‘’کیا۔۔۔ سرکار اس کا معاوجہ( معاوضہ) دے گی ‘‘
اس نے فصلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوری سے کہا ۔ گوری اسے کسی طرح سمجھا بجھا کر کھیت سے گھر لے آئی ۔ ادھر بچے ماں کو گھر میں نہ پاکر بے تحاشہ رو رہے تھے ۔
’’چپ صبح ہوئی نہیں کہ ریں ریں شروع ہو گیا ۔ ‘‘ گوپال نے بچوں کو جھڑکتے ہوئے کہا ۔ اس کی جھڑک سن کر بچے اور زور سے رونے لگے ۔
’’بچوں کو کیوں جھڑکتے ہو جی انہیں کیا معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ ‘‘گوری نے گوپال کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
’’گوری !اس وقت ان لوگوں کو کسی طرح چپ کرا ۔ ‘‘
اس نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔ جبکہ گوپال اپنے بچوں کو بے انتہا پیار کرتا تھا،لیکن اس وقت اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا اور کوئی بھی چیز اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔
گوری نے رات کی بچی باسی روٹی نمک تیل کے ساتھ لپیٹ کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ بچے ہاتھ میں روٹی لے کر چپ ہو گئے ۔
’’تھوڑا تم بھی کچھ کھا پی لو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘‘گوری نے تھالی میں نمک روٹی اور پیاز گوپال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
’’کیسے ٹھیک ہو جائے گا گوری‘‘ اس نے تھالی اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا ۔
’’مہاجن کا کرج( قرض) سرپرچڑھا ہے ہر سال سوچتے ہیں کہ اس بار کرج(قرض) چکا دیں گے،لیکن ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ سود پر سود چڑھا جا رہا ہے ۔ ہم لوگوں کاکسی طرح کھیتی باڑی کرتے آدھی جندگی(زندگی)گجر(گزر) گئی
“اب یہ لوگ بھی بڑے ہو کر دن بھر کھیت میں ہل چلائیں گے ‘‘
اس نے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ جو ہر فکر سے بے نیاز ہو کر آنگن میں جمع پانی میں کود رہے تھے ۔
’’گوری۔۔۔ اے گوری ‘‘گوپال نے گوری کو ہلاتے ہوئے کہا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔
’’ہاں; !‘‘
گوری نے آہستہ سے کہا ۔
’’گوری بہت سوچنے کے بعد ایک پھیسلہ (فیصلہ) لیا ہے ۔ ‘‘
’’کیسا پھیسلہ جی (فیصلہ);‘‘
’’یہی کہ اب ہم سے کھیتی باڑی نہ ہوگا ۔ اب شہر جا کر کوئی کام کرتے ہیں ۔ ‘‘
’’ تمہارا دماغ کھراب (خراب) ہو گیا ہے ۔ باپ دادا سب کھیتی کرتے آئے ہیں اور تم شہر جاؤ گے۔۔۔یہاں کا گھر دروازہ کون دیکھے گا ۔ ‘‘
’’دیکھ گوری۔۔۔ میری بات سمجھ اس گھر کی حالت بہت خستہ ہو گئی ہے ۔ اس کا صحیح سے مرمت ہونا ضروری ہے،سارا پیسہ مہاجن کا قرض چکانے میں ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ سیلاب کی وجہ کر بھی ہر سال اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑتا ہے ۔ اس لئے اب شہر جا کر وہیں کمائیں گے ۔ پکا اور کھوب( خوب) اونچا گھر بنائیں گے ۔ تاکہ سیلاب کی وجہ کر ہم لوگوں کو کسی دوسری جگہ نہ جانا پڑے ۔ ‘‘
اس کی بات سن کر گوری خاموش ہو گئی ۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔
’’شہر جا کر اپنا کھیال(خیال) رکھنا ۔ ‘‘
’’ہاں گوری۔۔۔ ہم اپنا کھیال( خیال) رکھیں گے۔۔۔ بس تم یہاں گھر دروازے اور بچوں کا خیال رکھنا ۔ ‘‘
گاءوں سے وہ ایک پرانی قمیص،پاجامہ پہن کر اور ہاتھ میں پرانا تھیلا لے کر اس نے شہر کا رخ کیا ۔ شہر آکر اسے ایک اچھی فیکٹری میں کام مل گیا ۔ گھر کی حالت کو اور بہتر بنانے کے لئے وہ ناءٹ ڈیوٹی بھی کام کرنے لگا ۔ شہر آئے اسے ابھی کچھ مہینے گزرے تھے کہ آہستہ آہستہ گھر کی حالت بدلنے لگی ۔ اچھا کھانے پینے سے بیوی بچے کی شکل بھی نکل گئی تھی ۔ گھر میں عیش و آرام کے سامان بھی آگئے تھے اور مہاجن کا قرض بھی ادا ہو گیا تھا ۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھاکہ اب گاءوں کا گھر بنانے سے اچھا ہے ۔ شہر میں ایک گھر بنائے گا اور بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزارے گا ۔ ہزاروں خواب اپنی آنکھوں میں لئے بیوی بچوں کے پاس آرہا تھا ۔ اس کے جسم پر آج قیمتی لباس تھا اور ڈھیر سارے سامانوں کی پیکنگ تھی ۔ وہ جلد از جلد اپنی بیوی بچوں کے پاس پہنچنا چاہتا تھا ۔ ٹرین سے اتر کر اس نے ٹیکسی لی اور ڈرائیور کو ٹیکسی تیز چلانے کی ہدایت دی ۔ جب گاءوں کی سر زمین پر قدم رکھا تو پورا گاءوں سیلاب میں ڈوباہوا تھا ۔ ہر طرف چیخ وپکار کی آوازیں تھیں ۔ سبھی لوگ پریشان حال ادھر سے ادھر جا رہے تھے ۔ اس قیامت خیز منظر کو دیکھ کر اس کے قدم ایک جگہ جم گئے ۔ وہ فرط حیرت سے سب کو دیکھ رہا تھا ۔ کل ہی بیوی بچوں سے فون پر بات ہوئی تھی اور آج ہر طرف لاش ہی لاش تھی ۔ اس کی بھی بیوی بچوں کا کچھ پتہ نہ تھا ۔ وہ پریشان حال اونچے ٹیلے پر کھڑا ہو کر اپنا گھر تلاش کرنے لگا ۔ سیلاب کی وجہ کر کسی کو آگے جانے نہیں دیا جا رہا تھا ۔
سب کی زبان پر بس یہی بات تھی کہ بھیم باندھ ٹوٹنے کے سبب پانی کا بہاءو اتنا تیز تھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ دوسری طرف قدرت نے ابر رحمت کو زحمت بنا کر گاءوں کے ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا لیا ۔ جھیل کا باندھ اچانک ٹوٹ جانے سے درجنوں مکانات کا نام ونشان ختم ہو گیا اور ہزاروں مکانات زمین بوس ہو گئے تھے ۔ پھر سے اس گاءوں کے لوگوں کو زندگی جینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑے گی اور سیلاب میں جو بچ گئے ہیں ۔ اپنوں سے جدا ہونے کے غم میں ان کی زندگی موت سے بدتر ہو گئی۔۔۔تو کیا۔۔۔ میری بھی بیوی بچے۔۔۔نہیں، نہیں۔۔۔میری بیوی،بچے زندہ ہیں ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور اپنی بیوی بچوں کے لئے شہر سے لائے سامانوں پر اس کی نظرجاکر ٹھہر گئی۔۔۔وہ زندہ ہیں۔۔۔ اور بیگ سے سبھی سامان نکالنے لگا ’’یہ لال ساڑی گوری کے لئے۔۔۔یہ کھلونے میرے بچوں کے لئے۔۔۔وہ سیلاب میں ڈوب نہیں سکتے۔۔۔وہ زندہ ہیں ۔۔۔ زندہ ہیں ۔ ‘‘وہ پاگلوں کی طرح بیگ سے تمام سامان نکال رہا تھا ۔
سرکار کی طرف سے سیلاب زدہ افراد کے روبرو تمام مہلوکین کے ورثہ کو نام پکار کر پچاس پچاس ہزارروپئے دئے جا رہے تھے ۔ گوپال کے ورثہ کی طرف سے گوپال کو بھی پچاس ہزار ۔۔۔گوپال بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گیا ۔ اس کا دل دھک سے ہو کر رہ گیا ۔ اس کے ہاتھ میں پچاس ہزار کاچیک تھا ۔ وہ چیک کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے بے شمار آنسو چیک پر گرنے لگے ۔
’’نہیں ۔۔نہیں۔۔۔ میں یہ چیک نہیں لوں گا ۔ ‘‘
اس کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پر گئی اور چیک چھوٹ کر سیلاب میں بہہ گیا ۔ ’’ میں انہیں۔۔۔ تلاش کر کے لاءوں گا ۔ بھیم باندھ انہیں اپنے ساتھ بہا کر نہیں لے جا سکتا اور اس کے قدم سیلاب کی طرف بڑھنے لگے ۔ سبھی لوگ اسے آواز دیتے رہے لیکن وہ نہیں رکا ۔