عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر8
تقاضہءِ ادب
مائرہ ملک
اُس کے ناخن چبانے سے مجھے سخت اُلجھن ہو رہی تھی.ایک دو بار دل چاہا اسے ٹُوک دوں.لیکن وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر عورتوں کے ہجوم اور بچوں کے غُوں غاں میں شاید میری بات نہ سُن پاتی.ویسے بھی وہ اپنے خیالوں میں اتنی محو تھی کہ لگتا تھا اس ماحول کا حصہ ہی نہیں,آتشیں گلابی جوڑے پر کالی چادر لپیٹے چہرے پر معصومیت کا غازہ اور حُزن کی لالی سجائے وہ اپنے داہنے ہاتھ کے مہندی لگے ناخن مُسلسل چبا رہی تھی۔
حجرے کا میلا پردہ ہِلا جواپنا اصلی رنگ و روپ تو نہ جانے کب کا کھو چکا تھا لیکن اس پر کہیں کہیں رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکڑے لگے تھے جبکہ دوسری طرف بوری لگائی گئ تھی تاکہ روشنی آر پار نہ ہو۔
,پہلےایک سوکھا ہوا پنجہ نما ہاتھ بازو سمیت باہر آیا پھر کالے بھُجنگ سے متولی نے گردن تک منہ باہر نکالا,گلے سے جھانکتی تعویذ کی میلی ڈوری ,سر پر ملگجی ٹوپی ,لال انگارہ آنکھیں,میلے دانت اور نسواری ہونٹ, پردے کو تھامے ہوئے ہاتھ کی آدھی انگلیاں پیلی اور دھویئں سے جلی ہوُئی تھیں جن میں دو تین بڑے بڑے نگینوں والی مُندریاں اُڑس رکھیں تھیں ۔ کُہنی تک مُڑی ہوئی میلی آستین اور بازو کی اُبھری ہوئیں سبز رگیں ایسی کہ جیسے کسی نے جسم میں متعدد جونکیں گُھسا دیں ہوں, .کلائی میں کالے دھاگے بندھے تھے.
کلشوم مائی۔ اس نے پکارا
چرس کی بدبو کا بُھبھکا پوری فضا میں پھیل کر اگر بتی کی خوشبو پر حاوی ہو گیا۔
ایک دم موت جیسا سکوت چھا گیا.خاموش ہو کر سب اسے یوں دیکھنے لگے جیسے وہ ہی ان کے دُکھوں کا نجات دہندہ ہو۔
کلشوم مائی وہ دوبارہ کرختگی سے چلایا,
اچانک اس لڑکی نے یوں چونک کر دیکھا جیسے کسی گہری نیند سے جاگی ہو۔
میں ہوں۔ وہ اٹھ کر تیزی سے بڑھی
تو ادھر مر,سوئی ہوئی ہے کیا, آوازیں دے دے کر ذلیل ہو رہا ہوں ,وہ غُرایا
,وہ اپنے کھلے پاینچے کی شلوار پاوُں کے نیچے آجانے سے زمین پر بیٹھی اگلی عورت پر گرتے گرتے بچی اور دو سیڑھیاں چڑھ کر بھاگنے کے انداز میں حجرے میں داخل ہونے لگی۔
او او او کملی جوتیاں باہر اتار,جانتی نہیں دربار کی بےادبی ہوتی ہے,ادب کے تقاضے تم کیا جانو,پیر سائیں کے جلال کو جانتی نہیں گستاخ عورت.چوتھی جمعرات ہے پھر بھی جاہل کی جاہل ہی رہی,وہ سانپ کی طرح پُھنکارا۔
وہ حواس باختہ ہو کر جوتا اتارتے ہوئے سہمی ہوئی آواز میں بولی ۔
سائیں کپڑے بھی یہیں اُتار دُوں –
Be First to Comment