عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 90
آسیہ خان
ترابِ زن
شوہر کو آفس اور دونوں بچوں کو اسکول روانہ کرنےکے بعد ربیعہ اپنےمعمول کے کاموں میں جٹ گئی تھی۔ گھر کے کام نپٹاتے ہوئے لاشعوری طور پراس کا ذہن اطلاعی گھنٹی کی طرف تھا۔ اسے اس نئی جگہ منتقل ہوئےچھ ماہ ہونے آئے تھے۔ وہ مزاجاً کم گو اور شرمیلی تھی اس لیے پڑوسیوں سے اس کا تعلق صرف رسمی دعا سلام تک ہی محدود تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اس سے نچلی منزل پر رہنے والی بتول آپا کا مزاج اس کے بر عکس تھا۔ انہیں دوسروں کے گھر، زندگیوں اور معاملات میں دندناتے ہوئے گھس جانے پر کمال حاصل تھا۔ وہ مقابل کی اجازت یا اس کی مرضی جیسے بکھیڑوں میں نہیں پڑتی تھیں۔ ان کے وقت بے وقت اپنے گھر میں آنے اور نان سٹاپ بولنے پر پہلے اس نے اخلاق کا مظاہرہ کیا ،پھر کوفت میں مبتلا ہوئی اور آخر میں اس معاملے میں اپنی بےبسی قبول کرتے ہوئے وہ اس ’ان چاہی‘ آمد کی عادی ہوتی چلی گئی۔ دیگر خصوصیات کے ساتھ بتول آپا کی سب سے قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی بلڈنگ کے ساتھ ساتھ اپنی کھڑکی سے نظر آنے والی پڑوس کی ساری عمارتوں کی نگرانی وہاں کے چوکیداروں سے زیادہ مستعدی سے کرتی تھیں۔ مکینوں کے اپنے کام دھندے، اسکول، دفتر اور کالج آنے جانے کے اوقات جیسی ’نصابی‘ سرگرمیوں کے علاوہ ان کی خاص دلچسپی مکینوں کی ’غیر نصابی‘ سرگرمیوں میں تھی۔ کون سے فلیٹ میں سب سے زیادہ آن لائن شاپنگ ہوتی ہے، کس کے گھر میں اکثر کھانا باہر سے آرڈر کیا جاتا ہے، کس فلیٹ میں نیا ٹی وی آیا ہے اور کس نےنیا فرنیچر خریدا ہے،کس گھر کےبہو بیٹا جلد ہی الگ ہونے والے ہیں، کس کا بیٹا ہاتھ سے نکل چکا ہے،کس کے قدم غلط راستے پر پڑ چکے ہے، کون سی لڑکی کی صحبت بگڑ چکی ہے اور کون جلد ہی گل کھلانے والی ہے، یہ ساری خبریں بمع تفصیل ان کے پاس ہوتی تھیں۔
ان کے گھر میں زیادہ افراد نہیں تھے۔ ایک ہی بیٹا تھا۔ شوہر اور بیٹے کے آفس اور کالج جانے کے بعد اپنے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ بڑی دلجمعی سے اپنی دوسری مصروفیت میں لگ جاتی تھیں۔ پہلے پہل اسے ان کا دوسروں کی زندگیوں میں یوں دلچسپی لینا، ان کے گھروں میں تانک جھانک کرنا بڑا بے آرام کرتا تھا اور بتول آپا کو اس کے اس ٹھنڈے مزاج پر بڑی حیرت ہوتی تھی۔
’’دنیا کی ساری عورتوں کی تخلیق ایک مخصوص مٹی سے ہوئی ہے ،جس میں محبت نفرت، ممتا جیسے بنیادی جذبات کے ساتھ ساتھ تجسّس،جلن، حسد، حرص، دکھاوا،جیسے اضافی جذبات خاص طور سے شامل ہیں، کسی میں کم تو کسی میں زیادہ۔‘‘ بتول آپا نے اپنے تئیں اس کی عقل کے بند کواڑ کھولنے کی کوشش کی تھیں اور وہ یہ سوچ کر مسکرا دی کہ وہ اپنی ٹوہ لینے کی عادت کو جائز ٹھرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
’’اب مجھے ہی دیکھ لو، مجھ میں تجسّس سب سے زیادہ ہے۔‘‘ انہوں نے فخریہ انداز میں اعتراف کیا تھا۔
’’ میرے بازو والی نرگس میں حرص بہت ہے، اس کے گھر میں تمہیں میرے گھر جیسا فرنیچر ،پردے ،چادریں سب ملے گا، وہ کپڑے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرے جیسے ہی خریدتی ہے۔ بی ونگ والی فردوس میں نمائش کوٹ کوٹ کر بھری ہے، سامنے والی شہناز میں جلن بہت ہے۔ ہر عورت کی فطرت میں یہ خالص زنانہ حسیات ہوتی ہیں، تم میں بھی کم سے کم ایک تو ہوگی، بس یہ ہے کہ تم اس سے ابھی تک واقف نہیں ہو۔‘‘ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا۔ مگر ربیعہ ان کی اس منطق کی قائل نہیں تھی۔
آج کل ان کی توجہ کا مرکز سامنے والی بلڈنگ میں، اس کے بالکل سامنے والے فلیٹ میں مقیم ثانیہ تھی۔ ان کے اپنے فلیٹ کی بہ نسبت ربیعہ کے فلیٹ سے اس کے گھر میں جھانکنا زیادہ سود مند اور آسان تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ عمر تیس سے زیادہ ہوچکی تھی اور اب تک کنواری تھی۔ چند دنوں پہلے تک بتول آپا اسکے اب تک کنواری رہ جانے کی ممکنہ وجوہات پر سر کھپا رہی تھیں لیکن کچھ دنوں سے انہیں شبہ تھا کہ کہیں کچھ تو گڑ بڑ ہے، کیوں کہ وہ تقریباً روز ہی شام میں تیار ہو کر گھر سے نکلتی تھی اور دو ڈھائی گھنٹہ بعد بڑے ’اچھے موڈ‘ میں واپس لوٹتی تھی۔ اب ان کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے وہ شادی شدہ ہو، یا طلاق یافتہ،یا پھر شوہر اور سسرال والوں سے ناراض ہو کر گھر بیٹھی ہو اور آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ ضرور اس کا کسی کے ساتھ کوئی چکر چل رہا ہے۔
اس نے دھلے ہوئے کپڑوں کی بالٹی میں پڑا آخری دوپٹہ اٹھایا اور جھٹک کر گرل پر ڈالتے ہوئے دزدیدہ نظروں سے ثانیہ کے فلیٹ کی طرف دیکھا۔ یہاں سے اس کا پورا گھر نظر آتا تھا۔ وہ کچن میں تھی، اس کے بوڑھے والد صوفے پر نیم دراز اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے، ان کے قریب ہی فرش پر بیٹھی اس کی امی سبزی صاف کر رہی تھیں۔
وہ خالی بالٹی اٹھا کر پلٹی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔
’’آگئیں۔ ‘‘ اس نے بالٹی بالکنی میں ہی چھوڑی اور دروازہ کھولا۔
’’ تم تیار رہنا۔۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے اندر آتے ہی کہنا شروع کیا۔ ’’آج شام پانچ بجے ہم بھی اس کے پیچھے جائیں گے، دیکھیں تو آخر کہاں جاتی ہے، کس سے ملتی ہے۔‘‘ وہ کرسی گھسیٹ کر بالکنی کے سامنے بیٹھ گئیں۔
’’ ہم کیسے۔۔۔۔۔۔‘‘ اس اچانک فرمائش پر اس کا احتجاج بھی انہوں نے پورا نہیں سنا۔
’’وہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو، بس تم پانچ بجے سے پہلے تیار رہنا۔‘‘ ان کی نظریں ثانیہ کے فلیٹ سے ہٹ کر اس کے بغل والی بلڈنگ پرمرکوز تھیں۔ اب وہ اپنی قوت بینائی کے دائرے میں آنے والے تمام فلیٹس اور ان کے مکینوں کا تسلی بخش معائنہ و مشاہدہ کرنے کے بعد ہی اس کرسی سے اٹھنے والی تھیں۔
ربیعہ کچن میں چلی آئی۔ دونوں کے لئے چائے بناتے ہوئے اس کا ذہن مسلسل بتول آپا کے نئے منصوبے میں الجھا ہوا تھا۔ تانک جھانک اور سن گن لینے کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن یوں کسی کا پیچھا کرنا اسے مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں ابھی تک بتول آپا کو صاف صاف انکار کرنے کا خیال نہیں آیا تھا۔
’’ تو کیا میرے اندر بھی بقول بتول آپا عورتوں والی حسیات بیدار ہونے لگی ہیں؟ یہ تجسّس ہے یا کچھ اور؟ بتول آپا کا تجسّس انہیں کہاں تک لےجائے گا؟آج پیچھا تو کل۔۔۔۔۔۔؟ کیا یہ کبھی ختم بھی ہوگا؟ شاید ان کے تجسّس کی اس انتہا میں ان کے لئے کوئی سبق ہی چھپا ہو۔‘‘ اس نے آخر میں جواز تراش کرخود کو اس غیر اخلاقی حرکت پر مطمئن کرنا چاہا۔
وہ چند مہینوں پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبھی ایسا بھی کر گزرے گی لیکن کچھ صحبتیں یوں ہی زور آور ہوتی ہیں۔ شام پانچ بجے وہ بتول آپا کے ساتھ اپنی بلڈنگ کے گیٹ پر چھپ کر کھڑی ثانیہ کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد ثانیہ نے اپنی بلڈنگ سے نکل کر سڑک سے گزرتے آٹورکشا کوروکا اور بیٹھ کر روانہ ہو گئی۔بتول آپانے بھی پھرتی سے پیچھے سے آرہے آٹو رکشا کو روکا اور اسے لے کر اس میں سوار ہو گئیں۔
’’اس آٹو کےپیچھے ہی چلنا ہےبھیّا۔‘‘ انہوں نے آٹو ڈرائیور کو تاکید کیں۔
ثانیہ اپنا قریبی ریلوےاسٹیشن جوگیشوری چھوڑ کر اندھیری میں آکررکی تھی۔ اس کے پیچھے اپنا آٹو روک کروہ دونوں بھی اتر گئیں۔
’’ربیعہ تم اس پر نظر رکھو، اتنی بھیڑ میں وہ کہیں گم نہ ہو جائے۔‘‘ آٹو ڈرائیور کو کرایہ دیتے ہوئے بتول آپا نے اسے تنبیہہ کیں۔
’’ہمم۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کی نظر ثانیہ پر ہی تھی۔
ڈرائیور سے فارغ ہو کر انہوں نے سامنے بھیڑ میں دیکھا۔
’’کہاں گئی؟‘‘
’’ ابھی تو یہیں تھی۔۔۔۔ سامنے۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟ ارے تم کو نظر رکھنے اسی لیے تو کہا تھا۔‘‘ وہ ذرا جھنجھلا کر آگے بڑھیں اور سامنے پھیلی بھیڑ میں نظر دوڑا کر ثانیہ کو تلاش کرنے لگی۔
ربیعہ نے بے یقینی سے ثانیہ کا ہاتھ تھامے اس شخص کوساوتھ انڈین ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔
بتول آپا بالکل ٹھیک کہتی تھیں، وہ بلاآخر ان کی منطق کی قائل ہو ہی گئ کہ ہر عورت کی مٹی میں کچھ اضافی حسیات اور خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس کے اندر بھی تھی، جس کا اسے ابھی ابھی ادراک ہوا تھا۔ اس کی تخلیق میں پردہ داری اور بھرم قائم رکھنے والی مٹی شامل تھی، اپنی چاردیواری کی پردہ داری اور اپنے گر ہستی کا بھرم۔
ثانیہ کے ساتھ جاتے شخص کو اس کی پشت سے پہچانا اس کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا اور تصدیق کے لیے آسمانی دھاری دار شرٹ کافی تھی جو اس نے خود صبح اپنے شوہر کو استری کرکے دی تھی۔
’’چلیں بتول آپا۔ ‘‘ اس نے واپسی کے لئے ان کا ہاتھ تھاما۔
Be First to Comment