عالمی افسانہ میلہ 2015
تحیر ِ عشق
افسانہ نمبر 114
صبیحہ گیلانی
نو سال، موسمو ں کے اتار چڑھاؤ اور شب و روز کی تھکان کو جھیلتے جھیلتے آج وہ اچا نک روبرو تھے ۔
کون کس قدر بدل گیا، یہ تو اندر کی واردات تھی، ایسی وارداتوں کے سُراغ نہ دکھلائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی چھپا ئے جا سکتے ہیں ۔ اس کے سامنے بیٹھی لڑکی کی گردن کی چند نسیں ابھر آئی تھیں ، جو اس پر جچ رہی تھیں اور گردن میں صلیب کا نشان بدستور پھول رہا تھا۔ اسکی پلکیں ۔۔۔۔کمان جیسی تھیں شاید ۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ الجھا ۔۔۔۔چند لمحے اور سرک گئے ۔
اسے ایک دم اپنے لباس کا خیال آیا ۔ وہ بھول چکا تھا کہ اس نے کو ن سا رنگ پہن رکھا ہے۔ اپنے حساب سے تو وہ پینٹ کوٹ میں تھا۔ مگر اس کی نگا ہیں صلیب سے پھسل کر جب کف پہ پڑیں تو اسے یا د آیا کہ وہ جمعہ پڑھنے نکلا تھا۔ جب ہی شلو ار قمیض زیب تن کر رکھا تھا۔ سردیو ں کی ٹھنڈی لہر نے ابھی تک سورج کی حرارت کو روک رکھا تھا۔ فو ڈ سٹریٹ کے کنا رے لگی میزو ں پہ کھا نے وا لو ں کی ٹولیاں امڈی چلی آرہی تھیں۔ ایک نظر آسما ں کو تکنے کے بعد اس نے بولنے میں پہل کی ۔
کیا چلے گا؟
کچھ نہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بو لی
آئس کر یم چلے گی؟ اس نے بھو نڈی سی خو شی مزا جی سے پو چھا
ہا ں ضرور وہ اسی طرح بولی
کو ن سا فلیور؟
کو ئی بھی
آرڈر کرکے ایک مر تبہ وہ پھر متو جہ ہوا اور چیختی رنگت وا لی کر سچن لڑکی کو یادوں کے جھروکو ں سے تکنے لگا۔ نو سا ل قبل وہ متواتر بولنے والی لڑکی تھی۔ جو اکثر دو سرے کو با ت کر نے کا مو قع کم ہی دیتی تھی۔
کچھ دیر قبل جب اس نے بھیڑ میں اسے آ وا ز دی تو پلٹنے پہ یک لحظہ اسکی آنکھیں بھرپور شناسائی سے چمکی تھیں۔ وہ مضطرب تھا۔ وہ نو سال کی جدائی کے ایک ایک پل سے واقفیت چاہتا تھا۔ سگریٹ سلگاتے اس نے چیختے رنگ کو بھر پور نظرو ں سے دیکھا ۔ بلا شبہ وہ ایک وجہیہ نوجوان تھا۔ آنکھ کے رستے سیدھا حواس پہ سوار ہو جانے والا ۔۔۔۔ہیلو ! اگر آپ دائیں بائیں کا جا ئزہ لے چکی ہیں تو سامنے متوجہ ہو جائیے۔ اس نے خوش دلی سے کہا ۔
کمان جیسی پلکیں اس پر کھینچ گئیں۔
جی آپ بات کیجئے میں سن رہی ہوں۔
سگریٹ کا کش لیتے اس نے سوال ترتیب دیا
کیا ہو رہا ہے آجکل؟
کچھ خاص نہیں ۔ جواب بے حد مختصر تھا۔
دوسرا کش لیتے اس نے اسکی پھینی ناک کو تنقیدی نظروں سے دیکھا ۔
“اندازہ ہے کتنے عرصے بعد مل رہے ہیں ہم ؟
“ہاں، ایک طویل عرصہ گزر چکا ، ہمیں جدا ہو ئے “۔اس نے نپے تلے انداز میں کہا ۔
خاصی بدل گئی ہو۔
جواباً اس نے بے حد مختصر مسکراہٹ پہ اکتفا کیا ۔
سگریٹ آدھی راکھ ہو چکی تھی۔ مطمئن ہو مجھ سے الگ ہو کر ؟ دھیر ے دھیر ے وہ اپنی جانب قدم اُٹھا نے لگا۔
ہا ں مطمئن نہ ہونے کی کوئی خا ص وجہ نہ تھی۔ اس نے قدرے او نچی آوا ز سے کہا
صلیب تھر تھرا ئی وہ سنبھلی ۔۔۔۔
“شادی یاجاب؟”
“دونوں نہیں”۔
دوسرا سگریٹ سلگا تے ہوئے وہ سوچ رہا تھا۔ گفتگو کم ہوئی یا وہ جلد سگر یٹ پھونک بیٹھا۔
“مجھے لگ رہا ہے کہ تم میرے ساتھ بیٹھ کر ریلیکس فیل نہیں کر رہیں “۔
کوئی جواب نہ ملنے پر اس نے پھر بات شروع کی۔
“تم نے تو مجھے پہلی نظر میں پہچان لیا، حالانکہ ، لوگ کہتے ہیں میں خاصا بدل گیا ہوں
“تمہیں پہچاننا مشکل نہیں۔ ۔۔۔۔غلط کہتے ہیں لوگ۔”
اس کے جواب پر وہ ایک دم سنجیدہ ہوا۔ وہ اسے مایوس کر رہی تھی۔ اس نے اسکا ازسر نو جائزہ لینا شروع کیا۔ کچھ خاص تھا بھی تو اس کی رنگت۔۔۔جو اسے چیخ چیخ کر اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔ اور پھر۔۔۔۔وہ پلکوں پہ رک کر نو سال قبل دب جا نے والی فائل کو ڈھونڈنے لگا۔ کہ سامنے بیٹھی لا تعلق لڑکی سے پڑھوا ئے
“کسی اور سے محبت ہوئی؟”۔
صلیب کو مٹھی میں لیتے اس کے ما تھے پہ شکنیں ابھر آئیں۔
“آئی ایم ساری “۔
“اگر تمہیں میرا سوا ل بُرا لگا، مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ میں تمہارا اور اپنا وقت ضا ئع کر رہا ہوں”۔
“بہتر تھا کہ میرے وقت کے متعلق اندا زہ نہ لگاتے “۔ اس نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“تم آج بھی ۔۔۔تم آج بھی مجھے سمجھ نہیں پا رہیں “۔ ٹھنڈے لہجے میں احتجاج کیا گیا۔
“اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی ، تو میرا مذہب اختیار کر لیتیں اور آج میرے ساتھ ہوتیں۔ تین سال تم نے میر ی محبت کو نظر انداز کیا اور جب اس کی قدر کی تو اس قدر کہ میری مجبوریوں کو نہ سمجھا۔ ایک کلمہ پڑھنا تھا ناں تمہیں۔”
وہ خاموش ہوا تو اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب کو ئی چنگاری نہ بھڑکی۔ وہ چپ چاپ اسے تکے جا رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھار ، کوئلوں جیسی آنکھوں کے ساتھ۔
“کیا تمہارے دل میں میری کوئی جگہ نہیں؟”
وہ خاموش رہی
سگریٹ کا آخری لمبا کش لگاتے اس نے آخری کوشش کی اور دھیرے سے گویا ہوا۔
“میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں”۔
***
آج وہ پورے نو سال بعد وہ پھر اسی جگہ آن کھڑا ہو تھا جہا ں پہلے کبھی فوڈ سٹریٹ ہوا کرتی تھی۔ جہا ں اس نے چیختی رنگت والی اس عیسائی لڑکی کا مذہب قبول کیا تھا۔ ایسا مذہب جس کا دراصل کوئی نام نہ تھا۔۔۔۔۔ایک ایک چہرے کو محبت سے ’تکتے‘ وہ چند جملے پوری آگا ہی کے ساتھ اس کے گرد وا لہانہ رقصاں تھے۔ جو جا تے سمے اس لڑکی نے اس سے کہتے تھے۔
میر ی جا ں!
تمہا رے مذہب کا نام خود پرستی ہے جبکہ تم خود کو مسلمان سمجھتے ہو۔ اگر میں قبول بھی کر لوں تو تم ابدی خوشی نہیں پا سکتے۔۔۔۔
جب وہ دو بارہ گویا ہوئی تو اس کے ایک ایک لفظ میں طویل وقفہ تھا گویا اپنی ہمت سے زیادہ بوجھ خود پہ لاد رہی ہو ۔
تم جینا سیکھو۔
کوئی مذہب قبول کر کے نہیں ، مذہب خود پرستی ترک کر کے۔
اور پھر صلیب کو مٹھی میں مضبوطی سے جکڑتے اس نے یک لحظہ اپنی آنکھیں بند کیں۔
“جا ؤ نو سال اور دئیے “۔
آج نو سال کے بعد وہ پا گلوں کی طرح اس چیختی رنگت والی عیسائی لڑکی کو نہیں، صراط مستقیم جیسی پلکوں والی اس لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا۔جس نے اسے لا دینیت سے بچایا تھا ۔ اس لادینیت سے جس کی اسے خبر نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Be First to Comment