عالمی افسانوی میلہ 2018
افسانہ نمبر 9
تاج محل
صبیح الحسن،لاہور ۔ پاکستان
رات کا اولین پہر تھا۔ بادل کھل کر برس رہا تھا۔ پتھر کی روش پر تواتر سے گرتی بوندوں کا جلترنگ کانوں کو بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ کبھی کبھار کسی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز بوندوں کی لے کو منتشر کر دیتی مگر چند ہی لمحوں بعد سازندے پھر سے سُر پکڑ لیتے۔ نیم تاریک گلی کے دونوں جانب گھروں اور قہوہ خانوں کی کھڑکیوں سے چھن کر آنے والی روشنی خوابناک سا منظر پیش کر رہی تھی۔ ایاز نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے گلی کا جائزہ لیا اور پیچھے ہٹ کر ایک آرام کرسی میں دھنس گیا۔
ایاز ایک طویل قامت اور خوش شکل شخص تھا۔ بالوں میں کہیں کہیں نمودار ہوتی سفیدی اس کی بڑھتی عمر کی گواہی دے رہی تھی۔ اس کا شمار شہر کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ وہ ایک مشہور جوہری تھا اور اس کے بنائے ہوئے زیورات پورے ملک میں پسند کیے جاتے تھے۔ وہ اس شاندار گھر میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا تھا مگر آج اس کی بیوی بچوں کو لے کر اپنے بیمار والد کی مزاج پرسی کرنے گئی تھی۔ ایاز اپنی مصروفیت کی بنا پر ساتھ نہیں جا پایا تھا۔ رات کو اپنی تنہائی کم کرنے کی غرض سے اس نے چند دوستوں کو گھر آنے کی دعوت دی تھی لیکن موسم کے ارادے کچھ نیک نہیں تھے۔ چھاجوں برستے مینہ میں کون ذی ہوش گھر سے نکلنا پسند کرتا۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر ایاز نے قہوے سے بھرا فنجان اٹھایا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ایک کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہو گیا۔ رات کسی نہ کسی طور کاٹنی تو تھی ہی۔ ابھی چند صفحے ہی پڑھے تھے کہ دروازے پر دستک کی آواز ابھری۔
“ارے۔ ۔ ۔ اس بارش میں کون آ گیا؟” ایاز کو حیرت ہوئی۔ شاید اس کا کوئی دوست ہی تھا جس کا دل گھر میں نہیں لگا تھا۔
“ولید! دروازے پر دیکھو کون ہے۔” ایاز نے خادم کو آواز دی۔ کچھ دیر کے بعد ولید کمرے کے دروازے پر نمودار ہوا۔
“آغا۔ ۔ ۔ ! کوئی اجنبی شخص ہے۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔”
“اجنبی شخص۔ ۔ ۔ ۔” ایاز نے الجھی ہوئی نظروں سے ولید کو گھورا۔
“اس بارش میں کوئی اجنبی شخص کیا کرنے آیا ہے۔ ۔”
“میں نے پوچھا ہے آغا! لیکن وہ کہتا ہے کہ آپ کو ہی بتائے گا۔”
ولید نے جواب دیا۔
ایاز نے چند لمحے سوچا اور بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کر بیرونی کمرے کی جانب چل دیا۔
“کوئی حاجت مند ہو گا۔”
ایاز سوچ رہا تھا اور آنے والے پر نگاہ پڑتے ہی اسے اپنا خیال سچ ہوتا محسوس ہوا۔ آنے والے کے جسم پر نہائت خستہ حال لباس تھا جو بارش میں بھیگ کر اور بھی بدحال ہو چکا تھا۔ بے ترتیب داڑھی اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ پہلی نظر میں وہ کوئی مجذوب ہی دکھائی دیتا۔ ایاز کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر نووارد نے ہاتھ اٹھا کر اسے سلام کیا۔ ایاز نے سلام کا جواب دیا۔
“ہمم بتاؤ۔ تم کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے؟” ایاز کوئی دکھ بھری کتھا سننے کے لیے تیار ہو گیا۔
“میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔” نووارد نے اپنے لباس کے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
“کیا دکھانا چاہتے ہو؟” ایاز حیرت کے ابتدائی جھٹکے سے سنبھل کر بولا۔
“آپ جوہری ہیں۔ شاید اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔”نووارد نے اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔ ایاز نے ایک سرسری نگاہ اس کی ہتھیلی پر ڈالی اور چونک کر سیدھا ہو گیا۔
اس کی ہتھیلی پر ایک بڑا سا موتی جگمگا رہا تھا۔ ایاز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس کی جوہر شناس نگاہیں پہلی نظر میں ہی پہچان چکی تھیں کہ یہ کوئی عام موتی نہیں تھا۔ اس نے اتنا بڑا اور اتنا خوبصورت موتی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایاز نے موتی اٹھا کر روشنی میں اس کا بغور جائزہ لیا۔ موتی واقعی بے مثال تھا۔ وہ اسے جانے نہیں دے سکتا تھا۔ مگر ابھی موتی کے مالک سے معاملہ طے کرنا باقی تھا۔
“ہممم۔ موتی تو اچھا ہے۔ ۔ ۔ کتنے میں بیچنا چاہتے ہو اسے؟” ایاز جلدی سے چہرے کے تاثرات معمول پر لاتے ہوئے بولا۔
“صرف اچھا ہے؟” نووارد حیرت سے بولا۔
“اس جیسا موتی آپ کو پورے ملک میں کسی کے پاس نہیں ملے گا۔”
“خیر ایسا کچھ غیر معمولی بھی نہیں۔ جانے کتنے ہی ایسے موتی خود میری انگلیوں میں سے گزرے ہیں۔” ایاز لاپروائی سے بولا۔
“آپ بتائیے۔ ۔ آپ کتنی رقم دیں گے اس کی؟”
“پچاس تومان۔” ایاز کچھ سوچ کر بولا۔
“کیا؟” نووارد حیرت سے چلایا۔
“اتنی کم رقم۔”
“کم نہیں بہت زیادہ ہے۔ میں تو تمہاری حالت پر ترس کھا کر دے رہا ہوں۔”
“دوسرے جوہری مجھے اس سے کہیں زیادہ رقم دے سکتے ہیں۔”
“دوسرا کوئی بھی جوہری تمہیں ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دے گا۔” ایاز ماتھے پر بل ڈال کر بولا۔
“اپنی حالت دیکھو۔ جس کسی کے پاس بھی جاؤ گے وہ تمہیں موتی سمیت داروغہ ءِ شہرکے حوالے کر دے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تم نے یہ موتی کہیں سے چرایا ہے۔” ایاز شاطرانہ انداز میں مسکرایا۔
“داروغہ کو تو میں بھی بلا سکتا ہوں لیکن مجھے تم پر ترس آ رہا ہے۔ بولو ! تمہیں منظور ہے یا نہیں؟” ایاز اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
موتی کا مالک کشمکش میں تھا۔
“مگر رقم بہت کم ہے۔” اس نے کمزور سی آواز میں احتجاج کیا۔
“ولید! اسے ستر تومان دے دو۔” ایاز ولید کی جانب مڑ کر بولا۔
“اب ٹھیک ہے؟” نووارد نے بادل ناخواستہ اثبات میں سر ہلا دیا۔
ایاز نے موتی جیب میں ڈالا اور فاتحانہ انداز میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
٭٭٭٭
ننھی بوند نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ ہر جانب سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہر چیز سر تا پا ایک سفید چادر میں لپٹی محسوس ہو رہی تھی جیسے کسی سرد قبرستان میں بہت سے مردے کفن اوڑھے سو رہے ہوں۔ اس جیسی اربوں بوندیں اپنے اپنے برفیلے تابوتوں میں قید کسی مہربان شہزادے کی منتظر تھیں جو انہیں اذنِ رہائی دیتا۔ آسمان حسب معمول بادلوں کی تہوں میں سے جھانکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور زمین برف کی پرتوں میں چھپی محوِ استراحت تھی۔
“ہر چیز کس قدر خاموش ہے۔”
اس نے اکتائی ہوئی نظروں سے پہاڑ کی ڈھلوان کا جائزہ لیا۔ سفید کرنوں کی فوج اپنے خیمے اکھاڑ چکی تھی اور نیلی روشنی کے رتھ پڑاؤ ڈال رہے تھے۔ روزانہ یہی منظر دیکھتے وقت گزر جاتا تھا۔
دن سے رات اور رات سے دن یہی چکر چلتا رہتا۔ ہر چیز میں یکسانیت تھی۔ اگر یہاں کچھ مختلف تھا تو وہ تھا بوڑھا پہاڑ۔ جو یہاں اس کا واحد دوست تھا۔ وہ حتی الامکان اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا مگر اس کی اکتاہٹ تھی کہ کم ہونے میں نہ آتی۔ سفر کا یہ پڑاؤ اسے سب سے زیادہ بور کرتا تھا۔ اسے ٹھہرنا پسند نہیں تھا۔ وہ ازل سے سفر میں تھی اور ابد تک رہنے والی تھی۔
٭٭٭
دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے چلے گئے مگر اس کی رہائی کا دن نہیں آیا تھا۔ البتہ تبدیلی کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے۔ آسمان پہلے سے زیادہ چمکدار اور سورج پہلے سے زیادہ روشن ہو گیا تھا۔ وہ ساری رات برف کے سفید آنگن میں چاندنی کی نیلی پریوں کا ناچ دیکھنے کے بعد تھک ہار کر سوئی ہی تھی کہ کسی کی آواز نے اسے بیدار ہونے پر مجبور کر دیا۔ دیکھا تو پہاڑ اسے آوازیں دے رہا تھا۔
“کیا بات ہے؟ کیوں جگا رہے ہو؟” وہ کچی نیند سے جگائے جانے پر جی بھر کے بدمزہ ہوئی۔
“تم آزاد ہونے والی ہو۔”
“ہیں۔ ۔ کیا کہا؟”
وہ ناسمجھی کے عالم میں پہاڑ کا چہرہ دیکھنے لگی اچانک اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ وہ پہاڑ کی بات سمجھ چکی تھی۔
“تمہارا وجود پگھل رہا ہے۔ تمہاری بندشیں ٹوٹنے ہی والی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں تمہارا سفر پھر سے شروع ہو جائے گا۔ بوڑھا پہاڑ اداسی بھرے لہجے میں بولا۔
بوند نے جلدی سے اپنا جائزہ لیا اسے اپنا وجود پہلے سے کہیں ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔
“الوداع میری پیاری دوست! الوداع۔” بوڑھا پہاڑ دھیمے سے لہجے میں بولا۔
“الوداع پیارے پہاڑ۔” آزادی کی خوشی میں پہاڑ سے جدا ہونے کی اداسی بھی شامل تھی۔
اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ ننھی بوند کے پاؤں آزاد ہو گئے۔ اس نے کسی ننھے بچے کی مانند دو چار قلابازیاں کھائیں اور سنبھل گئی۔ اس نے کچھ دیر کو رکنا چاہا مگر کوئی نادیدہ طاقت اسے آگے بڑھتے رہنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چند ہی قدم چلنے پر ایک اور بوند اس سے آن ملی۔ پھر ایک اور۔ ۔ ۔ پھر ایک اور۔ ۔ ۔ کچھ ہی منٹوں میں ایک چھوٹا سا قافلہ بن چکا تھا جو کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ اگلی منزلوں کی جانب رواں دواں ہو گیا۔
٭٭٭
سفر تیزی کے ساتھ جاری تھا۔ راستے میں بہت سے دوسرے قافلے بھی ان سے آن ملے تھے اور اب ان گنت بوندیں ایک بہت بڑے ہجوم کی شکل میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ انہیں سفر کرتے کچھ دن ہو چکے تھے اور ننھی بوند کے جوش پر تھکاوٹ غالب آنے لگی تھی۔ وہ دوسری بوندوں کے درمیان گھسی سونے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اسے لگا جیسے بوندوں کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہو۔ ابھی وہ اس پر غور کر ہی رہی تھی کہ اچانک قافلہ رک گیا۔ وہ جلدی سے بوندوں کے جھرمٹ سے باہر نکلی اور آس پاس دیکھا۔
اس کے سامنے تا حدِ نگاہ ایک جھیل پھیلی تھی جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں قافلے پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جہاں تک نگاہ جاتی بوندوں کا ایک جم غفیر تھا۔ کناروں پر اور جھیل کے پانی میں بھی ان گنت پودے اپنے دلفریب رنگوں سے سجے پھولوں کی نمائش کر رہے تھے۔ دیدہ زیب رنگوں کی پوشاکیں زیب تن کیے تتلیاں پھولوں پر منڈلا رہی تھیں۔ ننھے منے خوبصورت پرندے فضا میں اٹکیلیاں کرتے ہوئے سر بکھیر رہے تھے۔ شام کے ڈوبتے سورج کی سرخی مائل کرنیں جھیل کے پانی سے منعکس ہو کر ایسا سماں پیدا کر رہی تھیں کہ وہ مبہوت ہو کر رہ گئی۔
جھیل بہت خوبصورت تھی اور اسے ہمیشہ سے یہاں رہنا پسند تھا۔ وہ اس خوبصورتی کو اپنے اندر قید کر لینا چاہتی تھی۔ وہ تتلیوں کے رنگ چرانا چاہتی تھی۔ جگنوؤں کی روشنی اپنی مٹھی میں قید کر لینا چاہتی تھی۔ انہی دیوانگی بھری خواہشات کو دل میں سجائے وہ سارا دن تتلیوں اور پرندوں کا پیچھا کرتی رہتی۔ اگرچہ وہ اس کے ہاتھ نہ آتے مگر اس کی خواہش ماند نہ پڑتی۔ اگلے دن پھر وہ اسی سرمستی کے عالم میں ان کا پیچھا کر رہی ہوتی۔ یہاں گزرا وقت اس کی بہترین یادوں میں سے ایک ہوتا تھا۔
آج پھر وہ جھیل کی سیر کرنے نکلی تھی۔ کنارے کے قریب پہنچ کر وہ ایک تتلی کو دیکھ رہی تھی جو مدہوش ہو کر کنارے پر مٹکتی پھر رہی تھی کہ اسے کسی کی نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا لیکن دیکھنے والا کسی کنج میں غائب ہو چکا تھا۔ وہ جھنجھلا سی گئی۔ اچانک اسے کچھ شور سنائی دیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ ایک منہ زور لہر پوری رفتار سے اس کی جانب بڑھی چلی آ رہی تھی۔ اس نے جلدی سے ایک جانب ہٹنا چاہا لیکن لہر سر پر پہنچ چکی تھی۔ وہ اس کی لپیٹ سے نہ بچ پائی۔ لہر نے اسے اٹھا کر پورے زور سے پتھر کی سطح پر پٹخ دیا ۔
“آہ ہ ہ۔” اس کے لبوں سے ایک اضطراری چیخ نکلی۔ وہ پتھر سے ہی ٹیک لگا کر خود کو سہلانے لگی۔
“تم ٹھیک ہو نا؟” اس نے چونک کر آواز کی سمت دیکھا تو پاس ہی ایک سیپ کھڑا تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“ہاں! میں ٹھیک ہوں۔” وہ سنبھل کر بولی۔
“میں وہاں کھڑا تمہیں ہی دیکھ رہا تھا جب تمہاری پتھر سے ٹکر ہوئی۔” سیپ نے ایک جانب اشارہ کیا۔
“کیاااا؟” وہ غصے کی شدت میں تکلیف بھول گئی۔
“تو تم مجھے گھور رہے تھے۔ تمہاری وجہ سے میری ٹکر ہوئی پتھر سے۔” وہ خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔
“ہاں! مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوئی۔ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔” سیپ معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔
“تم مجھے گھور کیوں رہے تھے؟” اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔
“وہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ ” سیپ ہکلا نے لگا۔
“سیدھی طرح بتاؤ۔” وہ کڑک کر بولی۔
سیپ نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا اور ہولے سے بولا۔
“کیونکہ۔ ۔ ۔ میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔” بوند حیرت سے اسے دیکھتی چلی گئی۔
*****
“یہ ابھی تک آیا کیوں نہیں؟”
بوند نے جھنجھلا کر سوچا۔ وہ کنارے کے نزدیک ایک پتھر سے ٹیک لگائے سیپ کا انتظار کر رہی تھی۔ مشرق کی جانب سے سفیدی کا سیلاب امڈا چلا آ رہا تھا مگر سیپ نجانے کہاں غائب تھا۔
اس کی اور سیپ کی دوستی پکی ہو چکی تھی۔ دونوں سارا دن اکٹھے جھیل میں گھومتے اور تتلیوں کا پیچھا کرتے رہتے تھے۔ سیپ سے باتیں کرتے ہوئے ننھی بوند کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس کی رفاقت کی عادی ہو چکی تھی۔ لیکن ابھی اسے سیپ پر بہت غصہ آ رہا تھا۔
آج سیپ کو اسے جھیل کے ایک چھپے ہوئے گوشے کی سیر کروانی تھی جو بقول اس کے جھیل کا خوبصورت ترین علاقہ تھا مگر باقی سب کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔ لیکن وہ آ کر ہی نہیں دے رہا تھا۔
“آج تو اس سے بالکل بھی بات نہیں کرنی۔”
بوند جھنجھلا کر ہوا کی تال پر رقص کرتے پھولوں کو دیکھنے لگی۔ لیکن آج اس کے خوبصورت چہرے پر اداسی کی جھلک تھی۔ اسے سیپ کو کچھ بتانا تھا۔ ۔ ۔مگر کیسے؟ اسے کوئی آسان راہ نہیں سوجھ رہی تھی۔ وہ خیالوں میں بہت دور نکل گئی۔
“کہاں گم ہو تم۔ ۔ ۔؟؟” وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
سیپ پاس کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
“کیا سوچ رہی تھیں۔ ۔ ۔”
“نن۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ کچھ نہیں۔ ۔ ۔” وہ اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
“اور تم کہاں تھے اتنی دیر سے؟” اسے سوالوں سے بچنے کا یہی حل دکھائی دیا کہ سیپ پر چڑھائی کر دے۔
سیپ اپنا سوال بھول کر وضاحتیں دینے اور اسے منانے میں مصروف ہو گیا۔
٭٭٭٭
رات بھیگ چکی تھی۔ سیپ اور بوند دونوں جگنوؤں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے اور اب کنول کے ایک پودے سے ٹیک لگائے سستا رہے تھے۔
“کیا بات ہے تم خاموش خاموش کیوں ہو؟” سیپ نے اسے تشویش سے دیکھا۔
“ارے نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔”
وہ جلدی سے بولی۔ سیپ خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے مڑ کر سیپ کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے پرسکون انداز میں لیٹا تھا۔
“سیپ! مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔ سیپ مڑ کر استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
“تم جانتے ہو کہ مجھے یہاں رہنا کتنا پسند ہے۔” وہ تمہید باندھنے والے انداز میں بولی۔
“اور اب تو تم بھی ہو یہاں۔ لیکن یہ جھیل ہے تو اک پڑاؤ ہی نا۔ سیپ نے الجھن بھری نگاہوں سے اسے گھورا۔
“کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہ رہی ہو تم؟”
“ہمارا سفر تو کبھی ختم نہیں ہو گا۔ مجھے قافلے کے ساتھ آگے جانا پڑے گا نا۔ بوند افسردگی بھرے لہجے میں بولی۔
سیپ سن ہو کر رہ گیا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ مسافر کب رکتے ہیں۔
“تو تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔تم چلی جاؤ گی؟” لفظ بہت مشکل سے سیپ کے ہونٹوں سے آزاد ہوئے۔
“ہاں! مجھے جانا ہو گا۔” بوند سیپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
سیپ نے اس کی آنکھوں کی گہرائی میں جھانک کر دیکھا۔ کچھ تھا وہاں جسے وہ معنی نہ دے پایا۔
شاید کرب۔ ۔ ۔ شاید تکلیف۔ ۔ ۔ شاید وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔
سیپ نے کچھ کہنا چاہا مگر لفظوں نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭
“سیپ!”
سورج نکل چکا تھا اور بوند سیپ کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ وہ اسے جھیل کے ایک نسبتاً تنہا کونے میں لیٹا ہوا ملا۔ بوند کی آواز سن کر وہ سیدھا ہوا۔ بوند اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئی۔ سیپ کی لال آنکھیں اس کے رتجگے کی چغلی کھا رہی تھیں۔ اس کا چہرہ تاریک تھا۔
“آ گئیں تم۔” سیپ دھیمی آواز میں بولا۔
“ہاں! اور میں بتانے آئی ہوں کہ ہمارا قافلہ کچھ ہی دیر میں روانہ ہونے والا ہے۔”
اس نے سیپ سے آنکھیں چرائیں۔
“میں تمہیں الوداع کہنے آئی تھی۔”
سیپ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
بوند نے اضطراری انداز میں پہلو بدلا۔ سیپ کی نگاہوں میں کچھ تھا جو اس کے ارادوں کو ڈانواڈول کر رہا تھا۔ اسے لگا کہ اگر وہ یہاں کچھ دیر اور رکی تو شاید کبھی جا ہی نہیں پائے گی۔ وہ واپسی کے لیے مڑی۔
“تو تم واقعی چلی جاؤ گی؟”
سیپ کی آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
“میں نہیں رک سکتی۔” بوند کمزور لہجے میں بولی۔
“اگر میں روکوں تو بھی نہیں؟” سیپ اٹھ کر اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔
“نہیں۔ یہ ناممکن ہے۔”
“ناممکن تو کچھ بھی نہیں اگر تم چاہو تو۔”
سیپ نے بوند کی آنسو بھری آنکھوں میں جھانکا۔
“تم کیوں ضد کر رہے ہو؟ کیا تم نہیں جانتےکہ اس کا انجام کیا ہو گا؟” بوند بکھرے ہوئے لہجے میں بولی۔
“میں جانتا ہوں اور میں اس کے لیے تیار ہوں لیکن میں تمہیں خود سے جدا ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔” سیپ مضبوط لہجے میں بولا۔
“کیوں؟”
وہ جواب جانتی تھی لیکن سیپ کی زبانی سننا چاہتی تھی۔
“کیونکہ۔ ۔ ۔ مجھے تم سے محبت ہے۔”
بہت سے خاموش آنسو بوند کے گال پر پھیل گئے۔ وہ ہار گئی تھی۔
“تم دو گی میرا ساتھ؟”
سیپ نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا۔
بوند نے دھندلائی ہوئی نظروں سے سیپ کی جانب دیکھا اور بے اختیار اس کی بانہوں میں کھنچی چلی گئی۔
انجام جو بھی ہوتا وہ بھی سیپ سے جدا ہونے کو تیار نہیں تھی۔
وصل کے چند لمحے بھی ہجر کی صدیوں پر بھاری تھے۔
٭٭٭٭
ولید موتی لانے والے شخص کو رقم دے کر رخصت کرنے کے بعد ایاز کے کمرے میں داخل ہوا تو ایاز کرسی پر بیٹھا روشنی میں موتی کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔
“شاندار۔ ۔ ۔ بہت شاندار۔”
ایاز کے منہ سے بے ساختہ تعریفی کلمات نکلے۔ ولید ایک جانب مؤدب کھڑا ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔
ایاز نے موتی میز پر رکھ کر ولید کے چہرے پر نگاہ دوڑائی اور مسکرایا۔
“تم کچھ پوچھنا چاہ رہے ہو؟”
“جی آغا! آپ نے اس شخص کو کچھ زیادہ ہی رقم نہیں دے دی؟ ولید الجھن بھرے لہجے میں بولا۔
“اگر آپ اصرار کرتے تو وہ پچاس تومان پر بھی مان جاتا۔”
ایاز نے ایک لمبی سانس لی۔
“ولید! تم جانتے ہو کہ موتی کیسے بنتا ہے؟”
ولید نے الجھن بھرے انداز میں ایاز کی جانب دیکھا۔
“سیپ اور بوند جب ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوتے ہیں تو سیپ بوند کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے۔” ایاز خوابناک لہجے میں بولا۔
“سیپ اپنے عشق کے ساتوں رنگ بوند کے جسم میں اتار کر اس کے لیے موتی کا سفید پیراہن تیار کرتا ہے۔ یہ موتی سیپ کے اندر بنتا ہے اس لیے سیپ کو درد دیتا ہے۔ جیسے جیسے موتی بڑا ہوتا ہے سیپ کا درد بڑھتا جاتا ہے مگر سیپ اسے ہنسی خوشی برداشت کرتا ہے۔”
ایاز کے لہجے میں اداسی تھی۔
“حتیٰ کہ یہ درد برداشت سے باہر ہو جاتا ہے اور سیپ مر جاتا ہے اور بوند۔ ۔ ۔ ”
ایاز چند لمحے رکا۔
“بوند بھی اپنے محبوب سے جدائی برداشت نہیں کر پاتی اور جلد ہی مر جاتی ہے۔”
ایاز نے موتی سے نظریں ہٹا کر ولید کی جانب دیکھا۔
“دونوں اپنے عشق میں فنا ہو جاتے ہیں اور باقی بچتی ہے ان کے عشق کی ایک لازوال نشانی۔ ایک محل۔ ۔ ۔ بوند کا مدفن۔”
ایاز نے موتی اٹھا کر ہتھیلی پر رکھا اور روشنی کے قریب کیا۔
“جس کا عشق جتنا سچا ہوتا ہے اتنا ہی خوبصورت موتی بنتا ہے۔”
شمع کی کرنیں صف باندھے موتی کی خوبصورتی کو تعظیم دے رہی تھیں۔
“اور یہ۔ ۔ ۔ اس جیسا خوبصورت موتی آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔”
ایاز کی نظروں میں گہری ستائش تھی۔
“تم پچاس تومان کی بات کرتے ہو۔ ۔ ۔ یہ موتی تو پانچ سو تومان میں بھی سستا ہے۔”
ایاز کی وارفتہ نظریں موتی کا طواف کر رہی تھیں۔
ولید دم بخود اپنے مالک کو دیکھ رہا تھا۔ باہر بارش رک چکی تھی اور دور کسی قہوہ خانے میں مغنی نہائت پرسوز آواز میں رباعی گا رہا تھا۔
من شمعِ جاں گدازم، تُو صبحِ جانفزائی
سوزم گرت نہ بینم، میرم چوں رُخ نمائی
نزدیک ایں چُنینم، دور آں چُناں کہ گفتم
نَے تابِ وصل دارم، نَے طاقتِ جدائی
(میں اپنی جان جلانے والی شمع ہوں اور تم دلربا صبح کی مانند ہو۔ میں اگر تمہیں نہ دیکھوں تو اپنی ہی آگ میں جلتی رہتی ہوں اور دیکھ لوں تو دیکھتے ہی مر جاتی ہوں۔ نزدیک آؤں تو یہ حال ہے اور دور رہوں تو اپنا حال پہلے بتا چکی ہوں۔ مجھ میں نہ تو اتنی طاقت ہے کہ وصل کی خوشی برداشت کر پاؤں اور نہ اتنی ہمت کے جدائی کا دکھ سہہ پاؤں۔)