عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 55
:صبیحہ گیلانی۔
افسانہ. ,,تاج محل,,
قد آدم تصویر میں اس کا سراپا دہک رہا تھا۔۔جسے دیکھتے ہوئے اس کی پتلیاں ساکت تھیں۔ اس کے جبڑے کا دائیں حصہ مسلسل ہل رہا تھاجو کسی گہری سوچ کی غماز ی کر رہا تھا۔سامنے لگی تصویر میں ،نفاست سے سنوارے گئے بالوں میں، اس کی پیشانی نمایاں طور پہ چمک رہی تھی۔تراشے گئے گھنے ابرو ،زندگی کے رنگوں سے بھری آنکھیں ،مہندی لگے مرمریں ہاتھ سے ،جب وہ اپنی چھوٹی سی ،تیکھی نا ک میں نتھ ڈال رہی تھی تب ہی کہیں کیمرے نے اس کا عکس مقید کر لیا تھاجبکہ وہ پرسوچ آنکھوں سے اس عکس کو دیکھتے ہوئے اس عکس کے پار اترنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
کمرے میں ٹوٹے گلاس کی باریک کرچیاں فرش پر یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی اوراس کا پرس اوندھا پڑا تھاکچھ لمحے پہلے وہ یہیں پر تھی ۔کئی لمحے وہ ساکت و جامد رہا ۔
یونیورسٹی آف کیمبرج سے نفسیات کی ڈگری لینے والامتین احمد اس وقت نفسیات کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف تھا۔اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے سگار اٹھایااور صوفے سے ٹیک لگاتے بیتے شب و روز پہ ازسر نو غور کرنا شروع کر دیا۔۔
***
نینا سے شادی کو محض چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا ۔بہاولپور میں اس کی بارات کا چرچا بہت روز تک رہا۔نینا شادی کے بعد متین کے ہمراہ ہی یوکے چلی آئی تھی۔نینا متین سے خوش تھی کہ وہ اس کا خیال رکھتا اوروالہانہ چاہتا تھا
متین جانتا تھا ہمیشہ کی طرح وہ اس پہ چیخنے چلانے کے بعدملحقہ کمرے میں سسکیاں بھر رہی ہو گی اور ہمیشہ کی طرح وہ اس کی جانب بڑھے گا وہ اس کے گلے لگ کر روئے گی اور پھراپنے غیر متوازن رویے کی دلیل نہ ہونے پر اس سے معذرت خواں ہوگی۔وہ کسی ان دیکھے ان جانے کرب میں مبتلا تھی،ایسے میں متین اپنے آپ میں جھانکنے لگتا،کہاں کمی تھی اس میں۔۔
وہ اپنی اناء کے ٹکڑے کر کہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتاملحقہ کمرے کی جانب بڑھا۔دروازہ کھلنے پرنینا نے بے بسی سے اس کی جانب دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ دیوانہ وار اس سے لپٹ کر سسکنے لگی
کیوں کرتی ہو ایسا؟
متین کے ٹوٹے لہجے میں بلا کا ٹھہراو تھا
دوسری جانب ہچکیاں اور گہری ہو گئی۔۔
اس کی روشن پیشانی پہ بوسہ دیتے وہ پھر دھیرے سے گویا ہوا
کیا کسک ہے ؟جو تمہاری آنکھوں میں آنسووں کی وجہ ہے؟
امی ابو یاد آتے ہیں؟
اس نے نفی میں سر ہلایا(وہ روزانہ گھر بات کرتی متین کے جانے کے بعد وہ کیم پہ گھر والوں کے ساتھ اون لائن رہتی)
بھائی سے اداس ہو؟
اس نے پھر نفی سے گردن ہلائی
کیا میں نے منگنی میں کئے گئے وعدوں کو نہیں نبھایا؟
کیا تمہاری کو ئی امید ٹوٹی ہے مجھ سے؟
کیا جانے انجانے میں مجھ سے کوئی زیادتی ہو رہی ہے؟
اس نے کسی سوال پہ اثبات میں سر نہیں ہلایا۔
وہ مزید الجھ گیا۔۔۔
رات تک نینا نارمل ہو چکی تھی ،لیکن اس کی یہ رات بھی بے حد بے چین گزری۔۔۔
نینا میں ایک اور بات جو اس نے مشاہدہ کی کہ وہ آدم بیزار ہوتی جارہی تھی جو متین کے لئے غیر معمولی تبدیلی تھی کیونکہ وہ اس کی گھومنے پھرنے اور ملنے جلنے کی عادت سے بخوبی واقف تھا۔مہینہ بھر سے وہ اصرار کر رہا تھا لیکن وہ گھر سے باہر قدم دھرنے سے گریزاں تھی۔
متین نے نفسیات کی متعدد کتب کی ورق گردانی کر ڈالی ،اس کے لئے نینا کا رویہ بے حد اذیت ناک تھا اسے ہر صورت پرانی نینا چاہیے تھی جس کے گرد انجانی اداسی کاہالہ نہیں چھایا رہتا تھااور پھر اسے اس کے پیچھے چھپے نفسیاتی محرک کو جاننا تھا جس کے کھوج کے لئے وہ بری طرح بے چین تھا۔۔
***
اگلے ہفتے ہم فرانس جا رہے ہیں
فرانس؟
ہاں
نینا کی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں ابھرا
میں نہیں جا رہی کہیں
مسلسل تکرار سے تنگ آکرمتین نے حتمی لہجے میں فیصلہ سنایا
ہم جا رہے ہیں!
***
فرانس کے جس ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا وہ خاصا پر سکون تھا ۔متین کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی نینا خود کو بہت دنوں کے بعد اس قدر اہتمام سے سنوار رہی تھی۔وہ ایک ایک پہلو سے اپنا تنقیدی جائزہ لے رہی تھی ۔
میرون لپ سٹک لگا کر جب اس نے میرون کوٹ پہنا تو سچ مچ میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
متین گنگنایا
نینا نے فاتحانہ نظروں سے آئینے کو دیکھا اور مسکرائی۔
خوشبووں کے شہر پیرس میں گھومنے کی ابتداء ہوئی۔متین ہر قدم پہ نینا کی تصاویر بنا رہا تھا۔انہیں گھومتے لگ بھگ دو گھنٹے گزر چکے تھے۔
نینا کا جوش کم ہوتا جا رہا تھا۔
جب نینا نے تصویر بناتے متین کا ہاتھ جھٹکا تونینا کے سپاٹ چہرے پہ نظر ڈالتے متین نے بڑے ضبط سے پوچھا
کیا تم تھک چکی ہو؟
دوسری جانب جامد خاموشی تھی
واپس چلیں؟
وہ ٹس سے مس نہ ہوئی
متین نے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی
میری طرف دیکھو
نینا میں کہہ رہا میری طرف دیکھو وہ چلایا
ایک دو راہگیروں نے انہیں مڑ کر دیکھا
اس نے بھاری بوجھل پلکیں اٹھائیں
وہاں عجیب بے بسی تھی
اگلے ہی لمحے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
متین نے خود کو سمبھالا
آو واپس چلتے ہیں اس نے نرم لہجے میں کہا
***
اگلے چھ ماہ میں وہ یورپ کے دو تین ممالک کی سیر کر چکے تھے۔نینا کا کرب تھاکہ بڑھتا جا رہا تھا۔
متین اپنی ابزرویشنز لکھتے لکھتے سینکڑوں پنے سیاہ کر چکا تھا۔
نینا متین کے لیے روز بروز معمہ بنتی جا رہی تھی ۔اس کا رویہ مزید سپاٹ اور کھردرا ہوتا جا رہا تھا۔
جبکہ متین اس کی بجھی آنکھوں میں پھر سے لو بھرنے کی ٹھان چکا تھا۔۔۔
***
متین کے اعصاب شل تھے ،وہ نفسیات کے سبھی داو پیچ آزما چکا تھا مگر نہ گرہ کھلی نہ گھتی سلجھی۔۔۔
ٓآج نینا کی سالگرہ تھی وہ نینا کو سرپرائز گفٹس دیتا رہتا تھا۔کلینک سے واپسی اس نے بے دلی اور عجلت سے نینا کے لئے برتھ ڈے گفٹ خریدا۔
برتھ ڈے گھر پہ مناتے نینا نے کیک کاٹا تو متین نے اسے گفٹ دیا وہ بہت دلچسپی سے ،،تاج محل ،، کو دیکھ رہی تھی۔
کیسا لگا گفٹ؟
بہت خوبصورت،سوچ رہی تاج محل حقیقتا دیکھنے میں کیسا لگتا ہو گا۔نینا کی آنکھوں میں اشتیا ق بھرا ہوا تھا۔
انڈیا چلتے ہیں،متین نے نینا کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے کہا
ایک لمحے کے لئے وہ گھبرائی اور اسی گھبراہٹ میں وہ حامی بھر چکی تھی۔
***
متین پروفیسر تھامسن سے گاہے بگاہے نفسیات کے ان دیکھے پہلووں پہ گفتگو کرتا رہتا تاہم نینا کے پرسرار رویے کے پیچھے چھپی وجہ کو تلاش کرنے میں ابھی تک وہ دونوں ناکام تھے۔۔۔
اتوار کو انڈیا جا رہے ہم،
ہممم،نینا نے موضوع سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔وہ دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی کہ کیونکر حامی بھری۔
دوسری جانب سرد درعمل پرمتین کا دل چاہا وہ نینا کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دے۔
وہاں موسم گرم ہے آجکل سو پیکنگ اسی حساب سے کرنا ،بہتر ہے کوئی ساڑھی واڑی رکھ لو۔متین نے جھنجھلاہٹ اور غصے کو کنٹروک کرتے ہوئے کہا۔لیکن وہ دل ہی دل میں یہ طے کر چکا تھا کہ اب وہ نیناکے ہمراہ کہیں نہیں جائے گا
***
دلی ائیرپورٹ پہ قدم دھرتے ہی متعین کو جھٹکا لگا نینا کے چہرے پہ عجیب سا اعتماد کھائی ے رہا تھا جو شادی سے قبل اس کی شخصیت کا خاصا تھا۔ہوٹل پہنچنے تک نینا خاصی بشاش دکھائی دے رہی تھی۔
اگلی صبح وہ جلدی اٹھ گئی ۔
تم اتنی جلدی کیسے بیدار ہو گئی؟متعین نے اس کے چہرے پر تھکن تلاش کرنا چاہی
آپ کو تنگ کرنے کے لئے،وہ شرارت سے مسکرائی
چلیں اٹھ جائیں ،باہر واک کرنے چلتے ہیں
باہر واک کرتے نینابہت چہک رہی تھی
وہ خلاف توقع و مزاج زور زور سے بول رہی تھی کہ اردگرد سے گزرنے والے لوگ اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے
متعین اپنی حیرت اور حیرت زدہ سوالوں کو چھپائے اس کے ہمراہ تھا اس نینا کے ہمراہ جو ڈال ڈال اڑتی تھی دنیا گویا اس کی ٹھوکر پہ ہو۔
کچھ ہی دیر میں انہیں تاج محل کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوناتھا۔متین شاور لیکرباہر نکلا تو سناٹے میں آگیا نینا کسی دیوی کی مانند دکھائی دے رہی تھی،اسے نینا میں زندگی لوٹ آنے کے آثار دکھائی دے رہے تھے
کیوں جناب ہوش اڑ گئے نا
وہ کھلکھلائی
یار نظر نہ لگ جائے ،نظر اتار لو
اچھی بات ہے نظر لگ جائے ،وہ شوخی سے چہکی۔
ٹیکسی میں بیٹھے تو ٹیکسی والانینا کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا جبکہ نینا اردگرد کے مناظر دیکھنے میں مگن تھی
تاج محل پہ پہلی نظر پڑتے ہی وہ مسمیرایز ہو چکا تھا۔۔محبت کیسے کیسے شہکار تراشتی ہے۔
تاج محل کو دیکھنے والوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔ایکا دوکا غیر ملکی دکھائی دے رہے تھے جبکہ زیادہ تعداد ایشینز کی تھی جو تاج محل کی خوبصورتی سے محظو ظ ہو رہے تھے۔نینا اپنی سیلفیاں اتارنے میں پوری طرح مگن دکھائی دے رہی تھی جبکہ ایک بھیڑ تھی جو تاج محل کو بھلا کر نینا کو دیکھنے میں مگن تھی۔۔بہت سے لوگ چپکے چپکے نینا کی تصاویر اتار رہے تھے۔
وہ الجھا۔۔۔لیکن اگلے ہی لمحے وہ چونکا۔۔۔ایشین مردوں کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے گویا وہ نینا کی نفسیات کی سبھی گھتیاں سلجھا چکا تھا۔۔۔۔
نینا کی صراحی دار گردن تنی ہوئی تھی وہی تمکنت وہی ادا وہی شوخی وہی اعتماد…. جبکہ نینا کے عقب میں تاج محل کے استعادہ سبھی مینار,تفاخر سے دادحسن وصول کرتے ہوئے, متین پہ مسکرا رہے تھے۔۔۔
Be First to Comment