Skip to content

تاج محل کی نیلامی

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 71
“تاج محل کی نیلامی”
ترنم جہاں شبنم دہلی انڈیا۔

“وه رہا تاج محل! وه رہا، وه رہا۔۔۔” بچے سب کچھ بھول کر ایک بار پھر خوشی سےچلا اٹھے تھے۔ واپسی کے منازل طے کرتی تیز رفتار ریل کی کھڑکی سے دور نظر آتا تاج محل رات کے آنچل میں سماتی شام کے غبار میں آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا۔

خوشی سے کھلکھلاتے تالیاں بجاتے بچوں کے معصوم چہروں کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک نظر برابر میں گم صم بیٹھی اپنی بیوی لبنیٰ کو دیکھا۔ جو ابھی بھی سکتے کے عالم میں تھی۔ چھوٹے کو گود میں اور بڑے کو اپنی دوسری جانب بیٹھاتے ہوئے لبنیٰ کو تسلی دینے کے انداز میں وه اس کے کچھ اور قریب ہوکر بیٹھ گیا۔ مگر ہر بات سے بےنیاز بےحس و حرکت وه تو بس ایک طرف نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسے ہوش میں لانے کی غرض سے اس نے لبنیٰ کو جھنجھوڑا لبنیٰ….. لبنیٰ…… لبنیٰ….. تم ٹھیک تو ہو ناں لبنیٰ ۔۔۔۔۔۔اس کے بار بار اسرار کرنے پر لبنیٰ نے لمحہ بھر کو پلکے اوپر اٹھاکر اسے دیکھا اور پھر دور دھند میں آنکھوں سے اوجھل ہوتے تاج محل کو دیکھتے ہوئے اپنی نظر میں یمنا کے پانی پر مرکوز کر دیں۔ کچھ دیر خالی آنکھوں سے پانی کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے بدبدانے والے انداز

میں کسی کو سلام کیا۔

“لبنیٰ کسے سلام کر رہی ہو ؟”گھبرا کر اس نے سوال کیا مگر کوئی جواب دیئے بغیر اپنے اسی انداز میں وه پھر گویا ہوئی۔ ”یمنا کا پانی کتنا صاف شفاف ہے۔” “ہاں ہاں لبنیٰ بہت صاف ہے مگر تم کس سے بات کر رہی ہو؟” اس کی بات کا کوئی تاثر لۓ بغیر اس بار بھی کچھ دیر وه یونہی ویران نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ اور پھر بڑے رعبدار لہجے میں بولی”بادشاه سلامت سے۔ وه دیکھو شاہی غسل کے لئے وه اپنے قافلے کے ساتھ یمنا کے اس کنارے پر” تشریف فرما ہیں۔ اور آج میں انہیں بتانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔” ک ک کیا بتانا چاہتی ہو لننیٰ؟”

نا سمجھ میں آنے والی باتوں سے گھبراکر اس نے پوچھا۔ “بادشاه سلامت۔۔۔” کہہ کر وه کچھ لمحے رکی اور پھر پوری طاقت سے چیختے ہوۓ بولی “بادشاہ سلامت آپ کی محبت آپ کا تاج محل نیلام ہو رہا ہے۔ نیییییلام ہو رہا ہے۔” یہ کہتے ہوۓ بےقابو ہوتی سانسوں کے ساتھ وہ وقار کی باہوں میں بے جھولتی چلی گئی۔ حیران پریشان وه دکھ سےکبھی اسے دیکھتا اور کبھی بچوں کو اور کبھی خود کو دیکھ رہے مسافروں کا خیال کرکے شرمنده ہوجاتا۔ پیشانی پر چھلک آۓ پسینے کی بوندے صاف کرتے ہوۓ اس نے کرب سے کروٹ بدلی۔ اور ایک بار پھر نئے زمانے کی نئی رفتار والی ریل کی کھڑکی سے ایک نظر باہر دیکھا جہاں سانڈ کی طرح ڈکارتے انجن سے نکلتا دھنواں فضاء میں اپنا رنگ جمائے ہوئے تھا۔ اور گندلے پانی کی ایک دھار اپنے سکڑتے،سمٹتے وجود کے ساتھ اپنی بربادی کا ماتم کر رہی تھی۔ ایک نامانوس سی مہک اس کی سانسوں میں اترتی چلی گئی۔ اس نے پیچھے کی طرف بھاگتے تاج محل کو دیکھا جو آج اسے بھی اداسی کی کوئی داستان سنا رہا تھا۔ وہی داستان جو اکثر وه لبنیٰ کے خوابوں میں آکر اسے سناتا رہا ہے۔ قطار در قطار پیچھے کی طرف دوڑتے درختوں پر اسے ماضی کی کتنی ہی یادیں لہراتی نظر آئیں۔”تاج محل رات پھر میرے خواب میں آیا وقار” ”اچھا کیا کہہ رہا تھا؟” باتیں تو اس نے مجھ سے بہت سی کیں مگر ہمیشہ کی طرح مجھے یاد کچھ نہیں رہا۔ آنکھیں کھلتے ہی سب بھول گئی بس اتنا یاد ہے جیسے معلوم کر رہا ہو لبنیٰ کب آؤگی؟” “اوہو گڈ! پھر تم نے کیا جواب دیا؟” “تمہارا سر اور کیا جواب دیتی؟ کب چلیں گے آگره بتائیے ناں؟ اب تو شادی کو بھی ایک سال۔۔۔۔”جملہ ادھورا چھوڑ کر باقی کی بات آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھاتے ہوئے آہستہ سے کہا ”آپ نے وعده کیا تھا آگرہ چلنے کا”میں نے کب؟”وقار نے مصنوئی حیرت سے پوچھا۔ ”اف فوه حد ہوتی ہے”وقار کی آنکھوں میں شرارت دیکھ کر وه جھنجھلا گئی۔ اس کی جھنجھلاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے وقار نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ “جان پہلے سفر کے لائق تو ہو جاؤ پھر ہم تینوں ہی چلیں گے۔”معنی خیز انداز میں یہ سمجھاتے ہوئے وقار نے شانوں سے تھام کراسے اپنے قریب کیا تو بے اختیار اس نے وقار کے کشاده سینے پر اپنا سر رکھ دیا اور اپنے مخصوص ملتجی انداز میں پھربولی۔ وقار میں آپ کے ساتھ تاج گھومنا چاہتی ہوں اسے چھوکر ایک شہنشاه اور ان کی ملکہ کی اس محبت کو محسوس کر لیناچاہتی ہوں جس نے اس شاہکار کو جنم دیا۔ اسے چھو کر امیر وغریب کی محبت اور ان کے احساس و جذبات کا فرق محسوس کرلینا چاہتی ہوں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟ اور وه بچپن والا قصہ جو میں نے آپ کو سنایا تھا یاد ہے ناں؟” ہاں ہاں لبنیٰ جان سب یاد ہے مجھے تمہارا بچپن والا قصہ بھی اور اپنی سہاگ رات بھی۔۔۔۔۔”

یہ کہتے ہوئے وقار نے اپنی مخصوس ہنسی کے ساتھ شوخ نظروں سے لبنیٰ کو دیکھا تھا۔ اپنا پاگل پن یاد کرکے ہنسی کی پھلجھڑیاں لبنیٰ کے لبوں پر بھی بکھر گئیں۔ اس رات وقار نے جب بڑے شاہی انداز میں گھونگٹ میں شرمائی لجائی لبنیٰ سے پوچھا تھا۔ ”بیگم زندگی کے اس نئے سفر کے آغاز پر آپ کی کوئی پہلی خواہش۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” تب بے اختیار اس نے گھونگٹ اٹھا کر کہا تھا۔”میں آپ کے ساتھ ایک شہنشاه کا شاه کار دیکھنا چاہتی ہوں” پہلے تو اس کی اس ادا پر مبہوت ہوکر وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوۓ شوخی سے بولا بسسس بیگم اتنیییی سی خواہش۔۔۔۔۔؟” یہ کہتے ہوئے کتنی ہی دیر وه دیوانہ وار ہنستا رہا تھا۔ اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوۓ لبنیٰ نے گھبراکر گھونگٹ گرا دیا تھا۔ یہ زندگی کا وه لمحہ تھا جسے یاد کرکےشاید وه ہمیشہ ہنستے رہے گے۔ ورنہ یہ زندگی تو۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اور لبنیٰ صدمےسے نڈھال بچوں کے ساتھ اپنی برتھ پر اسی طرح گم صم بیٹھی تھی۔ اور وه خاموش بیٹھا ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ پھر اسے لبنیٰ کے بچپن والا قصہ یاد آیا۔ “معلوم ہے وقار! جب پاپا کی پوسٹنگ آگره تھی ہم ہر جمعہ کو تاج محل جاتے تھے ٹکٹ کی لمبی قطار سے جو نجات مل جاتی تھی جمعہ کو تاج محل کا ٹکٹ نہیں ہوتا ناں۔ اس لئے اس دن مقامی لوگوں کا وہاں ہجوم ہوتا تھا۔ انہی دنوں تاج سے مری دوستی ہوئی تھی۔ برسات کے موسم میں ہم بارش میں خوب نہاتے تھے اور میں کسی مد مست مورتی کی طرح اس کے صحن میں خوب ناچتی تھی۔ یمنا کی لہریں بھی تو اس وقت بڑے پیار بھرے گیت سناتی تھیں۔ واه کیا بات ہے۔ اور کیاکیا کرتی تھی اس شہنشاه کی ملکہ۔؟

وه شرارت سےپوچھتاتو وه اپنے اسی معصوم انداز میں اور نا جانے کتنے قصے سناتی۔۔۔۔

پاپا کےتبادلے کے بعد وہاں سے چلتے وقت جب آخری بار میں نے یمنا کے صاف شفاق پانی میں تاج کا عکسی دیکھا تھا اس وقت میری عمر چھ، سات برس رہی ہوگی۔ تب اس کےگنبد، میناروں سیڑھیوں صحن اور باغیچوں کو بغور دیکھتے ہوئے میں نے کہا تھا۔ اے تجو دوست میرا انتظار کرنا میں پھر آؤنگی۔ اس وقت میں عشق و محبت سے نا آشنا تھی مگر تاج کے حسن کی دیوانی

تھی اور اب جب کہ تاج کے عشق کی داستان میرے سامنے ہے تو میں آپ کے ساتھ وہاں گھومنے کی خواہش رکھتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے مانو جیسے وه بھی ہمارا منتظر ہے تب ہی تو اتنے برسوں سے میرے خوابوں میں آکر مجھے بلاتا رہاہے۔”

لبنیٰ اس کی محبت تھی اس کے ساتھ گھومنے کا وه بھی مطمنی تھا۔ کتنے ہی خواب اس کی آنکھوں میں بھی مچل رہے تھے۔ لیکن متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا وه گھر کا تنہا کفیل تھا۔جو پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ایک پرایئوٹ فرم میں معمولی ملازمت کرنے پر مجبور تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی اور شادی بیاه کی ساری ذمہ داریاں بھی اسی کے کاندھوں پر تھیں۔ چھٹی کے دن کام کرکے اور اؤر ٹائم کرکے جیسے تیسے زندگی کی گاڑی چلا رہا تھا۔ لبنٰی سے یہ کہتے ہوئے شروع میں جھجھکتا تھا کہ ہمارے حالات ابھی دیگر اخراجات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ ذرا حالات ساز گار ہو جائیں تو چلیں گے۔حالات کے بہتر ہونے کے انتظارمیں کتنے ہی برس یونہی گزر گئے تھے۔ اس عرصہ میں بہت کچھ

بدلا تھا اور بہت کچھ نہیں بھی۔ لبنٰی نے بھی حالات کے ساتھ یہ سوچ کر سمجھوتا کرلیا تھا کہ زندگی کی ریل گاڑی سے بھی سیٹی کی وه مدھر آواز غائب ہو چکی ہے جس کے ساتھ موسیقی ہواوں میں رقص کیا کرتی تھی۔ بلکہ آج کی زندگی بھی بھارتیہ ریل کی مانند اپنی قوت سے زیاده بوجھ ڈھونے پر مجبور ہے۔ اپنی گاڑی کے پٹری پر آنے کے انتظار میں وه صبر شکر سے زندگی کزار رہی تھی کہ اچانک بچے نے یہ کہہ کر چلتی گاڑی کی زنجیر کھینچ دی تھی۔ “امی اردو میں تاج محل پر مضمون لکھنا ہے لکھوائیے ناں۔” یہ وہ زخم تھا جس پر جمے کھرنٹ کو بڑی آہستگی سے بچے نے کھرچ دیا تھا اور زخم تازہ ہوکر اپنے دانت دکھانے لگا تھا۔ دفتر سے واپس آکر جب وقار نے اس کی اداسی کا سبب جاننا چاہا تو اس نے فقط اتنا کہا۔ ”واحد کو تاج محل پر مضمون لکھوا دیجے۔” اس کے سمجھنے کے لئے اتنی بات ہی کافی تھی۔ کتنی ہی دیر شرمندگی سے خاموش بیٹھا خود وہ کو لعنت ملامت بھیجتا رہا۔ اور پھر اس نے اسی ہفتے چھٹی کے روز کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا

اور صبح پانچ بجے والی گاڑی سے لبنٰی اور بچوں کو لیکر آگره کے لئے سوار ہوگیا۔ یہ سوچ کر کہ دیر رات تک واپس آکر اگلے روز ڈیوٹی پر چلا جائے گا۔ آخر دلی سے اگرہ تک کا فاصلہ ہی کتنا ہے۔ “وه رہا تاج محل ! وه رہا، وه رہا ۔۔۔۔” یمنا کے پل سے گزرتی ریل گاڑی سے نظر آ تے تاج کو ”دیکھتے ہوئے بچے خوشی سے چلانے لگے تھے۔ کانوں میں گونجتی بچوں کی آواز پر فرط مسرت سے لبنیٰ اور وقار نے بھی یمنا کے دوسرے کنارے پر نظر آ رہے تاج محل کو دیکھا۔ طلوع آفتاب کی شعاع قوس و قزح کے رنگوں سے اسے نہلا کر اس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں۔اسٹیشن سے تاج گنج جاتے ہوئے لبنیٰ کی بھٹکتی نظریں گزرے زمانے کے کتنے ہی نقش تلاش کر لیناچاہتی تھیں۔ ایک ایک راستے سے گزرتے ہوئے وه کبھی کہیں کھو جاتی تو کبھی کہیں،کبھی خوشی سے کھل اٹھتی تو کبھی اداس ہو جاتی۔صدر دروازے پر پہنچ کر اسے وہا ں کی فضاء کچھ غیر مانوسی محسوس ہوئی تو اس نے تعجب سے وقار سے معلوم کیا۔ “وقار یہاں بہت کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے پہلے جیسی رونق نظر نہیں آ رہی؟ اتنے برسوں میں یہاں کی رونق میں تو اضافہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اور پھر آج کے دن یہاں کی یہ خاموشی مجھے َکھل رہی ہے۔ وہ سیلانیوں کا ہجوم، مقامی لوگ اور وہ ہمارے پردیسی مہمان کہاں ہیں آج سب؟” ٹھرو لبنٰی ٹھرو ! ابھی معلوم کرکے بتاتا ہوں” لبنٰی کی بے چینی سے گھبرا کر وقار نے ایک راه گیر سے اس خاموشی کی وجہ دریافت کی۔ ”بھائی صاحب آج یہاں اتنی خاموشی کیوں ہے سیلانی نظر نہیں آ رہے آج سب خیریت تو ہے؟” ان صاحب نے بڑی حیرت سے سر سے پیر تک سب کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔ “کہاں سے تشریف لائیں ہیں آپ لوگ۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج جمعہ ہے جمعہ اور جمعے کو تاج بند رہتا ہے۔ تاج محل دیکھنے اب آپ لوگ کل آئیے کل۔” یہ کہتے ہوئے وه صاحب تو آگے بڑھ گئے مگر یہاں تو ارمانوں کے ناجانے کتنے تاج محل چور چور ہو چکے تھے۔ تڑپ کر وقار نے لبنیٰ کو دیکھا جو اپنی خشک ویران آنکھیں لۓ خاموش بیٹھی کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی۔ جہاں سائیں سائیں کرتی رات اپنے عروج پر تھی اور ریل اپنی پوری رفتار سے واپسی کے منازل طے کر رہی تھی۔۔

Published inترنم جہاں شبنمعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x