Skip to content

بے سمت قافلے

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 63
بے سمت قافلے
طارق شبنم جموں کشمیر

کئی ہفتوں تک برستی بارشوں ، شدید ٹھنڈ اورچلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں سمندروں ،صحراؤ ں ،جنگلوں اور بیابانوں کے پرُ خطر اور دشوار گزار سفر کے بعد تھکے ماندے قافلے نے رات کی تاریکی میں ایک کھلی جگہ پر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پہلے ہی کچھ اور مہاجر لوگ قیام پزیر تھے۔ تھکاوٹ سے چوراور بھوک پیاس سے نڈھال قافلے والوں میں مرد وزن ،بچے ،بزرگ وجوان سبھی شامل تھے ۔تھوڑی دیر تک سستانے کے بعد بھوکے پیاسے قافلہ نے ندی کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور ادھر اُدھر موجود درختوں کے نیچے ننگی گیلی زمین پرپھیل گئے کیوں کہ آسمان بادلوں کا نقاب اوڑھے ہوئے تھا اور ہلکی سی بوندا باندی بھی ہو رہی تھی ۔اس بے یار و مدد گار قافلے میں بہت سے لوگ بیمار تھے جب کہ کچھ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے ۔قافلے میں شامل خوف سے سہمی ہوئی کمسن شوقی بھی ادھر اُ ٰدھر سے پتے جمع کرکے گیلی زمین پر ڈال کر ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی زخمی پنچھی کی طرح خالی خالی نظروں سے آسمان کی اور تکتے ہوئے گزرے ہوئے واقعات کو یاد کرنے لگی۔
شوقی کو ٹھیک سے یاد نہیں تھاکہ کتنے دن گزر گئے جب وہ اپنے گھر کے باہر اپنی ہم عمر سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی کہ اچانک چاروں اور شور سا برپا ہوا، جس کے ساتھ ہی گولیوں کی دل دہلا دینے والی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں اور کچھ گھروں سے آگ کے شعلے بلند ہوگئے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کربدحواسی کے عالم میں روتے چیختے بھاگنے لگے ۔ ان قیامت خیزحالات میں معصوم بچے ،عمر رسیدہ مرد و خواتین کچلے جا رہے تھے ۔ بہت سے ہتھیار بند لوگ، جن کے خونخوار چہرے غیض وغضب سے تمتما رہے تھے، بھوکے درندوں کی طرح بے رحمی سے نہتے لوگوں پر ٹوٹ پڑے تھے ۔ درجنوں لوگ زخموں سے چور ،زمین پر پڑے کراہتے ہوئے ان سے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے، لیکن ان ظالموں کے دل رحم سے بالکل خالی لگ رہے تھے اور وہ اپنا خونین رقص جاری رکھنے پر بضد تھے ۔یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ دس سال کی شوقی، جو اب لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ بھاگتی جا رہی تھی، نے دور سے ہی دوسرے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے گھر سے بھی آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے تھے ۔وہ بہت روئی، تڑپی ،مچلی لیکن چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکی اور جان بچانے کی خاطر اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے بھاگتی ہی چلی گئی۔ بھیڑ جس طرف بھی بھاگتی گئی وہ بھی برابر اس کا حصہ رہی۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اچانک اپنے ہی وطن میں ان پر یہ قیامت کیوں کرٹوٹ پڑی اور نہ وہ یہ جانتی تھی کہ وہ کہاں جا رہے ہیں؟ ان کی منزل کیا ہے؟ سمندروں ،جنگلوں اور بیا بانوں سے چلتے چلتے ہفتے گزر گئے ۔ نہ ان کے سونے کا کوئی وقت متعین تھا نہ جا گنے کا۔ قافلے کے دوسرے لوگوں کی طرح شوقی کو کھانے کو بھی کچھ خاص نہیں ملتا تھا ۔ کبھی کسی بستی سے گزرتے ہوئے چھوٹی بچی سمجھ کر کوئی روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا دیتا تھا،جب کہ اکثر درختوں کے پتوں جنگلی پھلوں اور نا صاف پانی پر ہی گزارہ کرنا پڑتا تھا ۔ اس سفر میں بھوک کی شدت ،سردی ،بخار اور دوسری بیماریوں کی وجہ سے درجنوں لوگوں نے جنگلوں اور بیا بانوں میں تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنوائی تھیں۔
’’ شوقی بٹیا …… میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں ،کہاں چلی گئی تھی تم؟‘‘
’’ امااااں …… ‘‘۔
دفعتًا اپنی ماں کو دیکھ کرشوقی بے ساختہ اس سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ ماں سے کچھ بات کرتی اس کی آنکھ کھل گئی اور محض چند ساعتیں نیند کی آغوش میں رہ کر وہ خوابوں کے جزیرے سے واپس اپنی دنیا میں لوٹ کر پھر سے سوچوں میں کھو گئی۔ ماں ، بابا اور اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی یادیں اس سے کبھی جدا ہوتی ہی نہیں تھیں۔ وہ اکثر ان کو خوابوں میں دیکھتی،ان سے باتیں کرتی ۔کبھی دیکھتی کہ ماں اس کے بال سنوارتی ہے ،کبھی اس کو نئی چوڑیاں پہناتی ہے ،اس کے چھوٹے بھائی کو لوری سناتی ہے وغیرہ ۔عالم خواب میں اسے لگتا تھا کہ کچھ ہو ا ہی نہیں ہے ، لیکن جیسے ہی اس کی آنکھ کھل جاتی تو اس کے معصوم دل پر چھریاں چل جاتی اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی لگ جاتی۔ رات بھر پریشان سوچوں کے تانے بانے میں اُلجھتی رہی شوقی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ سورج کی کنواری کرنیں کب زمین کو چھوُ گئیں اور خوش گلو پرندوں کی سریلی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرانے لگیں ۔وہ اٹھ کر آس پاس کے ماحول کا جائیزہ لینے لگی ۔ یہ پہاڑوں سے گھری خوب صورت جگہ تھی جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔کچھ دوری پربہت سے اونچے اونچے مکان دکھائی دے رہے تھے جنہیں دیکھ کر اس کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی شہر کے نزدیک ہیں۔چند منٹ تک ہی ارد گرد کا جائیزہ لے کر اس نے ندی پر پانی کے چند گھونٹ پئے اور واپس جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی کیوں کہ بھوک سے اس کا سر چکرا رہا تھا ۔قافلے میں شامل دوسرے لوگوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا ۔لمحہ بہ لمحہ سورج کی گرمی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان بارش میں بھیگے لوگوں کو سردی سے کسی حد تک راحت محسوس ہونے لگی۔ ان کے گیلے کپڑے سوکھنے لگے لیکن بھوک سے ان کا برا حال تھاْ …… سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ان لوگوں کی خوشیوں کا تب کوئی ٹھکانہ نہیں رہاجب پاس کی بستی کے باشندے، جن میں ہر مذہب کے ماننے والے تھے‘ کھانے پینے کا سامان ،کپڑے اور ادویات لے کر آئے اور ان میں بانٹ دئیے۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر ان کا درد بانٹا اور انہیں ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا ۔لوگوں کے اس بھائی چارے اور مخلصانہ انسانی ہمدردیوں کو دیکھ کر قافلے کے بزرگوں نے اب اسی جگہ مستقل قیام کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ ان کے واپس اپنے گھروں کو جانے کے امکانات بالکل معدوم تھے اور یہاں کے راجاؤں کو بھی ان کے یہاں قیام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ کئی دنوں سے بھوکی شوقی پیٹ بھرروٹی کھاتے ہی نیند کی میٹھی وادی میں چلی گئی …… نیند کے دوران اس کو اپنی پیشانی پر کسی کے شفقت بھرے ہاتھوں کے لمس کی گرمی کا احساس ہوا تو آنکھ کھل گئی ۔ سامنے اپنے چاچا کو دیکھ کر یہ سوچ کر آنکھیں بند کرلیں کہ شاید وہ خواب دیکھ رہی ہے ۔ کچھ پل بعد جب اس کو یقین ہو گیا کہ وہ سچ مچ بیدار ہو چکی ہے تو آنکھیں کھول دیں ۔ سامنے چا چا کو موجود پاکر اس کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات نمودار ہو گئے ،کیونکہ آج وہ ہفتوں بعد کسی اپنے کو دیکھ رہی تھی۔ ورنہ اذیت ہی اس کی ساتھی …… آنسواس کے رفیق …… بھوک اس کی پڑوسن …… چیخ و پکار اس کی غمگسار …… کراہیں اس کی ہمراز اور ننگی زمین اس کا بستر تھی ۔
’’ طالب چچا ……‘‘۔
وہ ایک دم اٹھ کر اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔طالب، جو ایک دوسرے قافلے کا حصہ تھا اور اس قافلے میں اپنوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کی نظر شوقی پر پڑی تھی ،اس کو دلاسہ دیتا رہا۔
’’ طالب چچا …… میری اُمی ابو اور؟ …… ‘‘۔
’’بیٹی …… تمہاری اُمی ،چھوٹا بھائی اور بہن یہاں سے کچھ دوری پر ایک خیمے میں ٹھہرے ہیں، لیکن تمہارے اُبواور میرے بیوی بچوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔چلو بیٹی ،اپنی ماں کے پاس‘‘۔
کہتے ہوئے طالب “جو اپنی آنکھوں میں پوشیدہ طغیانی کوبڑی مشکل سے روک پایا تھا” نے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ وہاں سے نکل گئے ۔
’’طالب چچا …… ہمیں اپنے گھر سے کیوں نکالا گیا ؟ وہ لوگ کون تھے ؟ ہم نے ان کا کیا بگاڑا تھا ؟؟؟‘‘
چلتے چلتے معصوم شوقی نے چچا سے کئی چبھتے سوال پوچھے اور وہ جواب دیتا رہا ۔
در اصل وہ اپنے ہی وطن میں طاقت کے نشے میں چُور انسانیت اور محبت کے خلاف بر سر جنگ مخصوص جنونی دنگائی ذہنیت رکھنے والی درندہ صفت وحشی قوتوں کی قہر مانیوں کا نشانہ بنے تھے اور سینکڑوں انسان بشمول چھوٹے چھوٹے بچے خون میں نہلائے گئے تھے ،جب کہ بہت سے گھر اُجاڑ دئے گئے تھے۔ ظلم کی چکی میں پس رہے وہ بے سرو سامان کمزور و مفلس لوگ انصاف کی دہائی دیتے رہے …… ان کی چیخ وپکار فضاؤں میں گونجتی رہی …… فلک نے آنسوں بہائے …… دھرتی سوگوار ہوئی، لیکن طاقت کے نشے میں چور مفادات کے اسیر دھرتی کے سنگ دل منصف نہ پگھلے ،جنہوں نے ان کی پُر درد صداؤں کو ہواؤں کا شور سمجھ کر نہ صرف یکسر نظر انداز کر دیا بلکہ انسانیت کی دعویٰدار کئی سلطنتوں نے کسی مدد کے بجائے ان پر مختلف الزامات لگا کر انہیں پناہ دینے سے انکار کرتے ہوئے ان پراپنی سرحدیں بند کردیں تھیں۔ کچھ وقت بعد شوقی اپنی ماں، بھائی اور بہن کے پاس پہنچی تو اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ ان کے معمولی خیمے میں جیسے نئی بہار آگئی، کچھ دیر ماں کے ساتھ لپٹ کر اشک بہانے کے بعد وہ اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو پیار کرنے لگی اور ماں بچوں کے لئے روٹی کا انتظام کرنے کے لئے خیمے سے باہر گئی۔
شام کو ماں کی ہاتھ سے روٹی کھا کر شوقی کو بے پناہ تسکین ملی اور وہ سرور کی کیفیت میں ماں کی گود میں سر رکھ کر سکون کی نیند سوگئی ۔اس کا چھوٹا بھائی اور بہن بھی نیند کی دیوی سے بغل گیر ہوگئے جب کہ ان کی پریشان ماں اور چا چا گہرے سوچوں میں ڈوب گئے …… کچھ دیر بعد اچانک شور و غل سنائی دینے لگااور چا چا صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اٹھ کر باہر چلا گیا۔
’’بہن اٹھو، جلدی سے چلنے کی تیاری کرو‘‘۔
وہ الٹے پاؤں اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے واپس آکر گویا ہوا ۔
’’بھائی صاحب …… آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
’’بہن …… ان لوگوں کو ہمارا یہاں رہنا بھی منظور نہیں ہے ‘‘۔
’’کن لوگوں ……؟‘‘
’’ اے چلو ……چلو ……. جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ ،ورنہ سب کو کاٹ کر رکھ دینگے…… دہشت گرد سالے‘‘۔
ہتھیار بند جنونیوں کی گرجدار آواز سے شوقی اور اس کا چھوٹا بھائی اور بہن جاگ کر سہم گئے ۔ان کی ماں لوگوں سے مانگ مانگ کر معمولی سا سامان گھٹری میں باندھنے لگی لیکن چند لمحوں بعد ہی ان غنڈوں نے خوفناک انداز میں چلاتے ہوئے توڑ پھوڑاور ا ن مہاجروں کی بے رحمی سے پٹائی شروع کرکے دہشت مچادی۔ .
’’ بہن…… اگر جان پیاری ہے تو جلدی سے نکل جاؤ‘‘۔
’’آخر یہ لوگ ہیں کون ؟؟؟ یہاں کے تمام مذاہب سے وابستہ لوگ تو ہمارے مدد گار تھے‘‘۔
اس نے گھبراہٹ کے عالم میں گٹھری ایک طرف پھینکی اور کمسن بیٹے کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’وہی جنہوں نے ہمارے گھروں کو تخت وتاراج کیا، انسانیت کے دشمن ان بیمار ذہنیت والے خونی جنونیوں کا کوئی مذ ہب نہیں ہوتا ہے‘‘۔
طالب نے روتے ہوئے کہا اور اسی وقت یہ بے آسرا مہاجرین یہ جگہ چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں روتے بلکتے قافلوں کی صورت میں نا معلوم منزل کی طرف چل پڑے ۔

Published inطارق شبنمعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply