بیل کہانی
فرحین چوہدری
اسلام آباد ۔ پاکستان
خوبصورت منقش گملے میں لہراتا ننھا سا خوش نما پودا نوجوانوں کی خاص طور پر دلچسپی کا مرکز بن گیا ۔ اماں بی اور دادا ابو نے غور سے پودے کو سونگھ کر اگرچہ اس کے رنگ و نسل کے بارے میں شکوک کا اظہار بھی کیا تھا ۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے چمکیلے پتے اور جھومر جیسے جھولتے ننھے ننھے پھول انھیں لبھا رہے تھے
” دادا ابو نرسری والا بتا رہاتھا یہ بیل بڑ ی تیزی سے پھیلتی ہے ۔ ” قندیل خاصی excited تھی
تبھی عامر نے مستقبل کی تصویر کشی کی ۔ ، گھر کی دیواروں اور چھت پر جب یہ بہار دکھائے گی تو گزرنے والے مڑ مڑ کر دیکھیں گے ۔”
” کیوں ” دادا ابو نے عینک اتار کر ہاتھ میں پکڑتے ہوئے ہنکارا بھرا
پھر اماں بی کی جانب متوجہ ہوئے ۔
”کیوں بہو ہے تو خوبصورت یہ بیل مگر باس دل کی نہیں بھارہی ۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے ۔۔۔ ؟”
اماں بی نے سرکتے ہوئے دوبٹے کو دوبارہ سلیقے سے جماتے ہوئے سسر اور بچوں کے درمیاں ہمیشہ کی طرح پل کا کردار ادا کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ۔
”ایسا بھی کیا مسئلہ ہے ۔ لگا کر دیکھ لیتے ہیں ۔ نہ اچھی لگی تو اکھاڑ پھینکیں گے ۔”
اصل میں بچے گھر کی looks میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے تھے
دیواروں پر لگا سمینٹ پتھر رنگ و روغن اچھا تو تھا ۔ مگر تقریبا سبھی گھر اس علاقے میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ہی جیسے لگتے تھے ۔ سو انھوں نے لان کو نئے سرے سے نئے انداز میں سنوارنے کا سوچا ۔ ساتھ ہی دیواروں اور چھت پر خوبصورت بیلوں کو چڑھانے کا خیال بھی سوجھا ۔۔
قندیل اور عامر کو کئی نرسریاں چھاننے کے بعد ایک نرسری سے یہ بیل ملی تھی ۔ جس کے پھول بھی خوبصورت تھے اور جو بقول نرسری والے کے بانس کی طرح راتوں رات بڑھتی تھی ۔
سو ماں کا بیان مکمل ہوتے ہی انہوں نے پھرتی سے گملا اٹھایا اور لان میں پہنچ گئے۔۔
دادا ابا دھیرے دھیرے چلتے ہوئے برآمدے میں پڑے موڑھے پر بیٹھ گئے اور لگے حقہ گڑ گڑانے ۔۔۔ یہ ان کی پرانی عادت تھی کسی مسئلے کا سرا ہاتھ نہ آتا ۔۔ اندر سے پوری طرح ”ہاں ” کی آواز سنائی نہ دیتی تو حقے کی گڑگڑاہٹ میں ذہن کے اُ بال کو سمو نے کی کوشش کرتے ۔۔ اندر کے آلاو کا حقے کے دھوئیں سے کیا مقابلہ ۔
یہ کوشش ناکام ہونے پر ٹھنڈنے پانی سے غسل کا اہتمام کرتے ۔
بیل کا مٹی میں لگنا تھاکہ وہ تیزی سے پھلنے پھولنے لگ گئی ۔ اس کی بڑھان حیرت انگیز طور پر غیر معمولی تھی۔ ان چاروں کو شک بلکہ یقین تھا کہ اس بیل پر ہر چند گھنٹوں کے بعد نئے پتے نئی شاخیں اور نئے پھول پھوٹنے لگتے ہیں ۔
بیل نے دیکھتے ہی دیکھتے اطراف کی دیواروں کو ڈھکنا شروع کر دیا ۔ سبھی خو ش تھے
سمینٹ اور پتھروں کے کھردررے پن کی جگہ اب سبزے کے ساتھ لال نیلے سفید پھولوں نے لے لی تھی ۔ گھر کی looks میں واضیح فرق محسوس ہونے لگا تھا ۔ باقی سب تو ٹھیک تھا ۔ لیکن دادا ابو اور اماں کو بیل کے قریب سے کبھی کبھار ایک ہمک یا باس کا جھونکا سا آتا محسوس ہوتا ۔ جو بقول بچوں کے ان کا وہم تھا ۔۔ البتہ اس بیل کی خوشبو بھی کوئی نہ تھی ۔ ۔ مگر خوشنمائی اور چمکیلے پتوں کے ہوتے ہوئے خوشبو کا عنصر اتنا اہم نہ رہا تھا ۔ ویسے بھی بدن پر مہکتے پرفیوم ۔۔ کمروں میں گھر میں پر طرف air freshner کے ہوتے ہوئے پھولوں کی خوشبو کی بھلا کیا ضرور ت تھی ۔
بیل مختلف دیواروں کا احاطہ کرتی ہوئی اب سامنے گیٹ کے ساتھ چھت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دور سے یہ گھر ۔۔۔۔ باقی گھروں کی نسبتا خاصہ مختلف اور دور سے خوشنما دکھائی دینے لگا تھا ۔ بچے خوش تھے ۔
خرابی اس دن پیدا ہوئی جس دن نماز پڑھتے ہوئے پٹ سے بیل کے پتوں سے ایک سیاہ سانپ نما کیڑا گرا اور اماں بی کے دوپٹے پر رینگنے لگا ۔ گھبرا کر انہوں نے نماز توڑ ڈالی ۔ یہ اچھا شگون نہ تھا ۔ کیڑےکو گھبرا کر جھٹکا تو وہ تیزی سے رینگتا ہوا پھر بیل میں جا چھپا ۔
زندگی میں پہلی بار ان کی نماز میں خلل پڑا تھا ۔ جس کا انھیں بے حد قلق تھا ۔ دادا ابو نے بیل کو کھنگالناشروع کیا تو عجیب و غریب انکشافات ہونے لگے ۔
دور خوشنمااور چمکیلے دکھائی دنیے والے پتوں اور ملائم سفید نیلے پھولوں سے ڈھکی شاخوں پر سانپ نما کیڑے شاخوں کا حصہ بنے چمٹے ہوئے تھے ۔ ان کی ریڈھکی ہڈی میں سنسناہٹ سی پھیل گئی ۔ پوری بیل میں ان کیڑوں کی تعداد نہ جانے کتنی ہوگی ۔
جب کہ یہ بیل
پورے گھر کا احاطہ کئے ہوئے تھے یہ خیال خاصا کراہت آمیز تھا ۔ بلکہ شاخوں کی چمکیلی تہوں میں ایک خاص قسم کی سرانڈ موجود تھی۔
دادا ابو نے اپنا فیصلی سنا دیا ۔ کہ بیل کو ہٹانا ضروری ہے ۔ مالی سے بات بھی کر لی گئی ۔ مگر قندیل اور عامر پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ۔ نہیں دادا ابو یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ اسی بیل نے گھر کی showبنادی ہے ۔ اور آپ اسے ہٹانا چاہتے ہیں
اماں آپ سمجھائین نا انھیں ۔ ۔ ؟ اماں بچاری اس مرحلے پر عجیب الجھن کا شکار ہوگئیں ۔ کیوں کہ وہ خود زہریلے کیڑوں اور بدبو سے خوفزدہ تھیں ۔ آنکھوں دیکھی مکھی کیسے نگل لیتیں ۔ مگر ان کے دلائل بےکار گئے ۔
بچوں کا موقف تھا کہ ہر پودے میں کیڑے مکوڑے سبھی کچھ ہوتا ہے اور پھر یہ تو foreign plantہے
ہزاروں قسم کے Allergies کے باوجود لوگوں نے لگائے ہوئے ہیں
تب اماں بی نے بھی سوچا کہ بات تو ٹھیک ہے اپنے دیسی ہودوں پھل دار درخت ، جڑی بوٹیاں میں بھی کیڑے زہر سب کچھ ہوتا ہے ۔
دادا ابو مُصر تھے کہ خودرو جنگلی پودوں کی بات اور ہے ۔ گھر میں نسبتا محفوظ پھول پودے لگنے چاہیں ۔ ایک سرد جنگ کی سی کیفیت گھر بھر پر چھاگئی ۔ یہاں تک کہ ایک دن عام کو مالی نے بتایا کہ دیواروں کا سیمنٹ اور رنگ و روغن تیزی سے جگہ جگہ سے خراب ہوکر گر رہا ہے اور یہ ساری کارستانی اس بیل کی ہے جو اپنے خوش نما پتوں اور پھولوں کے جال تلے اپنے نوکیلے کانٹوں اور جڑوں سے سیمنٹ کو چاٹ رہی ہے ۔
دادا ابو شدو مد کے ساتھ بیل کے مخالف ہوگئے ۔ اماں بی خاموش تھیں کہ اب مسئلہ گھر کی دیواروں اور چھت کا تھا ۔ اور خاصا اہم تھا ۔
دادا ابو نے اپنے طور پر چھان بین شروع کردی پتہ چلا کہ یہ بیل دریا پار والی حویلی سے لائی گئی تھی ل جہاں ایک لمبا چوڑا گھرانہ آباد ہے ۔ ان کی خاصی جاگیر ہے مخلتف علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوجانے والے ان گھرانوں نے آپس میں رشتے ناطے کر لئے اور ایک خاندان بنا کر اپنے علاقے میں دھاک بٹھالی ۔ ایسی بیلیں وہی تمام نر سریون کو بھیجتے اور بیچتے ہیں ۔ دادا ابو کو سخت غصہ آیا ۔ کہ کیسے شرپسند لوگ ہیں جو ایسی زہریلی اور دیوارون کو کھوکھلی کرنے والی بیلوں کا کاروبار کرتے ہیں ۔ وہ ان کی گوشمالی کرنا چاہتے تھے ۔ مگر مالی نے سمجھایا کہ بڑے خردماغ لوگ ہیں کسی کی پرواہ نہیں کرتے ان کا بس چلے تو پورے شہر کو اپنی حویلی میں ڈال لیں ۔
اماں بی بھی خوفزدہ تھیں ۔ انہوں نے بھی ادھر ادھر سے سنا کہ دریا پار حویلی والے اپنے اور اپنی بیلوں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے ۔ نہ جانے کس طرح اپنے متعلق شکوک ظاہر کرنے والون کی انھیں خبر ہوجاتی ہے ۔
پھر ہو ماس گھر کے افرا د میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آنگن نفرتوں سے پھرتے اور محبتوں سے خالی ہوتے جاتے ہیں ۔ حتی کے سُونے ہوجاتے ہیں
قندیل اور عامر ان باتوں کو محض وہم سمجھ کر ٹالتے رہے ۔ بلکہ انہوں نے مالی کی بھی سرزنش کر ڈالی کہ وہ الٹی سیدھی افواہیوں سے پرہیز کرے ۔
لیکن دھیرے دھیرے ان پر بھی کچھ جیزیں عیاں ہونے لگیں ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت کھانا کھاتے کوئی اہم کام کرتے وقت یا باہر نکلتے وقت کوئی نہ کوئی سیاہ کیڑا سرسراتا ہوا قریب گزر جاتا دونوں کے چہروں کا رنگ بدنلنے لگتا ۔
بے تحاشہ پرفیوم اور Air freshener کے باجود بھی عییب سی سرانڈ کو کوئی جھونکا گھر میں
بارہا آتا محسوس ہوتا وہ گھبر ا جاتے کوئی ملنے جلنے والا خوشنما بیل کی خوشنمائی کو سراہتا تو وہ غور سے اس کی ناک دیکھنے لگتے کہ کہیں ناگوار باس کے باعث وہ سکؑڑ تو نہیں رہی ۔
دھیرے دھیرے بیل نہ صرف گھر کی دیواروں اور چھت کو بلکہ انکی سوچوں اور ذہنوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہر دم ان کے اعصاب پر سوار رہنے لگی ۔
اماں بی کو اکثر کئی بار یوں لگتا جیسے بیل پر اُگی اآنکھیں انھیں گھور رہیں ہیں ۔ یعض اوقات محسوس ہوتا کوئی ان کے قدموں کی چاپ سن رہا ہے۔
وہ محتاط انداز سے دبے پاوں چلنے لگیں ۔ ان کی حرکات و سکنات میں قدرتی پن مفقود ہونے لگا ۔ خوفزدہ انداز میں نپے تلے کام کرتے کرتے ان کے اعصاب چٹخنےلگے ۔ اس احساس کی تشہر بچوں کے سامنے بے فائدہ تھی۔
سسر سے ہلکا تذکرہ کیا تو وہ چونک گئے ۔ ان کی اپنی ذہنی کیفیت بھی یہی تھی ۔ بہو کو مزید ہراساں کرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے طور پر چپکے چپکے بیل کے پتوں اور شاخوں کی تلاشی لینے لگے ۔ جیسے واقعی وہاں کوئی ذی روح بیٹھا ان کی نگرانی کر رہا ہے ۔
ادھر بیل تھی کہ سیل رواں کی طرح بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ۔ گیٹ ، دیواریں ۔ چھت ۔ صحن ۔ دالان ۔ گرل ۔ کھڑکیاں ۔ سبھی پر وہ گھوم رہی تھی ۔ ۔ سر سرار ہی تھی۔ اس کی چمکتی شاخیں فتحکے نشے میں مست گھرکے کونوں کھدروں پر یلغار کئے جارہی تھیں ۔ کچھ شاخیں چھت سے ہوکر عقبی صحن برآمدے کے ستونوں اور اندرونی چھت پر بھی رینگ آئیں تھیں ۔ روشن دانوں کے زریعے ۔
اب قندیل بھی دل سے چاہنے لگی تھی کہ بیل اکھاڑ دی جائے مگر پورے گھر پر اس کا وجود یوں طاری ہوچکا تھا کہ اس کے بغیر اب گھر کا تصور عیجیب سا لگتا تھا دیکھنے میں ۔
اگر بیل اکھاڑ دی گئی ۔تو جابجچا کھرونچوں سے اکھڑا سیمنٹ اور رنگ و روغن کتنا برا لگے گا ۔ دوسری کوئی بیل بڑھنے میں جانے کتنی مدت لے ۔ہوسکتا ہےوہ دیواروں اور چھتوں کو خراب کرے کیڑے اور باس اس کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں
ڈھیروں تاویلیں دلائل ۔ قافلہ درقافلہ ان کی سوچوں کو آباد کرتے اور گزر جاتے ۔ کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا تھا ۔ آخر کئی دوسرے گھروں میں بھی بیل تھی ۔ وہاں بھی تو ایسے پرابلمز ہوں گے ۔ عامر سوچتا ۔ ”شاید ہم لوگ کچھ زیادہ وہمی اور security Conscious ہوگئے ہیں ؟
مگر اماں بی اب بضد تھیں کہ اس بیل کے ساتھ ضرور کوئی نہ کوئی ناقابل قبول اور نقصان دہ بات جڑی ہے ۔
دادا ابواسے اکھاڑ پھنکنے کی تیاریوں میں تھے ۔ مگر اب مالی ٹال مٹول کر رہا تھا ۔ زہریلے کیڑوں سے بھری کئی سو فٹ پر پھیلی بدبودار بیل کو اکھاڑنے سے وہ خود ڈر رہا تھا۔ وہ یہ کام کسی اور سے کروانا چاہتا تھا۔ مگر جو بھی آکر بیل کے حجم اور اس کے کیڑوں کو دیکھتا غائب ہوجاتا ۔ مڑ کر نہ آتا ۔
رفتہ رفتہ چاروں کو پریشانی لاحق ہونےلگی کہ جلد از جلد منڈھے چڑھ جانے والی اس بیل کو اب اتارا کیسے جائے۔
پودوں کے کیڑوں کے کئی ماہرین کو بلایا گیا ۔ کسی نے کہا کہ بیل کو جڑ سے کاٹ دیں ۔ شاخیں پتے خود مر جائیں گے مگر جڑ کون کاٹے ۔ یہ کیڑے مار سپرے کا بھی مشورہ ہوا ۔ لیکن سارے کیڑے ایک دم کیوں کر مریں گے ۔ ادھ موئے ہوکر بھاگیں گے تو گھر پر دھاو ا بول دیں گے الماریوں، بکسوں اور کونوں کھدروں میں جاچھپے تو توکتنے دن مسئلہ رہے گا ۔ کہاں کہاں ڈھونڈیں گے انھیں ۔ ویسے بھی پچھلے دنوں دادا ابونے کچھ کیڑوں کو جب کچلا تھا تو برآمدے کے فرش پر ایسے بدنما دھبوں کے باعث میلا میلا سا نظر آنے لگا تھا۔ محض ایک زہریلی بدبودار بیل کے باعث ۔
وہ چاروں کبھی مل بیٹھ کر ۔ کبھی الگ الگ اپنے طور پر دن را ت اسی ادھیڑ بن میں تھے ۔کہ کیا کریں ۔ اچانک عامر کو ایک انوکھاخیال سوجھا ۔ اس نے نوک پلک سنوار کر اسے سب کے سامنے پیش کر دیا ۔
پہلےپہل تو دادا ابو ۔ اماں بی اور قندیل اسے دیوانے کا خواب سمجھنے ۔ ناقابل عمل ۔۔ مگر جوں جوں غٖور کرتے گئے ۔ تو ں توں گرہیں کھلتی گئیں ۔
اگلے دن گھر کے باہر دادا ابو اور عامر کی نگرانی میں مٹی کے تیل کے کئی کنستر ایک جانب دھرے تھے ۔ اور دوسری جانب فائر بریگیڈ کا چوکس عملہ تیار تھا۔ دور فاصلے پر کار میں بیٹھی ورد کرتی اماں بی سوچ رہی تھیں کہ اپنے ہاتھوں لگائی بدبودار بیلوں اور ان کے زہریلے کیڑوں کے خاتمے کےلئے اپنے اردگردآگ کبھی کبھار خود ہی لگانی پڑتی ہے ۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment