Skip to content

بھونپو

عنایت علی خان /ناڑہ شریف اٹک

~~~ بھونپو ~~~
وہ اس بھونپو سے کان لگائے بیٹھا تھا جہاں سے کسی بھی وقت اس اعلان کا ھونا متوقع تھا جس کا وہ صدیوں سے انتظار کر رھا تھا اس کے چہرے پہ ایک ہی کان تھا جو سائز میں عام کان سے تھوڑا بڑا تھا وہ اس کو بھونپو پہ رکھتا تھا چہرے کی دوسری جانب ایک آنکھ تھی جس کا رنگ زرد تھا اتنا زرد جیسے کسی نے ہلدی گھول کہ آنکھ میں بھر دی ھو۔ وہ شروع سے ایسا نہیں تھا وہ ایک عام آدمی کی طرح مختلف مسائل میں گھرا ایک شخص تھا اس کی زندگی انہیں مسائل سے جڑے حالات کا جبر کاٹتے بسر ھوئی پھر ایک دن وہ مر گیا اسی طرح جس طرح ایک عام آدمی مرتا ھے۔
تین دن اس کی لاش ایک کٹیا میں پڑی رہی تیسرے دن لاش سے تعفن اٹھا تو اسے محسوس ھوا جیسے وہ زندہ ھو لیکن ایک عجیب سی شکل و صورت میں۔ اس کے چہرے کے ایک طرف بڑا سا لمبوترا سا کان اور دوسری طرف ایک آنکھ تھی البتہ ناک اپنی جگہ پہ موجود تھا اور لاش سے اٹھنے والی بدبو کو وہ محسوس کر سکتا تھا جب بدبو برداشت سے باھر ھو گئی تو وہ ایک طرف چل دیا چلتے چلتے وہ شہر کے مضافات میں پہنچ گیا وہ شہروں سے تنگ آ چکا تھا وہ کسی انسان کا سامنا نہیں کرنا چاھتا تھا اسی لئے وہ شہر کی مخالف سمت میں چلنا شروع ھو گیا وہ کسی بیابان جنگل کی تلاش میں تھا وہ شام تک چلتا رھا لیکن وہ ابھی تک اسی شہر کے آس پاس تھا ۔وہ جلد از جلد اس شہر سے دور جانا چاھتا تھا اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔
وہ پوری رات چلتا رھا صبع سویرے روشنی ھوئی تو اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ اب بھی اسی شہر کے پاس تھا فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتے دھویں کے مرغولے آسمان پہ ایک دھند کی شکل میں پھیلے ھوئے تھے اور اس دھویں کی مخصوص بو کو وہ محسوس کر سکتا تھا۔
وہ جب زندہ تھا تو ایک جبر مسلسل کی صورت کاٹی ھوئی زندگی تھی جہاں قدم قدم پہ نت نئی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نبرد آزما رھا ۔بہت چھوٹا تھا تو والدین جیسی دولت سے محروم ھو گیا تھا خیر اگر وہ زندہ بھی ھوتے تو اس کے حالات ایسے ہی ھوتے۔ اس کا باپ شرابی تھا ماں کسی بھٹے پہ مزدوری کرتی تھی اور یوں تین بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کا پیٹ بھی پال رہی تھی ایک دن کسی بات پہ اس کے شوہر کا جھگڑا ھوا اور جھگڑے میں اس کے شوہر کو کسی نے مار دیا وہ شوہر کو بچانے آئی تو اس کو بھی چھرا گھونپ دیا گیا۔
ان کی وفات کے بعد ان تینوں بھایئوں کی زندگی میں کچھ دن کے لئے ایک تبدیلی یہ آئی کہ جو روٹی ان کو دن میں ایک بار ملتی تھی وہ تین تین بار ملنا شروع ھو گئی لیکن یہ تبدیلی بھی کچھ عرصہ رہی اور لوگ بھی آہستہ آہستہ ان کو بھول گئے اور پھر ایک ٹایم کا کھانا بھی مشکل ھو گیا دو دن کے فاقوں کے بعد وہ گھر سے نکلا اور اسی بھٹے پہ پہنچ گیا یوں زندگی پھر وہاں سے شروع ھو گئی جہاں اس کی ماں چھوڑ کر گئی تھی وہ دن بھر کولہو کے بیل کی طرح گارے سے اینٹیں بناتا اور شام کو بھایئوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کر پاتا ۔ایک تبدیلی اس میں یہ آئی کہ وہ کچھ کچھ مزھب کی طرف مائل ھو رھا تھا وہ شام کو مسجد میں جاتا نماز پڑھتا اور وعظ سنتا کچھ معمولی سی رقم وہ مولوی کے ہاتھ میں چپکے سے دیتا اور اٹھ کہ آ جاتا۔
ایک دن مولوی صاحب نے صور اسرافیل کے موضوع پہ وعظ دیا تو وہ سارا دن اس کے بارے میں سوچتا رھا شام کو وہ دوبارہ مولوی صاحب کے پاس گیا لیکن آج کچھ اور موضوع تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ اس موضوع پہ کچھ اور پوچھے لیکن اس کی ہمت نہ ھوئی اگلے دو دن بھی صور اسرافیل اس کے حواس پہ چھایا رھا وہ صور اسرافیل کو ہی اپنی نجات سمجھنے لگ گیا اس نے مسجد جانا بھی چھوڑ دیا کام سے سیدھا گھر آتا کھانا کھا کہ اپنے بستر پہ لیٹ جاتا اور اسی موضوع پہ سوچتا رھتا آہستہ آہستہ اس کی یہ سوچ انتظار میں بدل گئی اور وہ باقاعدہ اس وقت کا انتظار کرنے لگ گیا ۔
یہ بات اس نے زھن میں بٹھا لی کہ جب صور اسرافیل پھونکا جائے گا اور سب مر جایئں گئے وہ روزانہ اسی امید پہ جاگتا کہ آج ضرور وہ صور پھونکا جائے گا وہ دن بھر مزدوری کرتا اور شام کو مایوس ھو کر اپنے بستر پہ گر جاتا ۔
اس کے بھائی بھی اب بڑے ھوگئے تھےاور وہ بھی اسی بھٹے پہ مزدوری پہ لگ گئے لیکن برے لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے غلط کاموں میں لگ گئے شراب کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے جرائم بھی کرنے لگ گئےاور گھر آنا چھوڑ دیا ۔
یوں وہ اس کٹیا میں اکیلا رہ گیا وہ بوڑھا ھو چکا تھا اب مزدوری کا کام مشکل لگنے لگا یوں کام میں وقفہ آتا گیا اور ایک دن بستر پہ پڑے پڑے اللہ کو پیارا ھو گیا ۔

اس نے شہر کی طرف دوبارہ دیکھا اور فورا شہر کے مخالف سمت میں دوڑنا شروع کر دیا وہ ساری رات دوڑتا رھا صبع کے وقت اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ شہر کے ایک کونے پہ کھڑا تھا اس نے محسوس کر لیا کہ وہ شہر سے باھر نہیں جا سکے گا ۔ غصے اور جھنجھلاہٹ میں اس نے شہر جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ پورے شہر میں ھو کا عالم تھا وہ حیران ھوا کہ سب لوگ کہاں چلے گئے ، چلتے چلتے وہ شہر کے وسط میں پہنچ گیا وہاں بہت سے لوگ جمع تھے بالکل اس جیسے ایک آنکھ اور ایک کان والے لوگ سب نے اپنے بڑے بڑے کانوں پہ بھونپو لگایا ھوا تھا وہ سب کسی مخصوص آواز کو سننے کو بے چین تھے ان کی زردی مائل آنکھوں میں انتظار کی چمک دیکھی جا سکتی تھی اور وہ سب بہت پر امید تھے جیسے کسی بھی لمحے کسی خوشخبری کا اعلان ھونے ولا ھو سب خاموشی سے بھونپو پہ کان لگائے بیٹھے تھے وہیں پہ کچھ بھونپو والوں کی لاشیں بھی پڑی تھی اور ان کے بھونپو ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے اس نے ایک بھونپو اٹھایا اور اسے کان کے ساتھ لگایا اور خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ گیا۔

Published inافسانچہعنایت علی خان

Be First to Comment

Leave a Reply