Skip to content

بوجھ

عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 108
بوجھ
عشرت معین سیما، برلن، جرمنی

میری پیدائش میرے والدین کی زندگی میں بڑھتی ہوئی فکر و ذمہ داری کی ایک اور کھڑکی کھول گئی تھی۔ جہاں سے آنے والے تازہ ہوا کے جھونکوں میں لپٹے کچھ مستقبل کے خدشات نے اسے مذید بوجھل بنا دیا تھا۔ میرے باپ کے جھکے کندھوں میں اور جھکاؤ آگیا تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ ایک ہلکی پھلکی پھول سی بچی باپ کے کندھوں پر اتنا بڑا بوجھ ہوتی ہے کہ اُسکی ماں اُس کی پیدائش سے ہی زر اور اشیاء جوڑ جوڑ کر اس بوجھ کو اُتارنے کی قیمت کا انتظام شروع کر دیتی ہے۔ بہنوں میں میرا نمبر پانچواں تھا۔ میری پیدائش کے بعد گھر میں نئے مہمان کی آمد کی تیاریاں یک بہ یک رُک کر ایک سوگ کا سا ماحول بنا گئی تھیں۔مجھ سے بڑی بہنوں کی آنکھوں میں بھائی کو گود میں اُٹھانے کا ارمان دبی دبی سرگوشیوں میں نوحے پڑھ رہا تھا ۔ میری ماں بستر پر اپنی تمام تھکن سمیٹے مجھ سے منہ موڑے لیٹی تھی، اُسکے نمکین آنسو تکیے کا ایک کونا بھگوئے جارہے تھے اور میرا باپ میری پیدائش کی خبر سنکر پرُ شکوہ نگاہیں آسمان کی جانب اُٹھائے نہ جانے کیا تکا جارہا تھا اور میں بستر کی شکنوں پہ پاؤں مارتی ہوئی حلق پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی تھی رو رو کر صفائی دے رہی تھی کہ میں اپنی مرضی سے لڑکی بن کر اس دنیا میں نہیں آئی ہوں،یہ میرا فیصلہ تو نہیں تھا مگر یہ فیصلہ تو میرے باپ کا بھی نہیں تھا کہ ایک اور صنفِ نازک کو اس گھر کی قلیل آمدنی میں روٹی ،کپڑے اور دیگر اخراجات کا حصہ دار بنایا جائے۔ یہ فیصلہ تو قدرت کا تھا ۔۔۔اُس قدرت کا جس نے گزشتہ ماہ عارف چچا کے گھر پانچواں بیٹا بغیر کسی دعا اور منت کے بھیج دیا تھا ۔جس کی پیدائش کی خوشی میں ابکی بار انہوں نے لڈو بھی نہیں بانٹے تھے ، جس کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد میری منحنی سی چچی پانچ مردوں کا کھانا تیا کرنے باورچی خانے میں جاگھسی تھیں اور بعد میں اپنے جسم سے بچی کھچی توانائی دنیا میں آنے والے ننھے منے نازک وجود کے حلق میں اُنڈیل رہی تھیں۔
میں اور فہد دو گھروں کے ایک مشترکہ آنگن میں پل کر بڑے ہوئے تھے۔ عارف چچا اور میرے ابا آصف خان کے اکلوتے سگے بھائی تھے۔وہ ایک ساتھ پل کر بڑے ہوئے تھے اور ایک ہی دن اتفاقاََ شادیاں بھی رچائیں تھیں ۔ دادا ابا نے اپنے مکان کو بھی اس طرح تعمیر کروایا تھا کہ بعد میں دو خاندان ایک ساتھ الگ الگ گھروں میں رہ سکیں اور ان دونوں گھروں کے درمیان بس ایک بڑا سا سانجھا آنگن اور آم کا درخت تھا ۔ سوائے ان دو چیزوں کے اماں کسی اور چیز میں سانجھے داری ک لیے تیار ہی نہ ہوتیں تھیں اگرچہ چچی نے بہت چاہا کہ ہم بہنیں اُن کے گھر بے دھڑک آیا جایا کریں ،اُن کی گھریلو ذمہداریوں میں ہاتھ بٹایا کریں مگر میری اماں سوائے ہمارے چچا کے اس گھر میں سب کو نا محرم گردانتی تھیں۔ کسی بھی کزن کے سامنے سر کھلا دیکھ لیتیں تو ایک طوفان کھڑا کر دیتیں۔ میرے سارے چچا ذاد بھائی بہت اچھے تھے۔ ہمیں اپنی سگی بہنوں کی طرح چاہتے تھے مگر اماں۔۔۔۔مگر اماں اُن کو اپنی کوکھ سے جنم نہ دینے کی سزا دیتے ہوئے اتنے پیارے رشتوں اور تعلقات کو حسد کی آگ سے جھلساتی رہتی تھیں۔ چچا کے سارے بیٹے بہت لائق تھے اماں اکثر ابا کے کانوں میں کھسر پھسر کرکے اپنی ناخواندہ بیٹیوں کو اُن کی قابلیت اور علمیت کے کھونٹے سے باندھنا چاہتی تھیں مگر ابا عارف چچا سے رشتہ مانگنے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ اکثر اماں کی یہ کھسر پھسر تیز آواز میں تبدیل ہوکر جھگڑوں میں بدل جاتی تھی اور ان کی ساری سرگوشیوں کو جھگڑے میں بدلتا دیکھ کر ہم بہنیں پریشان ہو جایا کرتیں تھیں اور ساتھ ساتھ شرمندہ اور فکر مند بھی ہوتیں کہ اگر یہ آوازیں بلند ہوکر چچا کے گھر تک پہنچ گئیں تو کیا ہوگا ؟
عارف چچا ابا کی طرح نرم دل ہرگز نہ تھے ۔اپنے لڑکوں کی پڑھائی سے لیکر اُن کے ملنے جلنے والے تمام لوگوں اور دوستوں پہ کڑی نگاہ رکھتے تھے۔اُن کی وقتاََ فوقتاََ بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر کبھی کبھی فہد اپنا بستہ سنبھالے ہمارے گھر آجایا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ پرائمری اسکول میں تھا۔مجھے اس کی کتابوں اور کاپیوں پہ کور چڑھانا اور رنگین پینسلوں سے نام لکھنے کا اچھا بہانہ مل جاتا تھا۔
سعید بھائیجان اس وقت وکیل بن رہے تھے۔ نوید بھائیجا ن نے یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس میں داخلہ لے رکھا تھا۔ رشید بھائی میڈیکل کالج میں داخلہ کے لئے دن رات محنت کر رہے تھے اور سب سے بڑے حمید بھائجان پڑھائی ختم کرکے اپنی جاب کے لئے دوبئی کے ویزے کے انتظار میں ڈاکیہ کی راہیں تکتے رہتے تھے۔
اماں کو اپنی بیٹیوں کی نکلتی عمرکی پرچھائیاں کسی آسیب کی طرح چمٹی ہوئی تھیں ۔ ان کی امیدیں اس وقت ٹوٹنے لگتیں جب رشتے لگانے والی برکت خالہ محلے کے بیکار نوجوانوں ، رنڈؤں اور دوسری شادی کے امیدواروں کے رشتے ان کے سامنے رکھتیں وہ تو ابا ہی تھے جو کسی نہ کسی طرح یہ رشتے ٹال کر اُن کو دن رات وظیفوں اور دعاؤں مشغول کر دیا کرتے تھے مگر اسکے ساتھ ساتھ اُن کی بھی نگاہیں چچا کے گھر کے دروازے پہ جمی رہتی تھیں۔ مگر دعائیں اُمیدیں کچھ بھی کام نہ آئیں ، چچا اور چچی نے ان سوالی نگاہوں کو گھاس تک نہ ڈالی۔ ایک روز اچانک نہ جانے کیسے شہناز آپا کو بہت تیز بخار آگیا محلے کا نوجوان ڈاکٹر اماں کی نظروں میں اس بخار سے زیادہ تیز تھا ۔ بیچاری گھریلو دوا ؤں اور نسخوں سے اپنی انجانی بیماری کا مقابلہ نہ کر پائیں چند ہفتوں میں اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔ آپا کی بے وقت موت میرے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھی میری دوسری بہنیں بھی میرے ساتھ آپا کو یاد کر کے چپکے چپکے رویا کرتی تھیں مگر میرے ابا اور اماں کچھ دنوں سوگ منا کر اللہ کے حضور شکرانے پڑھنے میں مصروف ہوگئے کہ ایک بیٹی تو پار لگی اماں ویسے بھی کہا کرتی تھیں کہ یوں بھی کنواری بیٹی کی موت ماں باپ کے لئے جنت کا راستہ آسان کرتی ہے۔ممتاز آپا نے عمر کی پچیس منزلیں پار کیں تو ایک جاننے والے گھرانے سے ایک بڑھئی کا رشتہ آگیا اگرچہ لڑکے کی عمر اب لڑکا کہلوانے کی حدود سے گزر چکی تھی مگر پھر بھی ابا اور چچا نے فوراََ رشتہ منظور کر کے منجھلی آپا کو سرخ جوڑے میں جلتے ارمانوں کے ساتھ اس بڑھئی کے حوالے کر دیا گیا جو دن رات لکڑیوں کا سامان تیار کرتا اور بچی کھچی لکڑیاں آپا کی کمر پر توڑتا۔ انتہائی شکی مزاج اور جاہل آدمی تھے میرے دولھا بھائی مگر اماں کہتی تھیں کہ یہ آپا کی قسمت ہے اور قسمت تو اوپر والا لکھتا ہے۔
مہناز آپا نے جب دوبڑی بہنوں کا یہ حال دیکھا تو پچھلی گلی میں رہنے والے ایک خوش پوش اور نہایت عاشق مزاج پرائمری اسکول کے ماسٹر صاحب سے پینگیں بڑھانے لگیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ ماسٹر صاحب شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کے باپ بھی ہیں ۔ مہناز آپا سارا دن گھر پہ رہتی تھیں مجھے نہیں معلوم کہ اسکول کے ماسٹر صاحب سے کب ،کہاں اور کیسے جان پہچان اورملاقات ہوئی اور اِن ملاقاتوں کے سلسلے اتنے بڑھے کہ وہ ایک دن اماں ابا کی صلواتوں کے ساتھ وہ ماسٹر صاحب کی دوسری بیوی بن کر اسکول سے ملحقہ ایک ایک کمرے کے فلیٹ میں منتقل ہوگئیں اور ساری عمر کے لئے ہم سب سے رابطہ ختم کر لیا۔ اب گھر میں میں اور دلنواز آپا ابا کی چوکیداری کے اوقات بڑھانے کے لئے اور اماں کے طنز و طعنے سننے کے لئے بچ گئے تھے۔
ایک دن اچانک عارف چچا اور چچی کو جیسے کچھ ہوش آیا اور تین دن کے اندر اندر اچانک وہ دوبئی والے حمید بھائیجان کے لیے دلنواز آپا کو عزت اور ڈھیروں جہیز کے ساتھ آنگن پار کروا کر اپنے گھر بیاہ لائے ۔ نہ کوئی ڈھول بجے نہ بارات کا ہنگامہ ہوا ۔ اتنی جلدی شادی کرنے کا سبب بعد میں مجھ پہ عیاں ہوا کہ چچی شدید بیمار تھیں ، ڈاکٹر نے اور گھر والوں نے ان کو کام کاج کے قابل نہ ہونے کا سرٹیفکٹ دے کر بستر پہ رہنے کا مشورہ دے دیا تھا او ر ظاہر سی بات ہے اس صورتحال میں گھر پہ پانچ چھ مردوں کی تواضع اور گھر سنبھالنے کے لئے ایک فوری طور پر خادمہ درکار تھی۔ بحر حال ! کچھ ہو نہ ہو مگر اماں اور ابا کی تو برسوں کی دعائیں اور خواہشیں رنگ لے آئی تھیں۔
دلنواز آپا کے جانے کے بعد سے گھر کی فضا کچھ تو بدلی تو میں نے بھی سکون سے دسویں کلاس کا امتحان دیا ۔رزلٹ آنے تک اماں کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بھی کافی حد تک سنبھالنے میں مدد کرتی رہی۔ جب دسوئیں جماعت کے امتحانوں کا میرا بہترین نتیجہ نکلا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔میں نے ابا سے کالج جانے کی ضد کی تو وہ بھی مان گئے مگر اماں مجھے بھی جلد سے جلد کسی کے حوالے کر کے اپنی جائے نماز کے بچھنے کے اوقات اور دسترخوان پہ دال سبزی سے بڑھا کر کچھاور لوازمات میں اضافہ کرنا چاہتی تھیں۔مگر شاید پہلی بار ابا کی بات مان گئیں اور مجھے کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ میں نے کالج میں داخلہ لیتے ہی محلے کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا اور بہت جلد ٹیوشن پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ ٹیوشن سے آنے والی رقم نے ابا کے کندھوں سے بوجھ کو زرا کم کر دیا تھا تبھی ان کی چال میں زرا بہتر فرق سب کو محسوس ہونے لگا تھا۔ میری کالج کی فیس کی ذمہ داری بھی اب اُن کے کندھوں پہ نہیں تھی رفتہ رفتہ گھر میں آنے والی اس اضافی آمدنی نے اماں کا مزاج بھی بدلنا شروع کر دیا تھا ۔ اب وہ اپنے خالی صندوق میں جہیز کے نام پر جمع پونجی کو کم کم ہی گننے لگی تھیں۔ رشتہ والی خالہ برکت کی آمد کے لئے بھی بے چینیاں ختم ہو گئیں تھیں۔ میرے کالج جانے سے مجھے اپنے آپ میں ایک طرح کا اعتماد محسوس ہونے لگا تھا۔ تعلیم کے حصول کے لئے میری ادنیٰ سی کوشش نے قسمت کے نئے در کھول دئیے تھے ۔ میں جو اب تک خود کو اپنی بہنوں سمیت اپنے والدین کے لئے فکرِ والدین محسوس کرتی تھی اب خود کو فخرِ والدین سمجھنے لگی تھی ۔گھر کا گھٹا ہوا ماحول مجھے صاف تبدیل ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔ قدرت مجھ پر مہربان ہی تو تھی تبھی تو آج کالج سے گھر واپسی پہ اماں نے مجھے خود بتایا کہ رشتے لگانے والی برکت خالہ خود پڑوس کے بیکری والے کا رشتہ لائی تھی مگر اُس کو انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ابھی گلناز پڑھ رہی ہے ابھی ہمارا شادی کا کوئی ارادہ نہیں اور یوں بھی پڑھ لکھ کر کچھ کام کاج کرئے کچھ پیسہ جوڑے تو ہی شادی کرونگی دھوم دھام سے۔۔کسی پڑھے لکھے سے ۔۔۔کسی نیک شریف خاندانی کماؤ پوت سے۔۔۔۔آخر بیٹی ہے ہماری اور ہم پریہ کوئی بوجھ تو نہیں ہے نا

Published inعالمی افسانہ فورمعشرت معین سیما

Be First to Comment

Leave a Reply