عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر134
بس سٹاپ
علی زیرک- شارجہ /متحدہ عرب امارات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس وقت میں بس سٹاپ پر کھڑا شہر جانے والی پہلی اور آخری بس کا انتظار کر رہا ہوں اور میرے ارد گرد ایک جمِ غفیر، امڈ چکا ہے۔ پوہ کااخیر چل رہا ہے اور کالی پیلی کھیسیوں میں لپٹے ادھ مرے اور کانگڑی مزدور بار بار سڑک کے کنارے منہ سے ٹھنڈے ٹھار دھوئیں کے بھبھوکے اُڑاتے گردن نکال کر مشرق کی طرف دیکھ رہے ہیں جدھر سے بس آنے کی توقع ہے اور جدھر دھندلکے نے افق سے پھسل کر پہلی انگڑائی لی ہے۔
سامنے ٹاٹ کے پردوں والا ایک چائے کا کھوکھا ہے جس میں کچھ بوڑھی خواہشیں اکڑوں بیٹھ انگیٹھی پر آگ تاپ رہی ہیں اور کیتلی سے اُٹھنے والی بھاپ ہے جو بس سٹاپ پر کھڑے ہر مزدور کو حرارت مہیا کر رہی ہے۔سُورج نے آسمان کی چادر پر اُجلی کرنیں ٹانکنا شروع کردی ہیں لیکن دُھند کے بڑے بڑے بادل سورج کو مات دینے میں جُتےہوئے ہیں۔کچھ مزدوروں کے ہاتھوں میں پچھلی عمروں کا بچا کھچاامکان ہے اور کچھ کی سفید پڑتی آنکھوں میں اگلے پڑاوء کی تھکن تیر رہی ہے۔
سب مزدوروں کا موسم کی شدت اور بس کے وقت پر نہ پہنچنے پر اتفاق ہوچکا ہے اس لیے میں چُپ چاپ چائے کے کھوکھے کی طرف بڑھ رہا ہوں تاکہ سینے میں رینگتی سرد سرسراہٹ کو قابو کرسکوں ۔ دو تین چسکیوں کے بعد مجھے قدرے راحت محسوس ہورہی ہے ،سگریٹ اور حقے کے دھوئیں کا ملاپ تمدن کے دو ادوار کو ہوا میں نقش کرچکا ہے اور ایک مٹکتی آنکھوں والا دڑیل پہلوان، سُلطان راہی کے گیٹ اپ میں ایک کونے میں دبکا پڑا ہے۔ریڈیو پر حی علی الفلاح کا پروگرام چل رہا ہے اور میرے پہلو میں رہ رہ کر بس پر سوار نہ ہونے کا دھڑکا چٹکیاں کاٹ رہا ہے۔
“وڈےدن دی چھٹی اے بھراوا۔۔۔۔ایس لئی بس نوں کویل ہوگئی اے۔”
میرے استفسار پر چائے والے نے مجھے ایک اہم خبر سے آگاہ کیا ہے جس سے میں یکسر نابلد تھا۔ اور اب جا کر میری جان کو تسلی ہوئی ہےکہ بس آنے میں دیری کا سبب تہوار ہے نا کہ موسم کی شدت۔۔۔
شفاف پولی تھین میں سوراخ کر کے چائے کو سُڑکنے والے مزدور بس سٹاپ سے ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہونا چاہ رہے کیوں کہ وہ جان چکے ہیں کہ بس کے رکنے اور اس پر سوار ہونے اور دوبارہ چلنے میں محض چند لمحوں کا دورانیہ ہے اور اس دورانیے میں سو سوا سو کی بھیڑ نے ادھم بھی مچانی ہے سو بہتر ہے کہ اپنی جگہ پر ڈٹے رہو اور ہر دوسرے تیسرے لمحےمشرق کی طرف گردن نکال کر جھانکتے رہو/
اب میں چائے کے کھوکھے کے اُس طرف بانسوں کے گھنے جنگل کی طرف دیکھ رہا ہوں بانسوں کے جنگل سے بھورےرنگ کے عجیب النسل کوے نمودار ہورہے ہیں اورمیرے پاس بان کی کھاٹ پر دمے سے بے حال ایک سفید کھال والے کے سینے کی بانسری سے سُر پھوٹ رہے ہیں۔بھیرو راگ مجھے حفظ ہے اور صبح کے وقت جب کوئی میرے سامنے کھانسنا شروع کرے تو میں ۔۔۔دھا۔ما۔۔رے ۔۔گا ماپا۔۔۔کی کٹار سے اپنا نرخرہ چیرنا شروع کردیتا ہوں۔۔۔لیکن آج اس سفید کھال والے کو دیکھ میرے حلق کا کوا تالو سے چپک رہا ہے ۔۔۔
گھنٹے بھر کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد سُورج کی ٹکیا کے بالکل نیچے ایک شرابی کی طرح ڈولتی لڑکھڑاتی بس دکھائی دے رہی ہے جس کی جلتی بجھتی بتیوں کے ساتھ منتظر نگاہیں دوڑ کر چمٹ گئی ہیں۔
آگئی۔۔۔۔پُکار اور شور میں فرق کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں چائے کے کھوکھے پر بیٹھا بانسوں کے گھنے جنگل میں کہیں کھوگیا ہوں بس کا آخری ہارن سُن کر چائے والےنے میرے کندھے جھنجھوڑ کر مجھے بس کے کوچ کی اطلاع دی ہے ۔دھند چھٹ چکی ہے اور میں بھورے رنگ کے کووں کے ساتھ گوڑھے اور چٹے کھمبور آسمان میں سورج پر سوار ہوکہیں دورنکلنے کے لیے تیار ہوچکا ہوں۔۔۔۔
بس شہر کی طرف رواں دواں ہے ۔۔۔۔سو سوا سو ادھ مرے مزدوروں کے ناکردہ گناہوں کا بوجھ ڈھوتی ہوئی ۔۔۔۔شرابی کی طرح ڈولتی لڑکھڑاتی ہوئی بس۔
Urdu short stories and writers