عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ .. 34
بسیار رنگی ”
قُربِ عبّاس ، لاہور
*************
” تم بالکل بدھو ہو!
میں کب سے تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ میری دوست نادیہ میرے ساتھ پہلی جماعت سے لے کر چھٹی جماعت تک رہی، پھر اس کی امی کا انتقال ہوگیا تو وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گاؤں بھیج دی گئی تھی۔ اس کے بعد شائستہ میری دوست تھی جو چھٹی میں ہی دوست بنی تھی اور پھر آٹھویں جماعت میں بجلی لگنے سے مر گئی۔ سونیا ان سب کے بعد کی دوست تھی۔ اب سمجھے؟”
“اچھا تو یہ جو سونیا تھی، خدا کی قسم بہت خوبصورت تھی، اس کی آنکھیں۔۔۔ آہ۔۔۔ تم بھی دیکھ لیتے تو مر مٹ جاتے۔ اصل میں میری دوستی اس سے صورت کی وجہ سے ہوئی تھی، جب ملی تو پتہ چلا کہ وہ اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ تھوڑی سی مغرور تھی، ضدی بھی تھی۔۔۔ حسین لوگوں کا تھوڑا اڑیل ہونا کوئی حیرت کی بات تو نہیں ہے۔ بہت عرصہ تو میں اس کو دیکھتی رہی اور اس سوچ میں رہی کہ کب کوئی موقعہ ملے تو میں اس کے آگے دوستی کا سوال رکھوں۔۔۔ خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی ہوتی گئی، بہت گہری دوستی۔۔۔ ”
“تمہیں پتہ ہے اگر گھر والے کسی شادی بیاہ پر جاتے تھے تو میں پڑھائی کا بہانہ بنا کر نہیں جاتی تھی اور کہہ دیتی کہ مجھے سونیا کے گھر چھوڑ جائیں، سونیا کے امی ابو بھی بہت اچھے تھے، میں جتنے بھی دن رکوں بہت محبت سے اور خلوص سے دیکھ بھال کرتے تھے۔ سونیا کا الگ کمرہ تھا اور میرے لیے یہی بہت اچنبھا تھا، ہم تو سب بہن بھائی ایک دڑبے میں تان دیے جاتے تھے مگر سونیا کی طرف ایسا نہیں تھا۔ اس کے بھائی کا الگ کمرہ تھا اور سونیا کا الگ۔۔۔ بہت خوبصورت سجایا ہوا تھا اور جب میں چلی جاتی تو ہماری خوب موجیں ہوتیں۔ گھر والے سمجھتے کہ اندر پڑھائی ہو رہی ہے اور ہم لوگ۔۔۔ بس۔۔۔ پوچھو مت۔۔۔ وہ میری زندگی کے سب سے بہترین سال تھے جو ہم نے ساتھ گزارے۔۔۔”
“پھر۔۔۔ پھر کیا ہونا تھا، پھر بس سونیا کو ایک لڑکے نے پسند کر لیا، مرتے تو اس پر بہت تھے لیکن وہ من جلا سونیا کو بھی پسند آگیا، مجھے تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا، محبت تو دونوں جانب ہی ہو تو خوبصورت لگتی ہے ناں؟ ایسے کوئی اپنی زندگی سماج کی رسموں پر قربان کردینے پر کس طرح مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔ اور پھر محبت کی اداکاری بھی تو بہت مشکل ہے، کب تک کی جاسکتی ہے؟ عجیب دستور ہے۔۔۔ ”
“خیر سونیا نے اس سے شادی کر لی اور دوسرے شہر جا کر رہنے لگی، کم ہوتے ہوتے ہمارا رابطہ ختم ہی ہوگیا۔۔۔ پہلے ہی سال اس کے ہاں بچہ ہوا اور پھر تو وہ بالکل ہی بے وفا ہوگئی۔۔۔ ہم نے بھی ایک ٹھنڈی سی آہ بھری اور اپنی زندگی بنانے کی سوچنے لگے۔۔۔ زندگی نامراد کہاں رکتی ہے؟”
“تمہیں پتہ ہے؟ جب جب سونیا مجھ سے خفا ہو جاتی تو میری سانسیں رک جاتی تھیں، مجھے رات رات بھر نیند نہ آتی تھی، اِدھر کروٹ اُدھر کروٹ، نہ ہی دن کو چین ہوتا اور میرے گھر والوں کو بھی فوراً خبر ہو جاتی تھی کہ میرا جو کسی کام میں جی نہیں لگ رہا، چڑ چڑ کر بات کر رہی ہوں ضرور سونیا سے بگڑی ہوئی ہے۔۔۔ امی تو کہہ دیا کرتیں کہ ہاں جی؟ اب کیا ہوگیا؟ سونیا سے لڑائی ہوگئی؟”
“اور میرے آنسو ٹپ ٹپ کرنے لگتے، امی ساتھ لگا لیتیں، کہتیں پاگل ہو تم لڑکیاں بھی۔۔۔ کل کو تم اپنے اپنے گھروں کی ہو جاؤ گی بتاؤ تب کیا کرو گی؟
مجھے امی کی بات کاٹ جاتی اور میں ان سے لپٹ کر اور زیادہ رونے لگتی، وہ پھر سونیا کو فون کرتیں، بتاتیں کہ میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا ہے، اس کو سمجھاتیں، پھر ریسور مجھے پکڑاتیں تو میری بس ہچکیاں ہی وہ سن پاتی! اُدھر سے سونیا کی بھی بجھی بجھی آواز سنائی دیتی۔۔۔ اور پھر میں اسی شام اس کے گھر جاتی، پھر ہم مل کر اس کے کمرے میں خوب روتیں، ایک دوسرے کے گلے لگ کر۔۔۔ سونیا مجھے جھوٹے تھپڑ مارتی میں اسے نقلی گھونسے مارتی۔۔۔ ہم دونوں پھر روتے روتے ہنس دیتے۔”
“آہ! تب کیسا وقت تھا۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے بنا نہ جی پائیں گے۔۔۔ لیکن جب بچھڑ گئے تو ایسے بچھڑے کہ بس باتیں ہی یاد رہ گئیں، شکلیں بھول گئے۔۔۔ قہقہوں کی آوازیں اب بھی کبھی کبھار کانوں میں گونجتی ہیں، مگر ہنستے چہرے ذہن کے صفحے سے مٹ گئے ہیں۔۔۔ وہ مسکراتے ہونٹ اب بھی یاد ہیں، کھِلی کھِلی چمکتی آنکھیں یاد ہیں لیکن ساری تصویر تصور میں مکمل نہیں ہو پاتی۔”
“انسان بھی کتنا عجیب ہے ناں؟ جن سے اتنی محبت کرتا ہے ان کے بغیر جینے کا سوچ کر بھی گھبرا جاتا ہے اس کو یوں لگتا ہے کہ اگر ایک لمحے کے لیے بھی جدا ہوا تو نہ جی پائے گا۔۔۔ پھر جب جدائی آتی ہے تو کچھ عرصہ روتا ہے، ہجر مناتا ہے، سلگتا ہے اور آہستہ آہستہ واپس اپنی روٹین پر آجاتا ہے۔۔۔ یہ زندگی ، یہ وقت ٹھہرنا نہیں جانتے، کوئی ٹھہر جائے تو یہ دونوں اس کو چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتے ہیں! ”
“سونیا کی جگہ ایک ایسا خلاء تھا جس کو کوئی بھی پُر نہیں کر سکتا تھا، میں یونیورسٹی میں گئی تو میں نے اس مرتبہ کسی کو دوست نہیں بنایا، میں واحد لڑکی تھی جس کی کوئی سہیلی نہ تھی، سب سے بس مطلب کی بات کرتی تھی اور اول تو کوشش کرتی کہ مجھے کسی سے کام ہی نہ پڑے۔۔۔”
” یہ صائمہ میرے پیچھے پیچھے، بہت ہی لیس ہوتی تھی، جہاں دیکھ لیا وہاں آکر باتیں شروع، کلرز شیڈز۔۔۔ سینٹ، سینڈل، شرغ۔۔۔ ایک دن میں یونیورسٹی آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے پچھلے لان میں بیٹھی تھی جہاں کوئی نہ آتا تھا، نجانے کیسے مجھے ڈھونڈتی ڈھونڈتی پہنچ گئی۔۔۔ وہی ادھر ادھر کی باتیں۔۔۔ میں نے کہا بھئی کیا چاہتی ہو مجھ سے سیدھا بتاؤ؟ پہلے تو اس نے کچھ پل رک کر مجھے گہری نگاہ سے دیکھا اور پھر سر جھکا لیا!
میں بھی کچھ دیر خاموش ہی رہی۔۔۔ پھر وہ بولی کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو، دوستی کرو گی؟”
“جاوید میاں! دوستی کی حد تک تو ٹھیک تھا مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں دوستی میں کچھ ایسی گہری پھنستی ہوں کہ اس دوستی میں محبت دلدل سی بن جاتی ہے جس میں ‘میں دھنستی جاتی ہوں، دھنستی جاتی ہوں۔۔۔ بہت روکا میں نے کہ بس دل نہ لگاؤں۔۔۔ کیا کروں لگ گیا۔۔۔ صائمہ کی معصوم محبت مجھے کھا گئی، میں خود کو اس سے آزاد نہ کروا پائی، پہلے مجھے چھوڑ کر جاتے تھے اور اب۔۔۔ تم بیاہ کر مجھے لے آئے ہو۔۔۔ اس کا بہت برا حال ہے۔۔۔ ”
“آہ۔۔۔ کہاں سے کہاں نکل گئی میں بھی۔۔۔ تم ان باتوں کو کہاں سمجھو گے۔ یہ تو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے محبت کو پالا ہو، سنبھال سنبھال کر رکھا ہو، جس کی کُل دنیا ہی محبت ہو۔۔۔ اس دنیا میں محبت کے اپنے اپنے ڈھنگ ہیں، اپنے اپنے رنگ ہیں۔۔۔ کسی کو سمجھانے لگو تو سمجھے نہ، وہی مانے جو اسے پڑھا دیا گیا ہے۔”
“چھوڑو جی۔۔۔ کیا بتاؤں ان رنگوں کا؟ کیا کروں گے جان کر؟ تم نے بھی تو وہی پڑھ رکھے ہیں۔۔۔ جو زمانے نے پڑھائے۔۔۔”
“اچھا بھئی۔۔۔ چلو سنو پھر اب پیچھے ہی جو پڑ گئے ہو تو سن لو!
میری نظر میں محبت۔۔۔ پھول جیسی ہے۔۔۔ جیسے گلاب، چنپا، گیندا، چمبیلی، رات کی رانی، دن کا راجہ۔۔۔ سب الگ الگ ہیں، اپنی اپنی خوشبو رکھتے ہیں، اپنے اپنے رنگ رکھتے ہیں۔۔۔ مگر کہلاتے پھول ہی ہیں۔ سو محبت بھی اسی طرح کئی قسم کی ہوتی ہے، کئی رنگ کی ہوتی ہے۔۔۔یہ تو سات رنگی نہیں، ہزار رنگی ہے، بسیار رنگی ہے۔۔۔ کئی ایسے رنگ بھی ہیں جن کے ہم ناموں سے ہی واقف نہیں۔۔۔ ماں، باپ، بہن بھائی، دوست، محبوب۔۔۔ نجانے کیا کیا ہے کہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ اور پھر جس طرح ہر پھول کی ایک خاص خوشبو ہے اسی طرح ان بندھنوں کے اظہار کا الگ سلیقہ ہے، کوئی ماں باپ سے کیسے ملتا ہے، بہن بھائیوں سے کیسے، دوست سے کیسے، محبوب سے کیسے۔۔۔ بس یہی ہے۔”
“یہ تو ہماری بد نصیبی ہے ناں۔۔۔ کہ کبھی کبھار رات کی رانی اگر چنبیلی جیسی خوشبو دینے لگے تو لوگ اس کو حیرت سے دیکھیں گے، ان کے لیے ایک دلچسپ بات ہوگی، اس رات کی رانی کو ہر کوئی اپنے آنگن میں لگانا چاہے گا۔۔۔ لیکن رشتوں میں پہلے سے طے کیے گئے چند ایک رنگوں میں سے ذرا سا بھی فرق ہوا تو قیامت بپا ہو جائے گی۔۔۔ کوئی قبول نہیں کرے گا۔۔۔ چاہیں گے کہ اکھاڑ کر سماج سے باہر پھینک دیں۔۔۔
سہیلی محبوبہ بھی تو ہوسکتی ہے ناں؟”
“تم نے پوچھا تھا ناں کہ میں شادی کے بعد یوں اداس کس لیے ہوں؟
یہی وجہ ہے۔۔۔ مجھ سے بہت ساری محبتیں چھین لی گئی ہیں اور اب تم مجھے کسی سے چھین لائے ہو۔۔۔تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تم اچھے ہو، پیار کرنے والے ہو، خیال رکھتے ہو، میری سب خواہشیں پوری کرتے ہو، تم جیسا شاید ہی مجھے کوئی مل پاتا! لیکن میں تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں؟ ایک پھول بغیر خوشبو کے، بغیر رنگ کے، کب تک آنگن میں رہے گا اور کیوں رہے گا؟ ”
“بس اسی لیے تم سے کہہ رہی ہوں کہ تم جیسے مجھے بیاہ کر لائے ہو، صائمہ کو بھی لے آؤ، تم تو ایسا کر ہی سکتے ہو ناں۔۔۔؟ ”
” زمانے کو بھی ان پھولوں کی خوشبو الگ محسوس نہ ہوگی اور ہم بھی نہ مرجھائیں۔۔۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟“
Urdu short stories and writers