عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر : 51
بریکنگ نیوز
عماؔر نعیمی
“بریکنگ نیوز ! پاکستان کا نمبر 1 چینل آپ تک سب سے پہلے یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ ساہیوال شہر میں بس اڈے کے قریب بم دھماکہ ہوا ہے۔ جس میں بیس لوگ شہید اور ساٹھ سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔”
حیدر کی بیوی نے پریشانی کے عالم میں اس سے سوال کیا۔”حیدر سن رہے ہو ؟ ابھی ابھی دھماکہ ہوا ہے۔”
ان کی پاکیزہ مَحبت کو شادی میں بدلے چار سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ حیدر یوں تو پیشے کے اعتبار سے ایک فارماسسٹ تھا۔ لیکن اسے ادب سے دل و جان کی حد تک محبت تھی۔ وہ خود بھی باوزن اشعار لکھتا تھا۔ جسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر دوستوں کے ساتھ اشتراک کرتا اور خوب داد سمیٹتا تھا ۔ اس کی بیوی مُبین ؛ اسے فیس ُبک گروپ ہی میں ملی تھی۔ جو اس کی شاعری پر مَر مِٹی اور بالآخر ایک دن وہ دونوں شادی کے جوڑے میں بندھ گئے۔ دونوں بڑی اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ نوک جوک تو ہوتی تھی لیکن وہ کس رشتے میں نہیں ہوتی۔ دونوں میں محبت تو تھی ہی لیکن سب سے بڑی بات وہ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔مَحبت کرنے والوں سے تو یہ دنیا بھری پڑی ہے ، لیکن سمجھنے والوں کا یہاں بحران ہے۔ شادی کے چار سال گزر جانے کے باوجود مبین کی محبت میں کمی نہ آئی تھی۔ شادی کے ابتدائی ایام میں جس طرح وہ صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کیا کرتی تھی، اسی طرح آج بھی وہ ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن پہ مارننگ شو دیکھ رہی تھی کہ ایک دم تہلکہ خیز خبر نے ہِلا کر رکھ دیا۔ جس پر وہ دم بخود ہو کر رہ گئی۔ حیدر شیشے کے سامنے کھڑا بال کنگھی کر رہا تھا۔ کہ اس نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔
” تو پھر کیا ہوا ؟ “
“کیا مطلب پھر کیا ہوا ؟ بیس بندے شہید ہوگئے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کیا ہوا ؟”
“تو بم دھماکہ کیا میں نے کِیا ہے ؟ اور یہ کون سی نئی بات ہے ؟ آئے دن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔”
“یعنی کہ تمھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟ ویسے حیدر اتنی بھی کیا بے حِسی ہوئی ؟”
“سوہنے بے حِسی والی کیا بات ہے اس میں ؟ موت کا ایک دن معین ہے۔ سب کو جانا ہے آخر۔۔۔۔۔
موت سے کس کی رشتہ داری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے”
“وااااہ ۔ کہنے کو تم شاعر ہو لیکن اتنا بھی نہیں پتا کہ اصل شعر کیا ہے ؟”
“ہاہاہا۔ جانتا ہوں ،سب جانتا ہوں۔ صرف تمھارے لبوں پہ مسکان لانا چاہ رہا تھا۔” مسلسل بال بنانے کی سعی کرتے ہوئے۔
“یہاں بندے شہید ہو رہے ہیں اور تمھیں ہنسی مذاق سوجھ رہا ہے۔ حد ہے اور بے حد ہے۔” تیوری چڑھا کر
” اچھا بابا ! چپ کر جاؤ ؛ کیا صبح صبح تم بحثنے لگ گئی ہو۔ بندہ کوئی پیار کی باتیں کرتا ہے ،کوئی رومان ۔۔۔۔۔۔ اور تم؟ “
مبین نے اس بات پر ناک چڑھایا لیکن لبوں کو جنبش نہ دی۔ مجازی خدا کے سامنے مزید نہیں بولنا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ اس کی ٹون سمجھ چکی تھی۔
“آپ کا ناشتہ میز پر رکھ دیا ہے”
ناشتہ میز پر رکھا جا رہا تھا ، تب تک حیدر نے بال بنا لیے تھے۔ حیدر مبین کے پاس آیا اور اس کو پیچھے سے لپٹ پڑا۔
“آج صبح صبح اتنا پیار آ رہا ہے۔ خیر تو ہے”. مبین نے پوچھا
“تم ہو ہی اتنی پیاری کہ دن رات کی تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔ ہرنی جیسی آنکھیں، ہلالی ابرو، سرخی مائل برابر ہونٹ ، کشادہ پیشانی اور میرا من پسند زنخداں ۔۔۔۔۔ جی تو چاہتا ہے کہ بس”
“چھوڑیے نا ! آپ لیٹ ہو رہے ہیں”
حیدر نے اس کی تھوڑی چومی اور ناشتہ کرنے کے بعد کام پر روانہ ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر فارمیسی پہنچا تو ” ایل ۔ای ۔ڈی ” پر اسی سانحے کی خبریں دی جا رہی تھیں۔ فارمیسی پر گنتی کے پانچ لڑکے کام کرتے تھے جن میں حیدر بھی شامل تھا۔ مالک کبھی کبھی ہی خبر لینے آتا تھا۔وہ اپنے کاؤنٹر پر جوں ہی پہنچا ، اس کے ساتھی نے اسے کہا :
” اوئے وہ دیکھ ! ساہیوال میں دھماکہ ہوا ہے”
اس کے ساتھی نے انڈے جیسی ابلی آنکھیں نکال کر کہا
” ہاں جانتا ہوں “
” کتنے افسوس کی بات ہے یار”
” کیوں تیرے رشتے دار بھی تھے ان میں ؟ “
” رشتے دار ؟ کیا مطلب یہ تُو کیا کہہ رہا ہے ؟”
” بھائی افسوس تو تب ہی ہوتا ہے نا جب کوئی اپنا مر جائے ، تو تیرا کون مر گیا ہے ؟ “
” میرے افسوس میں اب مزید اضافہ ہوگیا ہے کہ تو ایسا بول رہا ہے۔ ایک شاعر سے یہ امید نہیں تھی مجھے “
” او کیا شاعر شاعر شاعر ؟ گھر میں جاؤ تو شاعر ہونے کے تعنے ؟ سالا شاعر نہ ہوگیا ساری قوم کی والدہ ہوگیا کہ جو کوئی مرے اس کا نوحہ لکھوں۔ اور میں اس وقت ایک پریکٹیکل انسان ہوں۔ مجھے ان چیزوں سے فرق نہیں پڑتا”
” پریکٹیکل انسان ؟ تیری نظر میں پریکٹیکل انسان کیا ہوتا ہے ؟”
” اپنی ذات سے باہر نہ نکلنا ، صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنا، دوسروں کے دکھوں ، تکلیفوں سے لاتعلق ہوجانا یہ ہوتا ہے “
“یعنی بے حس ہوجانا پریکٹیکل ہے۔ تو معاف کرنا میرے دوست میں ایسے انسان کو پریکٹیکل نہیں ، درندہ صفت انسان کہوں گا”
مزید کہا:
” اور یاد رکھ شاعر کے دل میں پوری قوم کا درد ہوتا ہے یا تو پھر خود کو شاعر کہلوانا بند کر”
“تو پھر وہ شاعر اپنا درد لے کر کہاں جائے ؟ کیا وہ انسان نہیں ہے ؟ کیا اسے ٹیس نہیں اٹھتی ؟ اور میں تو بس دل لگی کے لیے شاعری کرتا ہوں”
” سیدھی طرح بول لڑکیوں کی داد و تحسین کی خاطر شعر لکھتا ہے”
اس پر حیدر نے اپنے دانت بھینچ لیے لیکن کچھ نہ بولا
” میرے بھائی حقیقت کو اپنا اور خیالی دنیا سے باہر آ ، کچھ عوام کے لیے کر اگر تاریخ میں زندہ ہونا ہے۔ “
” تو تُو کیوں نہیں یہ کام کر لیتا ؟ “
“جس کا کام اسی کو ساجھے ، تو شاعر ہے میں ایک عام ورکر ہوں ، اپنی صلاحیتوں کو پہچان ۔ مزید میں کچھ نہیں کہوں گا۔” حیدر آسمان کی طرف تکنے لگا اور اس کا ساتھی خبریں دیکھنے میں مگن ہوگیا۔
ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد رات کو حیدر گھر پہنچا۔ بیوی نے استقبال کیا اور اس کے لیے پانی لے کر آئی۔ پانی بھی پی لیا لیکن حیدر نے روزمرہ کی طرح آج گھر داخل ہوتے اسے ماتھے پر بُوسہ نہیں دیا تھا۔ مبین نے خیریت طلب کی جس پر حیدر نے محسوس کیا کہ وہ آج اپنی روٹین سے ہٹ گیا ہے۔ لہذا جلد ہی خود کو سنبھال کر ” حال ” میں آگیا۔
کھانا کھانے کے بعد بستر پر دراز ہوا اور فیس بک پر دوستوں کے آج کے واقعہ پر مذمت بھرے اشعار پڑھنے لگا۔ ایک دوست نے کسی پیج پر لکھے اشعار کا اشتراک کیا ، اس نے پیج پر جا کر اسے لائک کر لیا۔ جوں جوں وہ پیج کو پھرولتا گیا ووں ووں اس کے ماتھے پر بل پڑتے رہے۔درحقیقت وہ عقلیت پرستوں کا پیج تھا۔جس پر سچ ہی نہیں لکھا تھا بلکہ اسے برہنہ بھی کیا گیا تھا۔
پہلے تو اس نے تبصروں میں خوب گالیاں دیں۔ اور سوچنے لگا کہ پیج کو بلاک کردوں لیکن اگلے ہی لمحے ایک خیال دوسرے خیال پر غالب آیا کہ یہ برہنہ سچ لکھتے ہیں تو میں انھیں برہنہ کروں گا۔ یہ جب جب کچھ لگائیں گے میں گالیاں دے کر ان کی پوسٹ ہی گندی کردوں گا۔ اتنے میں مبین پاس آگئی۔ وہ گھر کے کام نمٹا کر کافی تھک چکی تھی۔ اب اسے اپنے شریک حیات کے محبت بھرے الفاظ ” تھیراپی ” کے طور پر درکار تھے۔ کیونکہ شوہر کے محبت بھرے دو بول بھی تھکی بیوی کی تھکان اتارنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن حیدر کسی اور سوچوں میں گم تھا۔ اسے احساس تک نہ ہوا کہ مبین اس کے بغل میں لیٹ گئی ہے۔ ان کی شادی کو یوں تو چار سال ہوگئے تھے لیکن ان کی کوئی بھی اولاد نہیں تھی۔ اور نہ ہی دونوں نے کوئی میڈیکل چیک اپ کروایا تھا کہ کہیں ایک دوسرے سے بدگمان نہ ہو جائیں۔ وہ اب تک اس وجہ سے اچھی زندگی گزار رہے تھے کیونکہ نہ تو حیدر کے پیار میں کمی آئی تھی اور نہ ہی مبین۔ حیدر کی لمبی زلفیں تھی جو اس کے شانوں کو چومتی تھیں۔مونچھیں بالکل ہلکی ہلکی اور فرنچ کٹ چہرے کی زینت تھی۔ رات کو شرٹ اتار کر جب وہ بستر پر دراز ہوتا تو مبین اس کی چھاتی کے بالوں میں گول گول انگلی گماتی اور باتیں کرتی رہتی ، یہاں تک کہ حیدر سو جاتا اور وہ مسلسل ہمکلام رہتی۔ جب اس نے حیدر کی چھاتی پر ہاتھ رکھا تو وہ ایک دم چونک گیا۔
“کیا ہوا ؟ سب ٹھیک تو ہے نا ؟ ” مبین نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا
” ہاں بس یونہی، تم کب آئی ؟ “
” کن سوچوں میں گم ہو ؟ تم نے مجھے دیکھا تک نہیں “
” چھوڑو کچھ بھی نہیں، ویسے آج اس رائل بلیو نائٹی میں بڑی خوبصورت لگ رہی ہو”
اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔
میرے لیے کوئی شعر کہو نا ” مبین نے میٹھے لہجے میں کہا “
” کون سا سناؤں ؟ “
“لو اب یہ بھی بتانا پڑے گا ” مبین نے ہونٹ لٹکا کر نیم شکوہ لہجے میں کہا
“اچھا سناتا ہوں ،
نازکی مبین کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے”
” لو یہ تو آپ کتنی بار سنا چکے ہیں۔ کوئی اپنا سنائیے نا ” لہجے میں مزید مٹھاس آئی۔
” سوہنے یہ شعر تو خدائے سخن کا ہے “
“لیکن میرے خدائے سخن تو آپ ہیں نا ” مبین نے پلکیں جھکا کر کہا
“ہاہاہاہا اچھا چلو اپنا سنا دیتا ہوں ،
یہ پھول سب جلتے لبوں سے ہیں مرے
باتیں نہ کر مجھ کو عَرَق ان کا پلا”
شعر سنانے کے بعد حیدر نے اس کا سر اپنی چھاتی سے ہٹایا ، اس کے لبوں پہ ایک شیریں بُوسہ دیا۔مبین نے اپنا سر دوبارہ اس کی چھاتی پہ رکھ دیا اور اس کی دن بھر کی تھکان رفو چکر ہوگئ۔ اور دونوں نے نیند کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر کمفرٹ ذون میں تھا۔ وہ ایک روبوٹ کے جیسی زندگی بسر کر رہا تھا۔ یعنی صبح اٹھ کر کام ۔۔۔۔۔ کام سے سیدھا گھر اور کھانا کھا کے موبائل استعمال کرکے نیند کے حوالے۔ لیکن کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ انسان نے سیدھا جانے کا سوچا ہوتا ہے اور آپشنل کے طور پر دائیں بائیں جانے کا بھی ارداہ کیا ہوتا ہے لیکن کیا کرے انسان جب دائیں نہ بائیں اور نہ ہی سیدھا جا سکے بلکہ ایک گڑھے میں گر جائے ؟ حیدر کے ساتھ بھی یونہی ہوا۔ وہ اس گڑھے میں تو اسی دن ہی گر گیا تھا جس دن اس نے وہ پیج لائیک کیا تھا لیکن اب اس گڑھے کی کتنی گہرائی میں اترنا تھا یہی باقی تھا۔ ابتدا میں تو تبصروں میں خوب گالیاں نکالتا لیکن رفتہ رفتہ اس کے مزاج میں نرمی واقع ہوتی گئی۔ اب وہ بجائے گالیوں کے عقل کا استعمال کرتے ہوئے جوابا سوال کرتا۔ لیکن اس کے سوالات بھی طنز سے بھرپور ہوتے تھے۔ اس لیے اسے جواب بھی ویسے ہی ملتے جس پر وہ طیش میں آجاتا اور پھر دشنام طرازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
ایک دن پیج ممبر نے اسے سمجھایا اور اس کی ہر گالی پر صبر کرتے ہوئے کہا :
“میں سمجھ سکتا ہوں تمھاری حالت کو ، آج سے چند سال قبل میں بھی ایسا تھا۔ لیکن میرے بھائی حقیقت یہی ہے۔ اور حقیقت کبھی بھی بناوٹ کے اصولوں سے چھپ نہیں سکتی۔ بس اتنا کہوں گا کہ قرآن میں بھی یہی حکم ہے کہ عقل سے کام لو، غورو فکر کرو ، تدبر کرو، اب آپ خود سوچ لو کیا کرنا ہے” “
حیدر نے جب قرآن کا حوالہ سنا تو اسے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے دماغ میں بلب جلا دیا ہو۔ اب وہ روزانہ کی بنیاد پر ان تمام باتوں کو پڑھتا جو پیج والے لکھتے لیکن اب وہ تبصرے نہیں کرتا صرف پڑھنے پر ہی اکتفا کرتا اور ایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا. اس کے ارد گرد لوگوں ( فارمیسی اور فیس بک ) نے محسوس کرنا شروع کیا کہ حیدر کی طبیعت میں فکر نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اسے نامہ دان ( میسنجر ) میں کافی پیغامات ( میسجز ) موصول ہوئے جو کہ صرف اور صرف خواتین کے تھے اور ایک ہی بات تقریبا سب کے یہاں لکھی تھی کہ اب آپ شاعری نہیں لکھ رہے ؟ طبیعت ٹھیک تو ہے نا ؟
حیدر ان پیغامات کو دیکھتا ( سین کرتا ) لیکن کوئی جواب نہ دیتا۔ اس نے خبریں دیکھنی شروع کردیں۔ اب وہ موجودہ ملکی صورتحال ( کرنٹ افئیر ) کا جائزہ لینے لگا۔ اور ان کو بڑی باریکی سے سمجھتا۔ اس نے تاریخ کا مطالعہ شروع کردیا۔ اب وہ ذیادہ سے ذیادہ وقت کتابوں کو دیتا۔ مبین کے لیے وہ وقت میں کمی کرتا رہا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ کتاب کا لازمی مطالعہ کرتا۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ مبین باتیں کرتی رہتی اور وہ سو جاتا لیکن اب وہ مبین کو سلا کر دیر رات تک پڑھتا رہتا۔
اس نے تقریبا ایک ماہ بعد اپنی فیس بک وال پر لکھا:
” مطالعہ پاکستان جو سکولوں میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے سب سے ذیادہ جھوٹ اسی میں لکھا ہے “
جس پر اس کے احباب نے حیرانی کا تاثر دیا اور کچھ نے کھڑی کھڑی سنا دیں۔
حیدر سہم گیا اور کافی دلبرداشتہ ہوگیا۔ اس نے وہ پوسٹ ہی ڈیلیٹ کردی۔
لیکن حیدر اب عشق و عاشقی، گل و بلبل، باغ و راغ کے تذکرے نہیں تھا کرتا اب وہ عوام کی بات کرنے لگا ، اب وہ حالات حاضرہ پر نظر رکھنے لگا۔ اس کے سینے میں بویا ہوا بیج جڑیں مضبوط کرچکا تھا۔ اب وہ پھوٹ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے مارکس کا مطالعہ کیا، کمیونزم، سبط حسن، عباس جلال پوری، وجودیت ، جدیدیت ،مابعد جدیدیت ، آواگون ، نطشے ، فشٹے ، برگساں ، یونانی فلسفہ ، قرون وسطی کا فلسفہ اور نظریہ ارتقاء پھر اس کے بعد اقبال کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اقبال اور سر سید کے علم الکلام کا مطالعہ کیا ۔ اس نے ایک ڈائری میں اقبال کا منتخب کلام لکھا۔ جس میں اِس شعر کو بار بار دہراتا تھا۔
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقاں کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرتا رہا۔ پہلی جنگ عظیم ، دوسری جنگ عظیم ، نشات الثانیہ، تقسیم ہند کے عمیق مطالعے اور سقوط ڈھاکہ کا اس پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ فیس بک پر وہ ایسے گروپس میں شامل ہوتا گیا اور اسے مزید حوالے ملتے رہے۔ اسے ایسے بزرگ ملے جنھوں نے سقوط ڈھاکہ آنکھوں سے دیکھا اور پھر تمام وجوہات جانیں۔ اب اصل مسئلہ خود اعتمادی کا تھا۔ اس کا پہلا تجربہ ناکام ہوا تھا اسے پوسٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی تھی۔ لیکن جتنا علم اس کے اندر گھس گیا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ پھٹ ہی نہ جائے۔ آج اسے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اس کے بڑے اسے کیوں کہتے تھے کہ
” بیٹا زیادہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے ورنہ انسان پاگل ہو جاتا ہے”
اسے یہی محسوس ہو رہا تھا کہ گویا وہ پاگل ہو رہا ہے۔ اس کے من پہ ٹنوں علم کا بوجھ پڑ گیا تھا۔ وہ اس بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا تھا وہ لوگوں کو حقیقت بتانا چاہتا تھا۔ اب وہ مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ بس موقعے کی تاک میں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریکنگ نیوز ! ملتان میں پولیس کی بڑی کاروائی ؛ کار میں سوار دہشت گرد کو مار دیا گیا۔ کار میں دہشت گرد کے ساتھ ایک عورت اور دو بچے بھی تھے۔ ہم اپنے نمائندے سے بات کرتے ہیں جو اس وقت موقع واردات پر موجود ہے۔ “۔ جی زیشان ! یہ سارا کیا ماجرا ہوا ؟ دہشت گرد کے ساتھ جو عورت تھی وہ کون تھی اور وہ بچے کیا اغواء کیے جا رہے تھے ؟
“حیدر ناشتہ میز پر لگا دیا ہے آجاؤ۔”
حیدر ٹی وی لانچ میں یہ خبر دیکھ رہا تھا کہ اسے یکا یک مبین کی آواز آئی۔ لیکن وہ مسلسل دیکھتا رہا۔ مبین نے دوبارہ آواز دی اور کمرے میں آگئی۔
” “کیا بات ہے ؟ میں تمھیں کب سے آوازیں دے رہی ہوں ۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور پھر تم نے کام پہ بھی جانا ہے۔
حیدر پھٹی آنکھوں سے ٹی وی تکتا رہا کہ مبین نے ریموٹ پکڑ کر بند کردیا اور اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کے بولی:
” مسٹر میں آپ سے مخاطب ہوں ، یہ شوق کہاں سے چڑھ گیا ہے ؟”
” یہ شوق نہیں درد ہے۔ خیر ناشتہ کیا بنایا ہے آج ؟”
” وہی جو روزانہ کرتے ہو ، انڈا بریڈ “
حیدر نے ناشتہ کیا اور کام پہ چلا گیا۔آج ایل ای ڈی بند تھی۔ حیدر نے آکر ساتھی کو خبر دی اور اس موضوع پر مکالمہ شروع ہوگیا۔ رنج و غم کی گفتگو جب ختم ہوئی تو حیدر نے فیس بک پر لکھا
” کتنا عجیب دہشت گرد تھا جس کی بیوی بھی تھی اور دو بچے بھی”
پھر ایک پوسٹ گھر جا کر کی
” گورنمنٹ صرف کھوکلے دعوے کر سکتی ہے۔ آپ سب بھی انتظار کریں کہ کب آپ کی باری آتی ہے “
اس واقعے کو ایک ماہ گزر گیا۔ لیکن مقتولین کو ابھی تک انصاف نہ ملا اور کوئٹہ شہر میں دھماکہ ہوا جس میں ایک خاص کمیونٹی کے 30 بندے شہید اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ لیکن حکومت کی زبان بند دیکھ کر حیدر کے سر کی تار کا شارٹ سرکٹ ہو گیا۔ اس نے ایک طویل نظم لکھی اور پھر حکومت پر خوب تنقید کی۔
وہ یہ چیز نوٹ کر رہا تھا کہ ملک میں صرف حکومت ان لوگوں کی داد رسی کرتی ہے جو ان کے مذہب کے ہوں یا ان کے فرقے کے ہوں۔ اگر کوئی اقلیت ہے تو اس کے لیے صرف بیان صادر کیا جاتا تھا ۔ اس نے ایک دن اپنی وال پر کھل کر لکھا :
“پاکستان اور بھارت ایک ہی دن اور ایک ہی وجہ سے آزاد ہوئے۔ دونوں کو مذہبی آزادی چاہیے تھی۔ وہ لوگ گائے کاٹنے پر مسلمانوں کو کاٹ دیتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی مقدس گائے ماتا کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے لہذا انھوں نے انگریزوں اور مسلمانوں سے نجات حاصل کی اسی طرح مسلمان بھی ذات پات کے اچھوت نظام سے چھٹکارا چاہتے تھے اور اپنی حکومت چاہتے تھے جو کہ متحدہ ہندوستان میں ناممکن تھی، مزید یکہ آزادی سے اپنی رسومات ادا کرنا چاہتے تھے لیکن پھر کیا وجہ ہوئی کہ بھارت ایک سیکولر ملک بن گیا اور ہم ابھی تک نام نہاد اسلامی مملکت میں رہ رہے ہیں۔ آج پاکستان کو بھی سیکولر ہونے کی ضرورت ہے۔ یہاں ریاست صرف ان مظلوموں کی داد رسی کرتی ہے جو صرف اسی کے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر مذہب ہی نہیں مسلک بھی۔ تو باقی اقلیت کیا ملک چھوڑ کر چلی جائے ؟ ان کی داد رسی کون کرے گا ؟ خدا تو خود نیچے نہیں آئے گا ، اسی نے انھیں اقتدار عطا کیا ہے تو پھر آخر کیوں یہ خدا کا نائب ناانصافی کر رہا ہے ؟”
اسی طرح حیدر روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ لکھنے لگا۔ اس کے حلقہ احباب ہی اسی کے خلاف ہوگئے۔ لیکن ملک کی صورتحال مسلسل خراب ہوتی گئی۔ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور آئے روز ان پر ظلم کیے جاتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حیدر سے پہلے اب تک کسی نے بھی یوں علی الاعلان سیکولرازم کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ لوگ سمجھے کہ یہ انگریزوں کا پٹھو ہے۔ وہ اس کے لکھے کا اشتراک کرتے اور پیغام دیتے کہ لعنت بھیج کر اس کو آگے پھیلا دیں۔ یوں دنوں میں اس کی شناخت ایک ملحد اور دہریے کے نام سے ہوگئی۔ لوگ اس کو نامہ دان ( ان باکس ) میں آ کر پوچھتے کیا تم مسلمان ہو ؟ کوئی کلمہ سننے کی فرمائش کرتا۔ کوئی اجتماعی لعنتیں بھیجتا۔ کہتے ہیں انسان جیسا ہو اسے ویسے لوگ خود بخود مل جاتے ہیں۔ حیدر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جہاں لاتعداد لوگ لعنتیں بھیجتے، وہیں آٹے میں نمک کے برابر اسے سپورٹ بھی کرتے لیکن وہ کھل کر سامنے نہ آتے۔ لیکن حیدر کے لیے تنکے کا سہارا ہی بہت تھا۔ اس کے عزم میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا۔
اس کی دن بہ دن کی بڑھتی شہرت کی وجہ سے ملک کی ایک مذہبی جماعت نے اس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ مذہبی جماعت کے پیروکار سڑکوں پہ آ گئے اور حکومت وقت سے اسے پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ جب یہ خبر حیدر تک پہنچی تو وہ وقتی طور پر سہما لیکن چہرے سے بالکل بھی ظاہر نہ کیا۔ اس نے فارمیسی جانا ترک کر دیا ۔ مبین نے اسے قسمیں دیں کہ تم فیس بک سے نکل جاؤ۔ تم ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔ مبین نے اس کا موبائل پکڑ کر خود ہی اس کی آئی ڈی ، ڈی ایکٹیویٹ کردی۔ لیکن وہ حیدر کے دماغ کو کیونکر ڈی ایکٹیویٹ کر سکتی تھی۔ اسی دن میڈیا نے حیدر تک اپروچ کی اور اس کا انٹرویو لینا چاہا جس پر اس نے ہیڈکوارٹر جانے سے انکار کردیا لیکن سکائپ کے ذریعے آنلائن انٹرویو دیا۔ اب وہ ایک شخصیت کا روپ دھار چکا تھا۔ اس نے میڈیا پر کہا کہ میں مذہبی جماعت سے مناظرہ چاہتا ہوں اور میں اپنا موقف واضع کرنا چاہتا ہوں۔
مذہبی جماعت نے اس کا چیلنج قبول کرلیا اور دن اور وقت مقرر ہوا۔ اور مذہبی جماعت کے امیر سے مناظرہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے سیکولر ازم پر بات کی گئی۔
امیر جماعت نے فرمایا : ” اس ملک کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے۔ اگر بنیاد ہی ختم ہو جائے گی تو باقی عمارت ڈھے جائے گی۔ آپ کس بنا پر پاکستان کو سیکولر کرنا چاہتے ہیں”
“دو قومی نظریہ صرف وقت کی ضرورت تھی۔ جب اپنے پیچھے کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر قائداعظم بمبئی میں کراچی جانے کے لیے جہاز میں بیٹھنے لگے تو ہندوستانی مسلمانوں نے آپ سے کہا : آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو قائداعظم نے انھیں فرمایا : ” اب تم ہندوستان کے وفا دار شہری بن کے رہو ” گویا پاکستان روانہ ہونے سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح دو قومی نظریے کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ جو پاکستانی علاقوں میں رہتے تھے یا وہاں چلے گئے تھے کیا دو قومی نظریہ صرف ان کے لیے تھا۔ ہندوستان کے باقی مسلمانوں کے لیے دو قومی نظریہ انوالڈ ہوگیا تھا ؟ ” حیدر نے جواب دیا۔
“دو قومی نظریے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ہم مسلمان ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ ہمارا کھانا پینا ، ہمارے ہیروز ، ہماری ثقافت ، پیدائش و اموات ذات پات الغرض ہر چیز جدا تھی اور آج بھی جدا ہے تو پھر ہم کس بنیاد پر دو قومی نظریے کا خاتمہ کر دیں ؟”
“دو قومی نظریہ مضحکہ خیز تھا۔ عصرِ حاضر میں ہمارا ملک دو قومی نظریے کے ہی زیر اثر ہے۔ اور وہ دو قومیں امیر اور غریب ہیں۔ سویلینز اور جرنیلز ہیں۔”
“میرا سوال یہ نہیں ہے ” امیر جماعت نے آنکھیں دکھائیں
“میں اسی کی طرف آ رہا ہوں۔ بطور مسلمان اقلیت ، ہندو اکثریت پر 8 سو سالہ حکمرانی کے بعد ان کو یاد آیا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کے درمیان کوئی بات مشترک ہی نہیں ہے۔ ہم تو اکٹھے رہ ہی نہیں سکتے۔ اور یہ اس وقت یاد آیا جب بادشاہتیں نہیں جمہوری نظام کے اندر رہنا تھا”
” تمھارا مسلہ کیا ہے جوان ؟ “
“میرا مسلہ کوئی ذاتی نہیں ہے۔ میرا مسلہ اس پوری قوم کا مسلہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس ملک میں رنگ نسل ذات پات مذہب مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہو۔ میں انسانیت کا پرچار کرتا ہوں۔”
” تو اسلام انسانیت کا ہی تو درس دیتا ہے۔ بلکہ انسانیت کیا وہ تو حیوانوں کو بھی ان کے حقوق دیتا ہے۔ “
“بے شک ! لیکن درس میں اور عمل میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ریاست کا بھی ایک مذہب ہے۔ جو غیر مذہبی مرا تو سمجھو کتا مرگیا۔ یہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔”
” لیکن ریاست کا مذہب ہونا بہت لازمی ہے، اقبال فرما گئے ہیں
جلال پادشاہی ہو یا ہو جمہوری تماشا
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
“یہ اقبال کی ذاتی رائے ہے۔ لیکن ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کی مثال ایک ماں کی سی ہے اور اس کی عوام اس کے بچے ہیں۔ اگر وہ منصفانہ طریقے سے اپنے بچوں کو نہیں پالے گی تو بچے باغی ہوجائیں۔ اگر ہماری ریاست سیکولر نہ ہوئی تو مجھے نظر آ رہا ہے کہ یہ ملک بھی ٹوٹ جائے گا۔ غیر جمہوری طاقتیں صرف اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں انھیں عوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ ایک کٹھ پتلی لے آتے ہیں جسے جب چاہا نچا لیتے ہیں۔ ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہیے”
” تو یعنی آپ پاکستان کو لادین کرنا چاہتے ہیں ؟”
” کس نے کہا ؟ میں نے تو ایسا نہیں کہا “
” مطلب تو آپ کا یہی ہے۔ اور سیکولر ازم کیا ہے ؟”
” مجھے افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر کہ جنھوں نے لغت میں سیکولر ازم کو لادینیت لکھا ہے “
” دین کو نہ ماننے والا کافر ہے۔ “
” کون سا دین ؟ کتنے ادیان ہیں کس کس کو مانیں ؟”
” دین صرف اسلام ہے باقی سب مذاہب ہیں۔ کیا تم سیکولر ہو ؟”
” ہاں میں سیکولر ہوں اور خدا پر یقین رکھتا ہوں”
” خدا پر یقین رکھنا کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے آخری رسول کو بھی ماننا لازم ہے۔ بقول اقبال
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام ہے
تو رسول اللہ کو چھوڑ کر کس امید میں ہو ؟”
امیر جماعت نے جب یہ بات کہی تو ان کے پیروکار بھوکے بھیڑیوں کی طرح غرائے کہ گویا وہ اسے کھا جانا چاہتے ہیں۔
“میں ایک خدا کی وحدانیت پر ایمان لاتا ہوں۔ میرا مذہب انسانیت ہے۔ میں اس ملک کا اچھا چاہتا ہوں۔میرا اور کوئی مقصد نہیں ہے”
“ہمیں تمھارے ناپاک ارادوں کا پتا چل گیا ہے۔ تم اپنے گھٹیا ارادوں میں کبھی کام یاب نہیں ہو سکتے۔ تم خدا کا انکار کرو تو ہمین کوئی مسلہ نہیں ہے۔400 سال تک فرعون خدائی کا دعویٰ کرتا رہا لیکن اللہ نے اسے کچھ نہیں کہا لیکن جب اس نے موسی علیہ السلام کی توہین کی تب خدا نے اپنا وجود ثابت کیا۔اسی طرح سے تم خدا کے نہیں خاتم النبین کے منکر ہو اور تم رسول اللہ کی توہین کرو یہ قطعا منظور نہیں”
یہ کہہ امیر جماعت وہاں سے اٹھے اور ان کے پیروکاروں نے بآواز بلند گستاخ رسول کا نعرہ لگایا اور حیدر کا خون زمین کو سیراب کر گیا۔
اس حادثے کو عرصہ بیت گیا۔ وہ قاتل آزاد ہوگئے اور ملک و قوم کے ہیرو قرار پائے۔ مطالعہ پاکستان نے انھیں زندہ و جاوید کردیا۔ اور مبین اب ہر وقت یہ کلام گنگناتی رہتی۔
سچی بات کہی تھی میں نے
لوگوں نے سولی پہ چڑھایا
مجھ کو زہر کا جام پلایا
سچی بات کہی تھی میں نے
جگ کے رہبر کبھی نہ بننا
پیر پیمبر کبھی نہ بننا
سچی بات کہی تھی میں نے۔
Be First to Comment