Skip to content

برقی قمقمے اور نیون سائن

عالمی افسانہ میلہ 2021
افسانہ نمبر 22
دوسری نشست
افسانہ : برقی قمقمے اور نیون سائن
قیصر نذیر خاورؔ ، لاہور ، پاکستان
میں نے جب اپنے والد کی بیکری پر جانا شروع کیا تو میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ۔ میرا سکول گھر کے پاس ہی تھا ، اتنا پاس کہ جب کبھی میں دیر سے اٹھتا اور سکول وقت پر پہنچنے کی جلدی میں ناشتہ نہ کر پاتا یا عام دنوں میں مجھے ناشتہ پسند نہ آتا اور ناشتہ کیے بغیر چل دیتا تو میری ماں لسی ، دودھ ، یا چائے کا گلاس اور بن مکھن یا مکھن میں ہی لِبڑا کلچہ یا گھی میں بنا پراٹھا بید کی ٹوکری میں لئے پہلے پیریڈ کے ختم ہونے پر میری کلاس کے باہر میری منتظر ہوتیں ۔ جب تک میرے ہم جماعت قطار بنائے دوسرے کمرے میں جاتے تو میں گلاس میں موجود لسی ، دودھ یا نیم گرم چائے ایک ہی سانس میں پیتا اور دونے* میں رکھے بن مکھن ، کلچے یا پراٹھے کو اپنے بستے کی اگلی جیب میں رکھتے ہوئے ماں سے کہتا ؛
” اب آپ جائیں ، میری اگلی کلاس شروع ہونے والی ہے ۔“
میری ماں بید کی ٹوکری اپنی چادر میں چھپاتے ہوئے کہتی ؛ ” آدھی چھٹی کے وقت یہ بھی کھا لینا ۔“ ، ان کا اشارہ بستے کی اگلی جیب کی طرف ہوتا ۔ میں ” ہاں ، ہاں“ کہتا سکول کے اس کمرے کی طرف دوڑ پڑتا جہاں میرا اگلا پیریڈ ہوتا ۔ میری پشت ماں کی طرف ہوتی لیکن ان کی آواز میرے آگے ؛ ” پُتر دھیان سے ۔“
مجھے معلوم تھا کہ وہ ہر بار ایسا ہی کہتی تھیں ؛ انہیں اور مجھے پتہ تھا کہ وہ ایسا کیوں کہتی تھیں ۔ مجھے انہوں نے ہی بتایا تھا کہ میں جب سال بھر کا تھا تو مجھے ٹائی فائیڈ بخار ہوا تھا ۔ چونا منڈی کے ڈاکٹر دلاور حسین نے میرا علاج کیا تھا لیکن وہ کچھ زیادہ نہ کر پائے تھے کہ اس زمانے میں پولیو کی ویکسین ابھی ایجاد نہ ہوئی تھی ۔ بخار تو اتر گیا لیکن اس دوران پولیو کے حملے کی وجہ سے میری بائیں ٹانگ ماری گئی اور وہ میرا پورا وزن نہیں اٹھا پاتی تھی ۔ میں نے ان سے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ڈاکڑ دلاور حسین نے بدیس سے کچھ ایسے انجیکشن منگوا کر مجھے لگائے تھے جن کی وجہ سے پولیو کا اثر صرف ٹانگ تک ہی محدود رہا تھا ۔ سکول میں داخلے تک تو مجھے یہ احساس نہ تھا کہ میری ایک ٹانگ کمزور ہے لیکن جب میں کئی بار لڑکھڑا کر گر جاتا اور میرے ہم جماعت مجھے لنگڑ دین کہہ کر چھیڑتے تو اپنی کمزور ٹانگ کا شعور قوی سے قوی ہوتا گیا ۔
ایسے دِنوں میں ، میں جب ، کلاس میں پہنچتا تو میرے استاد میرے ہم جماعتوں کی حاضری لگا چکا ہوتے اور مجھے دیکھتے ہی رجسٹر میں میرے نام کے آگے بھی ’ P‘ ڈال کر مجھے اندر آنے کے لئے سر کا اشارہ کرتے اور مسکراتے ہوئے کہتے ؛
” تو آپ ، جناب آج بھی ناشتہ کرکے نہیں آئے ۔“
اس پر میرے ہم جماعت کِھلکھلا کر ہنس پڑتے ۔ اور کسی ایک کی دھیمی سی آواز بھی ابھرتی ؛
” لنگڑ دین آج بھی ناشتہ کرکے نہیں آیا۔“
استاد یہ سن کر فوراً بولتے ؛
” سائلینس ۔ ۔ ۔ آج ہم علی اور مسز علی کی کہانی پڑھیں گے ۔“ ، یہ عام طور پر انگریزی کا پیریڈ ہوتا تھا ۔
آدھی چھٹی ہونے تک میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوتے اور جیسے ہی گھنٹی بجتی ، میں بستے کی اگلی جیب سے وہ دونہ نکالتا جو میں نے صبح بچایا ہوتا اور اسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھانے لگتا ۔ میں جب کلاس سے باہر نکل کر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ جا ملتا تو وہ مجھے اپنے ساتھ کھلانے سے کتراتے ۔ اس روز میرا جیب خرچ بچ جاتا ، جسے میں سکول سے واپسی پر اپنے منی بکس میں ڈال دیتا ۔ میری ماں مجھے منہ ہاتھ دھونے اور کپڑے بدلنے کا کہتیں ۔ میں جب یہ کر لیتا تو وہ میرے ہاتھ میں ایک ٹفن پکڑاتیں اور کہتیں ؛
” اس میں تمہارے والد اور تمہارا کھانا ہے ۔ دکان پر جائو اور ان کے ساتھ ہی تم بھی کھا لینا ۔“
میں ٹفن اور بستہ لئے بیکری کی جانب چل دیتا ۔ یہ بھی سکول کی طرح ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ۔ یہ بازار کے بائیں نکڑ پر تھی جبکہ میرا سکول دائیں طرف مڑ کر آتا تھا ۔ ویسے تو شہر میں اور بھی بیکریاں تھیں لیکن میرے والد کی بیکری شہر میں واحد بیکری تھی جو اپنے معیار کے اعتبار سے اپنا نام رکھتی تھی جبکہ دوسری دو معیاری بیکریاں چھائونی کے علاقے میں تھیں ۔ وہ شہر سے ہٹ کر تھیں اس لئے شہری آبادی وہاں کم کم ہی جاتی ۔ میں جب بیکری میں داخل ہوتا تو اس کی مخصوص باس اور گرمائش میرا استقبال کرتی ۔ یہ مخصوص باس عجیب تھی جیسے ٹوٹی فروٹی آئس کریم کی ہو ، جس میں طرح طرح کے مربعوں کے باریک باریک ٹکڑے ہوتے ہیں ۔ دکان میں داخل ہوتے وقت اس باس میں وہاں موجود سب اشیاء کا امتزاج ہوتا لیکن اندر پہنچ کر یہ اپنی اپنی انفرادی خوشبوئوں میں بٹ جاتی ۔ بسکٹوں کا کائونٹر اپنی خوشبو دیتا ۔ کیکوں والا اپنی ، پیسٹریوں کی اپنی بھینی بھینی مہک ہوتی ، پیٹز اپنی سوندھی سوندھی باس چھوڑتے جبکہ کریم رول اپنے تازہ ہونے کا احساس دلاتے ۔ گرمائش اس لئے ہوتی کہ ہر شو کیس میں سو ، ساٹھ یا چالیس واٹ کے کئی بلب جل رہے ہوتے ۔ ان بلبوں کی روشنی میں ایک تو دکان جگمگا رہی ہوتی دوسرے ان کی حدت سے بیکری کی اشیاء خستہ اور کراری رہتیں ۔ سردیوں میں تو یہ گرمائش بھلی لگتی لیکن گرمیوں میں چھت میں لگے ’ ڈی سی‘ بجلی کے تین پنکھے بھی اس حدت کو کم کرنے کے لئے کافی نہ ہوتے ۔ ماہ ِرمضان میں ہمارے پیٹیز اور اس ماہ کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے حلیم رول خوب بکتے اور پھر اس کے بعد آنے والی عید اور کرسمس پر ہمارے کیکوں کی بھی خوب بکری ہوتی ۔ کرسچیئن کمیونٹی میں اگر کسی کی شادی ہوتی تو وہ یا اس کے گھر والے ’ ویڈنگ کیک ‘ کے لئے ہماری بیکری کا ہی رُخ کرتے ؛ یہ کیک ویسے نہ ہوتے جیسے عید اور کرسمس پر بنتے تھے ؛ یہ عمارتوں کی طرح کئی منزلہ ہوتے اور انہیں رنگ برنگی چینی کے بنے چھوٹے چھوٹے مجسموں اور چیریوں سے سجایا جاتا ؛ ورجِن میری ، کیوپڈ ، وینس اور ایسے ہی کئی مجسموں سے جن کے نام مجھے معلوم نہ تھے ،۔ ان پر البتہ ، ہمیشہ کریم کا سفید لیپ ہوتا ۔
میرے والد مجھ سے قلعی شدہ پیتل کا ٹفن لیتے ، اس کے ڈبے الگ کرتے اور انہیں ایک شو کیس کے خانے ، جس میں سو واٹ کے بلب لگے تھے ، میں رکھتے اور سوئچ بورڈ پر لگے ایک بٹن کو دبا دیتے ۔ اس شو کیس میں قمقمے روشن ہو جاتے ۔ وہ پھر مجھ سے سکول سے ملے گھر کے کام کی تفصیل پوچھنے لگتے ، میری کاپیاں چیک کرتے ۔ یہ سلسلہ لگ بھگ پندرہ بیس منٹ تک جاری رہتا ۔ تب وہ کھانے کے ڈبے باہر نکالتے اور میز پر رکھ دیتے ۔ روٹیاں ، البتہ وہ اسی خانے میں پڑی رہنے دیتے اور ایک ایک کرکے انہیں باہر نکالتے ، آدھی مجھے دیتے اور آدھی خود لیتے ۔ میں نے جب سے دکان پر جانا شروع کیا تھا تو مجھے شروع شروع میں ان کی یہ منطق سمجھ میں نہ آئی ، میرا خیال تھا کہ وہ پہلے میری اس روز کی پڑھائی چیک کرتے تھے لیکن چند ہی روز میں ، میں یہ سمجھ گیا کہ ایسا کرکے وہ سالن اور روٹیوں کو گرم کرتے تھے ۔ کھانا کھاتے ہوئے مجھے احساس ہوتا جیسے میں باورچی خانے میں ماں کے سامنے بیٹھا گرم گرم کھانا کھا رہا ہوں اور میری ماں توے سے تازہ اُترا پُھلکا مجھے دے رہی ہے ۔
ہماری بیکری ایک تابوت نما لمبوتری دکان تھی ؛ اس کے چار حصے تھے ؛ سامنے سڑک کی طرف شو روم تھا ، اس کے پیچھے ایک چھوٹا کمرہ جس میں بیکری کی اشیاء بنانے کے لئے درکار کچا سامان پڑا ہوتا ، اس کے پچھلے حصے میں وہ بھٹیاں تھیں جن میں بیکری کی ساری اشیاء تیار ہوتی تھیں ۔ بھٹیوں والے حصے میں سے ایک دروازہ اس چھوٹے سے صحن میں کھلتا تھا جہاں بڑے بڑے ڈرم پڑے ہوتے ۔ یہ کچرا ڈالنے کے کام آتے تھے ۔ اس صحن کا ایک دروازہ پچھلی گلی میں بھی کھلتا تھا ۔ بھٹیوں والے حصے کا درجہ حرارت سردیوں میں بھی اتنا زیادہ ہوتا کہ میرے لئے وہاں کھڑا ہونا ممکن نہ ہوتا ۔
سال بھر میں مجھے یہ بات سمجھ آ میں گئی کہ بیکری کا شو روم خاصے سائنسی انداز میں ترتیب دیا گیا تھا ؛ کیکوں والے شو کیسوں میں کتنے واٹ کے اور کتنے بلب درکار تھے ، بسکٹوں والوں میں ، انہیں خستہ رکھنے کے لئے کیا درجہ حرات چاہیے تھا اور اسی طرح دیگر اشیاء کی تازگی برقرار رکھنے کے لئے الماریوں اور شو کیسوں میں مناسب حدت کا انتظام موجود تھا ۔ سب سے زیادہ حدت والا شو کیس وہ تھا جس میں قیمہ اور آلو بھرے تکونے پیٹیز اور کباب وغیرہ ہوتے ۔ میرے والد کی میز کے پاس دیوار پر ایک بڑا سوئچ بورڈ تھا جس پر ہر شو کیس کے بلبوں کے بٹن تھے جنہیں وہ وقتاً فوقتاً آن آف کرتے رہتے ۔ ان کی دیکھا دیکھی مجھے بھی یہ سمجھ آ گیا کہ کس شو کیس اور کائونٹر کے کس حصے کے بلب بجھانے یا جلانے ہیں ۔ ٹنگسٹن فِلامنٹ والے فلپس کے یہ بلب چونکہ ہلکی پیلی روشنی دیتے تھے اس لئے بیکری میں ہر وقت پیلاہٹ چھائی ہوتی جسے میرے بچپن میں والد صاحب نے دیواروں اور چھت پر سفیدی سے کم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر جب فلوریسنٹ ٹیوب لائٹس آئیں تو انہوں نے چھت پر مناسب فاصلوں پر یہ لائٹیں لگوا دیں جن کی وجہ سے بلبوں کی پیلی روشنی خاصی دب گئی تھی ۔
میں دکان پر اس وقت تک رہتا جب تک اِسے بند کرنے کا وقت نہ ہو جاتا ۔ سہ پہر کے وقت مجھے گھنٹہ بھر کے لئے دکان سے جانے کی اجازت ہوتی اور میں اپنے سکول کی گرائونڈ میں چلا جاتا جو اس علاقے میں بچوں اور بڑوں کے کھیلنے کا واحد میدان تھا ۔ میں وہاں جاتا تو سہی لیکن اپنی کمزور ٹانگ کی وجہ سے نہ تو باسکٹ بال کھیل سکتا اور نہ ہی کوئی ایسا کھیل جس میں دوڑنا بھاگنا لازمی ہوتا ۔ میں میدان کے ایک کونے میں بیٹھا لڑکوں کو کھیلتے دیکھتا رہتا ، اپنی پیتل کی بانسری بجاتا یا کہانیوں کی کوئی کتاب پڑھتا اور پھر واپس آ جاتا ۔
ہمارے سکول میں جمناسٹک اور باسکٹ بال اہم کھیل تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھٹی جماعت چڑھے تو پہلے دن ہی اسمبلی میں ہمارے ماسٹر روبن جو ہمیں ریاضی پڑھانے کے علاوہ باسکٹ بال کے کوچ بھی تھے ، نے اعلان کیا ؛
” چھٹی جماعت کے وہ بچے جو باسکٹ بال کی ٹیم کے لئے تیار ہونا چاہتے ہیں وہ سٹیج کے پاس آ جائیں ۔“
میرے کچھ ہم جماعت اپنی قطار سے نکلے ، میرا دل بھی کرتا تھا کہ میں باسکٹ بال کھیلوں ۔ میں بھی ان میں شامل ہو گیا ۔ ماسٹر روبن ہمارے پاس آئے اور انہوں نے گھوم پھر کر ہم سب کو دیکھا اور پھر چند کو منتخب کرتے ہوئے ان کے نام ہاتھ میں پکڑی کاپی میں نوٹ کر لیے ۔ ان میں میرا نام نہیں تھا ۔ پھر ہمارے ’ پی ٹی‘ کے ماسٹر ایلکسنڈر مارٹن نے اعلان کیا ؛
” چھٹی کے وہ بچے جو جمناسٹک والی ٹیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ سامنے آئیں ۔“
سٹیج کے سامنے ایک اور قطار لگ گئی ۔ میں اس قطار میں بھی شامل ہو گیا ۔ ماسٹر مارٹن نے اس قطار میں سے کچھ بچوں کو منتخب کیا اور ان کے نام نوٹ کر لیے ۔ میں ان میں بھی نہیں تھا ۔ اس کے بعد ’ پی ٹی‘ ماسٹر نے ایک اور اعلان کیا ؛ ” وہ بچے سامنے آئیں جو سکول بینڈ میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔‘‘ ، میں دو بار منتخب نہ ہونے پر دل میں رنجیدہ تھا ، میں اپنی جماعت کی قطار سے باہر نہ نکلا ۔ جو بچے سٹیج کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے ، پی ٹی ماسٹر نے ان پر دھیان نہ دیا ، وہ چلتے ہوئے میرے پاس آئے ، مجھے کندھے سے پکڑا اور ساتھ لئے سٹیج کے پاس چلے گئے اور میرے علاوہ وہاں کھڑے بچوں میں سے چند منتخب کیے ۔ گیمز کے پیریڈ میں جب ہم ، شاید پانچ ، ان کے پاس گئے تو انہوں نے ہماری اچھی طرح جانچ پڑتال کی اور مجھے اور میرے ایک اور ہم جماعت کو پیتل کی ایک ایک بانسری تھما دی ۔ پھر انہوں نے اِسے پکڑنے اور اس پر قومی ترانے کی دھن بجانے کا پہلا سبق دیا ۔ باقی تین میں سے دو کے حصے میں چھوٹے ڈرم آئے اور ایک کے حصے میں بیگ پائپر آیا تھا ۔ پیریڈ ختم ہوا تو وہ میرے پاس آئے اور بولے ؛
” مجھے اندازہ ہے کہ تم باسکٹ بال اور جمناسٹک میں دلچسپی رکھتے ہو لیکن اپنی ٹانگ کی وجہ سے یہ سب نہیں کر سکتے ۔ تم خود کو میدان میں دیکھنا چاہتے ہو ۔ میں نے اسی لئے تمہیں بینڈ میں شامل کیا ہے ۔ ویسے بھی میدان میں بینڈ سب سے پہلے داخل ہوتا ہے ۔ تم پڑھائی میں بھی تو سب سے آگے ہوتے ہو ۔ یاد رکھو تمہارا اصل میدان وہی ہے ۔“
مجھے ان کی بات اس وقت بے تکی سی لگی تھی ۔ وہ کیا کہنا چاہتے تھے میں سمجھ نہ پایا ۔
بانسری سے میرا ساتھ اگلے چار سال یوں رہا کہ میں سالانہ تقریب کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات میں بینڈ میں شامل سب سے پہلے میدان میں داخل ہوتا جس کے پیچھے جمناسٹک کی ٹیم اور باسکٹ بال کھیلنے والے لڑکے ہوتے ۔ مجھے ماسٹر مارٹن کی بات کی سمجھ نویں جماعت میں جا کر آئی جب ہمیں ماسٹر جولیس نے اردو پڑھانا شروع کی ۔ وہ اردو کے بہترین استاد تھے اور نویں و دسویں کو ہی پڑھاتے تھے ۔ ماسٹر جولیس سکول کے ساتھ موجود گرجا گھر کے احاطے میں بنے گھروں میں سے ایک میں رہتے تھے ۔ یہ چرچ سو سال پرانا تھا اور ہمارے سکول کی عمر بھی اس سے کچھ کم نہ تھی ۔ ماسٹر جولیس کی بیٹی بھی ہمارے سکول میں نرسری کی استانی تھیں ۔ سال پہلے ان کے گھر میں مٹی کے تیل کا چولہا پھٹ جانے کی وجہ سے آگ لگ گئی تھی ۔ ان کی اکلوتی بیٹی اور وہ گھر میں نہ تھے اس لئے بچ گئے تھے لیکن ان کی بیوی اس بری طرح جُھلسیں کہ بچ نہ پائیں ۔ میں اپنی کلاس میں ان دو تین میں شمار ہوتا تھا جو کبھی اول کبھی دوم یا سوم پوزیشن حاصل کرتے تھے ۔ نویں جماعت کی اردو کی پہلی کلاس میں ہی میں ماسٹر جولیس نے میرے ساتھ وہ رویہ اختیار کیا جس کی توقع میں ان سے نہیں کر رہا تھا ؛
” اٹھ بے لنگڑے ، غالب کی غزل پڑھ ۔“
چند لمحوں تک مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔ مجھے آج تک کسی استاد نے یوں مخاطب نہیں کیا تھا ۔ میرے ہم جماعت ہنسنے لگے جس پر انہوں نے انہیں سخت جھاڑ پلائی اور کہا ؛
” اب اگر یہ لنگڑا ہے تو ہے ۔ حقیقت کی تلخی کو سمجھنا ہی اصل سبق ہے ۔ ۔ ۔ ۔“
انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔ میں کھڑا ہو چکا تھا اور میں نے غالب کی غزل کا پہلا شعر پڑھا اور رُک گیا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کی تشریح کریں گے تو میں اگلا شعر پڑھوں گا ۔ انہوں نے ایسا نہ کیا اور ایک ایک کرکے سب لڑکوں سے اس کا مطلب پوچھنے لگے ۔ ہمارے لئے پڑھائی کا یہ طریقہ مختلف تھا ۔ آٹھویں تک استاد ہی پہلے مطلب سمجھاتے تھے جسے ہم کاپیوں پر نوٹ کرتے تھے ۔ نویں میں ایسا ہی طریقہ ہمارے دیگر استادوں نے بھی اختیار کیا ۔ ماسٹر جولیس سے میں نے دو سال اردو پڑھی اور ان کی ، اپنی ٹانگ کے حوالے سے ، بہت سی چِٹکریں بھی سہیں ۔
دسویں پاس کرنے تک مجھے اپنے ان دو استادوں کے رویوں کی سمجھ آ گئی تھی ، ماسٹر مارٹن مجھے اپنے انداز میں اپنی کمزوری پر قابو پانے کا درس دیتے رہے ؛ جب میں کوئی اعزاز لینے کے لئے ، حاضرین میں سے اٹھ کر جانے کی بجائے بینڈ کی پہلی قطار میں سے ہی نکل کر سٹیج پر جاتا تو میں تو فخر کرتا ہی ماسٹر مارٹن بھی خوش ہوتے اور پہلی تالی ان کی بجتی جیسے انعام مجھے نہیں ، انہیں مل رہا ہو جبکہ ماسٹر جولیس ان کے الٹ مجھے میری کمزوری کا احساس تلخی سے یوں کراتے کہ میرے اندر اس پر قابو پانے کی خواہش اور طرح سے بیدار ہوتی اور میں مضبوط والی چھوڑ اپنی کمزور والی ٹانگ پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے لگتا ۔
میں بیکری میں بھی کبھی کبھی بانسری پر دھنیں بچاتا لیکن زیادہ تر میرا دھیان کورس کی کتابوں اور کہانیوں کی کتابوں اور بچوں کے رسالوں پر ہوتا ۔ کبھی کبھی میں اپنے والد کے ساتھ بیکری کے سامان کی خریداری کے لئے بھی جاتا ؛ یوں مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ آٹا ، میدہ ، سٹارچ ، بیکنگ پائوڈر ، کوکا ، ونیلا ، ایسنس ، آلو ، مٹر وغیرہ تو عام ہی استعمال ہوتے لیکن تین چار اشیاء ایسی تھیں جو شروع میں میرے لئے اچھنبے کا باعث ثابت ہوئیں ؛ یہ انڈے ، چکنائی ، میوہ جات اور قیمہ تھے ۔ انڈے مرغی کے نہیں خریدے جاتے تھے ؛ پی آئی اے نے ابھی شیور شروع نہیں کیا تھا اور برائلر یا لیئر مرغیاں نہیں ہوتی تھیں ، صرف دیسی مرغیاں اور ان کے انڈے ہی ہوا کرتے تھے ۔ بیکری کے لئے ان کا استعمال مہنگا پڑتا تھا لہذاٰ یا تو بطخ کے انڈے خریدے جاتے یا سال کے مخصوص حصوں میں کچھووں کے انڈوں کی خریداری ہوتی ۔ چکنائی کے لئے زیادہ تر گائے یا بھینس کی چربی خریدی جاتی اور مکھن کم کم ہی لیا جاتا ، یہی حال کریم کا بھی تھا ۔ میوہ جات میں بھی کچھ ایسا ہی تھا ؛ بادام کی گریوں کی بجائے خوبانی کی گریاں اور سوگی کی بجائے سب سے ہلکی کوالٹی کا میوہ لیا جاتا یہی حال ان سیب وغیرہ کے مربوں کا بھی تھا ۔ پیٹیز میں برتا جانے والا قیمہ بھی ’ پردوں اور پلوں ‘ کا لیا جاتا جو خاصا سستا ہوتا ۔
ایک روز میں نے اپنی حیرانی دور کرنے کے لئے اپنے والد سے پوچھ ہی لیا ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس ٹریڈ میں سب یہی استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے ان کا جواب مطمئن نہ کر سکا ۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ سمجھ گئے اور پھر ایک روز وہ مجھے سائیکل پر بٹھائے چھائونی گئے اور وہاں موجود ’ فرحت‘ اور ’ ژین ‘ بیکریاں دکھائیں ۔ ان کے شو روم ہماری بیکری جیسے ہی تھے ۔ ان کے مالک میرے والد کو جانتے تھے ۔ انہوں نے ہماری خوب آوؑبھگت کی ۔ چائے پینے کے دونوں ادوار کے دوران ساری گفتگو کچے سامان کی خریداری پر مرکوز رہی ۔ اور میں نے یہ جان لیا کہ وہ ، دونوں بیکریاں بھی وہی کچھ خریدتی تھیں جو ہم خریدتے تھے ۔ شہر اور چھائونی میں اور کوئی بیکری ہم تینوں کی ٹکر کی نہ تھی ۔ مجھے ٹریڈ سیکرٹ سمجھ آ گیا تھا اور پھر میں نے حیران ہونا ترک کر دیا ۔ ان دونوں بیکریوں اور اپنی بیکری میں مجھے البتہ ایک فرق دکھائی دیا ۔ ہماری بیکری میں بسکٹوں والے کاﺅنٹر کے ایک خانے میں پڑی ایک ٹرے میں لمبوترے اور مہین بسکٹ بھی پڑے ہوتے ۔ ایک قطار میں سب سے لمبے جیسے ہاتھ کی بڑی انگلی ہو ، دوسری میں اس سے چھوٹے ، تیسری میں اس سے بھی چھوٹے اور چوتھی میں اس سے بھی چھوٹے ۔ اس طرح کے بسکٹ مجھے ان دونوں بیکریوں میں نظر نہ آئے ۔ واپسی پر میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ لمبوترے اور مہین بسکٹ وہ لوگ کیوں نہیں بناتے تو انہوں نے جواب دیا ؛ ” انہوں نے کبھی عورتوں کے ہاتھوں پر غور نہیں کیا اور نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ ان کی انگلیاں کتنی مہین ، نازک اور خوبصورت ہوتی ہیں ۔ “ ، مجھے ان کی بات بالکل سمجھ نہ آئی اور میں چُپ رہا لیکن میرے ذہن میں یہ بات اٹک گئی کہ عورتوں کی انگلیوں کا ان بسکٹوں کے ساتھ کیا تعلق تھا ۔
بیکری میں واپس آ کر میں نے شوکیس سے یہ بسکٹ نکالے اور انہیں ساتھ ساتھ رکھا ، مجھے لگا کہ ان میں کچھ ربط ہے ؛ میں نے ان کو تین چار بار مختلف طرح سے ساتھ ساتھ رکھا اور پھر مجھے یہ سمجھ آیا کہ یہ انسانی ہاتھ کی انگلیوں سے مشابہ تھے ؛ سب سے چھوٹا ، پھر ایک بڑا ، اس کے ساتھ سب سے بڑا ، اور پھر ایک اس سے چھوٹا ۔ یہ دیکھنے میں کسی عورت کے ہاتھ کی نازک انگلیاں لگتی تھیں ۔ میرے والد اپنی جگہ بیٹھے مجھے یہ کھیل کھیلتے دیکھ رہے تھے ۔ وہ ہنسے اور بولے ؛
” یہ بسکٹ صرف ہم ہی بناتے ہیں ، وہ بھی اس لئے کہ ایسے مہین اور لمبے بسکٹ بنانے کی ترغیب ہماری ایک گاہک نے ہمیں دلائی تھی ۔ ابھی بٹوارا نہیں ہوا تھا ۔ ایک روز ساہنی اور میں دکان میں تھے کہ میو سکول آف آرٹس کی ایک اینگلو انڈین استانی ، مسز مارتھا ایلن ، اپنی سائیکل سے اتری اور اپنے سکرٹ کی شِکنیں دور کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی؛ وہ وہاں ڈرائنگ پڑھاتی تھیں ۔
” میو سکول آف آرٹس؟ “
” ہاں ، میو سکول آف آرٹس ۔ ۔ ۔ تم نے عجائب گھر تو دیکھا ہے نا ۔ ۔ ۔ بھنگیوں کی توپ کے پاس ، مال روڈ پر؟ “
” جی ۔“
”یہ وہیں عجائب گھر کے ساتھ ہے اور اب اسے نیشنل کالج آف آرٹس کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا ؟ “
” آپ کہہ رہے تھے ۔ ۔ ۔ وہ وہاں ڈرائنگ پڑھاتی تھیں ۔ “
ہاں ۔ ۔ ۔ ہاں ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ انہوں نے ایک ویڈنگ کیک کا آرڈر دو روز قبل دیا تھا ؛ ان کی بیٹی کی شادی تھی جس کے لئے انہوں نے دل کی شکل کا تین منزلہ سفید کریم کیک بنوایا تھا ۔ سب سے بڑا دِل نیچے ، اس سے چھوٹا اس کے اوپر اور سب سے چھوٹا سب سے اوپر ، جس پر رنگ برنگی چینی کا بنا کیوپڈ کریم میں کھڑا تھا ۔ مسز مارتھا لگ بھگ پنتالیس برس کی ہوں گیں ۔ وہ ہماری روز کی گاہک تھیں ۔ وہ شکل و صورت کی تو کچھ خاص نہیں تھیں لیکن ان کے ہاتھ بہت خوبصورت تھے ، پتلی پتلی نازک لمبی انگلیاں ، مخروطی ناخن ۔ ۔ ۔ ان کی عمر بڑھ گئی تھی لیکن ہاتھ ابھی بھی جوان تھے ۔ وہ جب بھی دکان میں آتیں تو ساہنی چپکے چپکے ان کے ہاتھوں کو دیکھتا رہتا ۔ اُس روز مسز مارتھا نے اس کی چوری پکڑ لی اور بولیں؛ ’ مسٹر ساہنی اگر تمہیں میرے ہاتھ اتنے ہی پسند ہیں تو میری انگلیوں جیسے لمبے اور نازک بسکٹ کیوں نہیں بناتے ۔ ‘ ، ساہنی یہ سن کر شرما گیا اور اپنی نظریں نیچی کر لیں ۔ میں نے کیک کے گرد سیلوفین لپیٹا اور اس لڑکے کے ہاتھ میں تھما دیا جو مسز مارتھا کے اندر آنے کے بعد وہاں پہنچا تھا ۔ وہ ان کا ملازم تھا ۔ اِدھر وہ دکان سے نکلیں اُدھر ساہنی بھٹیوں والے حصے میں گیا اور بسکٹ بنانے والے کاریگر سے جُگارڈ میں لگ گیا ۔ مسز مارتھا ہفتہ بھر دکان پر نہ آئیں ، شاید بیٹی کی شادی میں مصروف تھیں اور جب آئیں تو ساہنی اور میں نے بسکٹوں کے کاریگر کی مدد سے تجربے کے طور پر بنائے انگلیوں جیسے لمبے ، نازک اور مخروطی خستہ بسکٹ ان کے سامنے رکھ دئیے ۔ یہ تین چار ذائقوں کے تھے ۔ مسز مارتھا نے پہلے تو انہیں سونگھا اور کچھ لمحے ان کی مہک کو محسوس کیا ، پھر ہر ذائقے کے ایک ایک بسکٹ کو آرام سے مزہ لیتے ہوئے کھایا ۔ سکرٹ کی جیب سے رومال نکالا ، منہ پونچھا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک ڈھیری کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ۔ ’ یہ سب سے بہترین ہیں ۔ تم چاہو تو میرا ہاتھ چوم سکتے ہو ۔ ‘ ، ساہنی پھر شرما گیا اور بھاگ کر پچھلے کمرے میں چلا گیا ۔ “
میرے والد اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے ، جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو ۔ مجھے لگا کہ وہ یہ سب گھڑ رہے تھے ، مجھے لگا کہ مسز مارتھا کے ہاتھ صرف ساہنی کو ہی نہیں ، خود ان کو بھی اچھے لگتے تھے ۔
”پھر ؟ “ ، میں نے کہا ۔ وہ چونکے اور بولے؛
” یوں ہم نے ’مارتھا سپیشل‘ کے نام سے یہ لمبوترے ، نازک ، مخروطی اور خستہ بسکٹ متعارف کروائے تھے اور تم نے دیکھا ہے کہ یہ بہت پسند کیے جاتے ہیں ۔ “
” مسز مارتھا کو بُرا نہ لگا کہ آپ نے اِن بسکٹوں کو ان کے نام سے متعارف کروایا تھا ؟ “
” نہیں ، وہ تو بلکہ بہت خوش ہوئی تھیں اور انہوں نے سب سے پہلے اپنی کرسچیئن کمیونٹی اور میو سکول آف آرٹس میں ان بسکٹوں کی کہانی یوں مزے لے لے کر سنائی تھی کہ اس کمیونٹی کے لوگ ، ان کے سکول کے ساتھی اور ان کے طالب علم جب بھی دکان پر آتے تو ساہنی سے خوب مذاق کرتے ۔ اور تو اور یہ بات کسی طرح ساہنی کی بیوی تک بھی پہنچ گئی اور وہ بھی اس کو نہ بخشتی تھی ۔ “
”میں نے تو مسز مارتھا کو یہاں کبھی نہیں دیکھا ۔“
” تم دیکھ بھی کیسے سکتے ہو ۔ وہ اب یہاں ہیں ہی نہیں ۔ وہ بٹوارے کے وقت ہوئے فسادات میں ، ایک روز ، مسلمان فسادیوں کے نرغے میں پھنس گئی تھیں ۔ انہوں نے اُن کی ہتک کی اور کافر ، کافر کہہ کر انہیں اتنا ڈرایا اوردھمکایا کہ وہ لاہور چھوڑ کر ’ گوا ‘ چلیں گئیں ۔ وہ وہیں سے آئیں تھیں ۔ “
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری سب سے بڑی بہن کی شادی ہوئی اور پھر لاہور میں ٹیلی ویژن سٹیشن قائم ہو گیا ۔ میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لیا تھا ، شہر میں اور تبدیلیاں بھی آ رہی تھیں ؛ اب مجھے تفریح کا ایک اور ذریعہ میسر آ گیا تھا ۔ میرے والد ، والدہ ، مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو میلوں ٹھیلوں پر لے جانے کے ساتھ ساتھ مہینے میں ایک دو بار فلمیں تو دکھاتے ہی تھے ، اب ٹی وی کے آنے پر ، میں ہفتے میں ایک روز سات بجے سے پہلے ہی اپنی بہن کے گھر چلا جاتا جو شہر کی ایک نواحی بستی میں رہتی تھیں ؛ ٹی وی سب سے پہلے ان کے گھر میں ہی آیا تھا ۔ اس کا کارن ’ ڈینجر مین‘ کی وہ سیریز تھی جو پی ٹی وی پر لگتی تھی ؛ برطانوی جاسوس ’جان ڈریک‘ کے کارناموں نے ’ ننھے کے کارناموں‘ کی جگہ لے لی تھی جو کبھی ہم ’ بچوں کی دُنیا ‘ میں پڑھا کرتے تھے ۔ اس وقت مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ سرد جنگ کیا تھی جس نے امریکہ اور اس کے حواری یورپی ملکوں پر سوویت یونین کا ہوا اس بری طرح سے طاری کیا تھا کہ یہ فلموں اور ٹی وی سیریلز میں بھی در آیا تھا ؛ جیمز بانڈ اور ڈینجر مین جیسے کردار اسی زُمرے میں آتے تھے ۔
1965 ء میں پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی تو بلیک آئوٹ ہونے لگے اور ہم بیکری شام ڈھلتے ہی بند کرکے گھر لوٹ آتے ۔ سکول بھی کچھ عرصہ بند رہا اور میرے لئے ایک اور سرگرمی ہاتھ آ گئی ؛ یہ سول ڈیفنس کی وہ تربیت تھی جو وہ شہریوں کو شہر کے دفاع کے حوالے سے دے رہے تھے ؛ اسی تربیت کے دوران میں نے آگ بجھانا ، ڈبلیو شکل کی خندقیں کھودنا ، کیمو فلاج کرنا اور تھری ناٹ تھری کی رائفل چلانا سیکھی ؛ مجھے اب تک یاد ہے کہ جب میں نے اِس سے پہلی گولی چلائی تھی تو اس نے میرے کندھے کو اس بری طرح سے جھٹکا دیا تھا کہ میری ماں چار پانچ روز تک اس پر آیوڈیکس کی مالش کرتی رہی تھیں ۔
میڑک پاس کرتے کرتے ملک میں حکومت بدلی ؛ ایوب خان ہٹا اور یحییٰ خان نے اس کی جگہ لی ۔ ملکی سطح پر ایک نیا بحران اور ایک اور جنگ ہماری منتظر تھی لیکن ہمیں گھر میں بھی ایک بحران اور جنگ کا سامنا تھا ۔
ایک رات ٹی وی دیکھنے کے دوران میرے کانوں میں اپنے والد کی آواز آئی وہ دوسرے کمرے میں میری والدہ سے بات کر رہے تھے ۔
” دکان کے مقدمہ میں فیصلے کی گھڑی سر پر آ گئی ہے ۔ اگلی پیشی پر دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ “
مجھے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ اس دکان پر ، جس میں ہماری بیکری تھی ، کوئی مقدمہ بھی تھا ۔ اگلے ایک دو روز میں نے اپنے والد کو کریدا اور مجھے یہ پتہ چلا کہ یہ بیکری ہمارے دادا فضل دین نے ایک ہندو بھائی وال ، بلراج دیو ، کے ساتھ مل کر 1889 ء میں قائم کی تھی ۔ دکان والی عمارت بلراج دیو کی تھی جبکہ میرے دادا کی شراکت مالی تھی ۔ 1942 ء میں دادا کے فوت ہونے پر میرے والد نے ان کی جگہ لی ۔ 1945 ء میں بلراج دیو بھی فوت ہو گئے اور ان کا بیٹا ، ساہنی دیو ، باپ کی جگہ پر میرے والد کے ساتھ بیکری چلاتا رہا ۔
سن سنتالیس میں جب ہندوستان کے بٹوارے پر فسادات شروع ہوئے اور شاہ عالم دروازے کے اندر آگ لگی تو ساہنی دیو بھی دیگر لاہوری ہندوئوں اور سکھوں کی طرح مجبوراً بٹوارے کی لکیر کے پار چلا گیا ۔ دکان کے اوپر دو منزلوں میں ساہنی اور اس کا پریوار رہتا تھا ۔ وہ جاتے سمے ان کی چابیاں میرے والد کو دے گیا تھا ۔ اس کے جانے کے بعد جب اویکوئی ٹرسٹ پراپرٹی والوں نے اس عمارت کے حوالے سے اپنا دعویٰ کرنا شروع کیا تو میرے والد نے ’ بلراج دیو ، فضل دین بیکری‘ کا نام فضل دین بیکری کر دیا تھا ۔ اوپر کی منزلیں تب سے غیر آباد تھیں ۔ متعلقہ محکمے سے مقدمہ بھی تب سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ محکمے کا کہنا تھا کہ یہ ہندو پراپرٹی تھی جبکہ میرے والد کا موقف تھا کہ یہ کاروبار اب ان کا تھا ۔ ہم مقدمہ لوئر کورٹ سے ہار چکے تھے اور ہم نے سیشن میں اپیل کر رکھی تھی ۔ اویکوئی ٹرسٹ پراپرٹی والے اس عمارت کو تین کلیم کرنے والوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے ؛ ایک کو دکان ، دوسرے کو پہلی منزل اور تیسرے کو دوسری منزل جبکہ چھت اور سیڑھیاں تینوں کے لئے مشترکہ تھیں ۔ انہوں نے لاہور میں مال روڈ اور انارکلی سمیت بہت سے علاقوں کی عمارتوں ، حویلیوں اور کٹڑیوں میں ایسا ہی کیا تھا ۔ مقدمے کی پیروی محکمے کے کارندے اپنی عمومی چال سے کر رہے تھے لیکن تینوں کلیم کرنے والوں میں سے ایک ، جسے دکان ملنی تھی ، مقدمے کی پیروی تن دہی سے کر رہا تھا ۔ دوسرے دو کی دلچسپی کم تھی کیونکہ ان کے پاس عارضی رہائش گاہیں موجود تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ وہی انہیں الاٹ ہو جائیں ؛ یہ مکان تھے اور قدرے کشادہ بھی ۔ ہم سیشن کورٹ میں بھی ہار گئے ۔ ہائی کورٹ میں اپیل کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا ۔ وہاں بھی یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا ۔ اس کی آخری پیشی سے پہلے وہ کلیمنٹ ، جسے دکان ملنی تھی ، نے میرے والد کو فضل دین بیکری کی ’ گڈ وِل‘ کے طور پر ایک معقول رقم ، بطور پگڑی ، کی پیش کش کی ۔ میرے والد جانتے تھے کہ ہائی کورٹ میں بھی ان کی اپیل پر فیصلہ ان کے خلاف ہی آنا تھا ۔ اور کوئی چارہ نہ تھا ۔ انہوں نے پیش کش ویسے ہی قبول کر لی جیسے جنرل نیازی نے جان بخشی کی وہ پیش کش قبول کی تھی جو بھارتی جنرل اروڑا نے اسے ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے ، مشرقی پاکستان میں ، 1971 ء کی جنگ میں دی تھی ۔ جس روز ہائی کورٹ نے محکمے کے حق میں فیصلہ دیا ، اسی روز انہوں نے دکان اور اوپر کی دو منزلوں کی چابیاں محکمے کے کارندوں کے حوالے یوں کیں جیسے جنرل نیازی نے اپنی بندوق ، اروڑا کو پیش کی تھی ۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ہتھیار پھینکنے کے بعد جنرل نیازی نے 16 دسمبر کی رات کھانا کھایا تھا یا نہیں البتہ مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ میرے والد اُس رات بھوکے ہی سوئے تھے ۔ انہوں نے پگڑی کی صورت میں ملے پیسوں سے اپنے ایک دوست ، جو سونے کے زیورات کی دکان کرتا تھا ، سے شراکت کر لی ۔ جس بندے نے دکان لی تھی ، اس سے میرے والد نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ بیکری کا نام نہیں بدلے گا اور دکان اسی طرح چلائے گا ۔
اس بندے کو بیکری چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا ، اس نے میرے والد کے مشورے سے اپنے تئیں بیکری چلانے کی کوشش کی لیکن بیکری بیٹھتی چلی گئی ؛ وہ تو اس سوئچ بورڈ کو بھی صحیح طور پر نہ سنبھال پایا جس سے شو کیسوں میں لگے بلب مخصوص وقت کے لئے جلائے اور بجھائے جاتے تھے ؛ نتیجہ یہ نکلا کہ شو کیسوں میں رکھی اشیاء یا تو زیادہ درجہ حرارت سے بھربھری ہو جاتیں یا پھر کم درجہ حرارت سے خستہ نہ رہ پاتیں ۔ برسوں سے کام کرنے والے کاریگر بھی ایک ایک کرکے اسے چھوڑ کر جانے لگے ۔
میری تعلیم مکمل ہوئی اور میں واپڈا میں ایس ڈی او بھرتی ہو کر تربیت اور تعیناتی کے لئے لاہور سے باہر گیا ۔ جس روز میں ، تربیتی کورس مکمل کرکے اور حافظ آباد سب ڈویژن کا چارج لے کر جیپ میں گھر لوٹا تو اس جگہ سے گزرا جہاں یہ بیکری تھی ؛ یہ گھر کے راستے میں پڑتی تھی ۔ یہ غروب آفتاب کا وقت تھا ۔ وہاں ’ فضل دین بیکری ‘ کا ٹین والا بورڈ نہ تھا ۔ اس کی جگہ ’ مشتاق اینڈ سنز‘ کا نیلا اور پیلا نیون سائن جگمگا رہا تھا ۔ میں نے اپنے ڈرائیور خلیل کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا ۔ جیپ رُکی تو میں اتر کر دکان کی طرف بڑھا ۔ دکان کا دروازہ بھی بدل چکا تھا لکڑی کے فریم والے شیشے کے دروازے اور اس کے دونوں اطراف میں بنے شوکیس غائب تھے جن میں برقی قمقموں کی روشنی میں کیک وغیرہ رکھے ہوتے تھے ۔ اب وہاں موٹے شیشے کا ایک بڑا دروازہ تھا ، جس سے اندر پوری دکان نظر آتی تھی ۔ دکان کے تین حصے بھی ایک ہو چکے تھے اور پچھلے صحن تک یہ ایک لمبی دکان بن چکی تھی ۔ میں دکان میں داخل ہوا ۔ جدید انداز میں بنی اور سجی اس دکان میں ایک بھی برقی قمقمہ نہ تھا ۔ فلوریسنٹ ٹیوب لائٹس اور دیواروں پر لگی الماریوں کی پشت پر لگے آئینوں نے دکان کو یوں روشن کر رکھا تھا جیسے اس میں چاند اتر آیا ہو ۔ الماریاں اور شو کیس ریڈی میڈ گارمنٹس سے بھرے پڑے تھے ۔ کیش کائونٹر کے پیچھے ایک ادھیڑ عمر کا شخص بیٹھا تھا جبکہ دو نوجوان گاہکوں کو کپڑے دکھا رہے تھے ؛ وہ غالباً اس کے بیٹے تھے ۔ مجھے دیکھ کر اڈھیر عمر کے شخص نے پہلے تو ان دونوں نوجوانوں کی طرف دیکھا اور انہیں مصروف پا کر خود کھڑا ہو گیا ؛ وہ مجھے بھی گاہک سمجھ رہا تھا ۔ میں نے نظر بھر کر دکان کو دیکھا اور بِنا کچھ کہے باہر نکل آیا ۔ میرے دل میں دو طرح کے احساسات تھے ؛ ایک یہ کہ لاہور کی تین بڑی بیکریوں میں سے ایک اب نہیں رہی تھی ، یہ اداس کر دینے والا احساس تھا جبکہ دوسرا یہ کہ یہ دکان پھر سے آباد ہو گئی تھی ، برقی قمقموں کی پیلی روشنیوں سے نکل کر اُس نئے دور میں آ گئی تھی جس میں پی ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ نشریات بھی رنگین ہو چکی تھیں ۔ یہ ایک خوش کُن احساس تھا ۔
میری نظروں کے سامنے ایک سال پہلے کی بیکری کا منظر آ گیا ؛ اس کا زنگ آلود ٹین کا بورڈ جس کا سفید روغن پیلا پڑ چکا تھا اور اس پر نیلے رنگ میں لکھے فضل دین بیکری کے حروف سیاہ ہو چکے تھے ۔ لکڑی کے فریم والے دروازے کا سفید روغن بھی جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا اور اس کے دونوں اطراف میں بنے شو کیسوں میں اصلی کی بجائے مصنوعی ایک منزلہ ، دو اور تین منزلہ ویڈنگ اور عام کیک رکھے تھے ۔ اندر کا حال بھی کچھ اچھا نہ تھا ۔ کئی شو کیس خالی تھے ، بس کچھ ہی میں بیکری کا وہ سامان پڑا تھا جو خود تیار کردہ نہیں تھا بلکہ شاہ عالم مارکیٹ اور موچی دروازے سے بنا بنایا خرید کر لایا گیا تھا ۔ میرا ذہن اور پیچھے گیا جب میرے والد خود اسے چلایا کرتے تھے اور میری نظروں کے سامنے وہ برقی قمقمے روشن ہو گئے جن کے بٹنوں پر میرے والد کے ہاتھ اسی مشاقی سے چلتے تھے جس طرح ماسٹر مارٹن کی انگلیاں بانسری یا بیگ پائپر کی بین پر چلتی تھیں ۔
میں جیپ میں بیٹھا تو خلیل نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ میں کچھ نہ بولا اور اسے گاڑی سٹارٹ کرنے کا اشارہ کیا ۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ میں والد صاحب سے ’ فضل دین بیکری‘ کے ’ مشتاق اینڈ سنز‘ میں بدلنے کی کتھا سن سکوں جس نے لاہور سے میری غیر حاضری کے دوران جنم لیا تھا ۔ میرے دائیں ہاتھ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج تھا جس کے سفید گنبدوں پر ابھی بھی سورج کی آخری کچھ کرنیں آہستہ آہستہ مدہم ہو رہی تھیں ۔ پاس ہی ایونگ ہال کے باہر ایف سی کالج کی نیوی بلیو بس کھڑی تھی اور کالج سے واپس آئے طالب علم اس سے اتر رہے تھے ۔ #

 دونا = ببول کے پتوں اور اسی کے کانٹوں سے بنا ڈسپوزیبل کٹورا ، یہ دو طرح کے ہوتے تھے ؛ ڈھکن اور ڈھکن کے بغیر

Published inعالمی افسانہ فورمقیصر نذیر خاور

Comments are closed.