عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر62
بدرا مت برسو مورے انگنا۔
رومی ملک (بحرین)
اپنی کھڑکی سے نظر جمائے آسمان کو تک رہی تھی
میری کھڑکی سے آسمان کا ایک بڑا حصہ نظر آتا ہے – میں نے دیکھا آسمان کا ایک کنارہ کالا ہو رہا ہے – شاید بادل کا ٹکڑا ہے – میں دوڑتی بھاگتی دھپ دھپ کرتی کئی سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتی چھت پر آگئی- آسمان پر کالے بادل کے آوارہ ٹکڑے کو ہوا کے دوش پر لہراتے دیکھ کر دل مسرتوں سے جھوم اٹھا ۔ کتنی شدت سے مجھے موسم کی پہلی بارش کا انتظار تھا ۔ لیکن لمحہ بھر میں میری خوشی کافور ہو گئی ۔ آسمان بالکل صاف اور بادل کا کالا ٹکڑا جانے کہاں غائب ہوگیا ۔ بڑی ڈھٹائی سے تابناک سورج مجھے منہ چڑا رہا تھا۔
” یہ لڑکی دھوپ میں کیا کر رہی ہے ؟”
بھائی جان کی آواز آئ
“بارش کا انتظار کر رہی ہوں ۔” میں نے اوپر سے ہی اونچی آواز میں جواب دیا ۔ “تمہارا دماغ خراب ہے ۔ ”
بھائی جان اوپر آ گئے ۔
“میں نے آسمان پر کالے بادل دیکھے ۔” “اب تو نہیں ہیں ….. پھر دھوپ میں کیوں تپ رہی ہو؟”
“یہ سورج مجھے منہ چڑا رہا ہے ۔ بادل سے کہہ رہی ہوں آ کر اس کے منہ پر کالک مل دے ۔” میں نے معصومیت سے کہا۔ “بادل تمھاری بات سن رہا ہے ۔” “کاش سن لیتا ۔ ” “سن لےگا تب آجانا ‘اس وقت تو نیچے چلو ۔” “بھائی جان وہ دیکھو بادل ۔ ” بادل کا ایک ٹکڑا لہراتا ہوا پھر سے سطح افق پر نمودار ہو گیا ۔ ” پاگل مت بنو نیچے چلو۔۔۔۔ورنہ اماں کی ڈانٹ سننا پڑے گی ۔”
بادل نہیں چھائے ۔ پانی نہیں برسا اور میں سورج کو گھورتی ہوئی نیچے آ گئی ۔
“اماں چار بج گئے ‘ کریمن بوا ابھی تک نہیں آئیں ۔”
“بچہ بیمار ہے ‘ساس کی طبعیت بگڑ گئی ‘نند سے جھگڑا ہو گیا ‘ ڈھیروں بہانے ہیں بوا کے پاس …” کفگیر چلاتی اماں تنک کر بولیں ۔
“اماں الٹا ہی کیوں سوچتی ہو ‘ ہو سکتا ہے وہ سچ کہتی ہوں ۔”
“تو میں جھوٹی ہوں ؟” اماں بگڑ اٹھیں ۔
” توبہ میں نے ایسا کب کہا ؟”
غصے میں ان کا ہاتھ تیزی سے چلتا ہے۔ حلوہ گھوٹ رہی تھیں ۔ کفگیر تیز چلنے لگا ۔ چنے کا حلوہ بھائ جان کی مرغوب غذا ہے ۔ ان کی پسند کا خیال رکھ کر اماں اکثر حلوہ بناتی ہیں ۔ حلوے کی سوندھی سوندھی خوشبو باورچی خانے سے نکل کر دالان تک میں پھیل رہی تھی ۔
اس دن کریمن بوا نہیں آئیں ۔ دوسرے دن جب وہ آئیں تو ان کے چہرے پر چھائی پژمردگی اور آنکھوں میں ویرانی دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی ۔ “کیوں بوا خیریت تو ہے ؟” ” بی بی میرا بیٹا بیمار ہے ‘کئ دنوں سے بخار ہے”
“ڈاکٹر کو دکھایا ؟” “ہاں دکھایا ‘ فائدہ نہیں ہے ۔ بخار اترنے کا نام نہیں لیتا ۔” وہ سسک اٹھیں ۔ اپنے آنچل سے آنسو پوچھتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئیں ۔
اف ! یہ غربت ۔ بیٹا بیمار ہے ۔ اسے چھوڑ کر دوسروں کا چولہا چوکا کرنے آ گئیں ۔ مجھے ان کی حالت پر ترس آگیا ۔ میں نے یہ کہہ کر چھٹی دے دی کہ تمہارا بیٹا جب ٹھیک ہو جاۓ تب آنا ۔
اماں نے سنا تو بگڑ اٹھیں ۔۔ “خود مختار بن بیٹھی ہو ۔ کس کی اجازت سے تم نے اسے چھٹی دی ؟”
“اماں بگڑتی کیوں ہو ؟ ان کا بیٹا بیمار ہے آپ کو تکلیف نہیں ہوگی ۔ میں سارا کام کر لوں گی ۔” میں نے اماں کو سمجھاتے ہوۓ کہا ۔
“عجیب خود سر لڑکی ہے ۔ جو دل چاہے کر بیٹھتی ہے ۔ بڑوں سے رائے مشورہ لینا اس نے سیکھا ہی نہیں ۔” میری شان میں اماں جانے کیا کیا قصیدے پڑھتی چلی گئیں ۔ میں خاموشی سے کام میں جت گئی ۔
چار دن گزر گئے ۔ بوا نہیں آئیں ۔ مجھے تشویش ہوئی ۔ کہیں ان کا بیٹا زیادہ بیمار تو نہیں پڑ گیا ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بوا کے گھرجاؤں گی ۔ اماں نے سنا تو برس پڑیں۔ “پاگل ہو گئی ہو ‘ اس بستی میں جاؤ گی ‘ لوگ کیا کہیں گے ؟”
حد ہے ‘ انسان سے ملنے پر سوال ‘ لوگ کیا کہیں گے ؟
“اس میں برائی کیا ہے اماں ؟ اس بستی میں انسان ہی تو رہتے ہیں ۔”
“تم وہاں نہیں جاؤ گی ۔” اماں کا لہجہ حتمی تھا “اماں میں اسکول جا سکتی ہوں ‘ کالج جا سکتی ہوں ‘ بازار جا سکتی ہوں ‘ پھر وہاں کیوں نہیں جا سکتی ؟ میری اچھی اماں پلیز مت روکو ‘ مجھے جانے دو ۔”
میں نے اماں کے گلے میں پیچھے سے اپنی بانہوں کا ہار ڈالتے ہوۓ خوشامدانہ انداز میں کہا ۔ بالآخر اماں نے میری بات مان لی ۔ اس سے پہلے کہ اماں کا ارادہ بدلے میں وہاں سے چل پڑی – میں تمام راستے اماں اور ان کے بوسیدہ بیمار معاشرے کے بارے میں سوچتی رہی ۔۔۔۔۔۔ خود کو اعلٰی اور ارفع سمجھنے والے یہ لوگ غریبوں کو بالکل اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح زندہ رہ جانے والے مرے ہوئے کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔۔
‘بے جان ‘بے وقعت ‘
میرا رکشہ کریمن بوا کے گھر تک نہیں جا سکا ۔ ان کے گھر تک جانے والی گلی کافی تنگ اور پیچ دار تھی – میں رکشہ سے اتر گئی – چند فاصلہ ہی طے کر پائ کہ گلی کے مہانےء پر ایک بڑے سے گندوڑے(کوڑے کے ڈھیر )کا سامنا ہوا ۔ گندوڑے کی بائیں جانب ایک گھر کی دیوار کے ساتھ کھرلی پر بندھی بھینس جگالی کر رہی تھی جس کی پشت پر بیٹھا کوا چونچ مار رہا تھا ۔ اسی گھر کی دیوار پر ایک عمر رسیدہ عورت گوئٹھا(اپلے )تھاپ رہی تھی۔ کوڑے کی غلاظت سے بچ کر نکلنا مشکل تھا ۔ میں احتیاط سے قدم آگے بڑھاتی گئ ۔ گندوڑے کی راکھ پر ایک کڑک مرغی اپنے چوزوں کو دانا کھلا رہی تھی ۔ مجھے دیکھ کر اس نے اپنے پر پھڑپھڑا کر چوزے کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کی ۔ مرغی اپنے بچوں کو خود اعتمادی سے روکتی ہے ۔ آنے والے خطرے کے پیش نظر خود سے چپکا لیتی ہے ۔ اس کی پھڑپھڑاہٹ اتنی تیز تھی کہ راکھ اوپر کو اٹھتی ہوئ چاروں طرف پھیل گئ ۔ اس راکھ سے بچنے کی کوشش میں گندوڑے پر پڑا ادھوڑا (اینٹ کا ٹکڑا)میرے پائوں کے نیچے آگیا ‘ میرا توازن بگڑا ۔ کسی صورت خود کو سنبھالا ‘تبھی میرے منھ سے گھٹی گھٹی چیخ نکل گئ ۔ میں زرد پڑ گئ ۔ میرا پائوں ایک بڑے سے مرے ہوئے چوہے کی دم پر تھا۔ میری چیخ سن کر مرغی کوں کوں کٹ کٹ کی آواز نکالنے لگی ۔ پاس ہی جلی ہوئ جلد والا ادھ ننگا بچہ کوڑے کے ڈھیر سے کچھ چن رہا تھا ۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگا ۔ گوئٹھا تھاپتی عورت کے ہاتھ رک گئے ۔ اس نے بچے کو گھور کر دیکھا اور مجھ پر ہمدردی بھری نظر ڈالی ۔ میں نے اپنے حواس درست کیئے ۔ اب میں ایک ایک چیز کا بغور جائزہ لیتی قدم رکھنے لگی ۔اف کتنی گندگی ‘کتنا تعفن ہے ۔ مخصوص دنوں میں استعمال شدہ کپڑے بے ترتیب آڑے ترچھے بکھرے ملے۔ جنہیں عام طور پر عورتیں گھر میں سنبھال کر سب کی نظروں سے بچا کر رکھتی ہیں ۔
بچپن میں کبھی میں کریمن بوا کے ہمراہ ان کے گھر آئی تھی ۔ اس لئے گھر ڈھونڈنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی ۔ میں نے دستک دی ۔ گلی میں دروازوں پہ بیٹھی سہہ پہر کی گپیں مارتی ہوئ عورتیں اور پاس کھیلتے بچے مجھے دلچسپی سے دیکھنے لگے ۔ چند ایک عورتیں اپنے بچوں کے سروں سے جوئیں نکالنے میں منہمک تھیں ۔ دروازہ کھلا تھا ۔ اندر سے کسی کے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی ۔ دروازے پر کریمن بوا مجھے دیکھ کر مجسمہ حیرت بن گئیں ۔ “بی بی جی آپ ؟” “تمہارا بیٹا کیسا ہے بوا ؟” “آپ یہاں ؟” میں دروازے پر کھڑی تھی ۔ عورتیں اور بچے جہاں اب تک مجھے اور میرے قیمتی کپڑوں کو دیکھ رہے تھے وہیں کچھ منچلے اور اوباش قسم کے لونڈوں کے ہونٹوں پر سیٹیاں اور سستی فلموں کے غیر معیاری نغمے مچلنے لگے ۔ “تمہارا بیٹا ٹھیک ہے نا ؟”
میں اندر آگئ
کمرے میں موجود سیلن ،گھٹن اور غربت کی تیز بساند نے میرا استقبال کیا ۔اندر دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ ایک پر ایک شخص گھٹنوں کے بل جھک کر اپنی جانگوں سے سینے کو دبائے گہری گہری سانس لے رہا تھا۔ چارپائی کے نیچے مٹی کے برتن کا ٹوٹا ہوا ایک حصہ رکھا تھا ۔ جس میں چولہے کی راکھ بھری تھی ۔ اس میں جذب گاڑھے گاڑھے بلغم پر بہت ساری مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔ اس بوڑھے شخص نے حلق صاف کرکے بلغم اس برتن میں گرایا تو کمرے میں اس کی سانسوں کی سائیں سائیں کے ساتھ مکھیوں کی بھنبھناہٹ گونج اٹھیں ۔ دوسری چارپائی پر دس بارہ برس کا ایک لڑکا لیٹا ہوا تھا ۔ لڑکے کے سرہانے دو جوان لڑکیاں بیٹھی تھیں ۔ غالبا وہ بوا کی بیٹیاں ہوں گی ۔ ان میں سے ایک بار بار اس لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔ ایک چھوٹا لڑکا زمین پر سویا ہوا تھا۔ اس کے گرد بھی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔ شاید یہ بوا کی بیوہ نند کا بیٹا ہے ۔ پاس ہی سفید میلی سی ساڑی میں ملبوس اس کی نند بیٹھی تھی ۔ جس کی ساڑی میں جگہ جگہ پیوند چسپاں تھے ۔
” بی بی جی میرے بیٹے کا بخار نہیں اترا ۔ ابھی بھی بے سدھ پڑا ہے ۔ میں کافی پریشان ہوں اس لئے نہیں آسکی ۔” انہوں نے صفائی دی .
“میں تمھارے بیٹے کو دیکھنے آئی ہوں ۔ ”
“کیا ؟”
وہ بے یقینی سے مجھے تکنے لگیں ۔ اپنے آنچل سے کونے میں رکھی اکلوتی کرسی صاف کر کے مجھے بیٹھنے کو بولیں ۔ میں نے غور کیا وہ کرسی نہیں تھی’ اسٹول بھی نہیں تھا ‘جو بھی تھا بیٹھنے کے لائق تھا ۔ گرمی سے میرا برا حال ہونے لگا ۔ بوا میرے ایک دو سوالوں کا جواب دے کر چپ ہو گئیں ۔
حبس ‘ گھٹن ‘ گرمی اور سب کی خاموشی نے مل کر ماحول کو بوجھل بنا دیا ۔ میں نے پرس سے کچھ روپے نکال کر بوا کو دیئے کہ اپنے بیٹے کا علاج ٹھیک سے کرائے ۔
چند روپے بوا کے ہاتھوں میں رکھ کرمیں نے ان کی مشکل کشائ کی یا اس مدد میں یہ عنصر شامل ہے کہ میں دینے کی اہلیت رکھتی ہوں ۔
اس دن بوا کے حال پر ترس کھا کر میں نے انہیں چھٹی دی تھی آج روپے دیئے ۔
خیرات ؟
ان کا حق ؟
یا میرا فرض ؟
میرے اندر ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور گز گیا
میں اٹھ گئی –
“چلتی ہوں ۔ ” “میرے تو نصیب جاگ گئے بی بی جی ”
اچانک بادل کے گرجنے کی آواز آئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا مسلط ہو گیا ۔ بوا کی نند لپک کر اندر کی جانب گئ ۔ کچھ ہی پل میں ایک چارپائی گھسیٹتی ہوئ اندر لے کر آئ ۔ چھتوں اور کھڑکیوں کے چھجوں پر شور مچاتے ہوئے بارش کے قطرے بڑی تیزی سے گرنے لگے ۔ موسم کی پہلی بارش شروع ہو گئی- ‘اف میں کہاں آ پھنسی؟ ‘ جس بارش کا میں شدت سے انتظار کرتی رہی ۔ جس کے لئے میں گھنٹوں چھت پر کھڑی بادلوں کو گھورا کرتی ‘ اس جھونپڑی میں بارش کا لطف کس طرح اٹھاؤں ؟ یہاں تو سیلن گھٹن اور تعفن سے دم گھٹ رہا ہے ۔ میں بے بسی کے عالم میں گھر جانے کے لئے سوچنے لگی ۔ بوا دروازے تک گئیں ہاتھ پھیلا کر بارش کے زور کا اندازہ کیا
“بی بی جی بارش تیز ہو گئی ہے ۔ ٹھہر جائیں ‘پانی تھم جائے گا تب میں آپ کو چھوڑ آوں گی ۔”
بارش کی آواز تیز ہونے لگی ۔ بارش سے بچنے کے لیئے چڑیا کا ایک جوڑا آگن کی جانب کھلی کھڑکی سے ہوتا ہوا کمرے کے مچان پر آکر چھپ گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ سوندھی سوندھی خوشبو کی جگہ بساند اور تعفن کا بھبکا نتھنوں سے ٹکرایا تو ابکائی سی آئی ۔ تعفن بہت تکلیف دہ تھا ۔ ایسی بدبو سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ۔ گرمی کی شدت نے بھی میرا برا حال کر دیا – جسم کے مساموں سے ننھی ننھی چپ چپی بوندیں نکل کر میرے ریشمی کپڑوں میں جذب ہو نے لگیں – کپڑے بدن سے چپکے تو بدن میں تیز چنچناہٹ محسوس ہوئ – دو پل ٹھہرنا میرے لئے مشکل ہونے لگا – اس تیز بارش میں نکلنا بھی ممکن نہ تھا میں ادھ مری سی لاچار بیٹھی رہی- میرا ذہن بدن کی چنچناہٹ اور پسینے کی چپچپاہٹ سے نکل کر یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایسے حالات میں یہ لوگ آخر کس صورت جی لیتے ہیں —؟
کیا واقعی یہ جی رہے ہیں ؟
تبھی ٹپ سے پانی کی ایک بوند میرے سر پر گری – میں اس ایک ننھی سی بوند کا مقابلہ کرتی تب تک بڑی بڑی کئی بوندیں’ لگاتار مجھ پر گرنے لگیں . میں نے اٹھنا چاہا تو دیکھا چھت ایک جگہ سے نہیں بلکہ کئی جگہوں سے ٹپک رہی ہے . میرا اٹھنا بیکار تھا ۔ میں بیٹھی بیٹھی بھیگتی رہی- بوا کا بیمار بیٹا اس ٹپ ٹپ سے نہیں بچ پایا ۔ اس کی بہنیں اسے چادر سے ڈھکنے کی لاحاصل کوشش کرنے لگیں ۔ بوڑھے نے کھانسنا بند کر دیا – وہ بھی بارش کی بوندوں سے بچنے کے لئے پہلو بدلنے لگا ۔ پھر دیکھتے دیکھتے جانے کس طرح فرش پر پانی آ گیا ۔ بچہ اٹھ کر رونے لگا ۔ اس کی ماں نے اسے گود میں اٹھا لیا ۔ اندر سے بھیگتی ہوئی بوا کی ساس کمرے میں آئیں ۔ ایک کونے میں رکھی گٹھری کھولی اس میں سے چند گندے کپڑے نکالے اور اندر کی جانب مڑ گئیں ۔ وہ میری طرف سے بے نیاز تھیں ۔ بوڑھا بول اٹھا ۔۔ “پانی میں کیوں بھیگتی ہو ‘ کپڑے بعد میں دھل جائیں گے ۔” بوڑھے کا لہجہ حاکمانہ تھا – چہرے پر عمرکی لکیریں ہی نہیں درشتگی اور کرختگی بھی نمایاں تھیں –
” ہاں دھل جائیں گے لیکن برسن کے پانی جیسا صاف نہیں ہو گا ”
وہ اندر چلی گئیں ۔ پھر زور زور سے کپڑے پٹکنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ بارش نے زور پکڑ لیا ۔ چھت سے اتنا زیادہ پانی ٹپکنے لگا کہ بچنا مشکل ہو نے لگا ۔ بہنوں کی لاکھ کوششیں اپنے بیمار بھائی کو چھت سے ٹپکنے والے پانی سے محفوظ نہیں رکھ پائیں ۔ ہم چھت کے نیچے تھے لیکن کھلی چھت کا گمان ہو رہا تھا۔ شام ڈھلنے لگی ۔ قبل از وقت رات کی سیاہی اپنی چادر پھیلانے لگی ۔ میرے لئے مزید ٹھہرنا مشکل تھا ۔ میں نے بوا سے اجازت مانگی ۔ اتنی تیز بارش میں وہ پہلے نہ مانی ۔ پھر اپنے ساتھ گھر چھوڑنے کے لئے رضامند ہوئیں ۔ جیسے تیسے گھر پہنچی ۔ بارش میں شرابور میں نے جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو امّاں کی دھاڑ نے میرا استقبال کیا ۔ بھائی جان نے بھی آج امّاں کی حمایت کی ۔ میں سب کی ڈانٹ سنتی رہی رات بےحد کالی اور بھیانک تھی ۔
تمام رات بارش ہوتی رہی ۔ بارش اتنےزور کی تھی کہ میرے کمرے کے روشن دانوں سے پھوار اندر آ رہی تھی ۔ جو کمرے کے حبس میں گھل کر ماحول کو مزید بوجھل بنا رہی تھی ۔ کمرے کے بڑھتے حبس کو میں نے اپنے اندر اترتا محسوس کیا ۔ بارش کی آواز سے جانے کیوں مجھے بےحد وحشت ہونے لگی تھی۔ اسی وحشت کے زیر اثر کبھی چہل قدمی کرتی کبھی دریچے سے جھانک کر بارش کے زور کا اندازہ لگاتی ۔ باہر کتنا کثیف اندھیرا ہے ‘ معلوم ہوتا ہے روشنی کا وجود ہی نہیں بلکہ ایک گہری کالی چادر ہے جسے زمین کی قبر پر چڑھا دیا گیا ہے ۔ بارش کی آواز اس قبر جیسے اندھیرے میں بڑی ہولناک لگ رہی تھی ‘ ایک ایسی ہولناکی جو میرے جسم سے ہوتی ہوئی دل و دماغ میں پیوست ہوئی چلی جا رہی تھی ۔ رات ٹھہر سی گئ ۔
بارش چھت پر بہت زوروں سے پڑ رہی تھی ۔ بارش کی آواز بتدریج بڑھتی گئی ۔ اچانک آواز کسی دکھیارن کے بین میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئ
کون ہے یہ نوحہ گر ؟
ایک بار پھر میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا ۔ باہر کی سیاہی مجھے سرخی مائل لگی ۔ بارش تیز تھی ۔ چھینٹے میرے چہرے پر پڑنے لگیں ۔ چہرے سے ٹپکتا ہوا ایک قطرہ میرے ہاتھ پر گرا ۔ جس کا رنگ سرخ تھا ۔
میں اپنا ہاتھ نتھنوں کے قریب لے گئ ۔ مجھے ابکائ سی آئی ۔
خون کی بو ؟
بین کرتی آوازیں بے ہنگم قہقہے میں تبدیل ہو گئیں۔ بے حد عجلت اور گھبراہٹ کے ساتھ میں نے کھڑکی کے پٹ بند کر دیئے ۔ مگر وہ آوازیں اندر بھی موجود تھیں ۔
حبس اور بڑھ گیا تھا۔
قریب ہی کسی گھنٹا گھر نے پانچ بجائے تھے ۔
بارش کمزور پڑ نے لگی تو آوازیں بھی مدھم پڑ گئیں جیسے کسی دوسری دنیا سے آتی محسوس ہو ئیں ۔
غربت اور بارش کی دو طرفہ مار جھیلتا کریمن بوا کے گھر کا منظر میرے حواس پر قابض رہا ۔ یہ طوفانی برساتی رات
اور بوا کی جھونپڑی کی خستہ حال بنیاد ۔
‘کیا میں بوا کے بیٹے کو گھر لا سکتی تھی’
‘اماں اجازت دیتیں ؟’
‘شاید نہیں ‘ ‘ کیوں دیتیں’ اس دنیا میں کتنی مجبور ‘ کتنی بدقسمت مائیں موجود ہیں کیا ہم سب کو پناہ دے سکتے ہیں ؟’
‘نہیں، نہیں دے سکتے ‘
کمبخت کو بوا کے گھر پیدا ہی نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔ مگر اس بات کا تعین کون کرے کہ کس فرد کو کس گھر میں پیدا ہونا ہے ؟
‘اف کتنی بے رحم ‘ کتنی ظالم ‘ کتنی کمینی جگہ ہے یہ دنیا’
یا۔۔۔
‘ وہ ظالم اور سفّاک ہے جو بوا کے مطابق آسمان پر رہتا ہے ‘
۔ تو کیا وہ ‘جسے بوا خدا کہتی ہے اس زمین اور آسمان کے درمیان کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں بنا سکتا جہاں کریمن بوا جیسے لوگ رہ سکیں ۔ میرا بس چلے تو میں اس سے اس کا آسمان چھین کر کریمن بوا کے سر پر اوڑھا دوں تاکہ وہ آسمان سے آسمان تک کے سفر پر ہی گامزن نہ رہے …..کبھی زمین پر بھی اترے اور دیکھے اس کی مخلوق جینے کے لئے کتنے مصائب کتنی اذیتیں جھیل رہی ہے – خدا کی اس سفاکیت پر رونے کے لئے میری آنکھ آنسو تلاش کرتی ہے ‘ جو مجھے نہیں ملا ۔
بارش تھم گئ ۔
لیکن پانی کے اکا دکا قطرے رہ رہ کر ٹپ ٹپ کی آواز کے ساتھ اب بھی گر رہے تھے ۔
کمرہ ‘ بستر ‘ ذہنی کشمکش اور رات بھر کے تھکے ہوئے جسم میں ریزہ ریزہ اترتی ہوئ وحشتوں اور تلخیوں کا ازالہ ۔۔۔۔ بستر پر آ گری ۔ نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ۔سارا دن میں سوتی رہی ۔ ہوش تب آیا جب اماں مجھے جھنجھوڑ رہی تھیں ۔ “رومی ……رومی”
اماں کی آواز میلوں دور سے آتی محسوس ہوئی لیکن ان کے لہجے کی لرزش نے میرے ہوش اڑا دیئے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی “کیا ہوا اماں ؟”
“بوا کا بیٹا نہیں رہا۔”
میری جلتی ہوئ آنکھیں پٹھی پھٹی سی پتھرا گئیں ۔
ایک عجیب سی بو میرے نتھنوں سے ٹکرانے لگی ۔ میں نے دیکھا میرے اطراف خون ہی خون تھا ۔ مجھے ابکائی آئ ۔
میرے اندر ہوا کا وہ جھونکا جو اکثر مجھے بے ترتیب کرکے گزرتا رہا ہے طوفان کی صورت مجھ میں برپا ہو گیا ۔
اسے خون کی بو سے ابکائ کیوں نہیں آتی ؟
Be First to Comment