Skip to content

بابا اور سائیں

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 60
بابا اور سائیں
تحریر اقبال مٹ
خانیوال۔۔۔
تیری گھنیر گھر گھر،
تیری لنکا جاگے،
تیری۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔
پیلی پگڑی ،دائیں ہاتھ اور بائیں پیرمیں لوہے کے کڑے پہنے، اونچے لمبے قد کے جوگی کےان الفاظ میں نجانے کون سی بات کہی گئ تھی، رمز تھی کہ کنایہ مگر رواں بیانیہ اور موسیقیت اچھی لگی۔
“تم کافی بیمار ہو سائیں،
اپنا علاج کسی حکیم سے کرالو ، خیالی کینسر ابتدائ مرحلہ میں ہے، ابھی وقت ہے۔
کہو تو جوگی کے پاس ایک ککھ دوا ہے۔
اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
“مجھے کبھی کبھی ایک کے دو نظر آتے ہیں بابا۔ہاتھوں میں کپکپاہٹ اور پاوں میں پسینہ آجاتا ہے بال سفید ہو کر جھڑنے کے قریب ہیں۔ سینہ خالی خالی رہتا ہے۔مقدمہ درج نہیں ہوتا ، ڈگری پہلے ہو جاتی ہے ۔
رد بلا کا تعویذ ،
مرہم، کوئ گولی،
کشتہ دیویں بابا ،
ممنون رہوں گا۔”
۔۔میں ہذیانی انداز میں کہتا رہا۔
“ہاضمہ درست رکھو ،کاکا سائیں۔۔ ہاضمہ ۔۔
بازاری اور غیر ملکی بند اشیا کھاو گے تو بیمار ہو جاو گے ۔ یہ زہر آہستہ آہستہ خون میں شامل ہوکر تمام جسم کو بیمار کر دیتا ہے۔ کھٹی ڈکاریں اور الٹیاں کرنا۔ اچھا نشان نہیں ،یہ سب بند ہیضہ کی علامتیں ہیں۔ دیسی چیزیں کھاو اور ایک وقت ایک ہی چیز کھاو۔ آہستہ آہستہ غور سے دیکھو جو چیز تمہیں تکلیف دیتی ہے دوبارہ نہ لو ۔اس طرح غذا کے معاملے میں بہترفیصلہ کر پاو گے۔
ستر اسی سال کے ہو گئے ہو مگر تمہارا بچپناابھی نہیں گیا ۔
اپناآپ سنبھال کے رکھ۔
کیا کروں بابا۔؟
ہر بڑےمیں ایک بچہ چھپا بیٹھا رہتا ہے۔
وہی شرارتیں کرتا رہتا ہے۔
فصل کے گرد لگی باڑھ اس کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے مگر
بعض اوقات وہی باڑھ فصل کو کھانا شروع کر دیتی ہے
“مویا (مردہ ) نانگ دیکھا ہے؟”
“ہاں بابا”
” اس لیے مائ اپنے کمزور میاں کو مرا سانپ کہتی ہے۔
۔ ڈر کیا ہے؟
ایک وہم ہے صرف۔
اس کا سامنا کیا جاے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔
سنو کاکاسائیں،
گھوڑے ،رن(عورت )اور تلوار کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھو۔ دوسرےکے ہاتھ میں یہ تینوں چیزیں آ جائیں تو اسی کی ہوجاتی ہیں۔کتے کی دم کے بارے میں بھی سنا ہوگا، تو نے یا نہیں سنا؟
کچھ کچھ سنا ہوا تو ہے بابا۔
کہتے ہیں کہ ایک بزرگ فقیر نےلوہے کی نالی میں کتے کی دم کو سیدھا کرنے کے لیے رکھ دیا۔
سو سال کے بعد ، نالی سے وہ دم جب باہرنکال کر دیکھی تو پھر بھی ٹیڑھی نکلی۔
مطلب میری زنانی سے ہے ۔ باڑھ ،فصل اور تلوار ، بات کچھ سمجھ نہیں آ رہی بابا۔
بات سمجھ میں آ جاوے تو بہتر ہے کاکا۔
تمہارا مرض میری سمجھ میں آچکا۔ اتنا جسمانی نہیں جتنا روحانی ہے۔دیکھو
موتر۔ موتر ہی ہوتا ہے چاہے وہ گاے کا ہو یا اونٹ کا،ایک کو بت پوجا کے طعنے اور دوسرے کا پتھر خدا بن بیٹھے،
میرا مطلب دہرے رویوں سے ہے ،اپنے ہاتھوں اپنی بربادی مت کرو ۔ یہی گناہ بن کر لاشعور میں چلا جاے تو پھر زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ارد گرد اپنے اردگرد دیکھو ، شرارتیں
کرو گے تو ارد گرد بھی چاروں سمت سے وار کرے گا۔
“تیری گھینر گھر گھر،
تیری لنکا جاگے ،
تیری سولن پوجاں،۔
تینوں ہوون خشیاں۔۔۔۔
بابا جوگی کوڈا ہو کر اپنی راہ چلا جا رہا تھا اور میں ، اسے جاتے ہوے دیکھتا سوچ رہا تھا کہ رن( عورت ) تو آسانی سے قابو آ جاے گی مگر گھوڑے اور تلوار کا کیا کروں؟۔

Published inافسانچہاقبال مٹعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x