عالمی افسانہ میلہ2019
افسانہ نمبر 3
اے شام مہرباں ہو
تحریر : سارا احمد پاکستان( لاہور)
وہ ایک ایسی گہری چُپ میں تھا جسے صبح کی دستک نے جھنجھوڑا اور نہ سرِ شام دیواروں سے لپٹنے والی تنہائی نے- اس کا کوٹ اور ہیٹ کمرے میں کھونٹی پر ٹنگے تھے- ایک کونے میں فرش پر رکھی کھلی ہوئی چھتری کے اوپر کی نمی اس بات کی شاہد تھی کہ وہ بہت دیر باہر بارش میں بھیگی تھی- آج اس کی کالونی میں خودکشی کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا- ایک لڑکی نے محبت میں ناکامی پر خودکشی کی تھی- وہ اس لڑکی کو اس کے بچپن سے دیکھتا آیا تھا- اس کی پچاس سالہ زندگی نے اس کے بچپن کو شرارتیں کرتے اور شباب کو ردائے عفت میں سمٹتے دیکھا تھا- وہم یقین میں ڈھل جائے تو کیا کیفیت ہوتی ہے ایسا اسے اس گھر کے باہر پڑوسیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے محسوس ہوا جب ایمبولینس پوسٹ مارٹم کے لیے ڈیڈ باڈی لے گئی تو سب اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے- زندگی کی طرف لوٹنے کے بعد کس کا دھیان پیچھے رہ جانے یا آگے نکل جانے والوں کی طرف جاتا ہے- اسے نیم پلیٹ سے کوئی غرض نہیں تھی- اسے گھر کے پتھروں سے جھانکتی ان کی شان وشوکت سے بھی کوئی سروکار نہیں تھا- وہ بس دیر تک خود کو یہ یقین دلاتا رہا کہ یہاں کسی لڑکی نے اپنی جان لی تھی- شام کے اخبارات میں اس حادثے سے متعلق خبر شائع ہوئی جس میں فقط ایک ہی سچ نمایاں تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی- شہہ سرخی پر سرخ مارکر سے دائرہ کھینچنے کے بعد عبید خاموشی کی گپھا سے ایک اُداس مسکراہٹ زبردستی کھینچ کر اپنے ہونٹوں تک لایا- ان کہی باتوں کے سائے اس کی روح کی چوکھٹ پر سر نیہوڑے منتظر تھے کہ کب وہ انہیں صفحہء قرطاس پر بکھیرے- اس کے نزدیک امانت اس کے اصل حقدار کے سپرد کرنا بھی فرضِ عین تھا- اس نے اپنی لکھنے والی میز پر رکھے کاغذوں کے ایک پلندے کو اپنے ٹھٹھڑتے ہاتھوں سے چھوا تو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی- ان کورے کاغذوں کا حوصلہ تھا جو درد اور مسرت میں گزارے لمحات سنبھال لیتے تھے ورنہ ان کی ہنسی بہت کم سنائی دیتی اور گریہ سے نغمہء زندگی سسکتا رہتا-
وہ ایک نجی فرم میں کام کرتا تھا-
ماں باپ عرصہ دراز ہوئے ساتھ چھوڑ گئے تھے اور بہن بھائی کوئی نہیں تھا- شادی ہوئی اور بہت سا وقت گزر گیا- ننھے قدموں کی چاپ سے نیندیں ٹوٹیں اور نہ کسی کی بے جا ضد پر اسے کندھوں پہ بٹھا کر بازار لے جانا پڑا- بس ان دو نفوس کے ہی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ تھے- ان کے درمیان ہی خوشی غمی کا ساتھ تھا- وہ زندگی کے بارے میں بہت حساس تھا- اسے ہمیشہ اس احساس کی بھی قدر رہی جسے دوسرے لوگ جینا چاہتے تھے- اسے دنیا میں رکھے روا ہر ظلم سے نفرت تھی- اسے معلوم تھا یہ دنیا کبھی جنت نہیں بن پائے گی- لیکن اسے صرف ایک کانٹا اس سسکتی زندگی کی ایڑی سے نکالنے کی حسرت تھی- وہ لولی لنگڑی زندگی اس دنیا میں چھوڑ کر مرنا نہیں چاہتا تھا- اس نے خوابوں میں دنیا کو سنورتے نہیں دیکھا تھا اور نہ اس نے سمندر کے کنارے بیٹھ کر اس بوتل کا انتظار کیا تھا جس میں بند کوئی جن اس کی منشاء کے مطابق اس دنیا کی ترتیب بدل دے گا- خدا اپنی دنیا آپ بھی بدل سکتا تھا- چاند زمین سے نکلتا اور پھول بادلوں پہ کھلتے- آدم وحوا کی کہانی میں درد نہ پنپتے- خواہشیں کبھی بے ثمر رہ کر حسرتیں نہ بنتیں اور آنسو نمکین نہ ہوتے-
آنسوؤں کی کئی بوندیں اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر محسوس کی تھیں اور پھر انہیں درد میں ڈبو کر کچھ کہانیاں لکھی تھیں- وہ سب ابھی دنیا سے اوجھل اس کی میز پر کاغذوں کے پلندوں میں دھری تھیں-
اسے برسوں پہلے اپنی زندگی کی وہ رات یاد تھی جب بیچ سڑک ایک لاش اوندھی پڑی تھی- اس نے گاڑی سے اتر کر اسے سیدھا کیا- وہ ایک جوان اور خوبرو لڑکی تھی- اس کے گردن میں دوپٹہ بل دے کر کسا ہوا تھا- شاید اسی سے اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہو- اس نے ریسکیو والوں کو کال ملائی اور ان کے آنے تک اس کے پاس ہی رہا- رات کے آخری پہر کوئی اور گاڑی بھی اتفاق سے ادھر نہ آئی- وہ تنہا تھا لیکن سوچ میں ایک اژدھام چنگھاڑتا تھا- اس نے تصور کیا کہ اگلے دن کے اخبارات میں کیا خبر ہو گی،
“شہر کے پوش علاقے کے نزدیک شاہراہ پر ایک لڑکی نصف شب کے قریب مردہ پائی گئی- پولیس ذرائع کے مطابق وہ گھر سے سہیلی سے ملاقات کا کہہ کر نکلی تھی-“
اس حادثے سے متعلق کچھ دنوں تک کچھ ایسی ہی خبریں اس کے گردوپیش گردش کرتی رہیں بلکہ حسبِ خواہش اس میں مصالحہ بڑھایا جاتا رہا- اس نے اس رات کی وحشت کو فراموش نہیں کیا- ایک گرہ لگا کر اپنی عمر کے ساتھ باندھ لیا تھا-
” آپ کافی لیں گے اسوقت”-
اس کی بیوی نے محبت سے اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے-
قلم چھوڑ کر اس نے بھی اسے محبت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور اپنی پلکیں جھپکا کر اثبات میں ہاں کہا- اس کی آج کی کہانی بھی مکمل تھی- ان کہانیوں کی وحشت نے اسے عمر بھر ملول رکھا تھا- وہ ایک مرد تھا لیکن اس کی ہر کہانی کا مرکزی کردار عورت تھی- کافی جرعہ جرعہ اپنے اندر اتارتے ہوئے اس نے اپنی میز پر رکھی اپنی بیوی کی مسکراتی ہوئی تصویر کو دیکھا- یہ تصویریں کتنا سچ بولتی ہیں نا- انہیں اپنے اندر کے مناظر میں فنا ہونے کے بعد بدلنا نہیں آتا- اسے اپنی بیوی کی یہ تصویر بہت پسند تھی- پہاڑوں کے پس منظر میں صبح کی پہلی کرن سی اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ابھی تک رات کے آخری پہر کے بجھتے دئیے کی لَو کا سحر- اس کے کندھوں پر سیاہ کشمری شال تھی جس میں رنگین دھاگے سے کشیدہ کاری آنکھوں کو بھلی لگتی تھی- وہ ایک تصویر تھی- اسے جب کہانی کے کسی بدصورت موڑ پر رک کے سانس لینا ہوتا وہ اس پر اپنے ہونٹ رکھ دیتا تھا-
وہ ایک لڑکی جو اس رات سڑک پر اس کے سامنے مردہ پڑی تھی ہر نئی موت کے ساتھ اس کے خوابوں میں دوبارہ جی اٹھتی تھی- اسی فسوں زدہ ماحول میں اس کی گاڑی کے ٹائر چرچراتے اور پھر تحیر زدہ اس کی آنکھیں ونڈ اسکرین کے پار تکنے لگتیں- اس کی انگلیوں کی پوریں اس کی سانسوں کو محسوس کرنے کے لیے اسے چھوتیں اور وہ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی ابدی نیند سے جاگ جاتی- خوابوں میں موت کی نیند کتنی عارضی ہوتی ہے- پل میں مرتے اور جیتے ہیں اور اکثر مر کر بھی سانس نہیں رکتی- وہ لڑکی اپنی گردن سے دوپٹہ نکال کر اس ریشمی پھندے کو اس کی گردن میں ڈال کر کھینچتی- اس کا دم گھٹتا، اس کی سانس رکتی اور ایک چیخ کے ساتھ دوبارہ نئی زندگی ملتی-
” آپ کیوں حادثات کو اپنے سر پر سوار کر لیتے ہیں؟ “
اپنے بیوی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے وہ اپنی گردن جھکا لیتا- اس کی بھی نیند خراب کرنے پر اسے تاسف ہوتا-
” جب حقیقتیں کہانیوں میں ڈھل گئیں تب دل پر بوجھ کیسا-“
وہ اس کے بالوں کو پیار سے سہلاتی-
” ہاں تم ٹھیک کہتی ہو اب یہ دل کا نہیں کاغذوں کا دکھ ہے-“
وہ قابیل نہیں تھا پھر ہر الزام اپنے سر کیوں دھرے چاہے خوابوں میں ہی سہی- زندگی پھر چلنے لگتی- روز وشب کے انہی معاملات میں موسم بدلتے، ان کے مزاج بدلتے اور خبریں بدلتیں- وہ دعا کرتا یہ دنیا کی آخری کہانی ہو-
دستک غیر مانوس تھی- اس کے کسی دوست کی تھی اور نہ بیوی کی کسی پڑوسن سہیلی کا یہ انداز تھا- اطلاعی گھنٹی کے بجائے کوئی دروازہ یوں بجا رہا تھا جیسے ننھے ننھے ہاتھ مکینوں سے ڈر رہے ہوں- وہ صحن میں بچھے تخت پوش پر اپنی ٹانگیں پسارے مٹر چھیل رہا تھا- آدھے صحن کی یہ سرما کی دھوپ چھٹی والے دن اسے پوری زندگی کی طرح پیاری تھی- اسے اٹھنا ہی پڑا- بیوی باروچی خانے میں تھی جسے بلینڈر کے شور میں یہ دستک سنائی نہیں دی-
” انکل مجھے اندر آنے دیں گے”-
گیٹ پر کھڑی ایک نوجوان لڑکی نے ملتجیانہ انداز میں کہا- وہ اسے دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اس کی آواز کی بازگشت جب دوبارہ لوٹ کر آئی تو وہ گو مگو کی کیفیت میں ایک طرف ہٹ گیا- مٹر کی پھلی ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی اور دھوپ اسے چُبھنے لگی تھی- اس نے اپنا نام صبا بتایا اور اس کے ساتھ ہی تخت پوش پر بیٹھ گئی- تخت پوش کے ساتھ دو موڑھے رکھے تھے لیکن وہ وہاں نہیں بیٹھی- اس کے مانوس نقش ونگار سے ابھرتی ہوئی اس جیسی ایک واضح شبیہہ باورچی خانے سے آکر اس کے سامنے بیٹھ گئی- وہ بھی حیرت میں گم تھی اور اس کی انگلیاں تسلے میں چھیلے ہوئے مٹروں سے کھیلنے لگیں-
” تم نے کبھی بتایا نہیں کہ تمہاری کوئی بیٹی بھی تھی- مجھ سے صرف یہ کہا کہ تمہیں کسی سے محبت ہوئی تھی- اپنی ماں کے کہنے پر مجھ سے شادی پر رضامند ہوئیں ورنہ کسی کی بیوفائی پر اپنی جان دے دیتیں-“
اس کی بیوی جیسے ڈھلتی دھوپ کو نہیں روک سکتی تھی اب اس وقت کو کیسے روک کر رکھتی جس میں آدھا سچ چھپا تھا- اس نے ادھورے سچ کے ساتھ عبید کے ساتھ زندگی جی تھی لیکن وہ آدھا سچ کیسے بتاتی جب افتخار کے والد اپنے خون کو اس کے پہلو سے اٹھا کر لے گئے تھے- نرس اسے نہ بچاتی تو وہ بھی سڑک پر ایک خبر بن کر مردہ پڑی ہوتی اور عبید کی زندگی میں کبھی کہانی بن کر نہ آتی- اس نے صرف محبت کی تھی- یہ غلطی کسی لڑکی کو نہیں کرنی چاہیے- ایسی محبتوں میں سوائے رسوائیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا-
” ابا اب اس دنیا میں نہیں رہے-“
وہ اجنبی لڑکی گویا ہوئی-
” یہ ابا کے ساتھ آپ ہیں- میں صرف ایک نظر آپ کو دیکھنے چلی آئی مما-“
اس کے ہاتھوں میں ایک تصویر تھی اور ان دونوں نے تصویر دیکھنے کے بعد اپنی نظریں چرا لیں-
وہ اجنبی لڑکی کچھ دیر رکی صرف اتنی دیر کہ خامشی کا سَر قلم ہونے سے پہلے دھوپ رخصت ہو گئی- اس کے ڈرائیور نے باہر دستک دی اور وہ دونوں پہلے کی طرح اکیلے ہو گئے-
” ایک بار اسے گلے لگا لیتں-“
عبید نے جیسے خود سے سرگوشی کی- اس کی سماعتوں سے ایک سسکی ٹکرائی- باہر گاڑی اسٹارٹ ہونے سے انکاری تھی-
” صاحب گاڑی گرم ہو گئی پانی ملے گا”-
ڈرائیور نے کھلے دروازے سے اندر جھانکا-
” جاؤ اسے بھی اندر بلا لو”-
عبید نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر اسے اس کے ہونے کا احساس دلایا- اس کے خیال میں شائد اس طرح دنیا کے غم کچھ کم ہو جائیں- اب کہ یہ گمان نہیں یقین تھا-
“اے شام مہرباں ہو
اے مہ شب نگاراں
اے رفیق دل فگاراں
اس شام ہم زباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام شہریاراں
ہم پہ مہرباں ہو “
فیض کی نظم گنگناتے ہوئے اس نے اپنی کافی ختم کی- اس کی بیوی کی اندر سے فون پر باتیں کرنے کی آوازیں باہر تک آرہیں تھیں- اس کی ہنسی کی سرگم پر گھر میں موجود رنگ برنگے پرندے پنجروں کے اندر چہچہا رہے تھے- اس نے سامنے رکھی اپنی بیوی کی مسکراتی ہوئی تصویر پر اپنے لرزتے لب رکھے اور پھر اسے میز کے دراز میں رکھ دیا- اپنے بکھرے ہوئے کاغذوں کے پلندے کو سمیٹا اور ایک تھیلے میں ڈالا- اسے کل پبلشر سے ملنے جانا تھا- اس کی بارہ کہانیاں مکمل تھیں- کتاب کا نام تیرہ کہانیاں تھا-