Skip to content

ایک فرضی کہانی

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 15
”ایک فرضی کہانی”
؛یوسف عزیز زاہد پشاور پاکستان

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کوئی کہانی لکھنے بیٹھو تو ہنستی مسکراتی آنکھیں مٹکاتی کہانی خود ہمیں لکھنے بیٹھ جاتی ہے
“تو پھر؟” پہلے کے جسم میں سوال کا بچھو اپنا زہر انجیکٹ کرتا ہے اور نیم تاریک کمرے کے دروازے پر پہلے سے موجود بے شمار زنگ آلود تالوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
“پتہ نہیں پھر کیا ہوا تھا ” دوسرا ابھی تک راستوں کی دھول پھانک رہا ہے
“راستے بھی وہی تھے، گلیوں اور بازاروں سے شناسائی بھی تھی، گھروں کے کھلے دروازے بھی دامن پکڑتے تھے مگر مجھے اپنے گھر کا دروازہ کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا”
“پرانے شہرکی ساری گلیاں،سارے راستے،سارے گھر اور سارے دروازے ایک جیسے ہیں ہوسکتا ہے اس بے پناہ اندھیرے میں ہم اپنا راستہ کھوٹا کر بیٹھے ہوں”
پہلے کی کہی ہوئی بات کمرے کی چھت اور دیواروں سے ٹکرا کر مٹی کے فرش پر رینگتے سیاہ کیڑوں کا رزق بن جاتی ہے تو اس کمرے میں ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے ہیں ۔۔کچھ عجیب سا پر اسرار کمرہ ہے۔سیاہ لکڑیوں کی چھت،جس میں مکڑیوں نے جالے بُن رکھے ہیں ۔ جگہ جگہ سے دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا ہے اور عجیب بے ہنگم تصویریں بنتی بگڑتی ہیں ۔ کوئی کھڑکی ہے نہ روشندان بس ایک قدیمی منقش دروازہ ہے جسے دیمک چاٹ رہی ہے مگر اسی دروازے پر بے شمار زنگ آلود تالے سوالیہ نشان بنے لٹک رہے ہیں ۔آکسیجن کی کمی کے باوجود کمرے میں موجود تمام کرداروں کی سانسیں ابھی تک سلامت ہیں ۔ ہوسکتا ہے باہر سے بھی اس کمرے کا دروازہ زنگ آلود تالوں سے بھرا پڑا ہو اور کوئی اس کمرے کو کھولنے کی ہمت ہی نہ کرتا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باہر کچھ بھی نہ ہو۔دیوار نہ کوئی دروازہ،نہ دروازے پر پڑے زنگ آلود تالے،زمین نہ آسمان ،ہوا نہ روشنی،سورج نہ چاند،ستارے نہ کہکشاں ۔۔۔۔۔۔۔۔بس ایک گہرا سناٹا ہو ایک لمبی چپ ہو اور بے پناہ ،بے انت اندھیرا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمرے کے دروازے پر خونخوار درندوں کے غول کے غول سیاہ تھوتھنیاں اٹھائے آدم بو، آدم بو کی صدائیں بلند کر رہے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی مشتعل اور بے قابو ہجوم ہاتھوں میں پتھر اینٹیں اور ڈنڈے اٹھائے کمرے کا دروازہ توڑنے کے درپے ہو ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ سارا فساد اسی کمرے تک محدود ہو اور کمرے کے باہر ایک پر سکون دنیا آباد ہو ایسی دنیا جس کے لئے یہ کمرہ،کمرے میں موجود مٹی کے فرش پر رزق تلاش کرتے سیاہ کیڑے،اور ان سیاہ کیڑوں سے دامن بچاتی آلتی پالتی مارے بیٹھی مسکراتی کہانی اور کریہہ دھاگوں میں محصور ہوتے کہانی کے کرداروں کا کوئی وجود تک نہ ہو
ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن لمحہءِ موجود میں کہانی اور اس کے کردار اس نیم تاریک کمرے میں زندہ سلامت ،سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں
کمرے کے دروازے کے سامنے والی دیوار پر لگے ساٹھ وولٹ کا بلب اندھیرے سے مشتُ گریباں ہے۔ زرد بیمار روشنی میں چار کرسیاں کمرے کے عین وسط میں ایک دائرے کی صورت پڑی نظر آتی ہیں ایک کرسی خالی ہے آمنے سامنے پڑی کرسیوں پر پہلا اور دوسرا بیٹھے ہیں خالی کرسی کے سامنے والی کرسی پر ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہے جسم پر جس کے قیمتی ریشمی لباس اس اندھیرے میں جگمگاتا ہے مگر اس سفید ریشمی لباس پر جا بجا سیاہ دھبے ہیں جیسے خون جم گیا ہو عورت کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حواس اس کے قابو میں نہیں اس کے ایک ہاتھ میں کپڑےکی بنی ہوئی گڑیا ہے جس کے بدن میں سینکڑوں کانٹے پیوست ہیں عورت اپنی پلکوں سے گڑیا کے بدن کے کانٹے چننے کی کوشش کر رہی ہے ۔عورت کا ایک بازو کٹا ہوا ہے تھک جاتی ہے توپہلے اور دوسرے کو تاسف سے دیکھتی ہے نفی میں سر ہلاتی ہے خون کے آنسو روتی ہے اور دوبارہ گڑیا کے بدن کے کانٹے چننے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ پہلا اور دوسرا ابھی تک عورت کے وجود سے بے خبر ہیں اور کہانی جو مٹی کے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی رینگتے کیڑوں سے دامن بچا رہی ہے ان تینوں کو دیکھ کر مسکراتی ہے ۔ پہلا،دوسرا اور ادھیڑ عمر عورت اسکے وجود کا ادراک نہیں رکھتے مگر کہانی اپنے کرداروں کے گرد دھاگوں کا جال بُن رہی ہے کچھ دیر کے لئے چپ کے سانپ کونوں کھدروں سے نکل کرکمرے میں اپنا سبز کچور زہر تھوکنے لگتے ہیں ، کہانی مٹی کے فرش سے اٹھ کر چوتھی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے تو دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔وہ باری باری پہلے اور دوسرے کی آنکھوں میں اپنی آنکھوں کی پُتلیاں سجاتی ہے مگر وہ دونوں سوچ کے کسی لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں اورراستوں کی دھول کا ذائقہ چکھتے ہیں ۔
“کبھی کسی سے اپنے گھر کا راستہ بھی کھوٹا ہوا ہے؟” لمحہءِ موجود میں سوال کی گونج کمرے کی چھت اور دیواروں سے اپنا سر پٹکتی ہے کمرے میں ایک بار پھر ہنسی کا اسمِ اعظم بھونکا جاتا ہے تو پہلا اور دوسرا بھی چپ کے طلسم سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔ادھیڑ عمر عورت حیرت سے کمرے کی دیواروں اور چھت کو تکتی ہےاور پھر گڑیا کے بدن کے کانٹے چننے پر توجہ دیتی ہے۔
” تم نے مجھ سے یہ بات کیوں پوچھی؟ دوسرا حیرت سے سوال کا پانسہ پہلے کی طرف لڑھکا دیتا ہے
“کون سی بات ؟’پہلا بھی حیرت کی دلدل میں دھنس جاتا ہے
“وہی گھر کا راستہ کھوٹا کرنے والی بات”
“یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو خود راستوں کی دھول پھانک رہا ہوں میں نے تو کوئی بات نہیں پوچھی تم سے”
“کیا کہہ رہے ہو تم ؟میری بات سن کر تم ہنس بھی رہے تھے”
“کیا بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں ہنسوں گا تو دروازے پر پڑے تالے ٹوٹنے لگیں گے”
“ہاں ۔۔۔۔۔یہ تو ہے تالا تو ایک بھی نہیں ٹوٹا۔ ان کی تعداد میں تو اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے مگر ایک بات ہے”
“وہ کیا؟”
“میرے وجود میں سرسراتا شک اندھیرے کی قید سے رہائی پاکر یقین کے سبز باغوں کی راہ لے چکا ہے”
“کیسا شک؟ کہاں کا یقین؟ کون سے سبز باغ؟”
“پہلے مجھے شک تھا اب یقین ہو چلا ہے کہ اس نیم تاریک کمرے میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی ہے جو ہماری باتیں سن کر ہنستا ہے ٹھٹھہ مخول کرتا ہے”
ادھیڑ عمر عورت پہلے اور دوسرے کی باتیں غور سے سنتی ہے سوال کا پرندہ اُس کے لبوں پر بھی پھڑپھڑاتا ہے مگر اس کے ہونٹ مصلحت کے دھاگوں سے سلے ہوئے ہیں اور آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے پہلا اور دوسرا اس تیسرے کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں جو ان کی باتیں سن سن کر ہنستا ہے ٹھٹھہ مخول کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔۔۔
کہانی ان کی آنکھوں سے اپنی پتلیاں نکال کر ہنسی کو اپنے ہونٹوں میں دباتی ہے اور کرسی سے اٹھ کر ایک بار پھر مٹی کے فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتی ہے
“پھر۔۔۔۔۔۔تمھیں اپنا گھر مل گیا تھا ناں؟” پہلا ایک اور سوال دوسرے کی طرف لڑھکا دیتا ہے
” ایک بار کسی سے اس کا گھر بچھڑ جائے تو پھر کب ملتا ہے !”دوسرا گہری سانس لیکر سوال کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے “شام کے دھندلکے نے رات کی سیاہ چادر اوڑھ لی تو محسوس ہوا میں کسی اور گھر کی دہلیز پر بیٹھا خود کو نوچ رہا ہوں۔ میرا تو کوئی گھر تھا ہی نہیں معلوم نہیں میں کسے ڈھونڈ رہا تھا؟”
چپ کے سانپ ایک بار پھر کمرے میں اپنا زہر تھوکنے لگتے ہیں ،دوسرے کی بات سن کر پہلا سوچنے لگتا ہے کہ گھر تو شاید اس کا بھی کوئی نہیں کہ جن لوگوں کے گھر ہوتے ہیں وہ در بدر راستوں کی دھول نہیں پھانکتے
“میرے ایک سوال کا جواب دو گے؟”پہلے کے لہجے میں افسردگی چھلکنے لگتی ہے
” تمھیں سوال کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمھارے ہر سوال کے ساتھ دروازے کے زنگ آلود تالوں میں ایک اور کا آضافہ ہو جاتا ہے آخر ہم کتنے زنگ آلود تالے توڑیں گے؟”
“ان تالوں کی فکر چھوڑویہ بتاؤ تم اپنا دیکھا ہوا خواب ہی سنا رہے تھےناں؟”
“میں تمھیں اپنی آنکھوں دیکھا خواب ہی سنا سکتا ہوں ۔ کسی دوسرے کی آنکھوں سے خوابوں کو کون چرا سکتا ہے”
“پتہ نہیں کیوں ۔۔۔مجھے لگتا ہے جو خواب تم سنا رہے ہو برسوں پہلے یہ خواب میری آنکھوں نے دیکھا تھا”
“یہ کیسے ممکن ہے یار ۔۔۔۔خواب میری آنکھوں میں ہو اور تمھاری آنکھیں اسے دیکھ سکیں اور ابھی تو میرا خواب بھی نامکمل ہے”
“اچھا تو باقی کا خواب میں مکمل کر دیتا ہوں” پہلا قدرے جذباتی اور پر جوش دکھائی دیتا ہے
“پرائے مکان کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے گھر اور گھر والوں کو یاد کرنا چاہا مگر کوئی نام یاد آئے نہ کسی کی شکل سجھائی دے۔تب میں نے چاہا کسی غیر کا نام لیکر پکاروں مگر زبان پر کانٹے اُگ آئے رات کا بےپناہ اندھیرا میرے وجود میں اترنے لگااور خوف کے سیاہ مکروہ کتے مجھے گھیرنے لگے گھبرا کر میں نے پرائے مکان کے قدیمی دروازے پر دستک دینا چاہی تو میرا ہاتھ اس دیمک زدہ دروازے کے آر پار ہو گیا وہاں کوئی گھر تھا نہ دروازہ بس گہرا بے انت اندھیرا تھا سیاہ مکروہ کتے اب میرا گوشت اور ہڈیاں چبانے لگے تھےمیں نے وہاں سے بھاگ جانا چاہا مگر مڑ کر دیکھا تو نہ کوئی راستہ تھا نہ گلی نہ کوئی مکان۔یوں لگ رہا تھا میں کسی اندھے کنوئیں میں گر رہا ہوں زمین کی تلاش میں میرے پاؤں گل سڑ رہے ہیں اس وقت میرے ہونٹوں پر کوئی ٹھنڈا میٹھا نام بھی آیا تھا۔۔۔۔۔ماں۔۔۔۔مگر اسی لمحے میرا خواب مجھ سے چھن گیا تھا
“مگر یہ تو میرا دیکھا ہوا خواب ہے” دوسرا حیرت سے پہلے کو گھورنے لگا اچانک ادھیڑ عمر عورت کی آنکھوں کا بند ٹوٹ گیا اور مٹی کا فرش سرخ ہونے لگا عورت مسلسل گڑیا کے جسم کے کانٹے چن رہی تھی مگر کانٹے تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے
” تمھاری آنکھ کھلی۔۔۔میرا مطلب ہے تمھارا خواب تم سے چھن گیا تو تم اپنے گھر کے آنگن میں موجود تھے ناں؟ا” اس بار دوسرے کا سوال دروازے کے تالوں میں ایک اور کا اضافہ کر دیتا ہے
” میرا گھر موجود ہوتا تو اسے کیوں ڈھونڈتا۔ جن کے گھر موجود ہوتے ہیں وہ اپنے گھر کا راستہ کبھی نہیں بھولتے اپنا راستہ کبھی کھوٹا نہیں کرتے”
نیم تاریک کمرے میں ایک بار پھر ہنسی کا اسمِ اعظم پھونکا جاتا ہے ادھیڑ عمر عورت خون آلود آنکھوں سے کمرے کی چھت اور دیواروں پر نظر دوڑاتی ہے ،پہلا اور دوسرا ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں نکال کر اس تیسرے کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں جسے ہنسی کا اسمِ اعظم زبانی یاد ہے۔ادھیڑ عمر عورت ان دونوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتی ہے مگر مصلحت کے دھاگےاس کے ہونٹوں کی قید معاف کرنے پر آمادہ نہیں جب تک عورت گڑیا کے جسم کے تمام کانٹے اپنی پلکوں سے چن نہیں لیتی وہ ہنسی کا اسمِ اعظم پڑھ نہیں سکتی
وہ۔۔۔جو مٹی کے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ان تینوں ۔۔۔پہلے۔۔دوسرے اور ادھیڑ عمر عورت کو اپنے بُنے ہوئے جال میں قید کر چکی ہے ایک ادا کے ساتھ فرش سے اٹھتی ہے باری باری تینوں کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے اور آنکھیں مٹکاتی دروازہ کھولے بغیر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے ۔
تھوڑی دیر پہلے جہاں ایک تنگ اور نیم تاریک کمرے میں وہ موجود تھی،اور اس کے ساتھ اس کے تین کردار بھی موجود تھے اور کپڑے سے بنی ہوئی ایک گڑیا بھی تھی جس کے بدن میں بےشمار نوک دار کانٹے پیوست تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور وہ خود بھی خلاؤں میں کہیں اپنا وجود کھو بیٹھی تھی
“فرض کرو۔۔۔۔۔۔وہ جو خلاؤں میں اپنا وجود کھو بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک فرضی کہانی تھی ۔۔۔۔۔۔۔تو؟؟؟؟

Published inعالمی افسانہ فورمیوسف عزیز زاہد
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x