عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 51
ایکوریم
نگار عظیم، نئی دہلی، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی مرتبہ اس سُکھ سے آشنا ہوئی تو سرشار ہو گئی۔ پیار، محبت، دلجوئی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ… جو ہم نے پچیس برسوں میں اُسے دیا تھا شاید وہ پچیس دن میں ہی لوٹا دینا چاہتا تھا۔ ممکن ہے یہ پچھلے چھ ماہ کی جدائی کا اثر ہو۔
دراصل بیٹے کو ایک اچھی فرم میں ملازمت ملی تو اسے دہلی چھوڑ کر بمبئی شفٹ ہونا پڑا۔ اس کی جدائی سے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے جسم کا کوئی حصہ کٹ گیا ہو۔ اس کے بار بار بلانے کا اسرار ناراضگی میں بدلنے لگا تو ہم دونوں نے فاصلے ختم کئے اور بمبئی پہنچ گئے۔ وہ یاری روڈ پر ایم۔ این۔ او سوسائٹی کے ایک خوبصورت فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ دیکھ کر یقین نہیں آیا۔ وہ کب اور کیسے جینے کا سلیقہ سیکھ گیا۔ ملازمت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ گھر کے آرام آسائش اور زیبائش پر اس نے پوری توجہ صرف کی تھی۔
اس نے باپ اور ماں دونوں کی خواہش کا پورا پورا احترام کیا تھا۔ باپ کے لئے کمپیوٹر اور نئی کتابیں۔ ماں کے لئے؟؟ ماں کی ایک بہت پرانی خواہش کو پورا کیا تھا اس نے۔ ڈرائنگ روم میں ایک بڑا سا ایکوریم۔ رنگ برنگی چھوٹی بڑی خوبصورت مچھلیاں اس میں تیر رہی تھیں۔
’’ماں یہ آپ کے لیے، جب میں آفس رہوں گا تب آپ ان مچھلیوں سے باتیں کیجئے گا۔‘‘ اُس کی اس معصومیت پر میں مسکرا پڑی۔ بیٹے کی محبت فرماں برداری اور اس کی اچھوتی خواہشات سے دن اور رات پلک جھپکتے بیتنے لگے۔ اس روز اتوار تھا۔ وہ صبح سے ہی ہمارے ساتھ تھا۔ مجھے مچھلیوں کی طرف متوجہ پا کر خود بھی میرے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ “ماں، ان مچھلیوں سے آپ کی جان پہچان ہوئی؟؟”
“کچھ کچھ….. یہ کالی چوڑی مچھلی ایک آنکھ سے دیکھتی ہے مجھے یہ…..”
“یہ اینجل فش ہے۔”
“اوہ….. میں حیران ہوئی کیونکہ اس میں اپنے نام کی تمام صفات موجود تھیں۔ وہ دوسری مچھلیوں سے بالکل مختلف تھی۔ اس کی عادات مزاج یہاں تک کے تیراکی میں بھی ایک قسم کی سچائی، پاکیزگی اور بھولپن تھا۔ نہ کسی سے لڑائی نہ جھگڑا۔”
اینجل فش کے دو جوڑے تھے۔ ایک بالکل سیاہ اور دوسرا کالی سفید دھاری والا۔ “یہ وہائٹ مولی ہے۔ اور یہ گولڈن مولی۔” “لیکن بیٹا یہ گولڈن مولی جتنی ہشاش بشاش چست اور پھرتیلی ہے وہائٹ نہیں۔”
“ہاں، وہ اکیلی ہے نہ۔ اس کا میل مرگیا۔ آپ کے آنے سے ایک روز پہلے۔”
“اوہ…” میرا دل بجھ سا گیا۔
“آپ نے دیکھا ہوگا یہ گولڈن مولی اپنے میل کو اس کے پاس پھٹکنے نہیں دیتی۔”
“ارے… یہ تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا۔ اور یہ لال مچھلی؟ اس کا کیا نام ہے؟ یہ تو بہت زبردست رقص کرتی ہے۔ اس قدر تھرکتی ہے مانو سینکڑوں جل ترنگ ایک ساتھ بج اٹھے ہوں۔”
“یہ ریڈ ہیڈ ہے۔ جیسے جیسے بڑی ہوتی جائے گی اس کا سر کا حصہ بڑا ہوتا جائے گا۔ جسم سے ذرا بڑا۔ اور رنگ گہرا۔ یہ بہت سمجھدار ہوتی ہے۔ خطرہ بہت جلدی بھانپ لیتی ہے۔ ایکوریم کی سب سے بڑی اور منفرد مچھلی سامنے سے گزری تو میں نے پوچھا۔ “یہ کالی سب سے بڑی مچھلی بھی بہت ہی خوبصورت ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے مانو پورے ایکوریم کی سردار ہے۔ کیا نام ہے اس کا؟؟”
“یہ فائٹر فش ہے۔”
“فائٹر فش؟؟ یہ لڑاکی ہے کیا؟؟ ہوں…!! لیکن میں نے اسے لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔”
“اکیلی ہے نہ اس لئے۔ خود کو شیر سمجھتی ہے۔ ابھی اس میں دوسرا میل چھوڑ دیا جائے تو دونوں لڑ لڑ کر مرجائیں گی۔
“کمال ہے؟؟ لیکن وہ سب سے چھوٹی کالی مچھلی؟؟ مستقل اس کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے۔ بڑی خاموش۔ وہ دیکھو اب بھی اسی کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔ بڑی مچھلی گھوم کر بار بار اسے پُش کرتی ہے لیکن وہ پھر پیچھے چل دیتی ہے۔”
“وہ اس کی فی میل ہے۔” بیٹا مسکراتے ہوئے بولا۔
“ارے یہ اتنی سی؟؟ میل اتنا خوبصورت اور فی میل اتنی معمولی۔ یہ تو زیادتی ہے بھئی…کیوں؟”
“ارے ماں… وہ معمولی ہے اسی لیے تو اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔”
“نہیں یہ بات تمہاری بالکل غلط۔ ہے۔ معمولی ہونا الگ بات ہے۔ آخر وہ اس کا میل ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس سے بہت محبت کرتی ہو۔”
محبت؟ بیٹے نے ایک زوردار قہقہہ بلند کیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر نہانے چلا گیا۔ اس کا جملہ اور پھر قہقہہ میرے وجود کو چیرتا چلا گیا۔ لمحہ بہ لمحہ اندر ہی اندر مجھے درد، گھٹن اور بے چینی کا احساس ہونے لگا۔ میری نگاہوں میں نہ جانے کیوں مسز کمار کا معصوم چہرہ گھوم گیا۔ یہ پروفیسر کمار ہندی لٹریچر سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر وقت لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرے رہتے تھے۔ ساٹھ کے ہونے کو آئے تھے لیکن خود کو ایسے رکھتے تھے کہ پچاس کے بھی نہیں لگتے تھے۔ کرشن لیلاؤں پر لیکچر دیتے تو کہیں سے کہیں بہہ جاتے۔ کئی ریسرچ اسکالر ان کی ہمنوا بن چکی تھیں۔ کئی سے ان کے تعلقات….. خدا جانے۔ زندگی کے ایک ایک پل سے وہ آسودگی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے وضع کئے نظامِ زندگی میں بیوی کو کبھی مخل ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے باوجود پروفیسر کمار جب اپنے قریبی دوستوں خاص طور پر لڑکیوں کے درمیان ہوتے تو اپنی زندگی کی محرومیوں، مجبوریوں کا اس طرح ذکر کرتے کہ سب کے دل پسیج جاتے۔ مسز کمار بھی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ مناسب خط و خال رکھتی تھیں۔ لیکن گھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ وہ تو بس شوہر کی آسودگی میں ہی اپنی آسودگی حاصل کر لیتیں۔ وہ جتنی دیر گھر میں رہتے وہ ان کے پیچھے پیچھے پھرتی رہتیں۔ یہ کھا لیجئے اور یہ پہن لیجیے۔ اگر کبھی مذاق میں انہیں کوئی چھیڑتا تو وہ مسکرا کر بس اتنا ہی کہتیں۔
’’ارے نہیں پروفیسر صاحب ایسے نہیں ہیں۔‘‘
شاید انہیں اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر وہ اپنا روٹین بدل دیں گی تو مسٹر کمار کی اس توجہ سے بھی محروم ہو جائیں گی۔ میں نے ایکوریم کی مچھلیوں کو غور سے دیکھا۔ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔ ایسا محسوس ہوا مسٹر کمار فائٹر فش ہیں اور مسز کمار ان کی فی میل۔ گھٹن اور گھبراہٹ نے میرے دل و دماغ کو اس شدت سے جکڑ لیا کہ میرا سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ ایسا لگا مسزکمار میرے اندر داخل ہو گئی ہیں اور میں کسی ایکوریم میں بند ہو گئی ہوں۔ فائٹرفِش آگے آگے اور میں اس کے پیچھے پیچھے۔ تبھی ایکوریم کی فائٹرفِش نے مڑکر اپنی فی میل کو پُش کیا۔ میرا دل چاہا ایک ڈنڈا لے کر چھنا کے سے اس ایکوریم کو توڑ دوں اور ساری مچھلیوں کو آزاد کر دوں۔ گھبرا کر میں نے گھر کے در و دیوار کو دیکھا اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے میں بالکونی میں چلی گئی۔ کچھ دیر پہلے دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ آسمان صاف شفاف اورنیلا تھا لیکن اب موسم بدل چکا تھا۔ آسمان کو سرمئی بادلوں نے ڈھک لیا تھا اور اجالا مدھم ہو گیا تھا۔ ناریل کے اونچے اونچے درخت خاموش اپنا وزن اٹھائے کھڑے تھے اور میری خاموشی نے میرے اندر ایک طوفان اٹھا رکھا تھا۔ اچانک شیراز نے پیچھے سے سرگوشی کی۔
’’بیگم صاحبہ بندے کو ایک کپ چائے ملی گی؟‘‘ میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا۔ میرا کرب، میرا درد، تڑپ اور اندر کا تلاطم شاید سب سوالیہ نشان بن گئے تھے میرے چہرے پر۔ “
کیوں کیا ہوا؟؟”
“کچھ نہیں۔ لیکن چائے آپ بھی بنا سکتے ہیں۔” یہ کہتے ہوئے کوئی جواب سنے بغیر میں فلیٹ سے نیچے اتر آئی اور کمپاؤنڈ میں ٹہلنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں بیٹا میرے قریب آیا۔
’’کیا بات ہے ماں؟‘‘ “
کچھ بھی نہیں۔” وہ میرے جسم کا حصہ تھا۔ میری کھوکھلی مسکراہٹ اس کو مطمئن نہ کرسکی۔ گلے میں باہیں حمائل کرتے ہوئے بولا آپ بہت سینسٹِو ہیں ماں۔ چلئے میرے ساتھ بازار چلئے۔ میں کچھ بولے اور کچھ پوچھے بغیر اس کے ساتھ چل پڑی۔ وہ راستے بھر اپنی باتوں سے مجھے بہلاتا رہا اور میں راستے بھر اپنے اندر کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے آنسو پیتی رہی۔ یہ عجب مچھلی بازار تھا۔ بس ایک چوک سا تھا۔ جس میں چھوٹے بڑے تخت چاروں طرف لگے ہوئے تھے۔ درمیان میں بھی کئی تخت تھے۔ ہر تخت پر کئی قسم کی مچھلیاں اور ان کے خریدار۔ جس سے بھی نظریں مل جاتیں اس کی پوری کوشش ہوتی کہ مچھلی اسی سے خریدیں۔ “
تمہیں مچھلی خریدنا ہے؟؟”
جی……. وہ مسکرایا۔ اور آگے بڑھ گیا۔ بیٹا اپنی پسند کی پمفلٹ مچھلی تلاش رہا تھا اور میں اس مچھلی بازار کو دیکھ کر حیران تھی۔ مچھلی فروش صرف خواتین تھیں۔ بالکل الگ طرح کی۔ گہرا چمکدار رنگ۔ مچھلی کی طرح چکنی چکنی کھال۔ کَسے ہوئے بال۔ ناک میں بڑی سی لشکارا مارتی سنہری لونگ ماتھے پر چمکتی لال بِندی بالکل ایسی جیسے سمندر کے ماتھے پر شام کا سورج۔ رنگ برنگے ملبوسات، گلے اور کانوں میں کوئی نہ کوئی زیور۔ میں اسے دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اس کی بات کا جواب بھی نہ دے سکی۔ وہ مجھ سے مخاطب تھی۔ “
لے لو… تاجی ہے بالکل تاجی۔”
“ماں دیکھیے یہ پمفلٹ کیسی ہے؟؟” میں نے چھو کر الٹ پلٹ کر دیکھا۔ “
تازہ ہے۔ ٹھیک ہے۔ لے لو۔”
“کیسے دی ہیں؟؟” میں نے اس سے پوچھا۔
“ساٹھ کا جورا۔۔۔ دو۔۔۔” اس نے دو انگلیاں دکھائیں۔
“ساٹھ روپیہ کی دو بہت مہنگی ہیں۔ اتنی چھوٹی چھوٹی ہیں۔”
“نیا نیا مال۔ ابھی ابھی لایا۔ اچھا ہے۔ لے لو۔” اس نے اپنے مال کی کھل کر تعریف کی۔ “دو روپیہ کم دے دینا۔ کتنا لینا ہے؟؟” میں آگے بڑھنے لگی تو اس نے روکا۔ “کتنا لینا ہے؟؟”
“تین جوڑی.” بیٹے نے جواب دیا۔
“لے لو نا۔ پچاس کا لینا ہے؟؟”
اسے میری بات اور مجھے اس کی بات سمجھنے میں خاصی دقت ہورہی تھی۔ اس نے اپنی مچھلی کی پھر تعریف کی۔ “بیچ سمندر کا ہے۔ چاندی کے رنگت مافک۔ کئیں نئیں ملے گا۔ وہ نیلے رنگ کا مچھلی ہے کنارے کا۔ وہ اچھا نئیں ہوتا۔” اس نے برابر کی دوکان والی مچھلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
بیٹے نے تین جوڑے کا آرڈر دے دیا۔ “کاٹنا نہیں۔ بس بیچ میں ایک چیرا لگانا ہے۔ مصالحہ بھرنے کے لیے۔” میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ بہت مشاقی سے مچھلی بنا رہی تھی۔ اور میں دوسری خواتین کو دیکھ رہی تھی جو اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھیں۔ اچانک دو بچے گرتے پڑتے دوڑتے آئے اور اس کی گردن میں لٹک گئے۔ ایک کی عمر چھ سات برس ہوگی دوسرے کی بہت سے بہت نو دس۔ وہ خود کو نہ سنبھالتی تو یقیناً تخت سے نیچے لڑھک پڑتی۔ بچوں کے پیچھے پیچھے ایک لمبا تڑنگا آدمی، سیاہ رنگ پر چوڑی گھنی سیاہ مونچھیں، گول گول چمکدار آنکھیں۔ ہاتھ پکڑ کر وہ بچوں کو گھسیٹنے لگا۔ ہماری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا لیکن وہ سمجھ چکی تھی۔ عورت مچھلی چھوڑ کر چاپڑ لے کر تن کر کھڑی ہو گئی۔ اس دیو قامت آدمی کے سامنے تخت پر کھڑی ہونے کے بعد بھی وہ ذرا سی لگ رہی تھی۔
’’کھبردار جو بالکن کو ہاتھ لگایا۔ ان ہاتھاں کے ٹکرے ٹکرے نہ کر دی تو ہمری نام نئیں۔ ان پر تو حک بتانے آیا ہے۔؟؟ تیرے کو ان کی کمائی کھانا۔؟؟ جا کر اس چھنال رنڈی کنے سو جسے تو لے کر آیا میری چھاتی پر۔ اِدھر کا رُکھ کرنے کا نئیں۔ سمجھا۔۔۔۔۔ حرامی۔۔۔۔۔ بدجات۔۔۔۔۔ ہمری گاہکی کھراب کرنے آیا تو؟؟؟” عورت کی آنکھوں میں سرخ سیلاب امڑ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا اگر وہ آدمی بچوں کا ہاتھ نہ چھوڑتا تو واقعی وہ جسم سے اس کا ہاتھ الگ کردیتی۔ اب تک کئی لوگ وہاں جمع ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس سیاہ فام آدمی نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔ بچے اس کی ٹانگوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ انہیں الگ کرکے وہ تیزی سے پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
’’مائی۔ یہ ساری پمفلٹ دے دو۔””سگلی…..؟؟” عورت نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔۔۔ سگلی۔”
بیٹے نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
“ماں یہ بہت ہیں…..اس نے گنتی کی….. نو جوڑے…… اٹھارہ پمفلٹ۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
“ہاں۔۔۔۔۔۔ سب لے لو۔۔۔۔۔۔ آج تمہارے سب دوستوں کی دعوت۔۔۔۔۔
Be First to Comment