Skip to content

اک محشرِ اضطراب

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر90

اک محشرِ اضطراب

عرفانہ تزئین شبنم وانمباڑی، ٹملناڈو انڈیا۔

گاڑی کی دور ہوتی ہوئی آواز کے ساتھ ہی ایک بےنام سی الجھن میرے اندر جاگ اٹھی کل میرے عزیز دوست کی منگنی کی تقریب ہے جس میں بقول اس کے میری شرکت لازمی ہے لیکن میں وہاں نہیں جانا چاہتا جب سے اس کی منگنی کی بات چلی تھی یہ معاملہ ہمارے درمیان کئی مرتبہ زیرِ بحث آچکا تھا لیکن آج کمبخت نے اپنی دوستی کی قسم دے کر مجھے قائل کر ہی لیا اور اپنی بات منوا کر ابھی ابھی وہ یہاں سے گیا ہے میں سوچ رہا ہوں کل کس منہ سے شمائلہ کا سامنا کروں گا جو وہاں ضرور آئیگی شمائلہ… جو ناگاہ میرے در سے اٹھا دی گئی بے تقصیر جسے میں نے ٹھکرا دیا.. صرف اس لئے کہ وہ میرے معیارِ حسن پر پوری نہ اتر سکی تھی، میں حسن پرست جو تھا، خوبصورت اشیاء، خوبصورت مناظر اور خوبصورت چہرے ہمیشہ سے میری کمزوری رہے ہیں جہاں کہیں کوئی خوبصورت شئے نظروں کی گرفت میں آئے میں اسے خرید لاتا ہوں جب بھی فرصت کے لمحات میسّر آتے ہیں خوبصورت وادیوں اور ساحلی علاقوں کی طرف نکل جاتا ہوں راہ چلتے کتنے ہی چہرے میرے قدم روک لیتے ہیں اور میں بغیر کسی آشنائی کے بےمحابا ان سے گفتگو کے بہانے ڈھونڈتا ہوں جس میں اکثر مجھے کامیابی ملتی ہے کہ خود میری شخصیت میں وہ سحر ہے جو مخاطب کو خودبخود تسخیر کر لیتا ہے ” کھانا لگا دیا ہے کھا لیجئے” اپنی بیوی کی آواز پر میں چونک گیا اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں بلکہ اکثر جھکی رہتی ہیں چہرے پر ہمہ وقت خوف کی پرچھائیں…شاید مجھ سے خوفزدہ رہتی تھی وہ، کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے نا کہ جس چیز کا ہمیں بڑا مان ہوتا ہےوہی ہمیں زیر کر دیتی ہے جس کا ایک ہی وار ہمیں آسودگی اور انا کے حصار سے نکال کر اضطراب کے کانٹوں میں دھکیل دیتا ہے میرے بابا بچپن ہی میں فوت ہو چکے تھے اور جب میں جوانی کی حدود میں داخل ہوا تو امّاں بھی انتقال کر گئیں یوں میری شادی کی ذمہ داری کو خالہ نے اپنا حق سمجھا شمائلہ ایاز کی کزن تھی ایاز میرے بچپن کا یار، میرے دکھ سکھ کا ساتھی، میرا زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گذرتا تھا وہ اکثر ایاز کے گھر آتی تھی اس کے باوجود میں اسے نہیں دیکھ پایا تھا ہاں کبھی اچانک کسی ضرورت کے تحت میں کمرے سے باہر آتا تو وہ بدحواسی کے عالم میں دوسرے کمرے کی طرف دوڑتی نظر آتی مجھے بس اس کی پشت پر بکھرے سیاہ خوبصورت بال نظر آتے جنھیں میں شوق سے دیکھتا یا پھر چائے دینے دروازے پر آتی تو پردے کے پیچھے سے اس کے پازیب سے سجے گورے پیر نظر آتی کبھی کھڑکی سے رنگین آنچل لہراتا، بہر حال میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا خالہ نے شمائلہ کو میرے لئے منتخب کر لیا میری نظریں ایک حسین ساحرہ کی منتظر تھیں جو پہلی نظر میں مجھے اپنے حسن کا والہ وشیدا بنا دیتی. شبِ عروس مجھ پر بہت بھاری تھی میں نے ہزاروں ارمانوں کے ساتھ وارفتہ انداز میں شمائلہ کا گھونگھٹ الٹا تو میرے اندر چھنا کا سا ہوا اگلے ہی پل جھٹکے کے ساتھ گھونگھٹ چھوڑ کر میں پیچھے ہٹ آیا کتنی ہی دیر میں گنگ سا کھڑا رہااور وہ پاگلوں کی طرح بنا کسی جنبش کے ویسے ہی بیٹھی رہی سگریٹ سلگا کر میں سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا ” سنو شمائلہ احسان…!تم میرے معیارِحسن پر پوری نہ اتر سکیں اور میں زندگی میں کبھی بھی سمجھوتے کا قائل نہیں رہا تم سمجھدار ہوخود سمجھ سکتی ہو مجھے معاف کرنا ” وہ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ہاتھوں سے گھونگھٹ اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگی جیسے اسے میری آواز پر شبہ ہو اس کی آنکھوں میں زمانہ بھر کی حیرتیں اور بے یقینی سمٹی ہوئی تھیں ” پلیز میں مجبور ہوں زندگی بار بار نہیں ملتی وہ جسے ہم پسند نہیں کرتے اس کا پوری زندگی ساتھ رہنا تلخیوں کو جنم دیتا ہے میرے نزدیک حسن کی بہت اہمیت ہے اور میں زندگی کے ہر پل کو حسین بنانا چاہتا ہوں اب بھی کچھ نہیں بگڑا میں تمھیں آزاد کر دوں گا خدا کرے تمھیں تمھارا سچا قدردان مل جائے ” اپنی طرف سے گویا اس پر احسان کرتے ہوئے میں بڑے جذباتی انداز میں کہتا ہوا آٹھ کر ملحقہ کمرے میں چلا آیا مجھے پتہ نہیں وہ رات اس پر کس طرح گذری، شادی کے تیسرے دن کسی سے کچھ کہے سنے بغیر میں آلہ آباد لوٹ آیا مصروفیات ویسی ہی تھیں لگتا ہی نہ تھا کہ میری شادی ہو چکی ہے آتے ہی یار دوستوں نے ہلکے پھلکے مذاق کا نشانہ بنایا آخر میں جو اتنی جلدی لوٹ آیا تھا ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا تھا تاہم شمائلہ کا خیال مجھے پریشان کرنے لگتا انجام ابھی باقی تھا سو آناً فاناً طلاق کے کاغذات تیار کروا کر مختصر خط کے ساتھ شمائلہ کے نام لفافہ پوسٹ کر دیا اس کے بعد کے حالات سے میں بے خبر رہا ہوں کہ اس کے بعد پھر میں واپس لوٹ کر گھر نہیں گیا اور وہاں تھا بھی کون جو میں گھر لوٹتا شمائلہ کو تو میں آزاد کر چکا تھا اور خالہ کا سامنا کرنے کی ہمت مجھ میں نہ تھی انھیں دنوں جب میں مایوس و دلگرفتہ سا اپنی شادی کو ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش میں تھا کہ سعدیہ مجھ سے آن ملی اور میرے حواسوں پر چھا گئی کچھ اس طرح کہ میں اپنا آپ بھولنے لگا وہ میرا مکمل تصور تھی سیاہ ریشمی زلفیں جس میں ساری دنیا سے چھپ کر آرام کرنے کو دل چاہتا ہے نیلی سمندر جیسی آنکھیں گلاب بکھیرتے مخملیں رخسار اور جب اس کے گلابی تراشیدہ لبوں سے میرا نام پھسلتا تو میرے اندر تک شہد آگیں احساس اتر جاتا. ” احراز… ” ” کہو جانِ احراز… ” ” کتنا قلیل عرصہ ہوا ہے ہمیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور ہم اتنے قریب کیسے آگئے..؟ ” ” یہ تم اپنے دل سے پوچھو” “تمھارے دل سے کیوں نہیں.؟ ” ” اس لئے کہ میرا دل بھی تمھاری دسترس میں ہے ” اور ایک خوبصورت ہنسی کی جھنکار دور تک پھیل جاتی، وہ میری پہلی شادی سے بے خبر تھی بہت کوشش کے بعد بھی میں اسے یہ بات بتانے میں ناکام رہا وہ جو میری اولین چاہت تھی پہلی تمنا تھی اس کے چھن جانے کا ڈر غالب تھا دل جو مدتوں سے اس مورت کا آرزُو مند رہا، تصور کی دنیا جس کے دم سے آباد تھی اور ایک عرصہ جس کی جستجو میں بھٹکتا رہا اس کے کھو دینے کا احساس ہی میرے لئے روح فرسا تھا سعدیہ سے شادی کے بعد تو میں اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہو چلا تھا اس عرصے میں شمائلہ کا خیال ایک پل کے لئے بھی میرے قریب نہیں آیا خالہ کہتی تھیں کہ خاموش جذبوں کی طرح فریادیں بھی بہت اثر رکھتی ہیں بددعا رائیگاں جا سکتی ہے لیکن دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ہوک، اندر ہی اندر اٹھتی بے آواز آہیں اور دل پر گرنے والے آنسو، مخالف کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں اور پھر میں نے تو دیدہ و دانستہ جرم کیا تھا جو پھول میرے نام پر کھلے تھے جن کی خوشبو ہمک ہمک کر مجھے بلاتی رہی انھیں میں نے ڈالی سے جدا کر کے پھینک دیا تھااور پلٹ کر خبر نہ لی کہ وہ کس سیج کی زینت بنے، کس نے انھیں سمیٹا اور اپنی زندگی سجا لی یا پھر وہ مزاروں پر چڑھ گئے میرے دل نے کبھی مجھے جھکنے نہیں دیا میں شمائلہ کا مجرم نہیں ہوں آخر میں نے جو بھی فیصلہ کیا تھا دل کے پیش نظر ہی تو کیا تھا کہ میرا دل عذاب لمحوں سے بچا رہے زندگی کی پوری رعنائیوں سمیت لطف لے دھڑکنیں آخری سانسوں تک آسودگی کے ساز پر تھرکتی رہیں یوں دل میرے معاملے میں ہمیشہ جانبدار ہی رہا لیکن شادی کے دس ماہ بعد جب میں سعدیہ کی محبت میں پور پور ڈوب چکا تھا اس کی چاہت اس کی حسن و رعنائیوں سمیت میری نس نس میں لہو بن کر دوڑنے لگی تھی وقت کے ایک ہی وار نے مجھے پسپا کر دیا میرے تصور کی خوش رنگ تتلیوں سے بھری ایک خوبصورت شام میں سعدیہ کی ہمسفری میں زندگی کے حسین ترین لمحوں کو جاوداں کر کے واپس لوٹ رہا تھا ہماری گاڑی ایک بھیانک حادثے کا شکار ہو گئی حادثوں سے بچ نکلنا خوش بختی کی علامت ہوتی ہے ہم دونوں بھی بچ نکلے تھے لیکن یہ خوش بختی ہمارے دلوں کو نا آسودہ کر گئی سعدیہ کا چہرہ عجیب ہیئت اختیار کر چکا تھاگلاب رخسار پھٹ گئے تھے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جس سے چہرہ بھیانک لگنے لگا تھا مہینوں علاج کے باوجود وہ خوبصورتی لوٹ کر نہیں آئے جس نے مجھے تسخیر کیا تھاخود میرے جسم پر بے شمار خراشیں آئی تھیں دنیا مجھے ادھوری لگنے لگی، نہ جانے شمائلہ کے دل سے کونسی ان کہی پکار اٹھی تھی جس نے مجھے بے موت مار دیا جن باتوں کو بنیاد بنا کر میں شاہراہ حیات پر چل نکلا تھا وہ کتنے عارضی تھے کہ ایک ہی جھٹکے میں زمیں بوس ہو گئے خوبصورتی تو ایک ایسا پھول ہے جو ایک متعینہ مدت کے بعد مرجھائے لگتا ہے اور کبھی کبھی اچانک ظہور پذیر ہونے والے طوفان وقت سے کہیں پہلے ان کی خوبصورتی چھین لیتے ہیں گرم ہوا کا تیز جھونکا جھلسا دیتا ہے انھیں اور ایسی عارضی چیز کے پیچھے میں عمر بھر بھاگتا رہا پتہ نہیں وقت کہاں سےکہاں جا پہنچا مجھے تو لگتا ہے یگ بیت گئے اور میں اضطراب کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں خلش کی برچھیاں میری روح میں اتر رہی ہیں اب سعدیہ کی طرف دیکھتے ہوئے میرے دل میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں عجیب سا احساس کانٹا بن کر اذیت دینے لگتا ہے، کیا اب عمر بھر یہی چہرہ میرے ساتھ رہے گا..؟ اور پھر اس سے بچھڑنا بھی تو میرے اختیار میں نہیں رہا کیا چیز ہے جو مجھے اس سے دور ہونے نہیں دیتی.؟ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں اس الجھن نے مجھے ہر رنگین جذبے سے عاری کر دیا ہے سعدیہ مجھ سے خوف کھانے لگی ہے کہ کہیں میں اس سے دامن نہ چھڑا لوں نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنے دوست کی منگنی میں شریک ہونا پڑا موہوم سی امید تھی کہ کسی ناگزیر وجہ کی بناء پر شمائلہ نے منگنی میں شرکت نہ کی ہو لیکن وہ موجود تھی ایک بے حد پیارے گول مٹول سے بچے کو گود میں لئے وہ ایک اونچے لمبے مرد کے ساتھ کھڑی تھی جو مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا کتنے ہی لمحے میں مبہوت و ششدر سا کھڑا رہا یہ شمائلہ احسان..؟ اتنی خوبصورت کہاں تھی پہلے..؟؟ یہ نکھار… یہ کشش… چہرے کے ہر زاویے سے پھوٹتی روشنی کی لکیریں.. پھولوں جیسی شگفتگی یہ سب کہاں سے سمٹ آیا تھا اس میں؟؟؟ شبِ عروس کچھ لمحوں کے لئے میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ ایسی تو نہ تھی اور اب.. ایک ہی لمحے میں اس کا ضوفشاں حسن میری آنکھوں کو چندھیا گیا ہے شاید محبتیں انسان کو ایسے ہی خوبصورت بنا دیتی ہیں اس نے مجھے دیکھ لیا تھا اب وہ میری طرف آرہی تھی “کیسی ہیں آپ؟ ” میری زبان سے بمشکل الفاظ نکلے ” بہت خوش ” اس کا لہجہ سرشار تھا ” یہ آپ کا…؟” ” ہاں میرا بیٹا ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے جن کے ساتھ میں کھڑی تھی وہی میرے شوہر ہیں ” واقعی سچی محبت اور خوشیوں نے اسے نکھار دیا تھا ” اپنی سنائیے آپ کیسے ہیں ” ” میں…میں ٹھیک ہوں ” ” ٹھیک کیسے ہونگے احراز احمد؟ “اچانک ہی اس کا لہجہ تلخ ہو گیا ” ایاز بھائی کے ذریعے آپ کے متعلق سب کچھ جان چکی ہوں میں ” شمائلہ، میں آپ کا قصور وار ہوں، شرمندہ ہوں آپ سے کہ…” “نہیں احراز احمد، آپ اور کر بھی کیا سکتے تھے آپ جیسے کتنے لوگ ہیں جو عارضی خوشیوں اور ظاہری چیزوں پر مر مٹتے ہیں، یہی انجام ہوتا ہے ان کا… مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں، کہ آپ انجام کو پہونچ چکے ہیں بقول آپ کے مجھے میرا سچاقدردان مل گیا میری زندگی میں بہار ہی بہار ہے اصل رشتے تو دلوں کے ہوتے ہیں احراز صاحب! جو لوگ اس رشتے کی معراج پا لیتے ہیں وہ نام ونمود اور ظاہری خوبصورتی جیسی عارضی چیزوں سے بےنیاز ہو جاتے ہیں، انسانیت، خوب سیرتی، بلند کردار اور اعلی اخلاق ہی انسان کو ازلی سکون سے نوازتے ہیں اور زندگی میں سچی خوشیاں بھر کر اسے جنت بنا دیتے ہیں اگر سعدیہ میں یہ صفات ہیں تو اس کی ظاہری شکل و صورت کو نظر انداز کر کے اس کے سچے قدردان بن جائیے یہی آپ کی سدا بہار زندگی کی ضامن ہے جس چیز کو آپ نے معیار حسن کہا تھا وہ تو بس ایک چلمن ہےاسے اٹھا کر دیکھئے اصلی خوبصورتی یا بدصورتی تو اندر چھپی ہوئی ہے” شمائلہ کہہ رہی تھی اس کی دل کو چھو لینے والی آواز..! سمجھانے کا دلنشین انداز….!! پچھتاوے کا ایک آتشیں دریا تھا جسے عبور کر کے مجھے سعدیہ تک پہونچنا تھا.

Published inعالمی افسانہ فورمعرفانہ تزئین شبنم

Be First to Comment

Leave a Reply