Skip to content

اپنا سورج

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر :12
اپنا سورج

ڈاکٹر ریاض توحیدی

باد صر صر اچانک نمودار ہوجاتی اور مہکتے چمن کے پھولوں کی سرخ گلابی پتیوں کو ریزہ ریزہ کر کے گردو غبار میں بکھیر دیتی۔ باد صر صر کی اس طوفانی آمد سے ڈر کر جب بچے اپنے بزرگوں سے پوچھتے کہ یہ تیز و تند ہوا گلابی موسم میں نمودار ہوکر ہمارے چمن کے خوبصورت پھولوں کو کیوں بھری جوانی میں فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے تو بزرگ لوگ اپنے بچوں کی سوچ کے مطابق جواب دیتے رہتے کہ ہماری وادی کا سورج اونچے اونچے پہاڑوں کے پیچھے پھیلی ہوئی ایک گہری کالی جھیل کے یخ بستہ دبیز تہوں میں پھنسا ہو اہے اور شیش ناگ اپنے زہریلے پھنوں سے اُس کی چمکتی کرنوں کو دھویں میں تبدیل کرتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چمن تک اتنی ہی سورج کی دھوپ پہنچتی ہے جتنا شیش ناگ چاہتا ہے۔ اسی لئے جب بھی باد صر صر چاہتی ہے تو ہمارے چمن کی طرف رخ کرتی ہے اور یہاں تباہی مچاتی ہے۔

وہ جب کچی عمر کا تھا تو باد صر صر کی طوفانی آمد کے ساتھ ہی اُس کا دھیان بزرگوں کی سنائی ہوئی طلسماتی کہانی کی طرف فوراً چلا جاتا۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی عقل میں بھی پختگی آنے لگی۔وہ ہسٹری پڑھنے کا بڑا شوقین تھا کیونکہ بچپن سے اُس کے کان طلسماتی قصہ کہانیاں سنتے آئے تھے۔ ہسٹری پڑھنے کے ساتھ ساتھ اُس کا ذہن جغرافیہ کی طرف بھی مائل ہوتا چلاگیا۔ وہ ہسٹری اور جغرافیہ میں کالی جھیل اور شیش ناگ کی حقیقت ڈھونڈتا رہا لیکن اُسے نہ کسی ہسٹری میں کسی خیالی جھیل کا ذکر ملتا اور نہ ہی جغرافیہ میں کسی شیش ناگ کا کوئی روپ نظر آتا تھا۔ وہ آزاد سوچ کا مالک تھا اور حقیقت پسند بھی۔ وہ سوچتا رہتا کہ جب سورج کے دھکتے شعلوں کو کوئی بھی جھیل سرد نہیں کرسکتی ہے اور نہ کسی شیش ناگ کے پھن اس کی چمکتی کرنوں کو کا لا بنا سکتی ہے تو ہماری وادی کے موسم ہی کیوں یک رنگی کے شکار نظر آرہے ہیں۔ سورج تو روز آزادی کے ساتھ نیلے آسمان کے پردے پر ڈوبتا ابھر تا رہتا ہے اور دھرتی کے ذرے ذرے کو اپنی کرنوں سے چمکاتا رہتا ہے۔

وہ سوچتا رہا‘سوچتا رہا۔ کئی دہائیوں تک سوچتا رہا اور سوچتے سوچتے وہ اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھتا گیا۔ پہاڑوں پر چڑھ کر وہ اپنے سورج کو ڈھونڈنے لگا۔ اُ س کی نظریں کالی جھیل کے گہرے پانی پر پڑیں۔ جہاں پر اُس کا سورج جھیل کی دبیز تہوں میں مایوس چھپا ہوا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سورج کو اس جھیل کی جابرانہ تہوں سے آزاد کرے گا۔ اُس کی سوچ کے ساتھ دوسرے لوگوں کی سوچیں بھی شامل ہو گئیں اور یہ سوچیں فضائے بسیط میں پرواز کرنا لگیں۔ ان کی سوچیں ایک ساتھ اپنے ناخنو ں سے جھیل کی دبیز تہوں کو کریدنے لگ گئیں۔ان کی حِس ان سے کہہ رہی تھی کہ سخت سے سخت باد مخالف بھی متحدہ سوچ کی طاقت کو منتشر نہیں کرسکتی ہے۔

وہ لوگ اپنے پھنسے ہوئے سورج کو آزاد کرانے کے لئے اپنی متحدہ سوچ کے نوکیلے ناخنوں سے طلسماتی جھیل کے یخ بستہ تہوں کو کریدنے کی کوشش کرنے لگے اور کئی تہوں کو کرید کر جب شیش ناگ کی کینچلی پر نوکیلے ناخنوں کی ضربیں پڑھنے لگیں تو شیش ناگ کے زہریلے پھنوں نے باد صر صر کا روپ دھار کر ان کے خوبصورت چمن پر حملہ کر دیا۔باد صر صر کا زور اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ نہ صرف چمن کے رنگ برنگے پھول تباہ ہونے لگے بلکہ چمن کے پودے بھی جڑ سے اکھڑنے لگے۔یہ خوفناک صورت حال دیکھ کر ان لوگوں کی ہمت ٹوٹنے لگی لیکن ان کے بزرگو ں نے یہ کہہ کر ان کی ہمت بڑھائی کہ یہ باد صر صر برسوں سے ہمارے چمن زاروں کو برباد کرتے آئی ہے اگر آج آپ لوگوں نے اپنے سورج کو کالی جھیل کی دبیز تہوں کی غلامی سے آزاد نہیں کرایا تو ہمارا یہ چمن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باد صر صر کے نشانے پر رہے گااور کسی بھی پھول کو بھر پور کھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔

بزرگوں کی حوصلہ افز ا نصیحت سن کر ان لوگوں کی ہمت اور بڑھ گئی اور وہ لگا تار جھیل کی دبیز تہوں کو پھاڑنے لگ گئے۔ جھیل کا کالا پانی جب ندیوں کی صورت میں سفر کرنے لگا تو شیش ناگ کو اپنا زہر یلا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ وہ ان لوگوں کی متحدہ سوچوں کو ڈسنے پر اتر آیا۔ اُس نے کئی جوانوں کو جھیل کی گہرائی میں ڈبو کر مار ڈالا لیکن وہ لوگ اپنے سورج کی آزادی کے لئے کوشش کرتے رہے۔ بزرگوں نے بہت سارے بچوں کو شیش ناگ کے زہریلے پھنوں کا شکار ہوتے دیکھا تو انھوں نے بین بجانے شروع کردئے۔ بین کی آواز ہر طرف گونجنے لگی اور شیش ناگ بین کی آواز پر مستی سے جھومنے لگا۔ شیش ناگ کو جھومتا دیکھ کر بزرگوں نے بہادر جوانوں کو حکم دیا کہ شیش ناگ کی کینچلی اکھیڑ دو۔ ان لوگوں نے شیش ناگ کی کینچلی اکھیڑنے کے ساتھ ساتھ اُس کے زہر یلے دانتوں کو بھی توڑنا شروع کردیا۔ جھیل کا کالا پانی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور ان کا اپنا سورج آہستہ آہستہ جھیل کی قید سے آزاد ہو کر اوپر چڑھتا گیا۔ جھیل کو خشک ہوتے دیکھ کر شیش ناگ زخمی حالت میں وہاں سے فرار ہوا اور ان کے چمن میں باد صر صر کی بجائے باد صباپھیلنے لگی۔ سورج کی کرنیں آزادی کے ساتھ ان کے چمن کے پھولوں کی پتیوں پر جمے ہوئے شبنمی قطروں کو چمکا نے لگیں۔ بادصبا کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں سے سارے پھول نکھرنے لگے اور سارا چمن خوشی سے جھومنے لگا وہ دیکھ رہا تھا کہ چمن کے رنگ برنگے پھول اپنی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں جس میں نہ کسی کالی جھیل کا فسانہ تھا اور نہ کسی شیش ناگ کا قصہ ……!!!“

Published inافسانچہڈاکٹڑ ریاض توحیدیعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply