عالمی افسانہ میلہ 2021
افسانہ نمبر 29
دوسری نشست
“او رے پیا ھاۓ ”
فرحین جمال واٹر لو بیلجیم
” میری بات سنو پابلو ” .ابھی جانے کی بات نہ کرو .دیکھو !. انتانیو ابھی بہت چھوٹا ہے،اس نے پنگھوڑے میں لیٹے گول مٹول سے بچے کی طرف پلٹ کر دیکھا لیکن چپ رہا, “اسے باپ کی ضرورت ہے اور میں تمہارے بنا کیسے رہ سکوں گی ؟(por favor no vayas ) “پور فوور نو وایس ۔”مارتھا نے رندھی ہوئی آوازمیں کہا . وہ پابلو کو دو ہفتے سے منانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کے سر پر توسیاحت کا بھوت سوار تھا. مارتھا اور پابلو کی شادی کو ابھی صرف ڈھائی سال ہوۓ تھے . پابلو کی اسپنش پورٹ سٹی پالوس میں کشتیوںکی مرمت اورمچھلی پکڑنے کے جال بنانے کی چھوٹی سی دکان تھی ،گزر بسر اچھے سے ہو رہی تھی لیکن جب سےاطالوی سیاح کرسٹوفر کولمبس نے اسپینش پورٹ سٹی پالوس سے اپنے تین بحری جہازوں ” سانتا ماریا ، پینٹا اور نینا ” کے ساتھ مغربی بحری راستے کے ذریعہ چین اور انڈیا کے سفر کا اعلان کیا تھا جس کا بنیادی مقصد (fabled gold ) داستانوی گولڈ اور ایشیاء میں مصالحہ جات کے جزیرے ( spice islands ) تک رسائی مقصود تھی، شہر کے ہر شخص کی یہ ہی خواہش تھی کہ وہ اس سفرپر جاۓ اورکرسٹوفر کی ہمراہی میں سونے کی تلاش کرے .پابلو بھی ان نوجوانوں میں شامل تھا جو اس سفر کے لئے منتخب ہوۓ تھے. مارتھا کا دل بیحد بےچین تھا ، دونوں کی روز ہی اس بات پر بحث ہوتی تھی . پابلو نے اپنی دکان بیچ دی اور اس سے ملنے والی رقم میں سے تھوڑا سا حصہ اپنے پاس رکھا اور باقی بیوی کو سونپ دیا ،اس کا خیال تھا کہ جب وہ ڈھیر سارا سونا لے کر لوٹے گا تو اپنی بیوی اور بیٹے کے لئے شاندار گھر بناۓ گا اور ایک بڑا کاروبار کرے گا .
” تم سمجھتے کیوں نہیں پابلو ” مارتھا نے اس کی قمیض کی آستین پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا. پابلو کا دل آنسوں سے لبریز ان خوبصورت بادامی آنکھوںمیں ڈوبنے لگا .اس نے پیار سے مارتھا کے براؤن بالوں پر ہاتھ پھیرا، اسے گلے لگاتے ہوۓدلگیر لہجے پر قابو پاکرصرف اتنا کہا ” ( Escúchame)میری بات سنو”! (mi amor) “میری پیاری”میرے جانے سے ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے اور پھر انتانیو کی بہتر پرورش اور تعلیم کے لئے بہت سارے ( dinero) بھی تو چاہیں .” ‘لیکن ..لیکن ہم اکیلے رہ جائیں گئے ” تم میری بات کیوں نہیں مان لیتے ” .تمہارے بنا گزرے لمحے ،خوشیاں، پیسہ سب بے کار ہے .” دیکھو میرے دوست میگل اور لورینزو بھی تو میرے ساتھ جا رہے ہیں .” پابلو نے ٹھان لی تھی کہ وہ اپنا جیسا مستقبل بیٹے کو نہیں دے گا . ان کی جانے کتنی نسلیں غربت کی چکی میں پستی رہیں تھیں اور کسی نے اسے سنوارنے کی کوئی کوشش نہیں کی ،لیکن وہ ہر حال میں اپنی آنے والی نسل کے لئےخوش حالی اور تعلیم حاصل کر کے رہے گا .
کرسٹوفر کولمبس کو اس بحری سفر کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑی . اطالوی شنہشاہ نےمالی مدد فراہم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ عیسائیت اور چرچ کے احیامیں مصروف تھے تو اس نے اسپین کی ملکہ اسابیلا سے مدد کی استدعاکی.ملکہ نے اس مہم کے لئے اپنے شاہی زیورات دینے کا وعدہ کیا تھا .لیکن وہ صرف محدود مالی امداد حاصل کر سکا.
پھر وہ دن بھی آن پہنچا جب کرسٹوفر کولمبس نے اسپنش پورٹ سٹی پالوس سے اپنے بحری سفر کا آغاز کیا.اسپینش پورٹ پر بہت گہماگہمی تھی ، اس مہم پر جانے والے جوانوں کے والدین ،عزیز و اقارب ، بیوی بچے ، علاقے کے مکین سب اپنے پیاروں کو رخصت کرنے کے لئے آ ۓ تھے . مارتھا اپنے شوہر پابلو اور بیٹے انتانیو کو گودمیں لئے کھڑی تھی ،پابلو کے کاندھے پر کپڑےکا ایک تھیلا تھا جس میں اس کے چند جوڑے,دو کمبل اور ضروری اوزار تھے، مارتھا نے اپنے جھولے سے ‘ بائبل ‘ نکال کر شوہر کے ہاتھ میں دی اور روندھی ہوئی آواز میں بولی ” خدا اور انجیل مقدس ” تمہاری حفاظت کریں. بحری جہاز سے تمام عملے کو سوار ہونے کے لئے گھنٹہ بجایا جانے لگا . پابلو نے مڑ کر اپنے بیٹے کو پیار سے سینے سے لگایا ،مارتھا کے ماتھے پر بوسہ دیا اور گلے لگا کر الوداع کہنے کی کوشش میں آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے .دونوں گلے لگ کر روتے رہے ، پابلو نے بامشکل خود کو مارتھا سے جدا کیا اور اپنا تھیلا اٹھا کر جہاز کی جانب چل پڑا . چند قدم چلا تھا کہ مڑ کر بیوی ،بچے کو دیکھا اور دوڑ کر دوبارہ انہیں گلے لگا کر پیار کیا .اس بار جاتے ہوۓ اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور ( pasillos ) جہاز تک جانے کے لئے بنے لکڑی کے عارضی پل کی طرف قدم بڑھا دئے .مارتھا اپنے بیٹے کو سینے سے لگاۓ پابلو کو جہاز پر سوار ہوتے دیکھتی رہی ، آخرکار بحری جہاز کے باد بان کھول دیئے گئے،گھنٹے کی زور دار آواز نے جہاز کے چلنے کا اعلان کیا . بحری جہاز آہستہ آہستہ پورٹ سے نکل کر سمندر کی جانب سرکنے لگا ،گھنٹے کی آواز تھوڑے وقفے کے بعد آنے لگی ،سرکتے سرکتے جہاز نظروں سے دور ہوتا گیا ،مارتھا کا دل اس دور جاتے جہاز میں اٹکا تھا ، آنسوں سے دھندلائی آنکھوں میں جلن اور سینے میں پابلو سے جدائی کی کسک بڑھتی جا رہی تھی .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پر نغمے کے مدھر بول ہوا کے دوش پر اڑتے ،سر جھکاۓ دال میں سے کنکر بینتی شاہینہ کے دل و دماغ کا حصار کئے ،دل میں اٹھتی ہوک کو دو دھاری تلوار بنا کر بے دردی سے کاٹ رہے تھے. سیاہ بالوں کی چند لٹیں اس کے صبیح چہرے کا احاطہ ایسے کئے ہوۓ تھیں جیسے شام کے بڑھتے ساۓ سورج کے گرد اکھٹا ہوتے ہیں تو ایک روشن ہالا سا بن جاتا ہے، خوبصورت ہونٹ گانے کے بول دوہرا رہے تھے اور جب مغنیہ نے” ھاۓ او پیا رے..پیا رے..پیا رے “کی لمبی تان کھینچی تو دل میں اٹھنے والا درد اس کا کلیجہ چیر گیا، مغنیہ نے بھی شاید کسی ٹرانس میں آ کر یہ گیت گایا تھا ،تب ہی شاہینہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس کے دل کی آواز ہے . بے اختیار ہاتھ سینے میں اٹھتی ٹیس کو دبانے کے لئے اٹھا تو سارے کنکر دال میں جا گرے . “او ہو” شاہینہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی .’اماں جان سے کتنی مرتبہ کہا ہے اسٹور سے صاف ستھری پیکٹ کی گئی دالیں منگوایا کریں،لیکن کہاں ان کو تو منڈی سے خریدے تازہ اجناس بھاتے ہیں .”گھنٹوں بیٹھ کر دال ، چاول صاف کرتے رہو.” لڑکیوں کی ساری زندگی پتھر و کنکر چنتے گزر جاتی ہے لیکن پھربھی راستے کے پتھر پاؤں زخمی کر دیتے ہیں .شاہینہ کا دکھ اس گانے کے ہر بول سے عیاں تھا جیسے یہ گیت اسی کے لئے لکھا گیا ہو . بچھڑنے کا کرب,نارسائی,دوری نے اس کی ہری بھری زندگی کو سلگتی ہوئی لکڑیوں میں بدل دیا تھا ، راکھ میں دبی چنگاری کبھی اتنے زور و شور سے بھڑک اٹھتی، لگتا آج سب جل کر راکھ ہو جاۓ گا ، لیکن زخم یوں ہی دھیمے دھیمے سلگتے رہتے ہیں .
مارٹن کوارٹرز کو سرکاری اہلکاروں سے بسایا جارہا تھا. شاہینہ کے والد اختر صاحب سرکاری ملازم تھے، پھوپھا اکرم بلدیہ میں، دونوں گھرا نے مارٹن کواٹرز میں آ کر آباد ہو گئے. مختصر سا خاندان تھا پھوپھی کا ایک بیٹا نور حسن اور بیٹی گلشن جبکہ اختر صاحب کی دو بیٹیاں ،شاہینہ، و سبینہ .
گھروں کے درمیان دیوار تھی لیکن دل دونوں گھرانوں کے ایک ساتھ دھڑکتے تھے. بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے ، ہر وقت کا ساتھ رہتا تو اکثر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اور نوک جھونک چلتی رہتی کہ زندگی کا حسن ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پنہاں ہے ، شام کو کیرم بورڈ ،لوڈو کی محفل سجتی ,نور سب کی نظر بچا کر کبھی گٹیاں بدل دیتا تو کبھی گوٹز ” دیکھئے آپ بے ایمانی کر رہے ہیں نور بھائی” سبینہ اور گلشن چلاتیں ” ارے ،ارے تم لوگ مجھے بے ایمان کہہ رہی ہو. “نور حسن معصوم سی شکل بناتا. شاہینہ اپنی شرارتی ہنسی چھپاتی . خوب اودھم مچتا ، شور کی آواز سن کر کبھی اختر صاحب تو کبھی اکرم صاحب جج کے فرائض انجام دیتے ،اور نور حسن کو سزا کے طور پر سب کوا پنے جیب خرچ سے آئس کریم ،چاٹ یا سموسے کھلانے پڑتے .
نور حسن شاہینہ کی شربتی آنکھوں اور لمبے سیاہ بال کا دیوانہ تھا،اسی لئے آتے جاتے اس کی چوٹی کھینچ دیتا ،شانو کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے اور وہ غصے سے چلاتی “تم میری چوٹی کیوںکھینچتے ہو ؟ ” اس لئے کہ مجھے تمہاری خوبصورت آنکھوں میں تیرتے تارے بہت حسین لگتے ہیں.”تو “کیا تم میری آنکھوں کو ہمیشہ برستا دیکھنا چاہتے ہو ؟” ارے نہیں پگلی میں ان آنکھوں سے پیار کرتا ہوں.”، چلو ہٹو پرے ہو ، مجھے نہیں چاہئیے ایسا پیار .” شانو اکثر کہتی کہ مرد اپنے کیریئر اور مستقبل کو محبت پر فوقیت دیتے ہیں اور وہ اس بات سے انکاری تھا، “محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے .” کیریئر نہیں ،وہ اپنے موقف پر قائم رہتی.
شاہینہ نے گریجویشن کر لیا تو پھوپھو نے بھائی سے اس کا ہاتھ مانگ لیا ،انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا . نور ایم _ بی -اے کے آخری سال میں تھا تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے ملازمت تلاش کرنے تھی .
ملازمت تلاش کرنا کٹھن کام ہے ،وہ دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک گیا ،کہیں تجربہ لازمی گردانہ جاتا تو کہیں اوپر سے سفارش کام آتی . ڈگری صرف کاغذ کا ایک پرزہ ہے ،جس محنت و لگن سے تعلیم حاصل کی اس کی کہیں کوئی قدر و منزلت نہیں تھی.تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ وہ ملک سے باہر جا کر قسمت آزماۓ گا. ایسے میں والدین کی جمع پُونجی کام آئی، برطانیہ کا ویزہ لگ گیا .نور کے باہر جانے سے پہلے یہ طے پایا کہ اس کا شانو سے نکاح کر دیا جاۓ،سادگی سے نکاح ہو گیا . شانو کے دل کی عجیب حالت تھی ،بات بے بات آنسو چھلک پڑتے ،نور اسے سمجھاتا کہ بس ایک دو سال کی بات ہے میں تمھیں جلد لینے آؤں گا ,” ‘لیکن ..لیکن تمہارے بنا یہ سال کیسے گزریں گے؟ “،پر لگا کر اڑ جائیں گے ،” جس دن اسے جانا تھا ، شانو نے خود کو کمرے میں بند کر لیا. شام کو جانے سے پہلے وہ دروازے تک آیا،”شانو میں جا رہا ہوں، آخری بار اپنی شکل تو دکھا دو.” پھر جانے کب ملاقات ہو ؟ وہ تڑپ کر کمرے سے باہر آئی، آنسوں سے جل تھل آنکھیں “دیکھو آج میری آنکھوں میں کہکشاں اتر آئی ہے .”نور نے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے سارے تارے اپنی انگلیوں کی پوروں پر سمیٹ لئے .” یہ تارے ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے.” پھر برسات اس کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے ٹہر گئی .
نور کو برطانیہ گئے ڈیڑھ سال ہو گیا تھا, اکثر فون کرتا بات بھی ہو جاتی ،شانو کو ہر مہینے خط لکھتا، یہ ہی کہتا کہ سٹیل ہو جاؤں ،پیپر بن جائیں تو اسے لینے آ جاۓ گا. نور حسن کی واپسی کے دن گنتے گنتے مزید دو سال گزر گئے, وقت کہاں کسی کے لئے رکتا ہے ؟ بھیگے موسم کی وہ خوبصورت راتیں جب اظہار نوک زبان پر مچلتا لیکن حیا کچھ کہنے سے روکتی رہتی ، چاندنی راتوں کی سحر انگیز فضا جب نور کی بولتی آنکھیں, ہاتھ کا لمس اور جذبات میں ڈوبی سانسیں بہت کچھ کہہ رہی ہوتیں اور وہ سمجھتے ہوۓ بھی انجان بن جاتی کہ خاندان کی عزت اور ان کا مان اسے خود سے زیادہ عزیز تھا. چھوٹے سے گھر میں کہاں تنہائی میسر تھی،بس سب کی نظروں سے بچا کر ایک دوسرے سے دل کا حال کہہ دیا کرتے .
نور کے جانے کے بعد وہ چاندنی راتوں میں آسمان پر چاند کے گرد والہانہ چکر کاٹتے چکور کو دیکھتی تو اس کے اپنے درد جاگ اٹھتے .اس کے خطوط مختصر ہوتے گئے, اسے لگتا کہ نور کے خط میں جو الفاظ ہیں وہ جذبات و احساس سے عاری ہیں.کبھی کبھار فون آتا ،شانو نے گھر والوں کی اجازت سے ایم _ اے انگلش میں داخلہ لے لیا .وہ فائنل ایئر کے امتحان کی تیاری کر رہی تھی, دن رات کتابوں میں سر کھپاتی.
کرسٹوفر کولمبس خوش قسمت تھا جو کئی بار سفر پر گیا اور کامیاب لوٹا مگر کچھ لوگ پابلو جیسے بھی ہوتے ہیں جن کی قسمت میں سفر تو ہوتا ہے مگر رستوں میں ملے خزینے مقدر نہیں ٹھہرا کرتے ، مارتھا نے اپنی ساری جوانی محنت مزدوری، بیٹے کو پالنے اور تنہائی کا کرب سہتے گزار دی. ایک دن لورینزو آیا، بیس سال کی جمع پونجی، چند سونے کے سکے مارتھا کے ہاتھ پر رکھے اور بتایا کہ “پابلو پانچ سال پہلے مٹی تلے اپنی نئی دنیا بسا چکا ہے” یہ سن کر مارتھا پتھرا سی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پڑھتے پڑھتے ڈرائینگ روم میں آئی تو دیکھا کہ ابو ٹی وی کی آواز بند کیے صوفے پر سو رہے تھے ، انٹرنیشنل ٹی وی چینل پر خبریں چل رہی تھیں، ایک تصویر بار بار اسکرین پر آتی ,شانو نے ریموٹ اٹھا کر آواز کھولی تو اناؤنسر چیخ چیخ کر موٹر وے ایم سکس کا ذکر کر رہی تھی جہاں ایک کار اور ہیوی ٹریلر کا تصادم ہوا اور کار ڈرائیورموقع پر ہی جان بحق ہو گیا تھا, ساتھ ہی کار ڈرائیور کا نام ،تصویر اور باقی تفصیل سکرین پر دکھائی جا رہی تھی. شانو تصویر کو خاموش کھڑی گھورتی رہی, اناؤنسر بار بار بتا رہی تھی کہ “کار ڈرائیور کا نام نور حسن ہے ،وہ ذاتی ٹیکسی چلاتا تھا ، اس کی شادی ڈیڑھ سال قبل ہوئی اور ایک چھ ماہ کا ایک بیٹا ہے” ہاتھ سے ریموٹ چھوٹ گیا، آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی, کان سن تو رہے تھے لیکن دماغ ماؤف تھا ،وہ آنکھیں بند کئے بار بار سر کو جھٹکتی اور کچھ بولنے کی کوشش کرتی لیکن زبان ساتھ نہیں دیے رہی تھی ، اسے لگا اس کی ٹانگیں ربر کی ہیں جن پر کھڑے رہنا محال ہے ۔۔وہ دیوانہ وار ادھر ادھر دیکھتے ہوئے زمین پر ڈھے گئی ۔۔
“Men have died from time to time, and worms have eaten them, but not for love.”
William Shakespear
Urdu short stories and writers
Comments are closed.