Skip to content

انہونی

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 99

انہونی

قمر قدیر ارم ۔ مراد آباد ، انڈیا

کبھی کبھی کیسی انہونی ہو جاتی ہے اور میری زندگی میں تو کتنی بہت سی انہونی باتیں ہوئیں۔تم خود سوچو کیا میری تمہاری شادی ایک انہونی نہیں تھی ؟

تم ایک رئیس زادے اور میں ایک معمولی اسکول ماسٹر کی بیٹی،ویسے یہ کوئ نئ بات نہیں تھی یا اس طرح کی شادی کوئ نتالی شادی نہیں ہوتی ،بلکہ نئ اور عجیب بات تو کچھ اور ہی تھی۔ تم ضدی زمانے بھر کے۔اپنے ماتا پتا کے لاکھ سمجھانے، بجھانے،دھمکانے پر بھی اپنی ضد پر اڑے رہے،اپنے فیصلے پر جمے رہے۔۔ورنہ میرے پاس تھا ہی کیا؟بس ایک معصوم چہرہ (بقول تمہارے)اور سادگی بھرا دل۔

اکلوتے تم بھی تھے،اکلوتی میں بھی تھی۔بچپن میں چاند کو مٹھی میں بند کر لینے کی تم نے بھی خوہش کی ہوگی ،میں نے بھی کی تھی۔فرق اتنا تھا کہ تم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور میں اپنے والدین کے سات بیٹوں میں اکیلی بیٹی تھی ۔جب تم پر نہ بس چلا تو میرے بابو جی کو دھمکیاں دی گئیں ۔میرے بھی بھائیوں نے آستینیں سنت لیں۔آخر انہیں بھی تو عزت پیاری تھی۔کس کی مجال تھی جو انکی اکلوتی بہن کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ لیتا ؟

پھر پتہ نہیں کیا ہوا،ایک دن تمہارے ڈیڈی میرے بابو جی سے ملنے آئے اور میری تمہاری شادی کی بات پکی کر گئے ۔۔تھی نا عجیب بات ؟

تمہاری چاہت ،تمہاری محبت تھی وہ پہلی انہونی ۔آج بھی یاد کرتی ھوں تو تم پر بے تحاشا پیار امنڈ پڑتا ہے ۔

شاید سوچ رہے ہو یہ پرانی کہانی کیوں چھیڑ دی میں نے؟سن رہے ہو نا۔۔؟

سنو۔۔۔میں تمہارے گھر میں بیاہ کر کیا آئ کہ تمہارے دادا جی نے اپنی ساری جائیداد تمہارے ڈیڈی کے نام کردی۔ تمہارے چاچا جو بہت سالوں سے ودیش جانا چاہتے تھے،ودیش چلے گئے۔وہاں انہیں بہت اچھی جاب مل گئ تھی ۔تمہاری ماں، جو ہمیشہ بیمار رہتی تھیں صحتمند ہونے لگیں۔ساری دوائیاں چھوٹ گئیں۔گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل ہو گئ۔ آئے دن تم اور تمہارے ڈیڈی نئے نئے ٹھیکے لیتے ،نئے نئے ایگریمنٹ کرتے ۔ایسا کرنے سے پہلے گھر میں پوجا ہوتی جس میں میرا ہونا سب سے زیادہ ضروری ہوتا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ ہونے لگا کہ گھر کے تمام لوگ صبحِ اٹھ کر سب سے پہلے میرے درشن کرتے پھر کوئ اور کام کرتے۔حتی کی دیوی پوجا بھی بعد میں ہوتی۔

کیسی کیسی انہونیاں ہونے لگیں۔سوچتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں۔

حیران رہ جاتی ہوں۔تمام رشتے دار ، پڑوسی ،یہاں تک کہ تمہارے بزنس پارٹنرز تک کی یہ ہی خواہش رہتی ہے کہ میں ہفتے میں ایک بار ہی سہی انکے گھر ضرور آؤں۔جہاں قدم رکھ دیتی وہاں نصیب پلٹ جاتے۔ لوگ ماننے لگے کہ میں بہت بھاگیہ واں ہوں۔کئ لوگ تو ایسے اندھ وشواسی تھے کہ دیوی کا روپ ماننے لگے۔

کوئ بیمار ہوتا تو میرا اسکو دیکھنے جانا اس کے ٹھیک ہو جانے کی گارنٹی مانا جاتا۔اور انہونی دیکھو کہ سچ مچ وہ بھلا چنگا ھو جاتا ۔

کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا تو میرا آشیرواد لینے وہ چوکھٹ پر بچہ سمیت حاظر ۔کوئ شادی بیاہ ہو ،گرہ پرویش ہو ،منڈن سنسکار ہو۔۔۔کچھ بھی ہو۔۔۔دن تاریخ مجھ سے پوچھ کر طے کئے جاتے۔ایک معمولی اور عام سی لڑکی کس قدر خاص بن گئ تھی۔ترستی تھی میں ایک نارمل سی زندگی کے لئے۔جہاں جاؤں لوگ پلکوں پر بٹھائیں۔بازار میں نکلوں تو دکاندار اپنی دکانوں سے نیچے اتر کر ہاتھ جوڑ کر پرنام کریں۔جس دکان میں چلی جاؤں دکاندار مارے خوشی کے پگلایا پھرے۔جو بھی خریدنا چاہوں دام کوئ نہ بتلائے۔۔بہت کہا سنی پر ہاتھ جوڑ کر یہ ہی کہا جائے۔۔جو من کرے دیدیں۔ہمارے لئے پرساد ہوگا۔اب بتاؤ میں پریشان نہ ہوتی ؟ مجھے کیا معلوم کون سی چیز کس قیمت میں ملنی ہے ؟ سوچتی کم دئیے تو دکاندار کا نقصان ہوگا،ذیادہ دے بیٹھی تو اپنا۔۔۔ عجیب دوودھا۔۔۔

ایسے ہی ہنسی خوشی زندگی گذرتی رہی۔چار سال کہاں بیت گئے پتہ ہی نہ چلا۔اب تم بھی بہت بزی رہنے لگے تھے۔اور ماں،ڈیڈی میرے اوپر صدقے،قربان ۔انکا بس چلتا تو زمین پر پاؤں بھی نہ دھرنے دیتے ۔ہتھیلیاں لگا دیتے۔

مجھے کبھی کبھی تو بڑی ہنسی آتی ۔اگر میں اتنی ہی بھاگیہ شالی تھی تو میرے ماں باپ غریب کیوں تھے؟

اور وہ بھی سات ہٹے کٹے بھائیوں کے ہوتے ہوئے۔۔وہاں لکشمی کی ایسی کرپا کیوں نہیں ہو سکی؟اور یہاں آتے ہی کیوں ایسا چمتکار ہوگیا کہ ہر طرف خش حالی ؟ ہر طرف میری ہی بڑائ؟ہر کامیابی کا تعلق مجھ ہی سے کیسے جڑ گیا؟ میں کہاں کی دیوی،کیسی دیوی۔۔ خود میری گود تو سونی تھی ؟اور دوسروں کو آشیرواد سے اولاد والا بنا دیا تھا؟…اگر ایسی ہی تھی میں تو میرا آنچل خالی کیوں تھا ؟

کبھی کبھی کیسی انہونی ہو جاتی ہے۔اور میری زندگی میں تو کتنی بہت سی انہونی باتیں ہوئ ہیں۔مجھے دیوی کا سروپ دیکر سب کی آشائیں منتیں ایسی ہی تھیں جیسی دیویوں سے ہوتی ہیں۔تیرتھ کے لئے تمہاری ماتا جی مجھے اپنے ساتھ بدری ناتھ لے گئیں۔بڑے آرام سے سب پڑاؤ پورے ہوئے۔کوئی اڑچن نہیں یہاں تک کہ تھکان تک نہیں ہوئ۔ساسوماں بھی حیران کہ وہ کیسے سب دھرم کرم یاترا کرکے بھی تروتازہ تھیں۔

اسکا بھی سہرا میرے سر کہ میں بھاگیہ وان جو سا تھ تھی۔ادھر میرے پیچھے تم اچانک بیمار پڑ گئے۔۔جب تک ہم دونوں واپس آئیں۔۔تم کھٹیا سے لگ چکے تھے۔سب مان رہے تھے کہ بہورانی دیوی کے دور چلے جانے سے راہو کال نے تمہیں آ دبوچا تھا۔دوا،علاج سب کچھ ہوا۔میں بھی واپس آ گئ تھی لیکن تم نہ بچ سکے۔کال کے گال میں سما گئے۔۔بھری جوانی میں تم نے مجھے ودھوا بنادیا۔تمہاری جیون لیلا سماپت نہیں ہوئ تھی۔۔میں ہی جیتے جی مر گئ تھی ۔

مگر پھر ایک انہونی ۔۔مجھے سہاگن بناکر ہی رکھا گیا۔دیوی جو ٹھہری۔۔روز میرا ساج سنگھار کیا جاتا۔مانا یہ گیا کہ میں نے لوگوں کو جیون دان دیا ہے اور اپنا سہاگ ارپن کیا ہے۔۔میرا مان سمان سہاگن کی طرح ہی بنا رہیگا ۔دیوی بھلا کہیں ودھوا ہوتی ہے ؟

آج بھی میں سہاگن ہوں۔سب کو آشیرواد دیتی ہوں گھر میں اب ایک بڑا سا مندر بن چکا ہے۔وہیں میں رہتی ہوں۔باقی گھر سے میرا کوئ سمبندھ نہیں،کوئ تعلق نہیں۔ماں ڈیڈی زندہ ہیں خوش ہیں ۔لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہیں،میرے چرن چھونے ،آرتی کرنے آتے ہیں۔میں سب سے اونچے آسن پہ بیٹھتی ہوں۔میرے چہرے پر ممتا کے بھاؤ رہتے ہیں۔

مگر کاش۔۔کوئ میرے من کے بھیتر جھانک سکتا۔۔جہاں جوانی کی تمام امنگوں نے بیوگی کی سفید چادر اوڑھ لی ہے ۔ایک 22 ،23 برس کی لڑکی جو گرھستی کے سکھ کو سنسار مانتی ہے وہ کس طرح دن بھر سہاگن کے جوڑے میں دیوی کا روپ دھارے رہتی ہےاور رات کی تنہائی میں جب اپنے آسن پر اکیلی سوتی ھے تو کسی کروٹ اسے چین نہیں آتا۔۔۔۔جانتے ہو ؟..اس وقت میں بلکل عام عورت ہوتی ہوں۔محبت کی بھوکی،۔۔کاش کوئ یہ سب مجھ سے لےلے۔۔اور بدلے میں ایک بے تحاشہ محبت کا مارا مکمل مرد مجھے دیدے۔

ارے ہاں۔۔لو سنو،اب ایک اور انہونی میرے ساتھ ہونے لگی ہے۔رات میں جب میں برہ کی ماری تمہارے میٹھے لمس کے لئے تڑپتی ہوں تو۔۔نہ جانے کیسے ایک مرد میرے خود کے اندر جنم لے لیتا ہے۔۔اور مجھے پوری طرح ترپت کر دیتا ہے۔۔پھر صبح تک میں سکون سے گہری نیند سو لیتی ہوں۔۔اگر یہ “انہونی” نا ہوئ ہوتی تو کیا ہوتا میرا۔۔۔بتاؤ ذرا۔۔۔ ؟؟

Published inافسانچہعالمی افسانہ فورمقمر قدیر

Be First to Comment

Leave a Reply