عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 74
اُمید یا خوف
منزہ جاوید، اسلام آباد، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں قصاب کی دکان میں داخل ہوا جہاں ہر روز کی طرح مکھیوں، بد بو اور لوگوں کے رش نے میرا استقبال کیا۔ میں اپنے سفید کپڑوں کو فرش پر موجود پانی سے بچاتا ہوا ایک جانب کھڑا ہو گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ آج دُکان میں بد بُو اِس قدر زیادہ تھی کہ مجھے اپنے اُوپر غصہ آنے لگا کہ اماں کو کئی بار کہا ہے گوشت کی خریداری کے لیے کسی اور کو بھیجا کریں۔ کچھ دیر انتظار، رش اور بد بو سے تنگ آ کر میں باہر جانے لگا تو قصاب نے آواز لگائی؛
“صاحب آپ کو کیا چاہیے۔”
میں نے آہستہ سے کہا؛ ” مرغی بنوانی ہے۔” تو قصاب دو منٹ کا کہہ کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ رش کچھ کم ہوا تو قصاب نے پوچھا بتائیے صاحب کونسی بناؤں۔ ہر بار کی طرح میں پنجرے میں بند مرغیوں کو تذبذب سے دیکھنے لگا کہ کس کی جان کا انتخاب کروں۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سڑک پر کچھ لوگوں کے لڑنے کی آواز آنے لگی۔ قصاب کے ساتھ ساتھ میں بھی شور کی جانب متوجہ ہو گیا۔
قصاب کی دکان کے باہر بھی ایک عجیب منظر ہی ہوتا تھا مستری اور مزدور قطار بنا کر بیٹھ جاتے تھے اور جیسے ہی کوئی گاڑی والا کسی مستری مزدور کی تلاش میں آتا تو سب مکھیوں کی طرح اُس کو گھیر لیتے اور ہر کوئی اپنی بہتر خدمات پیش کرنے کے لیے آگے بڑھتا اور اس بے کار ہجوم میں سے کسی ایک فرد کا انتخاب باقی ہجوم میں ایک احساس کمتری اور تکرار پیدا کر دیتا تھا۔
جونہی لڑائی کا شور کچھ کم ہوا تو قصاب نے مجھے کہا؛ ” چھوڑو صاحب یہ تو روز کا جھگڑا ہے۔ آپ بتاؤ میں کونسی مرغی نکالوں۔” اور قصاب کے کہنے پر میں پنجرے میں بند مرغیوں کو دوبارہ دیکھنے لگا اور پیچھے بیٹھی ہوئی ایک مرغی کی جانب اشارہ کیا تو قصاب نے اُس کو پکڑنے کے لیے پنجرے میں ہاتھ ڈالا اور کچھ ویسی ہی چیخ و پکار سنائی دی جو تھوڑی دیر پہلے سڑک پر مزدورں کے آپس میں لڑنے کی وجہ سے سنائی دے رہی تھی۔ میں بھی سڑک پر مزدورں کا انتخاب کرنے والے کی طرح یہ ہی دیکھ رہا تھا کہ کتنے کم پیسوں میں کتنی صحت مند جان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ مرغی کی آخری چیخ نے مجھے قصاب کی جانب دوبارہ متوجہ کیا شاید اِس مرغی کی آخری چیخ سننے والا وہاں کوئی نہ تھا یا پنجرے میں بند وہ مرغیاں تھیں جو خوف سے ہر آنے والے کو دیکھ رہی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے یوں ہی لگا کہ یہاں پنجرے کے اندر اور سڑک پر بیٹھے ہوئے سب بے زبان جانور ہی ہیں جو کچھ اُمید اور کچھ خوف سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
Be First to Comment