عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 126
آمتل
منیرہ شمیم ۔لاہور ۔پاکستان
،،آمتل، ،
،، ہوں، ،
،، چلو اٹھو باہر چلتے ہیں، ،
باہر کہاں؟ امتل بےزاری سے پوچھتی ھے
کہیں، ،،،،، کسی چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں چائے پیں گے،
آمتل چار پائی پر اپنا بکھرا ہوا وجود سمیٹ لیتی ھے اور بےزاری سے جمائ لیتے ہوئے اپنے آپ کو تیار کرتی ھے
آمتل بکھرے ہوئے وجود کی لڑکی ھے یا مجھے بکھری ہوئی نظر آتی ہے، شاید وہ خود بھی یہ نہیں جانتی یا
شاید جانتی ہو، لیکن میں نے اسے اس لمحے کی گرفت میں دیکھا ھے جب وہ اپنے بکھرے ہوئے وجود کو دیکھ
لیتی ھے، اور پھر وہ اس امید کے ٹیپ سے اپنے وجود کو جوڑ لیتی ھے، یہ سوچ کر کے کہ ایک نہ ایک دن وہ
ضرور میری زندگی میں آئے گا، وہ اکثر اس کی باتیں مجھ سے کرتی جو اس کے خیالوں کا شہزاد تھا، لیکن
جلد ہی آنسوؤں سے یہ آمید کا ٹیپ بھیگ جاتا اور پھر ادھڑ جاتا،
آمتل میری روم میٹ ھے، ہم آخری سال میں ہیں، یونیورسٹی کا یہ آخری سال خود فریبی اور آزادی کا آخری
سال ھے، آگے کیا ہو گا ؟ ،،،،، آگے کیا ہو گا؟ کبھی کبھی تشویش اپنے بھاری ہاتھوں سے دروازے پر دستک
دیتی ھے، لیکن یہ وقت ان باتوں کا نہیں، آمتل کو میں چار سالوں سے جانتی ہوں یا شاید چار صدیوں سے
کیونکہ میں نے اس کی کھوکھلی روح میں اتر کر اس تنہائی کی گونج سنی ھے جسے وہ سگریٹ سے دبانے کی
کوشش میں لگی رہتی ھے،
معمولی، بےحد معمولی شکل و صورت کی امتل ایک گونج ھے، اور اس گونج کا ایک دائرہ ھے، اس دائرہ
کا ایک مرکز ھے اور اس مرکز میں، ،،،،، میں نے امتل کو دیکھا ھے، لیکن یہ اور بات ھے،
آمتل کپڑے بدل کر تیار ہو گی ھے، وہ اپنے پرس میں سگریٹ کی تازہ ڈبیا رکھ رہی ھے، اور اس نے اپنے
وجود پر بے نیازی کا خول چڑھا دیا ھے، اسے میں جانتی ہوں اور میں نے یہ خول اتار دیا ھے اور آمتل کو
اس کے اپنے اصلی روپ میں دیکھ رہی ہوں، اور کیا پتہ میں نے یہ سب کچھ اس کی ہمدردی میں کیا ہو
ہماری ہر بات کے دو رخ ہوتے ہیں اور دوسرا ہمیں کبھی نظر نہیں آتا،
،،چلو جان ، آمتل تیار ھے ، ،،
اپنے بے جان اور ٹوٹے ہوئے وجود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے، ،،،،، ایک طویل کش کو فضا میں بکھرتے
ہوئے بولی،
باہر دھوپ ھے ڈھلتی ہوئی، مال روڈ کے پرلے سرے پر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ھے، ہمیں وہاں جانا ھے،
یہی ہمارا ٹھکانا ھے، جہاں ہم تھوڑے سے پیسوں میں بہت سا عیش کرتے ہیں یا پھر عیش کا تاثر حاصل
کرتے ہیں، ،،،،، اسی عیش سے امتل کی کہانی بھی وابستہ ھے، لیکن یہ کوئی اتنی بڑی کہانی بھی نہیں،
ریسٹورنٹ میں لوگ، ،،،،، اکا دکا لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ریسٹورینٹ کے ایک کارنر کی ٹیبل پر وہ بھی بیٹھا
ہوا ھے ، جو اس کہانی کا ایک کردار ھے، مجھے اس کا نام معلوم نہیں ھے، لیکن نام میں کیا رکھا ہے اس
کا کوئی سا بھی نام رکھ لیجئے کوئی بھی خوبصورت نام مثلا سرمد، ،،،،،، سرمد ایک کونے میں بیٹھا ہوا ھے
باہر اس کی لمبی کالی کار کھڑی ھے، اس کار کی چمک اس کی شخصیت میں بھی ھے، سرمد خوبصورت ھے
دراز قد ھے پائپ پیتا ھے، اور اس وقت بھی پائپ پی رہا ھے، پائپ سے تمباکو کی بھینی بھینی خوشبو
چاروں سمت پھیل رہی ھے، میں اس خوشبو کو اپنے وجود کے ریشے ریشے میں اتار رہی ہوں، مجھے اچھے
تمباکو کی خوشبو اچھی لگتی ھے، آمتل کونے میں بیٹھے ہوئے سرمد کی مقابل والی میز پر بیٹھ جاتی ھے
میں بھی اس کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی، ہمیشہ یونہی ہوتا ھے، آمتل نے اپنے پرس میں سے سگریٹ
نکالی اور ایک لمبا کش لیا،
مجھے یوں لگا جیسے وہ ساری کائنات کو اپنے اندر اتار رہی ہو اور سرمد اس کی کائنات ہو، سرمد اس
کے بلکل سامنے بیٹھا ہوا اپنے پائپ سے نکلے ہوئے دھوئیں کی خوشبو بکھیر رہا ھے، لیکن میں اس سارے
کھیل میں کہاں ہوں؟ مجھے اس سارے الجھاوے میں اپنے آپ کو ڈالنے کی ضرورت نہیں، ،،،،، کیونکہ یہ
کہانی امتل کی ھے،
سرمد آمتل سے محبت کرتا ھے، کم از کم آمتل کا خیال یہی ھے اور وہ اس کی سوچوں کا محور ھے
اس کا ثبوت وہ خط ہیں جو سرمد نے آمتل کو لکھے ہیں، جنہیں اس نے مجھ سے چھپایاھے، لیکن
مجھے ان خطوط کا علم ھے، کیسے علم ھے یہ میں بعد میں بتاوں گی، سرمد کی محبت آمتل کو گھن
کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہی ھے اور وہ اندر سے کھوکھلی ہوتی جارہی ھے، اور کسی دن وہ
کھوکھلے درخت کی طرح گر جائے گی،
سرمد اور آمتل کی اس خاموش محبت کو میں چھ ماہ سے دیکھ رہی ہوں، اور ویٹر بھی اس کھیل
میں شامل ہیں، وہ خاموشی سے خط اٹھانے لگے ہیں، وہ چپکے سے آ کر پانی کا گلاس سرمد کی
ٹیبل پر رکھ جاتے ہیں سرمد جواب میں تشکر سے مسکراتا ھے، پھر وہ چائے لاتا ھے دو آدمیوں کے لئے
لیکن دوسری پیالی ہمیشہ خالی رہتی ھے، اسی طرح صاف شفاف جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو
جیسے آمتل کا انتظار کر رہی ہو، آمتل دور سے پیالی کو دیکھتی ھے اور آنکھیں بند کرتے ہی کہیں
کھو جاتی ھے، جیسے وہ اس چاے کی پیالی میں اتر رہی ہو اور سرمد اسے ایک ہی گھونٹ میں
پی جائے گا،
ہمیشہ کی طرح آج بھی سرمد سامنے والی ٹیبل پر بیٹھا ہوا ھے، ویٹر مسکرا کر پانی کا گلاس
اور دو آدمیوں کے لئے چائے ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا، آمتل آنکھیں بند کر کے اس پیالی میں اترنے
ہی والی تھی کہ ریسٹورنٹ کا دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت سمارٹ سی لڑکی اندر داخل ہوئی
اور بڑی گرم جوشی سے سرمد کی طرف بڑھی،
سرمد کھڑا ہو گیا،
ہائے، ،،،،،،،، لڑکی نے کہا
ہائے، ،،،،، سرمد نے جواب دیا،
پھر وہ دونوں قہقہوں میں ملی چائے پینے لگے
میں نے دیکھا آمتل کا چہرہ پیلا پڑ گیا، وہ جیسے چائے کی پیالی میں غوطے کھا رہی ہو ،زندگی کے
اس ٹھہرے ہوئے بدصورت لمحے کو وہ قبول کرنے کو تیار نہ تھی، اپنی خوفزدہ نظروں سے آمتل نے
اس لڑکی کی طرف دیکھا، ،،،،،،، اور سارے غم اپنی جھولی میں سمیٹ کر ریسٹورنٹ سے باہر نکل
آئی،
باہر آندھرا چھا رہا تھا، بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں، ،،،،،،،، خزاں کی زد میں آئے درخت کے زرد پتوں کو
گہرا کر رہی تھیں، آمتل نے جھک کر پتوں پر یوں ٹھوکر ماری جیسے وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی پر ٹھوکر
مار رہی ہو،
میں نے اس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ تپتے سورج میں اس زمین کی طرح نظر آیا جس زمین پر برسوں
بارش نہ برسی ہو
،،،، آمتل ،،
،، ہوں ، اس نے آہستہ سے جواب دیا
اداس کیوں ہو ؟
،اداس نہیں ہوں مجھے اس پر غصہ آ رہا ہے، ، جھوٹا، ،،،، کمینہ ،،،، وہ غصے سے بولی،
،کون ، میں نے پوچھا
وہ مجھ سے محبت کرتا تھا ،،،،، وہ بڑبڑائ
تم کبھی اس سے ملیں؟
نہیں! ،،،،، میری اس سے ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی، شاید وہ میرے اندر پہلے ہی سے موجود تھا
بس دریافت اب ہوا تھا، ،،،،،، پیار کہیں باہر سے نہیں آتا ، یہ انسان کے اندر ہوتا ھے، شاید ہم اسی
انتظار میں ہوتے ہیں کہ وہ کب آئے اور اچانک مل جائے،
لیکن جسے تم جانتی نہیں اسے تخیل کی مدد سے جان لیوا کیوں بنا رہی ہو، ایک بات کہوں
تم نے یہ جو اپنے وجود کے ارد گرد اداسی اور بےزاری کا کمبل لیپٹ رکھا ھے، کیا تم سمجھتی ہو
کہ اس سے تم اپنے اندر کی تنہائی کا خلا بھر لو گی،
،، زندہ تو رہنا ھے نا ،
عجیب لڑکی ہو،
اچھا آو ،،،،، چھوڑو یہ باتیں، ،،،،، کہیں اور چل کر کافی پیتے ہیں، میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی
تمہارے دل میں اپنے لئے اتنی ہمدردی دیکھ کر کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ھے کہ جیسے تم
میری زندگی میں کوئی اہم رول ادا کرو گی، پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
تم مجھے بچا لو گی کسی آفت سے،
،، آمتل ،،،،، تمہیں کیسے معلوم ھے کہ وہ تم سے محبت کرتا ھے،
،، ہونہہ، ،،،،، میرے پاس ثبوت ھے ،
خط ،،،،،، میں پوچھتی ہوں،
،، ہاں ،،
،،مجھے معلوم ھے ،
وہ خط جو مجھ سے تم چھپاتی رہی ہو، لیکن مجھے معلوم ھے،
یہ کہہ کر مجھے یوں لگا جیسے میں ابھی اسے قتل کرنے والی ہوں، خوف سے میں دوسری طرف
دیکھنے لگی، میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی، ،،،،،، ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہ تھا،
پرندوں کی ایک ڈار میرے سر پر سے گزر گئی،
پھر خاموشی چھا گئی،
،، کیسے معلوم ھے تجھے ؟،،
،، آمتل نے دوبارہ مجھ سے پوچھا،
،، اس لئے کہ، ،،،،،، تمہارے اندر کی تنہائی کو کم کرنے کے لئے وہ خط میں نے تمہیں لکھے تھے، ،
آمتل نے میری طرف یوں دیکھا جیسے وہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہی ہو،
آمتل سے آنکھیں چرا کر میں دوسری طرف دیکھنے لگی،
Be First to Comment