عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 107
الوداع
فاطمہ عمران ۔ لاہور ، پاکستان
“نہیں میرے جیتے جی میں تمہیں اس ناپاک سرزمین پر قدم نہیں رکھنےدوں گا۔ اس دن کیلئے مسلمان پیدا کیے تھے میں نے”
ابا میاں کی آواز میں غصے کی آمیزش اسے صاف محسوس ہو رہی تھی۔انہیں پاکستان کے علاوہ ساری دنیا ہی ناپاک لگتی تھی۔اور وہ نظریں سامنے صوفے پر گاڑے سوچ رہا تھا کہ دنیا کے آدھے مسلمان تو ابا کے ابا نے پیدا کر دیے ۔اور رہی سہی تعداد ابا اور انکے بھائیوں نے پوری کر دی۔ چھوٹے سے مکان کو چڑیا گھر بنا رکھا تھا۔ مگریہ سب اسے ابا سے کہنے کی ہمت نہیں تھی۔
بیٹھک میں چند صوفوں اور ایک میز کے علاوہ کچھ خاص قابل ذکر سامان نہیں تھا۔ اماں نے کمیٹی ڈال کر جو پردے بنوائے انکا رنگ اب جگہ جگہ سے اڑنے لگا تھا۔ صوفوں کے سامنے پڑی میز کا کام سڑک کے بیچ جمپ جیسا تھا۔گزرنے والا جتنا بھی آہستہ ہو اور آہستہ ہو جاتا کہ مبادا انگوٹھے پر ٹھوکر لگ جائے ۔ کمبخت کمرے کے بیچ و بیچ جو پڑی تھی۔ ہر آتے جاتے کو میز سے گھوم کر جانا پڑتا۔
گھر کے سب اہم فیصلے اسی بیٹھک میں ہوتے تھے۔ اور اب ابا میاں اسی بیٹھک میں اسکے خوابوں اور روشن مستقبل کے آگے چٹان کی طرح راستہ روکے کھڑے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سب گھر والے مل کر بھی اس چٹان کو راہ سے ہٹانے سے صاف معذرت خواہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے بس تھے۔یہ جوکھم اسے اکیلے ہی اٹھانا تھا۔ ویسے بھی کسی کو کیا پڑی تھی کہ اسکے خوابوں کی وکالت کا طوق اپنے گلے میں ڈالتا.
“تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں تمہیں انگریزوں کے دیس جانے دوں گا؟ “
ابا میاں نے ایک ہاتھ اپنے عصا پر رکھ کر زور سے کہا تو فرط جذبات سے تھوک کے چند مہین اور باریک قطرے انکے منہ سے اڑ کر باہر گر گئے۔
“اوہو ابا۔۔دبئی گوروں کا نہیں مسلمانوں کا ہی ملک ہے۔ آپ سے کس نے کہا کہ وہاں مسلمان نہیں ۔بلکہ وہاں تو سنا ہے کہ اونٹ بھی ہوتے ہیں”
اونٹ کا ذکر سن کر پرانے زمانے کے معصوم ابا میاں کے چہرے کی تنی ہوئی جھریاں یوں تھوڑی ڈھیلی پڑیں جیسے اونٹ اسلام کا چھٹا اہم رکن ہو۔
ابا میاں کو ڈھیلا پڑتے دیکھ اس نے ایک اور گولا داغا “ابا پتہ ہے وہاں بڑے بڑے صحرا ہیں۔ دور دور تک ریت ہی ریت”
وہ ابا کو ایسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔جیسے وہ دبئی نہیں کسی غزوہ میں شرکت کرنے جا رہا ہو۔
“پتر تمہیں معلوم ہے نوجوانی میں میرے بھی چونچلے تمہاری طرح آسمانوں پر تھے۔ مگر ایک دفعہ میرے مرحوم ابا نے نہ کہہ دی تو سمجھو نہ۔ انکی خواہش کے مطابق انکو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتار کر اس پر مٹی ڈالی ہے میں نے۔تمہاری طرح کہیں دور دیس ہوتا تو ابا کا آخری دیدار بھی جانے نصیب ہوتا کہ نہیں۔”
ابا نے اسکے شرعی دلائل سے گھبرا کر اطاعت کے راستے سے اسے واپس موڑنے کی کوشش کی۔ مگر وہ بھی ضد کا پکا تھا۔
“ابا آپ کے ابا تو اس دنیا سے چلے گئے مگر اپنی قبر پر آخری مٹھی مٹی کی جگہ جوان اولاد کے خواب نوچ کر ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔؟ “
اس نے جی کڑا کر کہہ ہی دیا۔
ابا میاں چند لمحے کو چپ کر گئے۔ ایسا سناٹا چھایا کہ اسنے گھبرا کر واپس ابا کو دیکھا۔ ابا سامنے گھورتے ہوئے کمر تانے یوں بیٹھے تھے کہ اسے لگا اگر ابا کو بازو سے ذرا ہلائے گا تو وہ ایسے ہی لڑھک کر نیچے گر جائیں گے۔ اس نے گھبرا کر ابا کے ہاتھ کو چھوا۔ ابا نے وہیں بیٹھے بیٹھے غصے سے نظر گھما کر اسے دیکھا۔ اسے اطمینان سا ہوا کہ چلو ابا زندہ تو ہیں۔ ۔اس نے دل ہی دل میں دعا مانگی کہ اب ابا اسے بھی زندہ چھوڑ دیں
“ٹھیک ہے جیسا تمہارا جی چاہے برخوردار “
ابا کی آواز میں برسوں کی تھکن تھی۔ مگر یوں اچانک ہی مان جانے اور اجازت ملنے کی خوشی میں وہ اس قدر دیوانہ ہوا کہ ابا کے ہاتھ چوم کر جلدی سے باہر بھاگا۔
دبئی جانا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ اسکے پرکھوں نے سالہا سال ہجرت سے انکار کیا تھا۔ مگر اس کے دل میں آسمان چھونے کی خواہش تھی۔ وہ ستاروں کو مٹھی میں قید کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دبئی کے بارے میں اپنے جگری یار کالےسے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ کالا جو اپنی رنگت ہی نہیں کرتوتوں سے بھی کالا تھا گلی کے تھڑے پر بیٹھے اپنے پردیس رہنے والے غریب رشتہ داروں کی امارت کی کہانیاں یوں سنایا کرتا تھا جیسے وہ خود بھی وہیں ان کے ساتھ رہتا ہو۔
دبئی کے بارے میں کالے نے اسے بتایا تھا کہ وہاں کی زمین سونا اگلتی ہے۔ ایک بار وہ ہمت کر کے دبئی چلا جائے۔ پھر پیسے کی ریل پیل ہو گی۔ دبئی کی بابت باقی تمام کہانیاں جو کالا اسے سناتا تھا انکی ذرا سی بھنک بھی ابا میاں کے کان میں پڑ جاتی تو اسکے دبئی جانے کے “ناپاک” ارادے کو سن کر اپنے عصا کو ایک طرف رکھ کر خود ہی اژدھا بن کر اسے نگل لیتے۔
کالے نے وعدے کے مطابق اسے ایجنٹ سے بھی ملوا دیا۔ بھاگ دوڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی ب فارم تو کبھی ڈگریاں۔میڈیکل سے پہلے تو وہ خوب گھبرایا کہ کہیں اسے ایسی بیماری نہ نکل آئے جس سے دبئی جانا خطرے میں پڑ جائے۔ اللہ اللہ کر کے سارے کاغذات مکمل ہوئے۔ ہاتھ میں پاسپورٹ بن کر آیا تو مارے خوشی کے پاؤں زمین پر ٹکنا مشکل ہو رہے تھے۔
پاسپورٹ لے کر ابا میاں کے پاس گیا۔ پاسپورٹ پر الا و بلا سے محفوظ رہنے کا دم بھی تو کروانا تھا۔ ہاتھ میں پاسپورٹ لے کر ابا میاں چند لمحے یوں گھورتے رہے جیسے پاسپورٹ نہیں جام جمشید ہو جس سے وہیں بیٹھے بیٹھے وہ دبئی کے حالات دیکھ لیں گے۔ پھر پاسپورٹ پر پھونک مار کر بولے
” پتر تو بالاخر تم جا ہی رہے ہو”
اس نے آہستہ سے جواب دیا “جی”
“اتنا آہستہ کیوں بول رہے ہو؟ بے فکر رہو اب نہیں روکوں گا تم کو۔آؤ بیٹھو۔ “
وہ ابا میاں کے پاس بیٹھ گیا۔ ابا میاں نے لمبی سانس لی۔ جیسے مراقبہ کرنے جا رہے ہوں۔ مگر باعث ضعف انکو کھانسی آ گئی۔
“ابا میاں آپ ٹھیک تو ہیں ۔پانی لاؤں؟ “
اس نے گھبرا کر پوچھا۔
“نہیں نہیں ۔ برخوردار۔بیٹھو ۔بس عمر ہی ایسی ہو گئی ہے کہ اب سانس بھی ٹھہر ٹھہر کر لینا پڑتا ہے۔ تم سناؤ۔ دبئی میں اور کیا کیا ہوتا ہے؟”ابا میاں اس سے باتیں کر کے اسکے دل میں موجود اپنے بارے میں تمام وسوسے دور کرنا چاہتے تھے۔
“ابا وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں ۔ پتہ ہے دنیا کی سب سے بڑی عمارت ۔برج خلیفہ بھی”
“اچھا اچھا ۔ماشاللہ ماشاءاللہ ۔تم وہاں جاؤ تو میری بخشش کیلیے خاص دعا کرنا۔”
ابا میاں نے شاید آدھا نام سنا تھا۔
پھر دبئی کی وہ تمام خوبیاں جو وہ کالے سے سنتا رہا تھا،ابا میاں کے گوش گزارتا رہا۔جنہیں ابا میاں سن کر بزاخفش کی طرح سر ہلاتے رہے۔
پھر جب اٹھ کر جانے لگا تو ابا میاں نے اسے بھینچ کر گلے لگایا۔ اور بولے “پتر اپنے خاندان کی لاج رکھنا”
۔ اسکا دل بھر آیا۔اسے اداسی سی ہونے لگی۔ دل ہی دل میں ایک پل کو کالے کے دکھائے گئے سنہرے خوابوں کے کونے میں ابا کو کھڑا محسوس کیا تو اسے جھرجھری سی آ گئی۔۔اور اس نے وقتی توبہ کر لی۔ کہ وہ وہاں جا کر صرف نوٹ کمانے پر توجہ دے گا۔
بالاخر وہ دن بھی آ گیا۔ جس دن اسے دبئی جانا تھا۔ اسکی فلائیٹ لاہور سے تھی۔ ایجنٹ نے سب اچھے سے سمجھا دیا تھا۔
لاہور تک کالے نے ساتھ جانے کی حامی بھری تو اسے اپنی دوستی پر رشک سا ہوا۔ کوئی اپنا نہ ہو تو کون اتنے دور جاتا کسی پرائے کے ساتھ۔
خوب آنسوؤں میں رخصتی ہوئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا گھر سے “زندہ جنازہ” نکل رہا ہے۔ اماں بہنیں دروازے تک امڈ امڈ کر باہر آتیں اور اسکا ماتھاپورے دو منٹ تک چومتی رہتییں۔اور وہ انہیں بانہوں میں سمیٹ کر ڈربے میں مرغیوں کی طرح دروازے سے اندر چھوڑ کر آتا۔
گلی کے نکڑ پر رکشہ موجود تھا۔ چھوٹا بھائی تو کسی فلمی ہیرو کی طرح کتنی دیر تک رکشہ کے ساتھ دوڑتا رہا۔ مگر وہ رکنے کیلئے تو نہیں بیٹھا تھا۔ رکشہ کمان سے نکلے تیر کی طرح چلتا ہی گیا۔ آخر کار ریلوے اسٹشن پر پہنچ کر پارکنگ میں پہلے سے موجود رکشوں کے بیچ چھوٹی سی جگہ میں “بلز آئی” کی طرح پیوست ہو گیا۔
پھر ٹرین سے لاہور تک کا سفر کالے کی آبدیدہ نظروں، دوستی یاری کے واسطے اور دبئی جا کر بھول نہ جانے کے وعدوں پر جا کر ختم ہوا۔
لاہور پہنچ کر کالے نے بتائے ہوئے پتے پر جانے کیلئے پھر سے رکشہ روکا۔ دونوں دوست سوار ہوئے۔ اور ایرپورٹ پر پہنچ کر ہی دم لیا۔
“جب تک تیرا جہاز نہیں اڑتا۔ میں یہیں بیٹھوں گا”
کالے نے دوستی سے زیادہ فرض کو سنجیدہ لے لیا تھا۔
“ارے نہیں ۔ تم واپس جاؤ۔ میں دبئی پہنچتے ہی تمہیں فون کروں گا۔ تم گھر ہو گے تو اماں ابا کو میری خیریت کی اطلاع دو گے نا”.
“نہیں جگر۔ میں تو جیتے جی تجھے نہیں چھوڑ سکتا۔ تو ہی مجھے چھوڑ کر جائے گا تو میں یہاں سے اٹھوں گا”
کالے کو دوستی کیساتھ وفا بھی نبھانی آتی تھی۔ اسے کالے کی دوستی پر فخر سا محسوس ہوا۔
” کالے۔ میرے بھائی۔ دیکھ مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا۔ کہ تو یہیں بیٹھا رہے۔ اور میں موسمی پرندے کی طرح آسمانوں میں اڑ جاؤں۔ سارا راستہ روتے گزرے گا”
الغرض انتہائی آبدیدہ کر دینے والے جملوں کے تبادلوں کے بعد بالاخر کالا ہنسوں کے پریمی جوڑے سے بچھڑنے والے ہنس کیطرح تڑپ تڑپ کر واپس روانہ ہونے پر آمادہ ہوا۔
“اچھا سن! وہ پیاری سی لڑکی آئے گی نا۔ تجھے جہاز میں بیٹھے گا تو سلام کرنے ۔ وہ ایجنٹ نے بتایا تھا نا۔ وہ جو چائے پانی پوچھے گی۔ اسے بتانا میرا یار کالا بہت کمال کا بندہ ہے”
کالے نے جاتے جاتے کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے باوجود ہونٹوں پر مسکان آ گئی۔
کالے کو وداع کرنے کے بعد اس نے سامان اٹھایا۔ اور جہاز کی جانب چل پڑا۔ پورے پانچ بجے جہاز کا اڑنا طے تھا۔
جہاز میں بیٹھ کر وہ اس خوبصورت حسینہ کا انتظار کرنے لگا۔
پانچ پھر سات پھر رات کے نو بج گئے۔مگر نہ حسینہ آئی اور نہ جہاز اڑا۔