عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 31
الجھی زلفیں
نعیم فاطمہ علوی فیصل آباد پاکستان
فنا کے بے رحم ہاتھوں میں سرکتی زندگی اتنی طویل تو نہیں کہ اسے برف کی سل پر رکھ دیا جائے۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی الجھی زلفوں کو سنوارتے ہوئے روز ہی یہ سوچتی۔ مگر اسے کبھی اس سوال کا جواب نہ ملتا۔
کئی سال ہو گئے تھے مگر اس کے من میں لگی آگ وقت کے آلاو میں بھڑکتی ہی چلی جا رہی تھی۔ جونہی گھڑی پر دس بجتے وہ بے چینی سے اٹھتی اور بے اختیار ہو کر اپنے بیڈ روم کی کھڑکی کھول کر اس بس سٹاپ کو ضرور دیکھتی۔ جہاں سے اس کا ماں جایہ اس کا پیارا بھائی اپنی خوبصورت گاڑی میں بیٹھا بے نیازی سے گزر جاتا اور بس سٹاپ کے قریب اس گھر کی کھڑکی کو کبھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔۔۔جس میں اس کی ماں جائی اس کی پیاری بہن چہرے پر کرب دل میں درد اور ذہن میں امید کی شمع جلائے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیٹھی ہوتی۔
موسم ابر آلود ہو چھم چھم برستی بارش۔۔یا برف کی چادر اوڑھے زمین۔۔۔وہ ہر حال میں برسوں سے آس کی ریشمی ڈور میں بندھی اپنے بھائی کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لیے کھڑکی کے پٹ کھول کر ضرور بیٹھتی۔ جونہہی گاڑی گزرتی وہ فتح مندی کے احساس سے کھڑکی کے پٹ بند کر دیتی۔۔۔گویا آج کا اس کا مقصد پورا ہو گیا۔ اسے یہی محسوس ہوتا تھا کہ اس کے گھر کے سامنے والا بس سٹاپ صرف دن کے دس بجے سجتا ہے اور اس کے بعد ویران ہو جاتا ہے۔
نورالعین اپنے بھائی کی بہت لاڈلی بہن تھی۔ دو ہی تو بہن بھائی تھے۔۔دونوں میں بہت محبت تھی۔۔بھائی کی شادی ہوئی تو بھائِ کے ساتھ بھی دوستی ہو گئی۔ اس میں نہ جانے بھائی کا کمال تھا یا پھر نورا لعین کی بے لوث محبت کا۔۔بہرحال وہ تینوں دوستی کے لازوال رشتے میں بندھی زندگی سے خوب خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔
نورا لعین کے تین بچے تھے اور وہ پاکستان میں اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی تھی۔۔ویسے تو اس کے تینوں بچے قابل تھے۔ مگر بیٹی ہمیشہ کلاس میں اول آتی تھی۔ اسے قسمت کی ستم ظریفی کہیے کہ ایف ۔ایس۔ سی۔ کے امتحان میں اس کا ایک پیپر گم ہو گیا۔ لاکھ کوششوں اور سفارشوں کے باوجود پیپر نہ ملا۔ تو بچی کو بہت مایوسی ہوئی۔ بچی کے مستقبل کا سوال تھا وہ بچی جو ہمیشہ ہی کلاس میں اول آتی رہی ایف۔ ایس۔ سی میں پہنچی تو ناکردہ گناہ کی سزاوار ٹھہری۔ بورڈ نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ اسے گم شدہ پیپر میں صرف پاس ہونے کے نمبر دے دئیے جائیں۔ پورے خاندان کو بہت مایوسی ہوئی گھر والے بھی اپنی ہونہار بچی کے مستقبل سے بہت مایوس ہوئے۔ اسی دوران ان کا امریکہ کے لئے امیگریشن کا سندیسہ آ گیا۔ پورا گھر مایوسی کی کیفیت میں تھا سو انہیں فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔ اور وہ جھٹ پٹ اپنی اچھی خاصی زندگی کو خیر آباد کہ کر امریکہ چلے گے۔
امریکہ پہنچے تو بھائی نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نورا لعین کے شوہر کو بھی جلد ہی ایک اچھی نوکری مل گئی۔ اور یوں انہوں نے بھائی اور بھابھی کی محبتوں الفتوں اور رفاقتوں کا شکر یہ ادا کر کے ان سے اپنے علیحدہ گھر میں جانے کی اجازت طلب کی۔ اتفاق سے انہیں بھائی کے گھر کے قریب ہی گھر بھی مل گیا۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ سب رشتوں میں محبت ہی محبت تھی۔ پیار ہی پیار تھا۔ بھائی کے گھر چند ماہ قیام نے بچوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہنے کا موقع دیا۔ اسی موقعے میں نجانے کب نورا لعین کی بھتیجی کو نورا لعین کے خوبصورت وجیہہ بیٹے سے عشق ہو گیا۔
بیٹے نے ماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ماں نے بھی اس رشتے کو خوش بختی سمجھا۔ اور بیٹے کو سمجھایا کہ میری بھتیجی ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی لہذا کچھ دیر انتظار کرو۔ میں موقع دیکھ کر بھائی سے بات کروں گی۔
اور پھر وہ موقع آگیا۔۔ نورا لعین نے بھائی بھابھی سے اس رشتے کی بات کی۔ بھائی اور بھابھی کو بہت برا لگا۔۔انہوں نے کہا دونوں بچوں کی عمر میں بارہ سال کا فرق ہے۔ آپ لوگ کو ایسی خواہش دل میں نہیں پالنی چاہیے تھی۔
شاید بات یہیں ختم ہو جاتی اور بہن بھائی کے درمیان کچھ رنجش کے بعد دل صاف ہو جاتے۔۔
مگر ایک دن کیا ہوا۔ عمر کے اٹھا رہ سال پورے ہوتے ہی نورا لعین کی بھتیجی گھر چھوڑ کر اس کے گھر آ گئی۔ اور اس نے صاف صاف کہ دیا کہ میں گھر واپس نہیں جائوں گی اور اپنے پھوپھی زاد سے شادی کر کے یہیں رہوں گی ۔
نورا لعین نے بھائی بھابھی اور بھتیجی کو بہت سمجھایا ۔ مگر بھائی اور بھابھی نے حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی بجائے نورا لعین سے کہا۔
یہ تم ماں بیٹے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ میری معصوم بچی کو آپ سب نے مل کر ورغلایا۔
نفرت اور شک کا بیج تناور درخت بنتا چلا گیا اور دونوں بہن بھائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے دور ہو گے۔ بھتیجی جو اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آئی تھی نورا لعین کو اسے بہو بنانے کے لئے بھاری قیمت چکانا پڑی۔۔۔دونوں بہن بھائیوں کے گھر قریب ہونے کے باوجود دل کوسوں دور ہو گئے۔
کچھ رشتے ٹوٹ گے اور کچھ رشتے استوار ہو گے۔ نئے رشتوں میں جتنی چاہت محبت اور خلوص تھا۔ پرانے رشتوں میں اتنی ہی نفرت اور غم و غصہ۔۔
نورا لعین کا بیٹا اور بہو تو امریکہ کی کسی اور ریاست میں جا بسے۔۔مگر نورا لعین کی بھائی سے محبت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔ جونہی دس بجتے ہیں وہ محبت کی کسک دل میں لئے اسی شدت سے کھڑکی کے پٹ کھول کر بیٹھ جاتی جہاں سے اس کا پیارا بھائی ہمیشہ کی طرح بے رخی سے گزر جاتا
نورا لعین اپنے بھائی کی ایک جھلک دیکھ لیتی تو اس کے دل کو سکون مل جاتا ۔
نہ وقت بدلا۔۔نہ حالات۔۔نہ واقعات۔۔نہ خیالات وہ آج بھی آئینے کے سامنے کھڑی اپنی الجھیں زلفوں کو سلجھاتے ہوئیے سوچتی ہے۔ رویے اس قدر ہولناک کیسے ہو جاتے ہیں کہ پیار بھرے رشتوں میں زہر گھل جاتا ہے۔