عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 4
اقرار جرم
سارا احمد ۔ لاہور ، پاکستان
قدم جیسے ہی گھر کی چوکھٹ کے اندر ہوئے سناٹے اس کے استقبال کو دوڑے- اس نے سَر اٹھا کر اوپر کی منزل کی طرف نگاہ کی- باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی روشنی اس کی آمد کے ساتھ ہی بجھا دی گئی تھی- بریف کیس اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس نے اپنی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کی- ہر بار اسی ایک پل اسے اپنا سینہ سکڑتا اور سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی- وہ اپنے پھیپھڑوں پر زور لگا کر کھانستا اور پرانا ملازم جو اس کی عادت سے واقف تھا عین وقت پر پانی کا گلاس لیے حاضر ہوتا- اپنا بریف کیس اسے پکڑا کر وہ برآمدے میں ریکسین کے بنے صوفے پر بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ پانی اپنے حلق میں اتارتا- اب بھی وہ اپنی ٹانگیں فرش پر سیدھی کیے صوفے میں دھنسا سوچوں میں غلطاں تھا–
” کیا مجھے لاتعلقی کا یہ زہر قطرہ قطرہ اپنے دل میں اتارتے رہنا ہو گا؟” باہر کے دروازے پر بنے سیاہ نقش و نگار کے سوراخوں میں سے سڑک پر سے گزرتی ٹریفک کی روشنی چھن کر اندر آرہی تھی- اس نے ایک لمبا سانس لے کر ٹائی اپنی گردن سے نکال دی- گذری ہوئی سب باتوں کو ان کہی بنانے کے لیے اسے نسیان کے پُل صراط سے بھی گذرنا ہو گا- اٹھنے لگا تو اپنے پاؤں کے پاس رکھے گلاس کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگ گئی- جھک کر دیکھا تو گلاس خالی مگر سلامت تھا- پانی اپنے راستے بہہ کر ایک لکیر بنا رہا تھا- اس نے گلاس میں موجود پانی کے آخری ننھے سے قطرے کو بھی اس بہتے پانی پر ٹپکا دیا–
اس کی والدہ بلقیس احتشام ماہر نفسیات تھیں انہیں کو دیکھ کر اور انہیں کی شخصیت سے متاثر ہو کر وہ بھی اس پیشے میں آ گیا- نفسیات اور فلسفہ نوجوانی سے ہی اس کے پسندیدہ مضامین رہے تھے- وہ راہداری میں سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عائزہ سے آج کی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگا- بے دھیانی میں اس نے پہلے ریلنگ پر اپنا ہاتھ رکھا پھر ہٹا لیا- مون سون کی بارشوں نے شہر بھر کو یوں بنا دیا تھا کہ جیسے کسی چیز کو چھوتے ہی وہ رِسنے لگے گی- سیلن زدہ ماحول میں جذبوں پر بھی کائی سی جمنے لگی تھی– عائزہ اس کی بیوی تھی اور کبھی دونوں ایک ساتھ رہتے تھے مگر اب کچھ عرصہ سے ان کے درمیان ایک بے نام خلیج حائل تھی-اس کا باپ ایک ریٹائرڈ فوجی تھا جس کے ساتھ وہ یہاں رہائش پذیر تھی- برسوں پہلے بھی ان باپ بیٹی کا ایک دوسرے کے سوا کوئی نہیں تھا اور آج بھی- وہ جسمانی طور پر الگ مگر روحانی طور آج بھی کسی قیدی پرندے کی طرح اس کی روح کی دیواروں پر منڈلا رہا تھا–
عائزہ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا- وہ باہر کھڑا چند ثانیے اپنے سوالات کی ترتیب الٹ پلٹ کر کچھ سوچتا رہا پھر گلا کھنکھارتے ہوئے اندر داخل ہوا– اندھیرے کے سوا کمرے میں اور اس کی زندگی میں کیا تھا- دیوار کے سوئچ کو نیچے کرتے ہی کمرہ روشنی سے بھر گیا اور عائزہ کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل بجھ گیا- ہر قدم پر دن اور رات اتنے ہی فاصلے پر کھڑے رہتے جتنے وہ اس کی طرف بڑھتے–
پانچ سال پہلے کی ایک شام اتنی حسین تھی کہ اسے لگا اس کے اردگرد کی ساری بدصورتیاں زمین سے اٹھا لی گئیں ہیں- شائد زندگی میں جب زندگی گُھل جائے تو فنا ہونے کو صرف موت رہ جاتی ہے–
” عائزہ مجھے امید ہے ہم محبت کو ایک نیا عُنوان دیں گے-” اس نے اقرارِ محبت میں پہل کی تھی– عائزہ کی آنکھوں میں اس کے لیے اعتماد بھی تھا اور ہلکی سی نمی بھی موجود تھی–
” میں ماں کے بغیر جی کر مضبوط تو ہو گئی ہوں مگر بہت تنہا ہوں-”
عائزہ نے یہ کہتے ہوئے اس کے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا–
اور اب محبت ان کے درمیان سے یوں نکل گئی تھی جیسے جسم سے روح- ایک گھروندہ جو دونوں نے بنانے کی کوشش کی تھی اسے ایک سانحے نے روند ڈالا تھا– وہ عائزہ کو اس لمحے کی اذیت سے نکال کر حقیقت سے روشناس کروانا چاہتا تھا- وہ ہر ہفتے کی شام اپنے کلینک کے سارے امور نمٹا کر یہاں آتا- عائزہ سے سوال و جواب کرتا اور اس کے چہرے پر اپنے لیے اجنبیت دیکھ کر مایوس لوٹ جاتا- اتنے عرصہ سے ایک ہی طرح کی مشق سے وہ تھکنے لگا تھا- حالانکہ کلینک پر اس کے بعض مریض مستقل آرہے تھے- ان سے وہ کبھی اکتایا تھا اور نہ تھکا تھا–
عائزہ گھنٹوں کھڑکی میں کھڑی نہ جانے کس کی راہ تکتی تھی–
” ادھر میرے سامنے کرسی پر آ کر بیٹھو عائزہ-”
اس کے لیے وہ روبوٹ تھی- سپاٹ چہرہ، میکانکی حرکات و سکنات، گردن سامنے ایک ہی سمت میں دیکھتے ہوئے اوپر کو اٹھی ہوئی اور حیرت سے کھلی آنکھیں یوں جھپکتی تھی جیسے کوئی تازہ سانحہ ابھی سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا ہے–
“میرے ساتھ کل گھومنے چلو گی؟”
“نہیں، پولیس اسٹیشن جاؤں گی-”
کیوں۔۔۔کیوں جانا ہے پولیس اسٹیشن؟ ”
وہ تیز تیز سانس لے رہی تھی–
” میرے شوہر نے میرا بچے کو مار دیا-”
“کیسے۔۔۔۔۔؟”
” اس دن، جب آندھی کے بعد بارش ہوئی تھی-”
” کیا ہوا تھا اس دن، پوری بات بتاؤ-”
” وہ۔۔۔۔وہ کمرے میں آیا اور میرے بچے کو اٹھا کر بالکنی سے نیچے خالی پلاٹ میں پھینک دیا، وہاں ایک ریت کا پہاڑ تھا جو میرے بچے کی قبر بن گیا-”
” تمہیں رونا ہے تو رو لو، پہلے ہم بچے کی قبر پر جائیں گے اور پھر پولیس اسٹیشن-”
” نہیں مجھے رونا نہیں آتا، میرا بچہ بھی نہیں رویا تھا بس مر گیا تھا-”
وہ اسے خالی نظروں سے دیکھتی واپس کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی اور وہ وہیں اس کے سامنے والی کرسی پر کچھ دیر بیٹھا اس کی خالی کرسی کو دیکھتا رہا–
اسے یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں چلا جاؤں یا رک جاؤں؟ وہ آتا بھی کس کے لیے تھا جو اسے پہچانتی نہیں تھی اور رکنا اس لیے نہیں چاہتا تھا کہ حقیقت سے شائد اسے بھی فرار چاہیے تھا–
واپسی پر سارے راستے اس کی یادداشت پر ایک ہی آواز ہتھوڑے کی طرح بجتی رہی، ” بابا۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔۔میرے پیارے بابا-”
“دور ہو جاؤ میری نظروں سے۔۔۔۔-”
اچانک گاڑی کے ٹائر زور سے چرچرائے اور بے قابو ہونے سے پہلے اس نے بریک پر اپنے پاؤں رکھ دیئے- رات کی سیاہی میں آوازوں کے ہیولے اس کی ونڈ اسکرین کو دھندلانے لگے تھے- ماں کو اپنے بچپن میں اس نے چھٹی والے دن اکثر گھر سے غائب دیکھا- واپسی پر گھر میں خوب ہنگامہ ہوتا- اس کا جج باپ ایسے جملے بولتا جو اس کی ناسمجھی کی عمر سے بالا ہوتے- ماں پھر بابا کو منا لیتی اور وہ اس دن کے اپنے ٹھکرائے جانے کے درد کو بظاہر بھلا کر معمول کی زندگی جینے لگتا- آہستہ آہستہ وہ بابا سے دور ہوتا گیا اور ماں سے روٹھنے لگا– ماں کو منانا آتا تھا وہ ہر کسی کو بڑے آرام سے قائل کر لیتی تھی- وہ جب محبت اور نفرت کے پیمانے میں اپنے جذبات پرکھنے کی عمر میں قد سے اونچا ہوا تو ماں وضاحتیں دئیے بنا ہی اسے منا لیتی- دنیا میں ماں کے سوا اسے کوئی بھی اپنے قریب محسوس نہ ہوا- بابا جب اس دنیا سے گئے تب بھی اس سے ناراض ہی تھے- اسے نہ جانے کیوں بچپن سے اب تک یہی لگا جیسے اس کا خدا ہمیشہ اس سے ناراض رہا ہے- بابا کے عہدے اور شخصیت کا رعب اتنا تھا کہ ان کی طرف سے کھینچی گئی لکیر وہ چاہتے ہوئے بھی کبھی پار نہ کر سکا- صرف اس کے اندر ایک ہی آواز گونجتی تھی، “بابا۔۔۔۔میرے پیارے بابا-”
اس کا جی یہی تھا رات سڑک کے کنارے گزار دی جائے اور جب صبح ہو زندگی پچھلا سبق بھول کر نیا سبق یاد کرے- اسے اپنے بچپن کا وہ قاعدہ ڈھونڈنا تھا جس میں شائد اسے وہ عبارت مل جائے جس میں بابا کی اس سے روا رکھی گئی نفرت کا جواز ہو– “بچپن..۔۔…”، اس نے اسٹیرنگ سے اپنا سر اٹھایا اور گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر پہنچنے تک یہ لفظ بارہا دہرایا–
اس کو بچپن سے اپنی دعاؤں میں سنبھال کر رکھنے والی ہستی ابھی تک اس کے لیے منتظر تھی–
“ماں آپ سوئی کیوں نہیں؟”
اس نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ کر تشویش سے پوچھا–
ڈھلتی عمر کے چہرے کی جھریوں میں وقت کے گزرنے کا اگر ملال تھا تو صرف اتنا کہ اس نے یہ وقت اپنے بچے کی فکر میں کاٹا تھا- وہ ماں سے ابھی کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا- اس نے ماں کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اپنے کمرے میں آ گیا–
” مجھے معلوم ہے تمہیں آج نیند نہیں آئے گی-”
“ماں آج اسے اکیلا نہیں چھوڑے گی-“اس نے ماں کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر سوچا-اس کا فلسفہ اور نفسیات ماں کے سامنے ایک معصوم بچہ تھے- ماں کی انگلیاں اس کے بالوں کو سہلانے لگیں اور وہ یہ سوچتے ہوئے نیم غنودگی میں چلا گیا کہ اگر دنیا میں سب دوسروں کے حصے کی محبت ماں کی طرح نثار کر دیں تو کہیں کوئی دماغی مرض نہ پنپ سکے–
“مگر ماں اگر محبت مل بھی جائے تو اچانک ہونے والے سانحے کیوں ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں؟”
” وہ اس لیے کہ ہم کبھی اقرارِ جرم نہیں کرتے- ہمیں اپنی غلطیاں دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جانے کی عادت ہے-”
ماں اس کے اگلے سوال کی منتظر رہی مگر وہ شائد سو چکا تھا- ماں اب پیار سے اس کی کمر سہلانے لگی- “تم اس وقت ڈھائی سال کے تھے جب اچانک کھیلتے ہوئے تم نے اپنے چھوٹے بھائی کو سوئمنگ پول میں دھکا دے دیا تھا- تمہارے بابا اس وقت تم دونوں کے پاس تھے- میں ان کے لیے کافی بنانے کچن میں چلی آئی تھی– تمہاری ناسمجھی کی عمر کی یہ شرارت ہمارے لیے سانحہ تھی- تمہارے بابا ساری عمر تمہیں موردِ الزام ٹھہراتے رہے حالانکہ اس واقعے کا کوئی نقش تمہارے ذہن پر ثبت نہیں- مجھے لگتا ہے جیسے وہ ضرور کسی کام سے اپنے کمرے میں گئے ہوں گے یا اخبار کی کسی سُرخی کا باقی صفحہ اور کالم نمبر ڈھونڈ رہے ہوں گے- جب ایسے حادثے ہو کر رہنے ہوں تب تدبیر اور تقدیر دونوں محض تماشائی ہوتی ہیں- ملازم بھی کوئی پاس نہیں تھا- میں نے اس گھر سے تمہارے بھائی کی ہر نشانی مٹا دی- تمہاری وجہ سے اس کی قبر پر جانا اور ذکر تک کرنا چھوڑ دیا اور پھر ماں بننے کی خواہش بھی ترک کر دی“-
ماں رات کے آخری پہر تک باتیں کرتی رہی- وہ جانتی تھی جیسے ہی وہ چُپ ہو گی وہ جاگ جائے گا اور وہ اسے کچی نیند سے اٹھانا نہیں چاہتی تھی–
اگلی صبح نئی تھی- وہ ہر اتوار اپنے والد کی قبر پر جاتا اور فاتحہ پڑھنے کے بعد جب باہر سڑک پر نکلتا تو قبرستان کے آخری کنارے پر جنگلے کے اندر سرسری اس کی نگاہ پڑتی– گود جتنی چھوٹی سی قبر اس کے بچے کی تھی- وہ وہاں رکے بغیر فقط اسے ایک نظر بھر پیار دے کر لوٹ آتا- کتنا الوہی احساس تھا جب وہ ان کی زندگی میں آیا تھا- سبھی نے کہا اپنے باپ پر گیا تب ایک خوشی کا ہالہ اس کے وجود کو گھیرے رکھتا- بابا نے اسے گلے لگا کر مبارکباد تو نہیں دی مگر اپنے پوتے کو سینے سے لگا کر ایک خوش کن قہقہہ لگایا تھا- ماں نے اپنی باہر کی ساری مصروفیات بھلا دی تھیں- اسے خود نہلاتیں اور جھولے میں اسے سلاتے ہوئے اس سے دنیا جہان کی باتیں کرتیں- عائزہ اور وہ محبت کے اس آسمان پر جینے لگے جہاں کہکشائیں قربتوں سے روشن تر ہوتی گئیں- خوشی کی عمر ایک لمحہ ہے، ایک صدی یا پھر ایک سال، اس علم کو کوئی نہ پا سکا- انہوں نے ایک سال کی موم بتی کو کیک پر جلایا اور جب بجھایا تو نہیں معلوم تھا زندگی اور خوشی دونوں بجھ گئیں- اس دن ان سب نے ایک شادی کی تقریب میں جانا تھا- وہ اسے بہلا رہا تھا- کبھی اس کے لیے منہ سے بلی ، شیر اور چڑیا کی آوازیں نکالتا اور کبھی شکل بگاڑ کر اسے ہنساتا- جب خود تیار ہونے لگا تو عائزہ کے قریب اسے سنگھار میز کے ایک کونے میں بٹھا دیا–
” لو بھئی بےبے بیوٹیشن بھی ممی کو ٹپس دے گا-”
عائزہ نے ہنستے ہوئے برش دراز میں رکھا اور اپنی آنکھوں پر مسکارا لگانے لگی- بس وہی لمحہ تھا جب ان کا بچہ ایک دم نیچے گرا اور اس نے ایک آواز نہیں نکالی- بن کھلے مرجھا جانے کا احتجاج اور نہ درد کی کوئی چیخ- اس کے سر پر اندرونی چوٹ اس طرح آئی کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے- عائزہ کو چپ لگ گئی اور بابا اس کا گریبان پکڑ کر بہت روئے- ماں کی آنکھیں خشک تھیں اور لرزتے ہونٹ ادھوری باتیں کہتے تھے اور وہ اس نقصان کا ذمہ دار عائزہ کو ٹھہرانے لگا–
عائزہ نے اس دن اسے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا جب ان دونوں میں خوب تکرار ہوئی اور بچے کی موت کا الزام ایک دوسرے کے سر رکھا- عائزہ نے اپنے بچے کی ایک ایک چیز سمیٹ کر اپنے ساتھ رکھ لی- اس گھر میں اور اس کمرے میں کوئی نشانی اس کی نہیں چھوڑی- ایک کھلونا بھالو چھوٹ گیا تھا جسے ڈھونڈنے وہ واپس آئی تو اسے بالکنی سے نیچے خالی پلاٹ میں ریت کے ڈھیر پر پڑا دیکھا اس دن کے بعد اس کی ذہنی حالت مزید بگڑ گئی اور سوائے ایک رشتے کے وہ ہر پہچان بھول گئی–
کہیں سائے روشنیوں سے لپٹتے ہیں اور کہیں تاریکیوں میں خواب اپنی تعبیریں ڈھونڈتے ہیں- موت اس کائنات تک مقید ہے اور زندگی اس سرحد کے بعد آزاد ہے- آج اس کا سفر ماضی نہیں مستقبل کی طرف تھا– اس نے اپنی منزل پر پہنچ کر گاڑی روک دی- اسے عائزہ کے سامنے یہ اقرارِ جرم کرنا تھا کہ اس کے گھر سے چلے جانے کے بعد اسی نے غصے سے بالکنی سے نیچے وہ کھلونا بھالو پھینکا تھا–
Urdu short stories and writers
Be First to Comment