عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 50
اُفتادہ اراضی
ڈاکٹر افشاں ملک، علی گڑھ، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفیسہ بی نے اپنے وسیع و عریض لیکن کھنڈر ہوتے جا رہے مکان کی چھت سے مجھے افتادہ آراضی کا وہ قطعہ دکھایا جو اس کے مرحوم والد نے نفیسہ بی کے نام لکھ دیا تھا اور کچھ عر صہ بعد وہ دنیا سے سدھار گئے تھے۔ میں نے نفسیہ بی کی طرف دیکھا اور پھر افتادہ آراضی کی طرف۔ دونوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ ایک لمحہ تو ایسا آیا جب میں نے محسوس کیا کہ نفیسہ بی خود ہھی ایک ایسی افتادہ آراضی کا قطعہ ہے جو کبھی مزروعہ نہیں ہوئی اور آئندہ اس کے مزروعہ ہونے کے امکانات بھی نہیں تھے۔
میں اس وسیع و عریض حویلی میں تقریباََ تیس برس کے لمبے وقفے کے بعد آیا تھا۔ محل نما حویلی کے اونچے صدر دروازے سے گزر کر جب میں اندر پہنچا تو ویرانی کے عجیب سے احساس نے مجھے گھیر لیا۔ یہ لمحہ وہ تھا جب پرانے وقتوں کی سچائیاں کھنڈر ہو کر ماضی کے نہاں خانوں میں غائب ہوتی جا رہی تھیں اور باقی رہ گئے تھے وہ آثار جو یہ بتانے کے لیے تھے کہ یہاں اس صدر دروازے کے باہر کبھی ہاتھی جھومتے ہوں گے، نوبت بجتی ہو گی، نقارے کی آواز پر پوری بستی متنبہ ہو جاتی ہو گی۔ پہلی بار جب میں یہاں آیا تھا تو یہ عمارت اتنی خستہ نہیں تھی اب دھیرے دھیرے گیرو اور چونے کی آمیزش سے بنایا گیا پلستر اکھڑنے لگا تھا۔ لکھوری اینٹیں بدنما دانتوں کی طرح باہر جھانکنے لگی تھیں، چھتیں نیچے جھک آئی تھیں اور وہ قیمتی جھاڑ فانوس جو اس حویلی کی چھتوں سے لٹکے رہتے تھے، ضروریات زندگی کی تکمیل میں شاید کہیں بک بکا گئے تھے۔ لمبی غلام گردشوں سے ہوتے ہوئے جب میں اندر محل سرا میں پہنچا تو قبرستان جیسا سناٹا دیکھ کر لرز گیا۔ نفیسہ بی میری پذیرائی کے لیے آگے آئیں۔ ان کی بوڑھی والدہ روشن جہاں پرانے انداز کے آبنوسی چھپر کھٹ پر بیٹھی بنا چھالیہ کی گلوری دونوں ہتھیلیوں کے درمیان مسلنے میں مصروف تھیں۔ پانوں کی پٹاری سامنے رکھی تھی جو اپنے پرانے پنٍٍ اور ازکارِ رفتہ ہو جانے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ شام کا سورج مغرب کی طرف جھکتا جا رہا تھا۔ اکتوبر کی نیم گرم دھوپ زمین سے وداعی لے رہی تھی میں نفسیہ بی کے ساتھ محل سرا کی غلام گردشوں سے گزرتا ہوا مغربی جانب کے زینے تک پہنچا اور اوپر چھت کی بارانی کے قریب اس جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے نفسیہ بی کی افتادہ آراضی کا منظر صاف صاف دکھائی دیتا تھا۔ نفیسہ بی بی کی والدہ روشن جہاں میری کسی رشتے سے خالہ ہوتی تھیں۔ انہیں کے توسط سے مجھے اپنے لڑکپن اور جوانی کا کچھ حصہ یہاں گزارنے کا موقع ملا تھا۔ بعد میں میں تعلیمی مصروفیات کی وجہ سےادھر نہ آ سکا۔ پھر ہندوستان سے باہر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو مجھے روشن جہاں اور نفسیہ بی اور ان کی اس وسیع و عریض حویلی کی بھی یاد آئی جس میں کبھی خان بہادر احمد علی صاحب کی طوطی بولتی تھی۔ میں نے چھت پر اپنے قریب کھڑی ہوئی نفیسہ بی کی طرف دیکھا اور پھر مغرب میں غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف۔ دونوں طرف غروب کا ایک ہی منظر تھا۔ تاّسف بھرے لہجے میں میں نے نفیسہ بی کو مخاطب کیا۔
’’کون جانتا تھا کہ اتنی جلدی اس بھری پُری حویلی کی یہ حالت ہوجائے گی؟” اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا، نفیسہ بی نے ایک حدیث کا نصف حصّہ مجھے سنایا، جس کا مطلب تھا، کہ؛
’’یہ بشارت تو بہت پہلے ہی دے دی گئی ہے کہ جو ادبار اگلی امتوں پر آئے ہیں وہ ذرا ذرا اور جزواََ جزواََ ہم پر بھی آئیں گے۔‘‘
میں نے حسرت ناک نظروں سے نفسیہ بی کی طرف دیکھا۔ ذہن اس اذیت سے بھر گیا کہ نفیسہ بی ایک ایسے پر قناعت صبر کی حالت سے گزر رہی تھی کہ جس میں ادبار سے باہر نکلنے کی معمولی سی امنگ بھی نہیں ہوتی۔ یہ اشرافیہ طبقے کا ذہنی زوال تھا جو اپنی فلاکت کو ایک حدیث کا حوالہ دے کر جواز تلاش رہا تھا۔ میں نے نہیں چاہا کہ اس سلسلے کو آگے بڑھنے دوں کیوں کہ پسپا ہو جانے والے یا پسپائی کو قبول کرلینے والے کردار اپنی تشفّی کے لیے جو حیلے تلاش کر تے ہیں وہی اس وقت نفیسہ بی بھی کر رہی تھی۔ پھر بھی میں نے اسے یاد دلایا کہ جب میں یہاں تھا اور یہ حویلی رونقوں سے بھری ہوا کرتی تھی تب تم اس محل سرا کے آنگن میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھلکھلاتی پھرتی تھیں، حویلی خادموں اور خادماؤں سے بھری ہوتی تھی اور پکوانوں سے اٹھنے والی خوشبوئیں اشتہا انگیز کر دیتی تھیں۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ تب کتنی ہی بار کئی خاندان اپنے بیٹوں کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے آیا کرتے تھے۔ ان کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بنتے، بات چیت ہوتی اور خان بہادر احمد علی انھیں سوچ سمجھ کر جواب دینے کا وعدہ کرکے عزت و احترام سے رخصت کر دیا کرتے تھے لیکن اس کے برعکس جب وہ زنان خانے میں آتے تو روشن جہاں سے فرماتے۔
’’ارے بیگم یہ ہماری سطح کے لوگ نہیں ہیں۔ نئے دو لتیے ہیں، تھوڑا پیسہ آ گیا ہے تو چلے آتے ہیں عزت دار گھرانوں سے ٹکر لینے۔‘‘ بات تلخ ہو جاتی اور تمہیں احساس تک نہ ہوتا کہ یہ خاندانی عزت اور وقار تمھیں افتادہ آراضی میں بدل دینے والا ہے۔ نفیسہ بی خاموشی سے میری بات سنتی رہی۔ اس نے بالائی منزل کی چہار دیواری سے نیچے پھیلی ہوئی اس افتادہ آراضی کی طرف دیکھا جو اس کے والد اس کے نام لکھ کر چھوڑ گئے تھے۔ میں نے پوچھا۔
’’ بھائی اکرام اﷲ خاں اور سعد اﷲ خاں کہاں ہیں؟‘‘ نفیسہ بی نے بالائی حصے پر پڑی ایک بینچ پر بیٹھ کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’دونوں شہر جا کر بس گئے ہیں سعد اﷲ خاں نے ایک عیسائی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اس نے اپنے حصے کی جائیداد بیچ کر شہر میں دو مکان خرید لئے ہیں ایک میں وہ خود رہتا ہے دوسرا کرائے پر دے دیا ہے، اس کی آمدنی کا بظاہر یہی ایک ذریعہ ہے۔ اکرام نے بھی شاید کسی غیر مذہب کی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اس نے بھی اپنا حصّہ کوڑیوں کے مول بیچ دیا۔ سنا ہے اس کی بیوی کسی اسکول میں استانی ہے۔ دونوں کا تعلق اب اس حویلی سے نہیں ہے۔ اب یہاں کوئی نہیں آتا۔‘‘
میں نے نفیسہ بی سے کچھ نہیں کہا بلکہ خود کلامی کے انداز میں بولا۔ ’’خاں بہادر علی احمد صاحب نے اپنی نسلی شرافت اور خاندانی شجر ے کی نجابت کو برقرار رکھنے کے لیے نفیسہ بی کا کوئی ایسا رشتہ قبول نہیں کیا جس سے ان کے خاندان پر دھبّہ لگ سکتا تھا لیکن کیسی عبرت کا مقام ہے کہ بیٹے…..!!!” نفیسہ بی نے ہاتھ کا اشارہ کرکے مجھے کچھ کہنے سے روک دیا۔ میں نے خالی نظروں سے خلا میں جھانکا۔ شام کی قرمزی شفق آسمان کے مغربی گوشے میں اپنے پنکھ پھیلائے ڈوبتے ہوئے سورج کو وداعی دے رہی تھی۔ تبھی کہیں دور سے اڑتا ہوا فاختاؤ ں کا ایک جوڑا افتادہ آراضی کے ایک کونے میں ایستادہ شہتوت کے درخت کی ایک شاخ پر آبیٹھا۔ فاختاؤں کے جوڑے نے اپنے چھوٹے چھوٹے سر گھما کر چاروں طرف دیکھا گویا آس پاس ماحول کا جائزہ لے رہے ہوں اور یہ جاننے کی کوشش میں ہوں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے یا نہیں۔ فاختائیں مطمئن ہو گئیں تو ان میں سے ایک جو دیکھنے میں مادہ نظر آتی تھی اپنی بھاری اور سنجیدہ آواز میں وہی وظیفہ دہرانے لگی جو فاختائیں ازل سے دہراتی آرہی ہیں۔ میں نے نفیسہ بی سے پوچھا؛
’’نفیسہ تم بتا سکتی ہو کہ شہتوت کی ڈالی پر بیٹھی یہ فاختائیں کیا کہہ رہی ہیں؟“
نفیسہ بی نے سنجیدہ نظروں سے شہتوت کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’ساجد تمہیں یاد ہوگا دادی کہا کرتی تھیں کہ فاختائیں صبح منہ اندھیر ے اور سورج غروب ہوتے وقت اﷲ کی یاد میں وظیفہ پڑھتی ہیں۔ یہ کہتی ہیں۔
’’یا پاک تو! ‘‘ ،’’یا پاک تو! ‘‘
میں نے دھیان دیا تو سچ مچ فاختاؤں کی آواز سے ایسا ہی اشتباہ ہوتا تھا جیسے وہ استغراق کے عالم میں’’یا پاک تو! ‘‘ کا وظیفہ پڑھ رہی ہیں۔ میں نے نفیسہ بی کی طرف دیکھا اور حسرت آمیز لہجہ میں کہا۔ ۔
’’نفیسہ معصوم پرندوں کے یہ تخاطب کہیں تمہارے لیے تو نہیں ہیں۔‘‘ اور پھر میں نے یا پاک تو کہہ کر نفیسہ بی کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔ نفسیہ بی کے چہرے پر افسردگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ میں نے دیکھا اس کی پیشانی پر بالوں کی جولٹ جھول کر چہرے کو چھو رہی تھی اس میں آدھے سے زیادہ بال سفید تھے۔ چہرے پر جھرّیاں نمودار ہونے لگی تھیں اور جسم کی جلد اپنی شادابی کم کرتی جا رہی تھی۔ میں پھر اس افتادہ آراضی کی طرف دیکھنے لگا جو دور تک زمین کے ایک ویران ٹکڑے کی شکل میں پھیلی ہوئی تھی۔ اسے مزروعہ بنانے کے لیے کوئی مزارع اب تک نہیں آیا تھا۔ اسی احساس کے ساتھ ہی پھر میں نے نفسیہ بی کی طرف دیکھا۔ اُدھر بھی غیر مزروعہ ، اِدھر بھی غیر مزروعہ ۔ ۔۔۔۔!!! آراضی پر کچھ جنگلی پودے ، کھر پتوار اور جھر بیریوں کے پیڑ اور بیچوں بیچ سپستاں کا ایک درخت کھڑا تھا۔ مجھے لگا کہ نفیسہ بی کے باطن میں بھی ایسے ہی کھر پتوار جم چکے ہوں گے۔ میں نے پوچھا۔
’’نفیسہ بی تم نے اپنے والد کی دی ہوئی اس آراضی کو جوتنے کے لیے کسی مزارع کو کیوں نہیں دے دیا اس سے اچھی فصل مل سکتی تھی۔‘‘
نفیسہ بی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ساجد میں نے بھی ابا حضور کی اسی سنت پر عمل کیا جس پر عمل کرتے ہوئے میں نے انہیں دیکھا تھا۔ کوئی ایسا موزوں مزارع نہیں تھا جسے میں اس افتادہ آراضی کو جوتنے کے لیے دے سکتی۔‘‘
میں نے نفیسہ کو یاد دلایا کہ؛ ’’قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں ان کی حفاظت کرو۔‘‘
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا وہ متاسفانہ لہجے میں گویا ہوئی؛ ’’حفاظت کرنے والا مزارع نہیں تھا یہاں۔‘‘
میں کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔ ’’المیہ مزارعوں کے معدوم ہو جانے کا نہیں ہے آراضی کو افضل اور غیر افضل کے خانوں میں بانٹ دینے کا ہے۔‘‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں نفسیہ بی اسے بخوبی سمجھ رہی ہیں۔ میں نے بات آگے بڑھائی اور اس کا مرجھایا ہوا سرد ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔
’’نفسیہ تمھیں یاد ہو گا بچپن میں ہم دونوں نے کتنی بار کھیل کھیل میں ایک دوسرے سے بیاہ رچا یاتھا اور جوانی کے دنوں میں ، میں نے کتنی بار تمھیں اپنانے کے خواب دیکھے تھے۔‘‘ میں نے دیکھا نفیسہ اور زیادہ اداس ہو گئی ہے ۔ وہ دھیمے لہجہ میں کہہ رہی تھی۔
’’خواب میں نے بھی دیکھے تھےساجد لیکن خاندان، ابا حضور کا معیار زندگی، مرتبہ، اشرافیہ گھرانوں کی قدریں، یہ سب اہمیت کی حامل تھیں ۔ میں یا تم نہیں۔‘‘
آج جب میں عمر کی پانچویں دہائی پوری کرنے جا رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ دن کتنی تیزی سے دبے پاؤں گزر جاتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ یاد آیا کہ میرا گھرانہ بھی خان بہادر علی احمد کے گھرانے سے نسلی اور نسبی طور پر کمتر نہیں تھا ہاں دولت و ثروت میں بیشک نابرابری تھی۔۔۔آگے میں کچھ نہیں سوچ سکا کیوںکہ نفیسہ بی نے اپنی بات شروع کردی تھی۔
’’برسوں تک میں تمہارا بے سود انتظار کرتی رہی۔ جانتی تھی کہ اس انتظار کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
میں نے کہا؛ ’’ٹھیک اسی طرح جیسے یہ نیچے کی افتادہ آراضی جو سالہا سال تک کسی مزارع کا انتظار کرتی رہی ہو گی اور تب مایوس ہو گئی جب اس پر جھر بیریاں اور فالتو کا کھر پتوار اُگ آیا ہوگا۔‘‘
میں نے یہ جملہ ادا کرتے ہوئے افتادہ آراضی کی طرف ایک بار پھر دیکھا۔ شہتوت کے درخت پر فاختاؤں کا جوڑا اب بھی ‘یا پاک تو!’ کا وظیفہ پڑھنے میں منہمک تھا۔ سورج مغرب کی گھاٹیوں میں اور نیچے اتر آیا تھا ہلکی پڑ گئی گلابی دھوپ دیواروں اور درختوں سے وداعی لے رہی تھی۔ میں نے نفیسہ سے پوچھا۔
’’اتنی بڑی حویلی میں تم اور خالہ کس طرح رہ پاتی ہو، کیا تنہائی سے اکتا نہیں جاتیں؟‘‘
نفیسہ نے ایک ٹھنڈی لمبی سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہم دو نہیں ،تین ہیں ساجد ۔۔۔ ایک ابا حضور کا پرانا ملازم خدا بخش ہے جو باہر ڈیوڑھی سے ملحق کوٹھری میں رہ رہا ہے۔ جب سارے خادم اور خادمائیں ایک ایک کرکے چلے گئے تو یہی ایک شخص تھا جو ہمارے ساتھ رہا اور اسی طرح خدمت کرتا رہا جیسے ابّا حضور کے سامنے کیا کرتا تھا۔ اب وہ قصبہ میں لگنے والی ہفتہ وار ہاٹ کا محصول لے آتا ہے جس سے ہم لوگوں کی گزر ہو جاتی ہے۔ تمہیں تو معلوم ہوگا کہ قصبے کا وہ علاقہ جہاں ہاٹ لگتی ہے ابا حضور کی ملکیت میں تھا۔ اب ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ یہی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔۔’’ خدا بخش تو اب بہت بوڑھا ہوگیا ہوگا؟ ‘
نفیسہ بی نے جواب دیا۔۔’’ہاں ۔ شاید خادموں کی صف کا وہ آخری آدمی ہے۔ تم جانتے ہو ساجد کہ تہذیبوں کا سورج ایک کنارے سے اُگتا ہے اور دوسرے کنارے پر ڈوب جاتا ہے۔‘‘
’’ نفیسہ سورج کو ڈبونے والے محرکات بھی ہوتے ہیں۔ ڈوب چکے سورج سے پہلے اندھیری رات آنے کا اندیشہ جنہیں ہوتا ہے وہ روشنی کا بندوبست پہلے سے کر لیتے ہیں لیکن یہاں جو تاریکی ہے وہ۔۔۔۔۔‘‘
نفسیہ نے مجھے آگے کہنے سے روک دیا اور بولی۔ ’’بستیاں جب اجڑتی ہیں تو ان کا کوئی اور چھور نہیں رہتا۔ ایک موسم دوسرے موسم کو مسما رکرتا ہوا چلا جاتا ہے، جو اگلی اُمتوں پر گزرا تھا وہ بعد میں آنے والی اُمتوں پر بھی گذرتا ہے۔‘‘
’’ لیکن کیا یہ خدا کا قانون ہے؟ مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔ سوچتا ہوں ہر تہذیب اپنے لازوال ہونے کے مغالطے میں خود اپنا تحفظ کرنے کی فکر سے محروم ہو جاتی ہے اور نتیجہ اس آراضی کی شکل میں سامنے آتا ہے جو برسوں سے افتادہ پڑی ہے۔‘‘ مجھے محسوس ہوا کہ ہم دونوں اپنی اپنی باتیں تمثیلی انداز میں اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ ہم میں سچائیوں کو براہِ راست واضح کرنے کی جسارت نہیں ہے۔ خاموشی کے کچھ لمحے ہم دونوں کے درمیان سے چپ چاپ گزر گئے میں نے دوبارہ نفسیہ کو متوجہ کیا۔
’’جب میں یہاں تھا تو سوچتا تھا کہ کم سے کم ایک مزارع بن کر ہی کبھی میں یہاں آؤں گا اور تمھاری آراضی کو افتادہ نہیں رہنے دوں گا لیکن افسوس وہ وقت نہیں آیا۔‘‘ نفیسہ نے دھیان سے میری بات سنی اور بولی۔
’’ وہ وقت نہیں آ سکتا تھا کیوںکہ وقت کے بہاؤ کے سامنے تب تک وہ چٹان مضبوطی سے سینہ تانے کھڑی تھی جسے بعد میں آئے زلزلوں نے تہس نہس کر دیا اور پھر اتنی دیر ہوچکی تھی کہ اس آراضی پر کھر پتوار اور جھر بیریوں کے جھنڈ اگ آئے تھے اور ایسی حالت میں اس آراضی کو مزروعہ بنانے کی ہمت کسی میں نہیں رہ گئی تھی۔‘‘
خفیف سی ہنسی کے دوران میں نے نفیسہ سے پوچھا۔ ’’کیا ہم یہ گفتگو واقعی سامنے کی افتادہ زمین کے بارے میں کر رہے ہیں نفیسہ یا تمھارے اور اپنے بارے میں؟‘‘ میں نے دیکھا تاسف اور بے چارگی کے عالم میں وہ میری طرف دیکھ رہی تھی اور پسینے کی دو موٹی بوندیں اس کے رخساروں پر ڈھلک آئی تھیں۔ شام کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ فاختاؤں کا جوڑا ٹھہر ٹھہر کر وظیفہ خوانی کرتا ہوا کہیں اور اڑ کر جا چکا تھا۔ افتادہ آراضی کی جھاڑیاں، سپستاں اور شہتوت کے درخت پر چھائیوں کی طرح ڈراؤنے اور بدنما دکھائی دے رہے تھے۔ ہم دونوں بالا خانے سے اتر کر نیچے آ گئے۔ روشن جہاں اپنے چھپر کھٹ پر اسی طرح بیٹھی تھیں، جیسا ہم انھیں چھوڑ گئے تھے۔ میں نے چشمے کے اندر سے جھانکتی ہوئی آنکھوں کو دیکھا تو مجھے لگا جیسے ان میں تاریخ کے الاؤ بجھ رہے ہوں۔ میں قریب گیا تو پیرانہ سالی کی تھکی ہوئی اور لرزیدہ آواز میرے کانوں میں پڑی۔
’’ تو اتنے برس بعد لوٹا ہے بیٹا میں تو تجھے پہچان ہی نہ سکی۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور دل ہی دل میں بولا کہ؛
’’مجھ سے زیادہ آپ کی، نفیسہ بی کی اور اس حویلی کی پہچان معدوم ہو گئی ہے خالہ جان! ‘‘ میں نے نفیسہ بی کی طرف دیکھا وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اس کے چہرے کی جُھریاں پل بھر میں اور گہری ہو گئیں۔ فاختاؤں کا وظیفہ جاری تھا لیکن ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ وظیفہ پہلے سے زیادہ دردناک ہو گیا ہو۔ میں نے نفسیہ کو دھیرے سے پکارا پر وہ روشن جہاں کی طرف دیکھتے ہوئے نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔
علی الصبح میں خان بہادر احمد علی کی اُفتادہ آراضی کے پاس سے گزرتا ہوا واپس شہر لوٹ آیا۔