عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 37
اغواء برائے ۔۔۔۔!
فرزانہ روحی اسلم، کراچی، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو کرسیوں کے لرزتے پائوں کے نیچے اینٹیں رکھ کر انہیں مزید اونچا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ کرسی نے لکڑی کی تپائی کو اپنے سینے پر سہار لیا تھا۔ اس نے پہلے اس پر خود چڑھ کر اس کی مضبوطی کا اندازہ لگایا اور دیوار کے پار جھانکا۔ پھر دیوار پکڑ کر اپنے وجود کو دائیں بائیں ہلایا جلایا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کرسی کے پائے کسی طور نہیں ڈگمگائیں گے۔ مطمٗن ہو کر وہ نیچے اترا، اپنے ہاتھ جھاڑے، پھر واش روم میں گھس کر اپنے ہاتھ دھو آیا۔
“کام ٹھیک ہوگیا؟۔۔۔” الیاس نے سرگوشی میں پوچھا۔ ”
ہاں۔۔۔بالکل ٹھیک۔۔۔۔” اس کے جواب نے تینوں کو مطمٗن کردیا۔ ”
احمد۔۔۔۔تمھارا کام بڑی ہشیاری کا ہے۔” دراز قامت احمد کو چاردیواری کے باہر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ تینوں ہی دُکھ کی اس لہر کو کم کرنا چاہ رہے تھے جو ہر روز ان کے دل میں اس خاتون کے سوالات سے اٹھتی تھی۔ طہٰ آج آیا تھا؟۔۔۔کیسا تھا وہ؟۔۔۔۔ناشتہ کر کے آیا تھا کہ نہیں؟۔۔۔۔اداس تو نہیں تھا؟۔۔۔لنچ لایا تھا کہ نہیں؟۔۔۔۔کچھ کھایا کہ بھوکا تھا؟۔۔۔ہوم ورک کیا تھا؟۔۔۔۔ٹیسٹ کی تیاری کی تھی اس نے؟۔۔۔۔اس کے پاس گھڑی تھی کہ نہیں؟۔۔۔کپڑے تو صاف تھے نا؟۔۔۔۔ سیل فون ملا اسے کہ نہیں؟۔۔۔ اس کی آنکھیں کیسی لگ رہی تھیں؟۔۔۔۔ رات کو اسے نیند آئی یا نہیں؟۔۔۔ وہ ڈسٹرب تو نہیں تھا؟۔۔۔ تم سب سے پہلے کی طرح بات کرتا ہے کہ نہیں؟۔۔۔۔ خاموش تو نہیں رہتا؟۔۔۔۔ میرے لئے کوئی میسیج تو نہیں دیا؟۔۔۔۔ ویک اینڈ پر نانا کے گھر آئے گا کہ نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ گو کہ یہ عام سی باتیں تھیں مگر کسی کے لئے سانس کی آمد ورفت کی طرح ضروری تھیں۔
ان سوالات کی کرب انگیزی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سب جب اپنے گھر جا کر ساری صورت حال اپنی ماؤں کو بتاتے تو ان کی آنکھوں کے گوشے بھی پر نم ہو جاتے۔ فہد کو اس اسکول میں ٹرانسفر ہوئے آج پانچواں دن تھا مگر پوری کہانی سے اسے واقفیت ہو گئی تھی۔ اس نے طہٰ کو دیکھتے ہی کہا؛
“اپنا سیل نمبر دے دو۔”
“وہ روز بدل جاتا ہے۔” اس نے جواب دیا۔
“اپنی ممی سے بات کر لینا۔”
“موقع ملا تو کر لوں گا۔”
“کیا ہم تمہاری ممی سے ملاقات کا انتظام کردیں؟”
“نہیں۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ وہ بیتابی سے بولا۔
“تم ملنا نہیں چاہتے؟” فہد نے اسے مذید کریدا۔ ”
“نہیں۔۔۔۔ پاپا نے کہا ہے کہ اس عورت سے ملے تو میں خود کشی کرلوں گا۔” اس کا لہجہ جذبات سے عاری تھا۔ “تمہیں کون لینے آتا ہے؟”
“وہ چچا ہیں۔۔۔۔وہ ممی کا مرڈر کر دیں گے۔” اس کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
“تم کوشش کرو تو سارے کام آسان ہو سکتے ہیں۔”
“نہیں ۔۔۔سب مشکل ہے۔۔۔انہوں نے کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔۔۔۔پولس اسٹیشن میں بھی۔۔۔۔۔پرنسپل کے پاس بھی۔۔۔۔اور نہ جانے کہا ں کہاں۔” وہ بتاتے ہوئے جھلا گیا۔ “میرے تو باتھ روم کے باہر بھی کوئی نہ کوئی چکر کاٹتا رہتا ہے کہ کہیں چھپ کر فون تو نہیں کر رہا۔”
“ایسا کیوں ہے؟”
“ممی کو سزا دینے کے لئے۔۔۔تاکہ وہ خوب تڑپیں۔” اس نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں جواب دیا۔ “جنگ ممی اور پاپا کی ہے مگر اسے تایا اور چچا لڑ رہے ہیں۔”
“او۔۔۔نو۔” اسے غصہ آگیا۔۔۔۔۔اس نے اپنے ہی ہاتھ پرگھونسہ مارا۔
اس دن کلاس روم میں معمول کا منظر تھا۔ تینوں دوست کسی موقع کی تلاش میں تھے۔ ٹیچر کسی کام سے جیسے ہی کلاس سے باہر نکلے وہ سب بھی آنکھ بچا کر ان کے پیچھے ہولئے۔ ”
جلدی کرو۔۔۔۔احمد باہر کھڑا ہے۔” سہمے ہوئے طہٰ نے جلدی سے کرسی پر چڑھ کر باہر جھانکا تو واقعی احمد ادھر اس کا منتظر تھا۔ اس نے دیوار پر چڑھ کر اپنے پاؤں باہر لٹکائے اور احمد کے کاندھے پر پاؤں رکھ کر آہستہ سے نیچے کود گیا۔ ایک گاڑی سست رفتاری سے اس کے سامنے رکی جس کے تمام شیشے پردے سے ڈھکے ہوئے تھے، پھر وہ کسی معلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ الیاس کا پلان سو فیصد کامیاب رہا۔ طہٰ آدھے گھنٹے میں ہی اسی طرح واپس آ گیا جس طرح گیا تھا۔ خوشی سے ان سب کے چہرے تمتما رہے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے حصے میں ڈھیروں ثواب لکھا گیا ہو۔ جیسے انہوں نے اپنی اپنی ماؤں سے کبھی نہ بچھڑنے والے معاہدے پر اللہ سے دستخط کروا لئے ہوں۔ ممی اب سکول کے گیٹ کے باہر گارڈ کی منت سماجت نہیں کریں گی۔ وہ سب اپنے دوست کی ماں کے دکھ کو اپنے نوعمر بازؤں پر سنبھالنے کا سامان کر چکے تھے۔ دو مہینے میں تیسری بار انہوں نے طہٰ کو دیوار پھلانگوا کر باہر بھیجا تھا۔ اس بار بھی یہی امید تھی کہ آدھے گھنٹے میں ہی واپس آ جائے گا۔۔۔۔۔مگر اس بار ایسا نہ ہو سکا۔۔۔۔۔۔ایک۔۔۔ڈیڑھ ۔۔۔۔دو ۔۔۔۔تین گھنٹے بیت گئے۔ دوستوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ ان کی رگوں میں خوف سے سنسناہٹ شروع ہوگئی۔ چھٹی کے وقت جب طہٰ کو اس کے چچا لینے آئیں گے تو کیا ہوگا؟ ۔۔۔۔ طرح طرح کے پریشان کن سوالات ان کے ذہنوں میں اٹھنے لگے وہ سب خود کو تصور میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہے تھے۔ ان کے حلق خشک ہو رہے تھے مگر دو گھونٹ پانی سے اسے تر کرنے کا دھیان بھی نہ رہا تھا۔ اپنی بے قراری چھپائے، لب سئے، متوقع طوفان کے انتظار میں وہ سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ دوسرا دن ان سب کے لئے قیامت خیز خبر لایا تھا؛
‘سکول سے اغوا ہونے والا تاجر کا بیٹا تین گھنٹے بعد سڑک پر بے ہوش پڑا مل گیا۔ ہوش آنے پر کچھ بتانے سے قاصر ہے۔’ ساتھ ہی طہٰ کی تصویر تھی۔ ۔۔۔۔۔۔تازہ اخبار پرنسپل کی میز پر رکھا تھا۔ وہ اس خبر کے برابر والی خبر کی تصویر کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں، جس میں لکھا تھا؛
‘بدکاری کے شبہے میں دیور نے سابقہ بھابی کو قتل کر دیا۔’