Skip to content

اعتراف

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 29
اعتراف
شبیر احمد
وہ صبح سات بجے آتی اور کام کاج نمٹاکر دس بجتے بجتے چلی جاتی ۔اس کے جاتے ہی صومان اور قوسیہ بھی بیٹے کولے کر نکل پڑتے۔ اسے اسکول بس میں بٹھاتے اوراپنے اپنے دفتروں کو چل دیتے ۔ شام کو وہ سڑک پرکھڑی رہتی اور جب سرحان کی بس آجاتی تو اسے لے کر گھرچلی آتی۔اس کا ہاتھ منہ دھلاتی ، کپڑے بدلتی اور دودھ گرم کرکے اسے پلاتی۔ اس درمیان صومان اور قوسیہ بھی دفترسے لوٹ آتے۔ وہ ان کے لیے چائے وائے کآنتظام کرتی، اورپھر رات کا کھانا پکاکر اپنے گھرچلی جاتی۔ مگراس دن صومان اکیلے ہی لوٹا تھا ۔ قوسیہ نہیں آئی تھی۔ اس نے پوچھا،”باجی ابھی تک آئی نہیں ہے۔ آپ کو چائے دے دیں؟‘‘ صومان نے کہا،”ہاں، عبیدہ دے دو۔وہ آج دیر سے آئے گی۔ کہہ رہی تھی دفتر میں میٹنگ ہے ۔‘‘ اور اس روز قوسیہ رات کے نوبجے لوٹی تھی۔ نڈحال ،تھکی تھکی سی!! ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ قوسیہ گھر میں داخل ہوئی۔ کھلی چھتری دروازے کے کے پاس رکھ کر گھر کا سرسری جائزہ لیا۔ سرحان اندر کمرے میں سورہا تھا اور صومان اس کے سرہانے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ سے اس کا سر سہلارہاتھا اور دوسرے میں ایک کتاب تھامے پڑھ رہا تھا۔ عبیدہ ڈرائنگ روم میں صوفے سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی قوسیہ کآنتظار کر رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی سنبھل کر بیٹھ گئی۔ قوسیہ نے اسے ایک نظر دیکھا اور پوچھا،”تو ابھی تک گئی نہیں؟‘‘ اوراس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتی، قوسیہ اندرکمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد عبیدہ اپنی جگہ سے اٹھی اور چلّا کر بولی ،”باجی، ہم جارہے ہیں۔ دروازہ بند کر لیجئے۔‘‘ قوسیہ اندر کمرے سے آئی۔ اس کے پیچھے پیچھے دروازے تک گئی۔دروازے کے پاس چپل کا رَیک تھا۔عبیدہ چپل نکالنے کے لیے جھکی اور کچھ دیرتک اسی طرح جھکی رَیک ٹٹولتی رہی۔پھر اپنی چپل تھامے باہر چلی گئی۔ قوسیہ نے پیچھے سے دروازہ بند کردیا۔ مگر وہ دروازہ بند کر کے مڑی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے مڑ کر دروازہ کھولا۔دیکھا، سامنے عبیدہ کھڑی ہے۔ چھتری قوسیہ کے پاؤں کے قریب کھلی پڑی تھی۔عبیدہ نے چھتری کی طرف نگاہ کر کے کہا،” باجی، پانی پڑ رہا ہے۔ چھتری لے جائیں؟ صبح لے آئیں گے۔ ‘‘ اور قوسیہ کے ہامی بھرتے ہی، اس نے جھک کر چھتری اٹھائی اور اسے بند کرنے لگی۔ بند کرتے وقت چھتری اس کے ہاتھوں سے پھسل کر قوسیہ کے پیر کے پاس گرگئی۔ عبیدہ نے جھک کر چھتری اٹھائی اور مسکراتے ہوئے کہا،” ہاتھ سلپ کر گئی ..!!‘‘ قوسیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔خاموش دم سادھے کھڑی رہی۔اور جب عبیدہ چھتری لے کر چلی گئی، تو اس نے غور سے اپنی شلوار کا پائینچا دیکھا اور ٹھٹک کڑہ گئی۔ سراسیمہ سوچنے لگی ،”کہیں اس کمبخت نے دیکھ تو نہیں لیا؟ لگتا ہے ،دیکھ لیاہے ۔ جبھی تو بار بار پاؤں کے پاس جھک رہی تھی۔‘‘ وہ اندر ہی اندر بدبدائی ، ” اگر دیکھ بھی لیا تو کیا ہوا؟اس کا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔ نہیں نہیں ،وہ سمجھ گئی ہے۔اتنی بھولی نہیں ۔گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے اس نے۔ سات گھروں میں کام کرتی ہے۔سب جانتی ہے۔دیکھانہیں ،کس طرح بہانے ڈھونڈ ڈھونڈکر پیروں کے پاس منڈلارہی تھی!! باربارجھک رہی تھی!!!‘‘ اس کے ذہن پر خوف چھانے لگا ۔ وہ شلوار سیدھی کرنے جلدی سے باتھ روم میں گھس گئی۔ قوسیہ ایک سیلف میڈ عورت تھی۔ اس نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ بہت جدوجہد کے بعدوہ یہاں تک پہنچی تھی۔ صومان اور وہ ایک ہی کالج میں پڑھاکرتے تھے۔ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ دوران تعلیم ہی صوما ن ریاستی حکومت کے ایک شعبے میں کلرک کے عہدے پر بحال ہوگیاتھا۔ شادی کے دوسرے ہی سال ان کے گھر ایک ننھی سی پری نے قدم رکھا۔ زندگی ہنسی خوشی سے گزرنے لگی ۔دیکھتے ہی دیکھتے علفہ تین سال کی ہوگئی ۔انھوں نے بیٹی کوبڑے شوق سے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کایہ شوق انھیں گراں گزرنے لگا ۔شروع شروع میں وہ چھوٹی موٹی ضرورتوں سے سمجھوتاکرتے رہے،لیکن جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا،تو قوسیہ نے بھی نوکری کرنے کامن بنالیا۔ صومان کوبھلا اس میں کیا اعتراض ہوسکتاتھا؟ گھراور بچی کی دیکھ بھال کے لیے ایک دایہ رکھ کر وہ ایک کال سنٹر سے منسلک ہوگئی ۔ تبھی سے عبیدہ اس گھر میں کام کڑہی ہے ۔رفتہ رفتہ ان کی مالی حالت سدھرتی گئی۔ پھر سرحان پیدا ہوا اور اس کی پیدائش سے ان کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں۔ دیکھتے دیکھتے پندرہ سال گزرگئے ۔اس دوران میں قوسیہ کو چھوٹی موٹی کئی ترقیاں ملیں۔مگر اس بار ڈپٹی سیلز مینیجر کی پیشکش تھی۔اس عہدے کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہیں کیاتھا ۔ کئی لوگ اس عہدے کے دعویدار تھے،پر کمپنی کا ایم. ڈی. قوسیہ پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہوگیاتھا۔ لیکن اب وہ شش و پنج میں پڑگئی تھی۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق اسے کم از کم دو سال جنوبی ہند میں گزارناتھا ۔ شوہر اور بیٹے سے علیحدگی کا احساس اس کے لیے پابہ زنجیر بن رہا تھا ۔مگر اسے اپنی معاشی حالت سدھارنے کی بھی فکر لاحق تھی۔ علفہ بنگلور کے ایک انجینئرینگ کالج میں پڑھ رہی تھی،اور سرحان کلکتہ کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں۔علفہ کی پڑھائی کے لیے انھیں بینک سے قرض لینا پڑا تھا ۔ اسے ہر مہینے ایک موٹی رقم بھی بھیجنی پڑتی تھی ۔سرحان کے اسکول کا خرچ بھی کم نہ تھا۔ ٹیوشن کی فیس، گاڑی کا کرایہ ،کتاب کاپیاں، اوراس پر روز افزوں زندگی کی دیگر فرمائشیں! لیکن آمدنی کاسب سے بڑا حصہ فلیٹ کی خریداری پر لیے گئے قرض کی ماہانہ قسط ادا کرنے میں چلا جاتا تھا ۔ غرض یہ کہ کھینچ تان کر بمشکل گھر چلتاتھا ۔اسی وجہ سے قوسیہ نے یہ پروموشن حاصل کیا تھا ۔ اس کے لیے جائز ناجائز کی حدیں بھی توڑی تھیں۔ لیکن یہ بات بھی سچ تھی کہ وہ اپنے شوہر کوبہت پیار کرتی تھی۔اسے اکیلا چھوڑ کر جانا اسے گوارا نہ تھا۔ وہ دل گرفتہ ہوکربولی،” اگر میں چلی گئی توآپ کو تکلیف ہوجائے گی نا؟‘‘ صومان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا،” تکلیف! ہاں ،سو توہو گی!لیکن محترمہ ، صبرنام کی بھی کوئی چیز ہے اس دنیا میں!!میں صبر کرلوں گا!! بس بیچ بیچ میں آتی رہنا ۔ ہماری مرادیں پوری ہوتی رہیں گی۔ ہمارا کام چلتارہے گا۔‘‘ قوسیہ نے زیرِ لب مسکرایا،”پھر وہی شرارت !ٹھیک ہے آپ کو صبر کرنے کی ضرورت نہیں!! آپ بھی میرے ساتھ چلئے۔ہم سرحان کا وہیں کسی اچھے سے اسکول میں داخلہ کرادیں گے۔‘‘ صومان کندھا اچکا کر دونوں ہاتھ پھیلا تے ہوئے بولا،” ویل، آئیڈیا برانہیں ہے۔‘‘ قوسیہ نے ہنستے ہوئے کہا،”تو چلئے آپ کابھی سامان پیک کر دیتی ہوں!‘‘ صومان نے کہا،”مگر محترمہ ،آپ شاید بھول رہی ہیں،کہ ہم سرکاری نوکر ہیں۔ بیوی کی زچگی پرشاید ہمیں میٹرنٹی لیو مل جائے ،لیکن اس کی ترقی پر لیئن ملنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناًمیں آپ کا اٹیچی بن جاتا۔البتہ ،ایک راستہ ہے ۔‘‘ ”ارے واہ!کیا بات ہے !!‘‘اس نے شوہر کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور آنکھ مارکر کہا،”چلئے ،اب آ پ کی مراد یں روازانہ پوری ہواکریں گی،وعد ہ رہا!!مگر سنوں تو، وہ راستہ ہے کیا؟‘‘ صومان نے اس کے کندھے پردونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ” میری جان،وہ راستہ یہ ہے کہ میں اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دوں۔‘‘ یہ سنتے ہی قوسیہ کے چہرے کارنگ اڑ گیا۔اس نے بجھی ہوئی آواز میں کہا،”اگر ایسا ہے تو آپ کوجانے کی ضرورت نہیں !میں اکیلی ہی چلی جاؤ ں گی ۔آپ اپنآور سرحان کا خیال رکھئے گا بس۔‘‘ دوسرے دن قوسیہ چالاک شکاری کی طرح دوربیٹھی عبیدہ کو بھانپ رہی تھی۔ اور جب اسے یہ ا طمینان ہوگیا کہ وہ بالکل نارمل نظر آرہی ہے تواس نے اسے بلاکر کہاکہ وہ دو سال کے لیے کوئمبٹورجارہی ہے ۔ اس کی غیر موجودگی میں وہ گھر کی پوری ذمہ داری سنبھال لے ۔کسی اورگھر میں کام نہ کرے۔وہ اس کے عوض اسے اتنے روپے دے دیا کرے گی کہ کسی طور اس کا نقصان نہ ہوگا۔ اور یہ طے ہوگیاکہ وہ ہر روز صبح دس بجے اپنے گھر چلی جائے گی اور شام چار بجے کام پر آجائے گی۔ اور جب قوسیہ جنوبی ہند کے لیے راونہ ہورہی تھی ،توعبیدہ بھی اسے چھوڑنے ائیرپورٹ گئی تھی ۔قوسیہ رہ رہ کر اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔ہزار کوششوں کے باوجود وہ اس بات کو اپنے ذہن سے نہیں جھٹک پارہی تھی۔جب بھی عبیدہ نیچے دیکھتی، قوسیہ کادل دھک سے ہو جاتا ، ”کہیں وہ میری شلوار میں الٹے ہوئے پائینچے تو نہیں ڈھونڈ رہی ہے ؟‘‘ اور وہ جب پوری طرح مطمئن ہوگئی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، یہ محض اس کا ذہنی فتور ہے ، تو اس نے عبیدہ کو اشارے سے بلایا۔اسے تاکید کی،اورپھر تاکید کی،” دیکھ عبیدہ! تجھ پر بھروسہ کر کے جارہی ہوں۔گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنا۔سرحان اور اس کے ابّوکاخیال رکھنا۔ رات کو سرحان کے پاس ہی سونا۔خبردار،اس کے پاس سے ہٹنا نہیں۔ اسے نیند میں چلنے کی عادت ہے۔اور ہاں،ان کے کمرے میں مت جانا،انھیں اکتاہٹ ہوتی ہے…‘‘ قوسیہ کوئمبٹور چلی گئی۔ عبیدہ سرحان اور صومان کاخیال رکھنے لگی ۔ بازار جاتی، ان کی من پسند چیزیں خرید لاتی۔سرحان کو ابلے ہوئے انڈے پسند نہیں۔وہ اس کے لیے کبھی چاؤمین بناتی، کبھی سینڈ وچ! اور کبھی ٹماٹر اور انڈے کی بھجیا۔اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔سرحان دودھ دیکھ کر منہ بناتاتو وہ اس میں کبھی کمپلان،کبھی بورن ویٹآور کبھی مائیلو ملا دیتی ۔ صومان کو موڑھی پسند تھی۔اس لیے وہ شام کے ناشتے کے لیے موڑھی لاتی اور سرسو ں تیل میں پیاز مرچ لال کرکے اس میں موڑھی اور مونگ پھلی بھون دیتی۔ صومان کے ٹفن بکس میں ایک عڈ سندیش رکھنانہیں بھولتی ۔رات کا کھانا دیتے وقت گرم بھات پر کبھی مچھلی کا تلاہوا تیل اور کبھی مچھلی کے تلے ہوئے انڈے رکھ دیتی۔ دن گزرتے گئے ۔ صومان اور عبیدہ کے درمیان فاصلہ گھٹتاگیا۔شروع شروع میں عبیدہ کا سر آنچل سے پوری طرح ڈھکارہتا تھا ۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کے سر سے آنچل سرکتاگیا۔اب اس کی ناگن جیسی بل کھاتی ہوئی چوٹی نظر آنے لگی تھی۔ بلاؤز کے اوپر نیچے پیٹھ کاحصہ بھی دکھائی دینے لگا تھا۔کپڑا دھوتے ، سبزی کاٹتے اور برتن مانجھتے وقت اس کی پستانیں ابل آتی تھیں۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ صومان نے اسے پیچھے سے آدبوچا ۔ عبیدہ نے خود کواس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے کہا،”دیکھئے صاحب ،ہم آپ کادکھ سمجھ سکتے ہیں ۔کئی دنوں سے آپ کی حالت بھی دیکھ رہے ہیں، مگر ہم مجبور ہیں ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے خوشی حاصل کریں ، تو آپ کو قیمت چکانی ہوگی۔‘‘ صومان نے اسے اپنے سینے کے قریب کھینچآور بدبداتے ہوئے کہا،” جب تک قوسیہ نہیں آ جاتی ،تب تک ہم دوست کی طرح نہیں رہ سکتے؟‘‘ عبیدہ نے پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا،” صاحب ، مالک اور نوکرمیں دوستی نہیں ہوتی۔سودا ہوتاہے۔اس لیے دوستی وستی کی باتیں رہنے دیجئے ۔ اگر آپ کومنظور ہو تو رکھئے قیمت ہماری ہتھیلی پر! ! ‘‘ عبیدہ کواپنی حدود کا احساس تھا۔اس نے کبھی صومان کے ساتھ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا۔نہ کبھی اس کے النے پراپنے کپڑے رکھے ۔وہ صومان کے بستر پر اس وقت تک نہیں بیٹھتی تھی جب تک کہ وہ اسے بیٹھنے کو نہیں کہتا،یآس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ نہیں لیتا۔اس نے کبھی صومان کی نظروں سے نظریں ملا کر بات نہیں کی۔لیکن اس دن اس سے ایک غلطی ہوگئی… قوسیہ پہلے ماہ کے دو دن بیٹی کے ساتھ بنگلور میں گزارتی تھی اور دوسرے ماہ کے دو دن شوہر اور بیٹے کے ساتھ کلکتہ میں۔ وہ جب بھی کلکتہ آتی بڑی باریک بینی سے عبیدہ کی جانچ پرکھ کرتی۔اس پر کڑی نگاہ رکھتی ۔اسے ٹھونک بجاکر دیکھتی۔لیکن کبھی اس کے ہاتھ کوئی ایساسراغ نہ لگا،جس سے اس کا دل کھٹک جاتا۔اوروہ آسودہ خاطر اطمینان کی سانس لیتی ہوئی واپس کوئمبٹورچلی جاتی۔ ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ لیکن اس بار قوسیہ کلکتہ نہیں آ سکی تھی۔اس کے آفس میں آڈٹ کاکام چل رہا تھا ۔ مرکزی دفتر سے ایم. ڈی. صاحب بھی حاضر ہوگئے تھے۔ اسے دن کو آڈٹ پارٹی کے سوالوں کے جواب دینے پڑتے تھے اور رات کو ایم.ڈی. صاحب کی آسائش کا خیال رکھنا پڑتاتھا !! بہرحال وجہ کچھ بھی ہو ، حقیقت یہ تھی کہ وہ اس بار گھر نہیں آ پائی تھی۔ ہاں، تو میں یہ بتا رہا تھا کہ سخت احتیاط برتنے کے باجود اس دن عبیدہ سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ وہ رات کو صومان کے کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئی ،”اُف، آج تو سرحان سونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ بڑی مشکل سے سلایاہے ۔ ‘‘ صومان نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کو کہا۔اور جب اس نے صومان کے کان سے موبائل چپکا ہوا دیکھا تووہ سٹپٹاگئی۔ اس کے بھی پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ صومان موبائل پر قوسیہ سے باتیں کڑہا تھا۔ قوسیہ نے موبائل پر عبیدہ کی آواز سنی تو اس کی چھٹی حس جاگ اٹھی۔ اس نے جھنجلاکر پوچھا ، ” اتنی رات گئے عبیدہ آپ کے کمرے میں کیاکرنے آئی ہے؟ ‘‘ صومان سے خاطر خواہ جواب نہ بن پڑا۔وہ اس کی آئیں بائیں سے مطمئن نہیں ہوئی ۔دوسرے ہی دن کلکتہ آدھمکی ۔ سامان ایک طرف پٹکا، دندناتی ہوئی اندر کمرے میں گئی اور ہتھنی کی طرح چنگھاڑنے لگی ،”آپ کو شرم نہیں آتی ۔آپ نے میری وفاداری کا یہ صلہ دیا۔ ایک نوکرانی کے ساتھ .. .چھی!!‘‘ اور پھر گھائل شیرنی کی طرح ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی گرجنے لگی ،” کہاں گئی، وہ حرام زادی …!!‘‘ اور جب وہ دھاڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئی ،تو دیکھاعبیدہ ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھی ہوئی ہے۔قوسیہ نے ڈپٹ کر کہا،”میری غیر موجودگی میں تونے خوب گل کھلایا۔ جس تھالی میں کھایا، اسی میں چھید کیا ۔تجھے ذرالاج نہیں آئی۔چھی چھی چھی…!چلّو بھر پانی میں ڈوب مر!!‘‘ عبیدہ فرش پر نظریں گڑائے خاموش بیٹھی رہی۔ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ”کیوں ،اب بولتی کیوں نہیں؟ ‘‘ قوسیہ لفظوں کے تیر چھوڑ تی گئی،” کم بختی کی ماری !!میں تجھ پر بھروسہ کر کے گئی اورتو میری ہی چھاتی پر مونگ دلنے لگی۔ میری جگہ لینا چاہتی ہے!!چھی چھی!!! ‘‘ عبیدہ کے صبر کاپیمانہ لبریز ہونے لگاتھا۔اس نے دبے لہجے میں کہا ،”نہیں،ہم آپ کی جگہ کیسے لے سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی اوقات معلوم ہے۔‘‘ ”چپ مردود،زبان لڑاتی ہے ! ‘‘قوسیہ نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا،”نمک حرام کہیں کی۔‘‘ ‘ نمک حرام‘ کا لفظ سنتے ہی عبیدہ بپھرکراٹھی، ساڑی کا پلّو پیچھے سے گھماکر سامنے پیٹ کے پاس اُڑس لیآورقوسیہ کے روبروکھڑی ہوگئی ۔ نظروں سے نظریں ملا کربولی ، ”ہم نمک حرام نہیں ہیں !نہ ہی آپ کا بھروسہ توڑا ہے ۔ہاں،ایک غلطی کی ہے ہم نے۔ایک شریف مردکی عزت بچائی،اسے بازاری عورتوں کے پاس جانے سے روکے رکھا۔ بس یہی ہمارا قصور ہے۔مگر یقین کیجئے ، ہم نے یہ کام مفت نہیں کیا۔ پیسے لیے ہیں۔ہم بھی ماں ہیں۔ ہمارے بچوں کی بھی ضرورتیں ہیں۔ کھانا کپڑا، پڑھائی لکھائی ۔ دن بدن خرچ بڑھتا جارہاہے! مہنگائی کتنی بڑھ گئی ہے۔آپ بھی توسمجھتی ہیں !!‘‘ دفعتاً قوسیہ کے کان کے پردے پر لفط بھی‘ جیسے چپک گیا۔ اور جب اس نے عبیدہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھاتو جسم لرز اٹھا۔ اسے عبیدہ کی پتلیوں پر اپنا عکس نظر آنے لگاتھا !! اوریہ محسوس ہونے لگاتھا، عبیدہ کی نظریں اس کے پائینچے کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہیں ! !! **

Published inشبیر احمدعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x