Skip to content

اعتراف شکست

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر91
اعتراف شکست
عثمان سلیم،فیصل آباد ، پاکستان

رات کے 1:30 بجے میسج موصول ہوا وہ اسی انتظار میں تھا اسے یقین تھا کہ آج اس کا میسج ضرور آئے گا
پتہ ہے ایک بار بھی Mind میں نہیں آیا کہ یہ تم ہو سکتے ہو۔۔۔اتنا Trust ہے تم پر۔۔۔۔۔پھر میں نے سب سے پہلے تم سے Discuss کیا۔۔۔۔۔سب سے پہلے۔۔۔۔مجھے پہلے دن سے ہی میری چھٹی حس بتا رہی کہ یہ سب مذاق ہے۔۔۔۔۔اور جب تم نے کہا کہ اس سب کے پیچھے تم میں سے کوئی نہیں۔۔۔۔تو میں نے آنکھ بند کر کہ یقین کر لیا۔۔۔۔صرف اس لئے کہ تم نے کہا تھا۔۔۔۔اور اگر اس کے بعد کوئی بھی مجھے کہتا نا کہ یہ سب تم نے کیا میں پھر بھی نہیں مانتی ۔۔۔۔۔صرف اس لئے کہ تم نے کہا تھا کہ تم نے یہ سب نہیں کیا۔۔۔۔۔مجھے لگتا تھا ہماری دوستی میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔میں ہر ہر چیز تم سے ڈسکس رہی تھی اور تم سے suggestions لے رہی تھی۔۔۔۔۔مجھے لگ رہا ہے سب مل کر میرا مذاق اڑا رہے تھے۔۔۔۔میں واقعی دنیا کی stupid ترین انسان ہوں۔۔۔مجھے آج Realize ہو رہا ہے
=======
سکول کالج اور یونیورسٹیاں ایسی جگہیں ہیں جہاں سب سے زیادہ بہترین دوست ملتے ہیں محبتیں ہوتی ہیں…… جدائی اور ملاپ کا سلسلہ …..پہلی محبت کی آماجگاہ یہ سب جگہیں زندگی کے سب سے انمول پل دیتی ہیں اور ساتھ ساتھ سبق بھی
کامرس میں بے دلی سے داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس میں سے وہ بھی ایک تھی ہر وقت شرارتوں میں مگن زندگی سے بھر پور کلاس کی خوبصورت ترین لڑکیوں میں سے ایک اس کے چہرے کے خدو خال بہت پر کشش تھے
یونیورسٹی میں چھوٹی سی مارکیٹ تھی جہاں کھانے پینے کی اشیاء کے علاؤہ دیگر اشیاء کی دوکانیں موجود تھیں
کتابوں کی دوکان پر ایک لڑکا ہر دوسرے دن مختلف کتب کی ورق گردانی کرتا دیکھائی دیتا تھا جس میں اکثر مختلف کلاسیکی ادب ہوتا تھا
آج بھی ہمیشہ کی طرح وہ کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا لڑکیوں کا ایک گروپ وہاں آ پہنچا وہ سب اس کی کلاس میٹس تھیں
شائبہ نے اپنی سہیلی کے کان میں کچھ بولا تو وہ مسکرانے لگا کیونکہ اسے اس کی بات سن گئی تھی
یہ ہیری پورٹر ہر ٹائم یہاں ہی پھرتا رہتا ہے جب بھی دیکھو ناولوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے
اسے سن گئی ہے تمہاری بات ایڈیٹ نمرہ نے اسے ڈانٹا
اب نمرہ بھی ورق گردانی کرنے لگی وہ ہاتھ میں گیبرئیل مارکیوز کا Love In The Time Of Cholera لے کر کھڑی تھی
کیا واہیات قسم کی کہانی ہے اس نے بلند آواز میں کہا

عاید نے بلا توقف جواب دیا
جاہلوں کو سمجھ آنے والی چیز نہیں ہے یہ
نمرہ کے چہرے کے تاثرات بدلے لیکن اس نے عاید کو کچھ نہیں کہا
=====
انصر اور عاید کافی گہرے دوست تھے وہ کالج میں ایک ساتھ پڑھتے رہے تھے اور اب یونیورسٹی میں بھی ایک ہی ساتھ تھے
عاید ہوسٹل میں واپس آیا تو چہرے سے تھکن واضح دیکھائی دے رہی تھی
آج خیر ہے حضور کا موڈ ٹھیک نہیں لگ رہا
مرض ہو گیا ہے مجھے عاید نے فلسفیانہ قسم کا جواب دیا
اللہ خیر کرے کونسا مرض ہو گیا ہے انصر نے اسی انداز میں جواب دیا
وہ ہی جو گناہ گاروں کو ولی بنا دیتا ہے یا ولیوں سے ان سے رتبے چھین لیتا ہے
عشق ہو گیا ہے جناب کو؟
نہیں پگلے ابھی تو انس ہوا ہے ابھی تو آغاز ہے اور تو اختتام کر رہا ہے
کون ہے نصیبوں جلی ۔۔۔۔۔۔ جس کے پلے تیرے جیسا سنجیدہ عاشق پڑنے والا ہے
نہیں سنجیدہ نہیں مجھے تو بچپنے سے پیار ہوا ہے میں اس کے رنگ میں رنگوں گا خود کو
کچھ تو نام ہوگا ان محترمہ کا؟
نام کی کس کو پڑی ہے مجھے اس کو دیکھنے سے فرصت ملتی تو بات کرتا
ملی کہاں تھی وہ حسن کی دیوی آپ کو انصر نے طنز کیا۔
دیوی نا بناؤ اسے دیویاں انسانوں سے محبت نہیں کرتی
میں ارجنا نہیں جس کی محبت میں دیوی زمین پر آ جائے
تو ارجنا نہیں اور وہ سبھادرا نہیں اب جو پوچھا ہے وہ بتا دو
وہی بک سٹال پر ملی تھی
اوہ بھائی فلاسفر اس کے سامنے ایسی باتیں تو نہیں کر آیا
ایسی کیسی؟
یہ ہی جو ہر وقت لگا رہتا ہے فلسفیانہ قسم کی کہانیاں سنانے
نہیں میرے ذہن میں ہی نہیں أیا اس سے بات کرنا
=========
انصر کلاس میں داخل ہوا تو نمرہ کی آواز آئی سلام دعا بھی سکھائی ہے کسی نے کہ نہیں
آج بہت چہک رہی ہو خیر تو ہے
ہاں بیٹھو بتاتی ہوں سر کے آنے میں وقت کے ابھی
باقی دونوں کہاں گم ہیں انصر نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا
یار تمہیں بتایا تھا نا کوئی لڑکا آج کل بہت چکر لگا رہا ہے میرے پیچھے
کون وہ ہیری پورٹر؟ انصر نے پوری بات سنے بنا جواب دیا
ہاں پوری بات توسن لو
اس نے کچھ کہا تمہیں انصر پھر بولا
تم پہلے بکواس کر لو پھر میں بات کر لوں گی اس بار وہ نہایت سنجیدہ تھی
اچھا اچھا بولو اب میں نہیں کچھ کہتا
آج میں ہوسٹل سے آرہی تھی تو وہ بھی بائیک لگا کر آ رہا تھا پارکنگ ہوسٹل کے پاس ہی ہے تو اس نے مجھے دیکھا اور تیز ہوگیا مجھے لگاتھا کہ وہ بات کرے گا لیکن وہ تو بولا ہی نہیں کچھ
انصر نے اسے چھیڑا لگتا ہے بچہ cute ہے تیرا دل تو نہیں آگیا
ایسی کچھ نہیں ہے تم جانتی ہو کہ میں ان چکروں میں نہیں پڑتی
تھوڑی ہی دیر میں نیلم اور شائبہ کلاس میں داخل ہوگئی وقار ان سب کا گروپ میٹ ابھی آیا نہیں تھا
انصر اپنی جگہ پر جابیٹھا کلاس شروع ہو گئی
=======
وقار سیڑھیوں میں بیٹھا گٹار بجا رہا تھا بزنس سکول کی بلڈنگ زیادہ لمبی تھی اونچائی میں باقی Departments کی بلڈنگز سے کم اس لئے اس کی راہ داری بھی لمبی تھی اور کشادہ بھی جس کے ایک طرف پھولوں کی قطاریں تھی اور دوسری طرف گزرنے کے لئے ایک اور راہ داری تھی جو کے اس راہ داری سے بڑی تھی اس لئے وہ راہداری زیادہ تر بیٹھنے کے لئے استعمال ہوتی تھی اس کے آخر میں دروازہ تھا جس کے زینوں پر کوئی نا کوئی سٹوڈنٹس کا گروپ بیٹھا ہی رہتا تھا دروازہ کیونکہ مستقل طور پر بند رہتا تھا اسلئے وہ چگہ بیٹھنے کے لئے ہی استعمال ہوتی تھی وقار بھی اکثر وہاں بیٹھا گٹار بجانے میں مصروف رہتا اس کے سب دوست وہاں ہی جمع ہو جاتے تھے سب گروپ میٹس کے علاؤہ کلاس کے کچھ اور دوست بھی اکثر وہاں گٹار سننے کے لئے آئے ہوتے تھے وقار اپنی دنیا میں مگن رہتا اس کو Music کے علاؤہ کسی بھی چیز کا شوق نہیں تھا وہ اکثر کلاسز سے غائب رہتا لیکن اپنے گروپ کے دوستوں کے ساتھ وہ ہر جگہ جاتا تھا
ہاں بھائی آج پھر نہیں آیا کلاس میں انصر نے آتے ہی سوال کیا
بس نیند پوری کر رہا تھا
سر نے تیری نیند پکی والی حرام کر دینی ہے اپنا پورٹل بھی دیکھ لو
کوئی problem نہیں سر فین ہیں اپنے سب نے ایک قہقہہ لگایا
=========
انصر وہ تیری کلاس میٹ ہے
کس کی بات کر رہا ہے عاید کے سوال کا جواب دیا
وہ جو گلاسز میں ہے پیاری سی لڑکی
تمہیں جب سے کتابوں کے علاؤہ کسی چیز کی فکر ہونے لگی
ابے بتا بھی اب عاید نے مصنوعی غصہ دیکھایا
وہ blue ڈریس والی گروپ میٹ ہے میری نمرہ ہے وہ ملنا ہے بلاؤں اسے
انصر عاید کو تنگ کر رہا تھا
یار یہ وہ ہی ہے وہ بک سٹال والی بتایا تھا تمہیں
اوہ تیری بھائی غلط لڑکی کو سلیکٹ کیا ہے تو نے یہ تو نہیں ماننے والی انصر ہنسا
بات تو کروا دے یار مجھے محبت ہو گئی ہے اس سے
تمہیں پتہ ہے انصر محبت ہوتی ہی اپنے سے بہتر انسان سے ہے انسان جس کو خود سے بہتر سمجھتا ہے اس سے ہی محبت کرتا ہے مجھے پتہ ہے وہ مجھ سے بہتر ہے
انصر گھنی داڑھی والا جینز شرٹ پہننے والا ایک وجہی انسان تھا جس کی شخصیت اور طرز لباس دونوں پر کشش تھے
=======
شائبہ کا میسج
اپنی فیس بک کھول کر دیکھو میں نے تمہیں ٹیگ کیا ہے کسی نے نمرہ کے بارے میں confession لکھا ہے
انصر نے فیس بک پر لاگ ان کیا تو واقعی ہی کسی نے نمرہ کے بارے میں confession لکھا ہوا تھا تو اس نے فوراً اسے اور عاید کو ٹیگ کر دیا
وہ اصرار کر رہی تھی کہ یہ اس کے بارے میں نہیں ہے لیکن سب بضد تھے کہ اسی کے بارے میں ہے آخر اسے ماننا پڑا
اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ confession کس نے کیا ہے اور کیوں
نمرہ نے اگلے دن آتے ہی انصر سے پوچھا مجھے لگتا ہے یہ لگتا ہے یہ تمہارا کام ہے ایسے مزاق تم ہی کرتے ہو
انصر نے صاف انکار کر دیا اس کے بعد اس کا شک وقار پرجارہا تھا لیکن انصر نے اسے سمجھایا کے اس کے پیچھے وقار نہیں ہے
اگلے دن اس کی سہیلی کے ذریعے اسے گلدستہ پہنچا جس پر From Mr W لکھا ہوا تھا یہ سلسلہ کافی دن سے جاری تھا اس نے کئی بار اس سے کہا وقار سے بات کرتے ہیں لیکن انصر اسے یہ بول کر منع کرتا رہا اگر وہ ہوابھی تو مانے گا نہیں
لیکن یہ سلسلہ بند ہی نہیں ہورہا تھا..وہ اکتائی
======
تم اس لڑکے کے پاس بیٹھے کیا کر رہے تھے
وہ ہیری پورٹر
میرا دوست ہے جگر ہے میرا انصر نے أتے ہی بتانا شروع کیا
وہ کئی دنوں سے لگاتار نمرہ کے منہ سے انصر کی تعریف سن رہا تھا
اسے شک ہو رہا تھا شاید وہ اس کو پسند کرنے لگی ہے اس لیے وہ اس کے سامنے عاید کا ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا تھا
عاید کے اصرار کرنے کے باوجود بھی اس نے نمرہ کا اس سے انٹروڈکشن نہیں کروایا
تو کب ملوا رہے ہو اپنے دوست سے نمرہ نے پوچھا جلدی ہی بس آج کل وہ تھوڑا مصروف ہوتا ہے اس کا پراجیکٹ چل رہا ہے وہ اور اس کی دوست ریسرچ کے کام میں مصروف ہوتے ہیں
محبت انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے انسان چاہ کر بھی اپنے من پسند شخص کو کسی کے طرف مائل ہوتا نہیں دیکھ سکتا
رات دیر میں ہی واپس آتا ہے اس کی دوست یہاں ہی رہتی ہے اس کا ہاسٹل اولڈ کیمپس کے پاس ہے انصر اب فضول گوئی کر رہا تھا
یہ confession کس نے کیا ہے کچھ پتہ ہے تمہیں پتہ ہے کچھ ؟
عاید تیسری بار پوچھ رہا تھا
نہیں مجھے نہیں معلوم کس نے کیا ہے
کسی نے اس سے کانٹیکٹ کیا ہے؟
نہیں ابھی تو نہیں کیا
وہ تمہاری اچھی دوست ہے اس نے میرے بارے میں بات کی کبھی تم سے عاید نے ایک بار پھر پوچھا
ہاں تیرا ذکر چلتا رہتا ہے تو دوست جو ہے اپنا لیکن کبھی کوئی سپیشل بات نہیں ہوئی اتنی جلدی نا کر تیرا ہی کام کر رہا ہوں
میں مناسب وقت دیکھ کر بات کرتا ہوں اس سے تیرے بارے میں
تو بھائی ہے اپنا عاید نے خوش ہو کر نعرہ لگایا
=======
رات کے 1:30 بجے میسج موصول ہوا وہ اسی انتظار میں تھا اسے یقین تھا کہ آج اس کا میسج ضرور آئے گا
پتہ ہے ایک بار بھی Mind میں نہیں آیا کہ یہ تم ہو سکتے ہو۔۔۔اتنا Trust ہے تم پر۔۔۔۔۔پھر میں نے سب سے پہلے تم سے Discuss کیا۔۔۔۔۔سب سے پہلے۔۔۔۔مجھے پہلے دن سے ہی میری چھٹی حس بتا رہی کہ یہ سب مذاق ہے۔۔۔۔۔اور جب تم نے کہا کہ اس سب کے پیچھے تم میں سے کوئی نہیں۔۔۔۔تو میں نے آنکھ بند کر کہ یقین کر لیا۔۔۔۔صرف اس لئے کہ تم نے کہا تھا۔۔۔۔اور اگر اس کے بعد کوئی بھی مجھے کہتا نا کہ یہ سب تم نے کیا میں پھر بھی نہیں مانتی ۔۔۔۔۔صرف اس لئے کہ تم نے کہا تھا کہ تم نے یہ سب نہیں کیا۔۔۔۔۔مجھے لگتا تھا ہماری دوستی میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔میں ہر ہر چیز تم سے ڈسکس رہی تھی اور تم سے suggestions لے رہی تھی۔۔۔۔۔مجھے لگ رہا ہے سب مل کر میرا مذاق اڑا رہے تھے۔۔۔۔میں واقعی دنیا کی stupid ترین انسان ہوں۔۔۔مجھے آج Realize ہو رہا ہے۔۔۔۔۔اس سب کے پیچھے تم تھے۔۔۔۔۔۔شایبہ نے ایڈمن سے پوچھا تو اس نے ہمیں تمہاری ID دی۔۔۔۔۔
وہ اس کے میسج کا انتظار کر رہا تھا وہ اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جو کھیل شروع کر چکا تھا اس کا آخری سین یہ ہی ہونا تھا
محبت کا سب سے بڑا فائدہ اور نقصان یہ ہی ہے کہ انسان کی دنیا ایک مخصوص شخص تک محدود ہو جاتی ہے اس کی خوشی اور غمی کا محور وہ ہی ایک انسان بن جاتا ہے
اور وہ اب اس کی خوشی چاہتا تھا
اس نے میسج تحریر کیا
میں صبح 11 بجے کیفے ٹیریا میں تمہارا انتظار کروں گا
اسے یقین تھا کہ وہ اسے ضرور ملنے آئے گی
=======
وہ ساری رات نہیں سو سکی اس کے بیسٹ فرینڈ نے اسے دھوکا دیا تھا
جب ایسے انسان کا جھوٹ پکڑا جائے جس پر آپ کو مان ہو کے وہ آپ سے جھوٹ نہیں بولتا تو آپ کو اس پر غصہ سے زیادہ…….خود پر افسوس ہوتا ہے
ٹھیک 11 بجے وہ یونیورسٹی کے لئے نکلی اس نے اس ایک میسج کے علاؤہ رات سے ایک بار بھی اپنا موبائل نہیں دیکھا تھا
کینٹن یونیورسٹی کے آخری کونے میں تھی اسے معلوم نہیں تھا اس کو دیکھ کر وہ کیا ری ایکشن دے گی
اسے ڈانٹنے گی مارے گی یا اگنور کر دے گی امیدیں وابستہ کرنا انسان کی جبلت ہے لیکن کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ
کاش کہ میرے جزبے بانجھ ہو جائیں اور ان کی کوکھ سے امیدیں جنم نہ لیں
اس کی امید اس کا مان سب بکھر گیا تھا
وہ کینٹن میں داخل ہوئی تو تمام ٹیبلز پر حسب معمول کوئی نا کوئی گول بیٹھا تھا اسے معلوم تھا کہ وہ لوگ کھڑکی کے پاس جا کر بیٹھتے ہیں اس نےآتے ہوئے جان بوجھ کر کھڑکی طرف نہیں دیکھا تھا وہ اس کے سامنے اس کو دیکھنا چاہتی تھی
سفید شرٹ میں ملبوس لڑکے کے سامنے وہ جا کر بیٹھی تو وہ انصر نہیں تھا بلکہ وہ
ہیری پورٹر تھا وہ اس سے پوچھنے ہی والی تھی کہ انصر کہاں ہے اسی وقت موبائل کی سکرین روشن ہوئی
بعض اوقات انسان اپنی عزت نفس کو اتنا مجروح کرتا ہے کہ وہ اس کے پچھتاوے میں اس رشتے کو کھو دیتا ہے جس کے لئے اس نے اپنی تذلیل کی ہوتی ہے
انصر کا میسج تھا ناں نہیں کرنا جگر ہے اپنا ملتاہوں تمہاری شادی پر

Published inعالمی افسانہ فورمعثمان سلیم

Be First to Comment

Leave a Reply