عالمی افسانہ میلہ2015
افسانہ نمبر 58
ادھ کھلا پٹ
قیصر نذیر خاور ، لاہور ، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم اور ہارون کا پھسڈی ہونا ہی کارن بنا اور خالد انہیں امتحانوں میں پاس ہونے جوگا کرنے کے لئے مسز ملک کے گھر کے دروازے کا ہٹ کھول کر اندر داخل ہوا تھا ۔ ان کا بڑا بیٹا اکبر کوئی گیارہ بارہ سال کا تھا، پیدائشی طور پر ایسا تھا جسے این جی او والے نارمل نہیں سپیشل چائلڈ کہتے ہیں۔ سلیم اور ہارون البتہ نارمل ہی تھے لیکن پڑھائی میں وہ بھی گھسٹ ہی رہے تھے۔ سلیم ایک بار فیل ہو کر پانچویں میں جبکہ ہارون تیسری میں تھا۔ مسز ملک حسین تو نہیں تھیں لیکن خوش شکل ضرور تھیں۔ چالیس کو پہنچتی ان کی عمر نے ان کا جسم ابھی سڈول ہی رکھا ہوا تھا۔ میڑک پاس ملک صاحب کا کام کچھ ایسا تھا کہ کراچی تا پشاور سفر ہی میں رہتے، کراچی سے مال اٹھاتے، نیشنل ہائی وے پر پڑنے والے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لئے بِلٹیاں بک کرواتے اور خود بس پر سفر کرتے حیدرآباد رکتے، اس شہر کے لئے کرائی بلٹی چھڑواتے، لگی بندھی دکانوں کو مال بیچتے، وہاں سے چوڑیوں جیسی آئٹمیں اگلے شہروں کے لئے بلٹی کرواتے اور پھر چل سو چل۔ پشاور تک پہنچتے پہنچتے انہیں پندرہ سے ہیس دن لگ جاتے۔ لاہور پہنچتے تو ایک آدھ دن اور رات ہی بیوی کا پہلو گرمانے کے ساتھ ساتھ بچوں کا منہ چوم چاٹ پاتے۔ پشاور سے واپسی پر بھی ایسا ہی ہوتا۔
خالد اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ہوم ٹیوشنز لیتا تھا ۔ پڑھائی کا خرچہ ایف ایس ہی تک تو گھر سے ملتا رہا لیکن پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز کا داخلہ ملنے پر والد نے داخلہ اور پہلے سمیسٹر کی آدھی فیس تو دے ڈالی لیکن آگے کا خرچہ اسے خود اٹھانے کو کہا۔ خالد ان کی آمدن اور گھر کے خرچوں سے واقف تھا۔ اس کے والد کے رزق کا وسیلہ ہوائی سا تھا، کام بنا تو شام ہو گئی نہ بنا تو دوپہر کو ہی لوٹ آئے۔ اس نے ایک ماہ کے اندر اندر ہی پارٹ ٹائم نوکری کی آپشنز کو پَھرول کر یہ طے کیا کہ ہوم ٹیوشنز ہی سہل اور زیادہ معاوضہ والا کام ہے۔ دوسرا مہینہ شروع ہونے پر اسے دو ٹیوشنیں مل چکی تھیں۔ یہ چھوٹے بچوں کی تھیں اور نیو کیمپس کے قریب وفاقی کالونی میں ہی تھیں۔ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے فارغ ہو کر پیدل ہی وہاں جاتا اور گھر واپس شام چھ بجے یونیورسٹی کی بس پر ہی آتا۔ ان ٹیوشنوں سے ملنے والے چار ہزار روپے اس کے اخراجات پورے کرنے کے لئے کافی نہ تھے اور اسے ایسی ہی دو اور ٹیوشنیں درکار تھیں۔ بڑی کلاسوں کی پیسے تو زیادہ دیتیں لیکن وہ ابھی خود بھی تو صرف بارہ پاس تھا۔
ملک صاحب کے بچوں کو پڑھانے کے لئے اسے مصری شاہ جانا پڑنا تھا کہ وہ اس کے ہم جماعت سہیل کے ہمسایے تھے جس نے اسے یہ ٹیوشن دلائی تھی۔ باپ کی موٹر سائیکل شام کو فارغ ہوتی تھی جس پر وہ سات بجے تک باآسانی مصری شاہ پہنچ سکتا تھا۔ ان سے پَھٹ پَھٹی استعمال کرنے کی اجازت تو مل گئی لیکن ساتھ اس کے تیل اور پڑول کا خرچہ اور اسے صاف رکھنے کا ذمہ بھی لینا پڑا۔ اس کے والد ریلے کی سائیکل کے زمانے سے سواری چمکا کر رکھتے تھے۔ صاف رکھنے کا مطلب تھا کہ روز اس کی جھاڑ پونچھ اور اتوار کے اتوار قربانی کے بکرے کی طرح نہلائی۔
ملک صاحب کے گھر کے نیچے دکان تھی، پہلی منزل پر چار کمرے تھے جن میں سے ایک ڈرائنگ روم کی طرح سجا ہوا تھا۔ خالد نے اپنی پہلی دونوں ٹیوشنوں کے مشاہرے اور موٹر سائیکل کے خرچے کا ذکر کرکے ملک صاحب سے ڈھائی ہزار پر بات طے کی جنہوں نے پہلی ہی ملاقات میں اپنی بیوی کے چائے لانے پر اپنی کاروباری مصروفیت کی جو کتھا شروع کی وہ چائے ختم کے بعد بھی جاری رہی۔ خالد بچوں سے ملا ، ملک صاحب کو اگلے روز سے آنے کا عندیہ دیا جبکہ ملک صاحب نے اسے یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ان سے تو خالد کی ملاقات کم کم ہی ہو گی، پیچھے ان کی بیوی ہی سب معاملات دیکھے گی۔
خالد نے اسی ڈرائنگ روم میں بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ اس کے پیچھے والے حصے میں ملک صاحب اور بچوں کا کمرہ تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی جو کمرہ پہلے آتا تھا اس کی ایک سائیڈ پر کچن اور باتھ روم تھا۔ اس کمرے میں ایک تخت پوش کے علاوہ چار کرسیوں والی ڈائنگ ٹیبل بھی رکھی تھی۔ تخت پوش پر اکبر لیٹا ٹانگیں ہلاتا رہتا، زیادہ تر خاموش رہتا، کبھی کبھار بڑبڑاتا، ایک آدھ بار اونچی اونچی آوازیں نکالتا اور پھر خاموش ہو جاتا۔ کبھی وہ کھڑکی میں سلاخیں تھامے گلی میں تکتا دکھائی دیتا اور تھک کر وہیں زمین پر ڈھ جاتا۔ ایسے میں مسز ملک فوراً لپکتیں اور اسے اٹھا تخت پوش پر لٹا، پیار سے اس کا منہ چوم لیتیں۔ خالد نے نوٹ کیا تھا کہ مسز ملک سلیم اور ہارون کو روز ٹیوشن کےلئے تیار کریں نہ کریں اپنے سپیشل چائلڈ کو خالد کے آنے سے پہلے صاف ستھرا کرکے لٹاتی تھیں اور خود بھی منہ مَتھا سنوارا ہوتا۔ جس دوران خالد وہاں ہوتا مسز ملک کم سے کم تین بار تو ڈرائنگ روم میں آتیں۔ ایک بار اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں جاتیں۔ دوسرا چکر خالد کے لئے چائے لانے پر لگتا جبکہ تیسرے کا سبب چائے کے برتن لے جانا ہوتا۔
بچوں کو اپنے ڈھب پر ڈھالنے میں خالد کو بیس ایک دن لگ گئے اس دوران مسز ملک بھی اس سے کُھل گئی تھیں ۔ شروع میں سلیقے سے لیا دوپٹہ دھیرے دھیرے گلے میں لٹکنا شروع ہو گیا تھا اور کئی بار تو وہ اس سے بھی بے نیاز سامنے ہوتیں۔ چائے کے تکلف میں بھی کچھ اضافہ ہونے لگا اور ساتھ کچوری، سموسہ یا مٹھائی بھی ساتھ آنے لگی۔ اور پھر ان کی اپنی پیالی بھی آ گئی۔ اب وہ خالد کے ساتھ ہی بیٹھ کر چائے پیتیں اور ادھر ادھر کی باتیں بھی ٹھیلتیں ۔ اس دوران خالد نے یہ بھی بھانپ لیا تھا کہ مسز ملک نے شاید ہی نویں کلاس میں قدم دھرا ہو ۔ اردو بھی واجبی سی تھی، غصہ آنے پر پنجابی میں شروع ہو جاتیں اور گالیوں سے بھی گریز نہ کرتیں۔ یہ غصہ زیادہ تر اکبر پر اس وقت اترتا تھا جب وہ خالد کے ہوتے ہوئے پیمپر خراب کر دیتا تھا۔ اسے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ ہارون کی پیدائش پر ڈاکٹروں نے انہیں سختی سے منع کیا تھا کہ وہ مزید بچے پیدا نہ کریں کیونکہ چوتھا بھی پہلے جیسا ہی سپیشل چائلڈ ہو سکتا ہے خاص طور پر اگر لڑکی ہوئی تو۔ تب سے وہ بچے کا رسک ہی نہیں لے رہیں تھیں حالانکہ انہیں بیٹی کی بہت خواہش تھی۔
نیا مہینہ چڑھا تو مسز ملک نے چائے سنٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے خالد سے کہا کہ وہ ڈھائی ہزار کے حساب سے بتائے کہ کتنے پیسے بنے ؟
” اکیس سو چھیاسٹھ روپے ”
خالد کے بتانے پر وہ اپنے کمرے میں گئیں اور سلیم کو آواز دی کہ اپنے سر کو اندر بھیجو۔ خالد اندر گیا تو انہوں نے پورے ڈھائی ہزار اسے یہ کہتے ہوئے تھمائے کہ چند سو سے کیا فرق پڑتا ہے آپ پورے ہی رکھ لیں لیکن بچوں کے سامنے ذکر نہ کیجئیے گا اور نہ ہی ملک صاحب کے آنے پر ان سے ۔ آپ مجھے اچھے لگے ہیں۔ میرے بچوں کو محنت سے پڑھا رہے ہیں۔ میرا تو اپنا دل کرنے لگا ہے کہ میں بھی آپ سے پڑھنا شروع کر دوں۔ خالد نے یہ سب خاموشی سے سنا، پیسے جیب میں رکھے اور واپس بچوں کے پاس آ گیا۔ وہ ابھی انیس کا بھی نہیں ہوا تھا۔ اسے مسز ملک کا ڈالا یہ ڈورا کچھ سمجھ میں آیا اور کچھ نہیں بھی۔ اسی الجھاوٗ کو ذہن میں لئے سویا تو کچے خوابوں میں بھی پیسوں والا سین گھومتا رہا جس پر مسز ملک کا سڈول فسم حاوی تھا۔ سوتے میں جسم کا تناوٗ بھی محسوس ہوتا رہا۔ اس تناوٗ نے رات میں جو گند کیا اس کا پتہ اسے صبح اس وقت چلا جب اس نے نہانے کے لئے جین اتاری۔ اس کا انڈر وئیر اکڑا ہوا تھا ۔
اس شام جب چائے آئی تو اس نے ہپلی بار مسز ملک کو ایک مرد کی آنکھ سے دیکھا وہ اسے ایک بھرپور عورت لگیں۔ وہ خود میں جھینیپ گیا۔ مسز ملک اس کی نظر اور جھینیپ دونوں کو بھانپ گئی تھیں۔ وہ چائے چھوڑ، اٹھیں اور اپنے کمرے میں جا، چند لمحوں بعد ہی واپس پلٹ آئیں۔ اب ان کی چھاتیاں بَرا سے آزاد لان کی پتلی قمیض میں تھل تھلا رہی تھیں۔ اس ڈورے نے تو خالد کا دماغ بھک سے اڑا دیا۔ خالد کا دماغ پہلے بھی مختلف موقعوں پر بھک سے اڑا تھا لیکن ایسے میں اسے اپنے والد کی لنگوٹ کو کسَے رکھنے والی نصیحت یاد آتی اور وہ خود کو اپنے آپ میں سمیٹ لیتا یہ الگ بات ہے کہ اگلی صبح وہ اپنا انڈروئیر اکڑا ہوا پاتا۔
یہ دو ڈورے نینوں کی طرح دو ہی رہے اور بات اگلے چند روز میں ہی دیکھنے کی حدیں پار کر گئی۔ اگلے روز پڑھتے سمے سلیم نے اسے بتایا کہ اس کے پاپا کا فون آیا تھا اور یہ کہ ان کے آنے میں مزید کچھ دن کی تاخیر ہے، اس کی فیس تبھی مل پائے گی۔ یہ سن کر خالد سوچنے لگا؛ ‘ تو مسز ملک نے اپنے خاوند اور بچوں سے چوری اسے پیسے دئیے تھے۔’ اس روز مسز ملک جب چائے لئے اندر داخل ہوئیں تو انہوں نے سفید ململ کا کرتہ پہن رکھا تھا جس کے اوپر والے دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔ جب وہ چائے کی ٹرے رکھنے کے لئے چھکیں تو ان کی سانولی چھایتوں کی وی پوری گہرائی تک اس کے سامنے تھی۔ وہ چائے پینے کے دوران جھنجھلائی سی لگ رہیں تھیں شاید خاوند کے نہ آنے کی وجہ سے ایسا تھا لیکن وہ بار بار اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کبھی ایک چھاتی کو کجھلاتیں کبھی دوسری کو، جیسے شاید خالد کو ان کی طرف متوجہ کرا رہی ہوں۔ انہیں ایسا کرتے دیکھ کر خالد کے جسم میں تناوٗ سا پیدا ہونے لگا لیکن باپ کی نصحیت گُٹی کی سی تاثیر رکھتی تھی جس نے اس کے جسم کو سمیٹ دیا۔ بِنا بَرا یوں سامنے آ پیٹھنا ، گریبان کھلا رکھے کمرے میں پھرنا اب مسز ملک کا معمول ہو گیا۔ خالد خود کو اپنے آپ میں سمیٹے بچوں کو پڑھاتا رہا۔
ایک روز اس سے ‘ سِبلنگز ‘ کا مطلب ‘ بہن بھائی ‘ سن کر سلیم نے یہ سوال کر دیا کہ بہن کہاں سے ملتی ہے؟ خالد کے اس استفسار پر سلیم نے جواب دیا کہ اس کی سب دوستوں کی بہنیں ہیں لیکن میرے بار بار کہنے پر بھی ممی پاپا نے مجھے بہن لا کر نہیں دی ۔ خاموشی سے اپنے دھیانے لگے رہنے والا ہارون بھی بول اٹھا کہ اسے بھی بہن چائیے ۔ مسز ملک سامنے بیٹھی یہ سب سن رہیں تھیں۔ انہوں نے خالد کو بتایا کہ جب وہ ہارون کو لئے ہسپتال سے واپس آئیں تھیں تو سلیم نے کئی دن منہ پھلائے رکھا تھا اور ہارون کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا کہ وہ بہن کی بجائے بھائی کیوں اٹھا لائیں تھیں ۔ پھر انہوں نے سلیم کو مخاطب کرکے کہا :
” ہم نے تو تمہیں بہن لا کر نہیں دی اپنے سر سے کہو کہ وہ لا دیں۔” یہ کہہ کر وہ کھِلکھِلا کر ہنسیں اور خالد کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا ، خالد خجل ہو کر سلیم کو اتنا ہی کہہ سکا۔
” اچھا لا دوں گا ۔ ابھی تو تم پڑھو۔”
اس روز جب وہ جانے لگا تو مسز ملک نے اسے کہا کہ وہ اسے بازار لے چلے اس نے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں جو وہ کام کرنے والی سے نہیں منگوا سکتیں ۔ بس آنا جانا کرنا ہے۔ خالد کی، ہاں یا نہ، سنے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ چند منٹوں بعد نکلیں تو انہوں نے بڑے سلیقے سے خود کو بڑی سی کالی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ انہوں نے سلیم سے کہا؛
” میں بس پندرہ منٹ میں آتی ہوں ، تم بھائیوں کا خیال رکھنا۔”
موٹر سائیکل پر بہٹھنے تک مسز ملک پورا منہ بھی چادر میں چھپا چکی تھیں۔ وہ اس وقت تک اس سے ہٹ کر پچھلے کیرئیر کی ہتھی پکڑے بیٹھی رہیں جب تک خالد نے ان کی گلی کی نکڑ پار نہ کر لی پھر وہ اس سے ایسے چمٹیں کیسے کوڑھ کِلی چھت کو جَپھا ڈالتی پے۔ گھر کے نیچے موٹر سائیکل سے اترنے تک وہ خالد کو کئی بار لجاجت سے کہہ چکی تھیں کہ وہ اس کی کوکھ ایک بار بھر دے، شاید اللہ اسے ایک تندرست بچی دے دے ۔ خالد کو پسینے چھوٹ رہے تھے۔ بنیان اور بغلوں کے بال ایسے تر ہو گئے تھے کہ جیسے اس نے نہانے کے بعد گیلے بدن پر ہی بنیان پہن لی ہو۔ مسز ملک کو اتار، کچھ کہے بنا اس نے تیزی سے موٹر سائیکل گھمائی اور وہاں سے نکل لیا۔ سارا راستہ کیا، ساری رات وہ سوچتا رہا کہ باپ کے پڑھائے سبق سے بندھا رہے یا مسز ملک کے ساتھ مل کر اسی کے خاوند کے گھر میں سیندھ لگا کر اس کی گود ہری کر دے۔ اوپر سے اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ڈی این اے کا چکر خاوند کی طرف سے ہے یا مسز ملک کی اپنی طرف سے۔ اگر یہ اس کی اپنی طرف سے ہے تو وہ کیسے دو دو سپیشل بچے پالے گی اور وہ خود کیسے اس عذاب کو مرتے دم تک چھیلے گا۔ مشرق میں لالی جاگی تو وہ سویا۔ آنکھ کھلی تو گھڑی دس بجا چکی تھی۔ تیسرا پریڈ ختم ہونے والا تھا اور اس کے پہنچنے تک چوتھا بھی ختم ہو جانا تھا۔ عجلت سے تیاری کر، وہ بس کے لئے بھاگا۔ نیو کیمپس پہنچ کر اسے کوریڈور میں افشیں نظر آئی جس کا میجر مضمون بیالوجی تھا لیکن انگلش کی کلاس میں وہ اکٹھے تھے۔ اسے دیکھ کر خالد کے دماغ میں اس سے مشورے کا خیال آیا۔ ہم رکاب ہو تے ہوئے اس سے سلام دعا لی اور مشورہ کرنے کا وقت مانگا۔ افشیں نے کلائی پر بندھی گھڑی میں دیکھا اور بولی؛
” میری اگلی کلاس ایک بجے ہے، چلیں کینٹین پر چلتے ہیں، آپ بات کریں۔” خالد کی اپنی کلاس بھی ایک بجے ہی تھی۔ کینٹین تک پہنچتے پہنچتے وہ کہانی گھڑ چکا تھا اور کینٹین سے اٹھنے تک ڈی این اے سے تعلق رکھنے والے بہت سے سوالوں کے جواب اسے مل چکے تھے۔ کلاس میں کیا لیکچر تھا اسے کچھ پتہ نہ چلا۔ اس کے دماغ میں تو ایک جنگ جاری تھی؛ ‘ لنگوٹ کو کسَے رکھے یا اسے ڈھیلا ہونے دے؟ ملک صاحب کے گھر سیندھ لگائے یا نہیں؟ عورت کی بچے کے لئے خواہش مقدم ہے یا کاغذ پر لکھا نکاح نامہ جو تعلق اور بچے کو جائز بناتا ہے؟ فارغ ہونے پر اس نے سہیل کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا کہ وہ شام کو نہیں آ پائے گا۔ وہ پہلے اپنے ذہن میں لگی جنگ کا فیصلہ چاہتا تھا۔ وفاقی کالونی والی دونوں ٹیوشنیں پڑھانے کے دوران ان گھروں کی عورتوں کو تنقیدی نظر سے دیکھا جو بے جھجھک سامنے ہی پھر رہی تھیں لیکن ان کے ہاں ایسی کوئی ابنارمیلیٹی نہیں تھی جس کا سامنا وہ شام سات بجے سے نو بجے تک فیس کر رہا تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے موٹر بائیک لی اور شہر کی سڑکوں پر بلامقصد گھومتا رہا لیکن ذہن تھا کہ اسی کشمکش اور جنگ میں مصروف تھا۔ کبھی ایک پلڑا بھاری ہو جاتا کبھی دوسرا ۔ ساڑھے نو بجے کے قریب وہ گھر لوٹ آیا۔
کھانا کھاتے ہوئے اس نے والد صاحب پر لگی لپٹی کے بغیر سوال داغ دیا؛
” آپ نے چودہ برس کی عمر میں جو مجھے لنگوٹ کو کَسے رکھنے کی نصحیت کی تھی اس کا اصل مقصد کیا تھا۔”
اس کے والد صاحب جنہیں اس تابڑ توڑ حملے کی توقع نہیں تھی، پر ہڑبڑا کر بولے؛
” کیامطلب ہے تمہارا؟”
” میرا مطلب ہے کہ میں عورتوں سے سوچ سمجھ کر رشتہ قائم کروں یا خود کو اس وقت تک ورجِن رکھوں جب تک میری شادی نہیں ہو جاتی؟ ”
“میری نصحیت کا تعلق تمہاری اپنی بات کے پہلے حصے سے ہی ہے، ہاں ایرے غیرے رشتے تمہارے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔” اس کے والد نے ذرا توقف کے بعد سوچ کر جواب دیا ۔ ساتھ ہی سوال بھی جڑ دیا؛ “کیوں کیا ہوا ہے، کسی لڑکی پر تمہارا دل آ گیا ہے یا کسی لڑکی کا تم پر؟ ”
” ایسا کچھ نہیں ہوا، بس یونہی، جب سے یونیورسٹی میں گیا ہوں تب سے اس بارے میں آپ سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔ میرے ساتھ اب لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں، ان میں ہر طبقے اور قماش کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے گھروں میں بھی آنا جانا ہوتا ہے۔” اس نے اصل بات گول ہی رکھی۔
” بس بیٹا اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنی اور پُرکھوں کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے، باقی اب تم خود پڑھے لکھے ہو، بالغ ہو، جو کرنا سوچ سمجھ کر کرنا لیکن کسی کو دغا مت دینا۔ بے عزت نہ کروا دینا کسی لڑکی کو۔ میرا مطلب سمجھ رہے ہو نا۔ ”
“جی، جی میں سمجھ رہا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ”
اس کے والد نے مزید کہا؛ ” تمہاری اپنی ساکھ سب سے مقدم ہے۔” اس نے آخری نوالہ منہ میں رکھا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا؛ ” جی میں اس کا بھی خیال رکھوں گا۔”
اس کی ماں سادہ سی عورت تھی، خاموشی سے سب سنتی رہی اس وقت تو کچھ نہ بولی لیکن صبح باشتہ اس کے سامنے رکھتے وقت بس اتنا بولی؛
” تیری عمر ہی ایسی ہے۔ بس دھیان کرنا کسی لڑکی کی عزت نہ رول دینا، یہ سب سے بڑا پاپ ہے۔ ایسا ہوا تو میں تجھے اپنے دودھ کی دھاریں نہیں بخشوں گی۔”
” ام آں۔ ۔ ۔ آپ فکر نہ کریں، آپ کا بیٹا یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ” یہ سن کر وہ ‘ جیتا رہ پُتر ‘ کہہ کر اس کے والد کے لئے باشتہ بنانے لگیں۔ باپ کے ساتھ ہوئی بات چیت سے ہی ایک معمہ اور حل ہو گیا کہ شادی تک کنوارا رہنا اہم نہیں۔ بات صرف ریتی رواج اور پَرم پَرا کا بھرم رکھنے کی ہے۔ اسے کسی ادب ، فلسفے یا منطق کو تو برتنا ہی نہیں پڑا ۔ وہ دل میں مسکراتا ہوا اولڈ کیمپس کی طرف چل پڑا۔ سارا دن پروز اینڈ کونز پر مزید غور کیا تو دماغی جنگ کا فیصلہ ہو گیا کہ جو رَو میں ہوتا ہے اسے ہونے دو۔ اس شام جب وہ مسز ملک کے ہاں گیا تو کافی مطمٗن تھا۔ مسز ملک اور بچوں نے دہائی ڈالی کہ وہ ایک روز قبل کیوں نہیں آیا تھا۔ مسز ملک نے چائے رکھتے ہوئے سرگوشی کے سے انداز میں کہا؛
” میں تو سمجھی تھی کہ آب نہیں آئیں گے۔ آ گئے ہیں تو مایوس بھی نہ کرئیے گا۔ ” خالد خاموش رہا۔ اس روز وہ نارمل تھیں ڈورے ڈالنے کا کوئی چکر نہ تھا۔ وہ تو مدعا کھل کر کہہ چکی تھیں۔ چلتے سمے مسز ملک دروازہ بند کرنے اس کے پیچھے آئیں اور پوچھا کہ وہ کب رُکے گا ان کے پاس۔
” ایسے کیسے رک سکتا ہوں، بچے ہیں، رات بھر موٹر بائیک نیچے، محلے والے دو دن میں جینا محال کر دیں گے آپ کا۔ ” ” موٹر سائیکل پر نہ آئیں، رکشے پر آئیں جائیں پیسے میں دے دوں گی، رہا سوال بچوں کا، وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں، وہ آپ کو خود ہی ایسا روکیں گے کہ آپ کو جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔” یہ کہہ کر وہ ہنسیں ۔
” اچھا دیکھتے ہیں، مجھے یونیورسٹی کا معاملہ بھی تو دیکھنا ہے۔” وہ یہ کہہ کر سیڑھیاں اتر گیا۔
اگلے روز وہ جب گھر جانے کے لئے اٹھا تو موٹر سائیکل کی چابی غائب تھی۔ سلیم بولا؛ ” ہمارے پاس ہے، ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے، آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں۔” ، بہت بھاوٗ تاوٗ ہوا۔ اس بات پر چابی ملی کہ اگلے روز وہ انہی کے پاس رُکے گا۔ مسز ملک نے بچوں کو ٹھیک ٹھاک ورغلا لیا تھا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر مسز ملک نے اسے پانچ سو کا نوٹ تھماتے ہوئے کہا؛ ” کل رکشے پر آئیے گا۔”
اگلی صبح باشتہ کرتے ہوئے اس نے ماں سے کہا کہ اسے یونیورسٹی میں زیادہ کام ہے، کچھ نوٹس وغیرہ بنانے ہیں، اس لئے وہ رات دوستوں کے ساتھ ہوسٹل میں ہی رہ جائے گا اور اگلے روز گھر آئے گا۔
” اچھا پُتر ، پر دھیان نال روّیں زمانہ بڑا خراب اے ۔”
خالد شام کو چھ بجے کی بس سے اولڈ کیمپس آیا۔ لاہوری گیٹ کے باہر تک پیدل گیا اور وہاں سے سواریوں والے تانگے پر مصری شاہ بازار میں اُس گلی کی نکڑ پر اتر گیا جس میں ملک صاحب کا گھر تھا۔ گھنٹی بجائی تو مسز ملک نے نیچے آ کر خود دروازہ کھولا۔ انہوں نے ہلکے پیازی رنگ کا سلکی سوٹ پہن رکھا تھا اور ہلکا سا میک اپ بھی کیا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر خالد زیر لب مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ خالد نے نو بجے تک بچوں کو پڑھایا پھر ان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا، جو لگتا تھا کہ اس کے لئے خاص طور پر بنایا گیا تھا۔ پھر بولا ؛
” ہاں بھئی بچو میں نے کہاں سونا ہے۔”
سلیم بولا؛ ” ہمارے کمرے میں ہمارے ساتھ، چلیں میں آپ کو لے چلتا ہوں۔”
مسز ملک کے کمرے کے ساتھ جڑے دوسرے کمرے میں بچوں کے بستر بچھے تھے اور ایک کونے میں موٹے میٹرس پر اس کے لئے بستر بچھا ہوا تھا۔ مسز ملک جو ان کے پیچھے پیچھے اندر آ گئیں تھیں یہ کہہ کر مڑ گئیں کہ وہ اکبر کو لے آئیں۔ تھوڑی دیر میں سلیم اور ہارون نیند کی آغوش میں چلے گئے تو مسز ملک نے جو اکبر کو تھپکیاں دے رہی تھیں اسے دیوار کی طرف کروٹ دلائی اور خالد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آئیں جہاں ڈبل بیڈ بچھا ہوا تھا۔ پاس میں دو کرسیاں اور ایک کافی ٹیبل بھی پڑی تھی۔خالد نے ایک کرسی پر بیٹھ کر جوتے اور موزے اتارے اور بستر پر دراز ہو گیا۔ مسز ملک نے لائٹ آف کر، زیرو کا بلب جلا دیا اور خالد کے پہلو میں آ گئیں۔
مسز ملک کے سڈول جسم کا ساتھ لگنا تھا کہ خالد کے جسم میں تناوٗ سا آنے لگا۔ سیکنڈ لگے ہوں گے کہ مسز ملک کے ہونٹ خالد کے ہونٹوں پر تھے، کب ان کی زبان خالد کے منہ میں داخل ہوئی اسے پتہ ہی نہ چلا، کپڑے کب اترے ، عضا کب آپس میں ٹکرائے، مسز ملک نے پکڑ کر کب اسے اندر سمویا اور کب اس کا دماغ بھک سے اڑا، خالد کو کچھ ہوش نہیں تھا۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب اسے لگا کہ کوئی اس پر بیٹھا ہلکورے لے رہا ہے۔ مدہوشی میں کب اور کیسے اس کے جسم کی تنابیں کسی گئیں تھیں اور مسز ملک نے کب اوپر آ کر اسے پھر سے سمو کر ہلارے لینے شروع کر دئیے تھے یہ سب اسے خواب میں ہوتا لگا تھا۔ اپنی تنابوں کا کساوٗ اور ان کے گرد لسوڑوں کی جیسی لیس سے لِبڑے مسز ملک کے جسم کا کساوٗ پھر سے اس کا دماغ بھک سے اڑانے کے درپے تھا ۔ اس سے پہلے کہ اس کا دماغ بھک سے اڑتا مسز ملک کا جسم ذبح کی ہوئی مرغی کی طرح پھڑپھڑایا اور پھر وہ اس پر اس طرح ڈھ گئیں جیسے مرغی قصائی کے ہاتھوں کٹنے کے لئے بیرل میں اپنا آپ چھوڑ دیتی ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا جس کا احساس اسے پہلے ملاپ میں نہیں ہوا تھا، اس وقت تو اسے اپنی ہی ہوش نہیں تھی۔ اس کی اپنی تنابیں ابھی بھی کسی ہوئی تھیں۔ اس نے مسز ملک کو پھینچ کر پلٹی کھائی اور اوپر آ کر فائر کھول دیا۔ کوئی ایک گولی بارود کے ڈھیر سے جا ٹکرائی تو وہ ایسا بھٹا کہ اس کے شعلوں نے اسے سر سے پاوٗں تک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مسز ملک نے اس کی پیٹھ سہلانی شروع کی تو اسے ٹھنڈک کا احساس محسوس ہوا۔ مسز ملک نے آہستگی مگر پیار سے اس کو سائیڈ پر کیا اور واش روم چلی میں چلی گئیں۔
خالد نے انہیں جاتے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ پشت سے بھی بہت سڈول تھیں اور اُن ماڈلز سے کہیں زیادہ حقیقی تھیں جن کے اس پوز کو کئی پینٹرز نے کینوس پر اتارا تھا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ ہلکی سرخ روشنی میں جیتی جاگتی سڈول عورت کو ایسے دیکھنے اور کینوس میں قید ایسے ہی جسم میں کیا فرق ہوتا ہے۔ وہ واپس آئیں تو دُھلی دُھلائی تھیں۔ وہ خالد کے ساتھ یوں چمٹ کر سوئیں جیسے تازہ نہایا بچہ دودھ سے سیر ہو کر ماں کے ساتھ لپٹ کر سوتا ہے۔ خالد کے اندر کہیں مادہ ہارمونز جاگے اور اس نے مسز ملک کے منہ کو ایسے ہی اپنے سینے کے بالوں میں چھپا لیا جیسے ماں بچے کے چہرے کو اپنی چھاتیوں کے درمیان لے لیتی ہے کہ اسے احساس رہے کہ دودھ کے سوتے اس کے منہ کے قریب ہی ہیں۔
یہ سلسلہ وقفوں سے چلتا رہا۔ خالد کو مسز ملک کے بدن کی بھوک کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ ہر بار اس کھیل سے بھرپور لطف تو لیتیں لیکن ان کادھیان اس بات بھی ٹکا رہتا کہ انہیں آنے والی ماہواری ہو گی یا نہیں۔ ایک تو تعلق کے بعد شروع دنوں میں ہی ہو چکی تھی۔ درمیان میں ملک صاحب بھی ایک چکر لگا، خالد کو اکیس سو چھیاسٹھ روپے دے گئے تھے ۔ اس نے یہ مسز ملک کو دینا چاہے تو انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ یہ رکشے کے کرائے کے کام آئیں گے۔ مہینہ ہونے پر جب ماہواری والے دن بھی ٹاپ گئے تو مسز ملک کی خوشی دیکھی نہ جاتی تھی۔ خالد کے ساتھ سونے کا ڈھنگ اب کچھ شربتی اور محبتی سا ہو گیا تھا۔ دس پندرہ دن اور گزرنے پر جب پریگنینسی ٹیسٹ کی رپورٹ پازیٹیو آئی تو مسز ملک کی مسرت روئیں روئیں سے پھوٹی پڑتی تھی۔
ایک روز وہ جب پہنچا تو سلیم اور ہارون گھر نہیں تھے۔ اس کے استفسار پر مسز ملک نے اسے بتایا کہ وہ ہمسایوں میں لڈو دینے گئے ہیں ابھی آ جائیں گے۔
” لڈو کیوں بانٹے ہیں آپ نے۔” جس دن سے ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تھی من میں پھوٹ رہے تھے۔۔۔۔ سو آج بانٹ دئیے۔ پہلے دو آپ کے لئے نکال لئے تھے۔ چائے کے ساتھ دوں گی۔ انہوں نے خالد کی گال کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔ خالد کو پہلی بار لگا جیسے وہ ملک صاحب کی نہیں اس کی بیوی ہوں اور پہلے بچے کی آمد پر خوش ہوں۔ اس رات انہوں نے جی بھر کر پیار کیا۔ خالد بچوں کے جاگنے سے پہلے صبح ساڑھے پانچ، چھ بجے نکل جاتا تھا۔ وہ جب جانے لگا تو مسز ملک نے اسے ایک پیکٹ دیا جس میں لائٹ ویٹ سوٹ کا گہرے نیلے رنگ کا کپڑا اور ہلکے نیلے رنگ کی ایک ریڈی میڈ قمیض تھی۔ نیلا رنگ خالد کا فیورٹ تھا۔ اس نے کالر سائز دیکھا تو وہ اس کے ہی ناپ کا تھا۔ ساتھ چار ہزار روپے بھی تھے۔ خالد نے استہفامیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا تو وہ بولیں؛
” یہ سلائی کے لئے ہیں، میں چاہتی ہوں جب آپ بےبی کو پہلی بار اٹھائیں تو آپ نے یہ قمیض اور سوٹ پہنا ہو۔”
یہ کہہ کر انہوں نے اپنا سر اس کی چھاتی پر رکھ دیا۔ خالد نے ان کے بال سہلائے اور منہ اونچا کرکے بوسہ لیا اور دروازے کی طرف چل دیا۔ مسز ملک تو خوش تھیں ہی خالد کے اندر بھی ایک تبدیلی سی سر اٹھانے لگی۔ وہ خود کو باپ، باپ سا محسوس کرنے لگا تھا۔ بڑی بوڑھیوں کی طرح مسز ملک کو ٹوکنے لگا۔ ایسے نہ بیٹھا کریں۔ فلیٹ جوتے پہنا کریں۔ پیار کرتے سمے بھی وہ گہرائی میں جانے سے گریز کرنے لگا۔ مسز ملک کی پلٹیوں کو بھی وہ دھیما کرنے کی کوشش کرتا بلکہ کوشش کرتا کہ وہ اوپر آئیں ہی نہ۔
چوتھا مہینہ شروع ہوا تو مسز ملک نے اپنے میاں کو بھی بتا دیا کہ وہ حاملہ ہے جس پر وہ خاصے سیخ پا تھے۔ وہ خالد کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر ان سے الجھ رہے تھے کہ وقت پر گروا کیوں نہیں دیا، اکبر ہی نہیں سنبھالا جاتا، اگر ایک اور ایسا آ گیا تو کیا کریں گے۔
” مجھے بھی ابھی لیڈی ڈاکٹر سے پتہ چلا ہے، خود مجھے تو نہ قے آئی بلکہ ایک بار بھی متلی نہ ہوئی۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ اس بار وہ ہم سے ایسا نہیں کرے گا۔ ” مسز ملک دھیمے لہجے میں تاویلیں پیش کرتی رہیں۔
ملک صاحب نے خالد کو بھی اپنی حمایت میں گھیسٹنے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر چپ ہو گیا کہ اب ابارشن والی سٹیج نہیں رہی۔ ملک صاحب دو روز رہے، منہ پھلائے پھرتے رہے۔ مسز ملک ان کی چاپلوسی کرتی رہیں۔ نکلنے تک ان کا موڈ بہتر ہو چکا تھا۔ پشاور سائیڈ سے آئے تھے اس لئے اب رخ کراچی کی طرف تھا۔
مسز ملک کا پیٹ اب ابھرنے لگا تھا۔ خالد اور ان کا راتیں اکھٹے گزارنا جاری تھا اور ایسا پفتے میں دو ایک بار تو ضرور ہو ہی جاتا۔ خالد نے رات نہ رکنا ہوتا اور مسز ملک کا دل زیادہ کرتا تو وہ بچوں کو کسی ہمسایے کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیج کر ایک دو کوئیکز بھی لگا لیتیں۔ خالد البتہ اپنے باپ کی نصحیت میں کسی حد تک ابھی بھی پھنسا ہوا تھا۔ کبھی پہل نہ کرتا۔ ساتویں مہینہ میں الٹرا ساوٗنڈ کی رپورٹ نے واضع کر دیا کہ بےبی گرل ہے اور سب کچھ نارمل ہے۔ مسز ملک کی تو باچھیں کِھلی کی کِھلی رہ گئیں اور انہوں نے سلیم اور ہارون کو بھی کہہ دیا کہ جلد ہی وہ ان کو ایک بہن لا دے گی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ ہر دوسرے چوتھے روز ماں سے پوچھتے کہ وہ انہیں بہن کب لا کر دے رہی ہیں۔
اب خالد اور ان کا راتیں اکٹھی گزارنا کم ہو گیا تھا۔ خالد رکتا بھی تو رات بھر اس کا پیٹ سہلاتا رہتا، کان لگا کر بےبی کی دھک دھک سنتا، مسز ملک پر جسم حاوی ہوتا تو وہ اس کا ہاتھ اپنی ناف سے نیچے کچھ ایسی جگہ رکھ کر اسے مساج کرنے کو کہتیں جس سے وہ کچھ دیر بعد ذبح مرغی کی طرح پھڑپھڑا کر شانت ہو جاتیں۔ خالد کے لئے یہ بات بھی نئی تھی جس کی مکینکس اسے بہت بعد میں سمجھ آئی۔
زچگی کا وقت آیا تو ملک صاحب بھی سب کام چھوڑ بیوی کے سرہانے تھے۔ ساتویں مہینے کی الٹرا ساوٗنڈ کی رپورٹ جان کر وہ بھی خاصے ایکسائیٹڈ تھے۔ خالد سے دو ایک بار ذکر بھی کر چکے تھے کہ فیمیلی مکمل ہونے کا اپنا اطمینان ہوتا ہے۔ جس روز پہلی لیبر پین کا اشارہ ہوا تو خالد وہیں تھا ۔ ملک صاحب نے یہ کہہ کر لاہور میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں جسے وہ اس موقع پر بلا پاتے، خالد کو بچوں کے پاس رہنے کی درخواست کی۔ محلے میں مسز اکرام جن کے ساتھ مسز ملک کی کافی بنتی تھی، وہ اور ملک صاحب انہیں لے کر ہسپتال چلے گئے۔ جاتے سمے مسز ملک اور خالد کی بس آنکھیں ہی چار ہو پائیں۔
اگلے روز گیارہ بجے کے قریب ملک صاحب گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ٹوکرا تھا۔ انہوں نے ایک بالو شاہی خالد اور ایک ایک دونوں بچوں کو تھماتے ہوئے نوید سنائی کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ پھر وہ اکبر کے پاس بہٹھ کر اسے بھی بالو شاہی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کھلانے لگے۔ سلیم اور ہارون بھی بہت خوش تھے اور باپ کے پاس کھڑے بالو شاہی کھاتے ہوئے ضد کر رہے تھے کہ وہ انہیں ماں کے پاس لے جائیں، انہوں نے بہنا دیکھنی ہے۔ جواب میں ملک صاحب انہیں سمجھا رہے تھے کہ وہاں چھوٹے بچے نہیں جا سکتے۔ بس ایک آدھ دن میں ان کی ماں بہنا کو لے کر گھر آ جائیں گی۔ بالو شاہی کھاتے اور ضد کرتے سلیم نے باپ پر ایک سوال بھی داغ دیا کہ وہ بالو شاہیاں کیوں لے کر آئے، ہارون پیدا ہوا تھا تو لڈو بٹے تھے۔ اس پر اانہوں نے جواب دیا کہ رواج ہی یہی ہے کہ بیٹا پیدا ہو تو لڈو بانٹے جاتے ہیں، لڑکی کی دفع کچھ بھی نہیں، میں تو پھر بالو شاہیاں لے آیا ہوں۔
خالد نے ملک صاحب سے جب جانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے چھ بالو شاہیاں شاپر میں ڈال کر اسے دیں کہ گھر لے جائے، ساتھ ہزار کا ایک نوٹ دیا کہ اس سے وہ اپنے لئے کوئی قمیض یا ٹائی وغیرہ خرید لے کہ اس نے رات بھر رک کر ان کے بچوں، خاص طور پر اکبر کا خیال رکھا۔ خالد نے بہت انکار کیا لیکن ملک صاحب کو مُصر دیکھ کر اس نے نوٹ جیب میں رکھ لیا اور یہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اتر گیا کہ اب وہ شام کو نہیں اگلے روز شام کو آئے گا۔ راستہ بھر اس کے اندر بھی کچھ باپ پن سا چھایا رہا۔ ساتھ یہ بھی سوچتا رہا کہ تخم اس کا ہے، بیٹی اس کی ہے لیکن کہلائے گی تو ملک صاحب کی۔۔۔۔ اور یہ کہ وہ ساری عمر تو سلیم اور ہارون کو ٹیوشن نہیں پڑھاتا رہے گا کہ اس کا وہاں روز کا آنا جانا لگا رہے ۔ بہتر نہیں کہ وہ بےبی کو دیکھے بنا ابھی سے کنارہ کر لے۔ لنگوٹ کا کیا ہے ، کہیں اور بھی ڈھیلا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نئی کشمکش تھی جس سے وہ خود کو دوچار پا رہا تھا۔ اگلی شام تک وہ اس کشمکش میں مبتلا رہا۔ یونیورسٹی سے واپس آیا تو یہ سوچ کر کہ دیکھتے ہیں، وقت کا دھارا اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، اس نے نہا کر اُس قمیض اور سوٹ کو پہنا جو مسز ملک نے اسے لے کر دیا تھا۔ موٹر سائیکل کو کِک ماری اور مسز ملک کے ہاں جا پہنچا۔ بیل بجانے پر ملک صاحب نے دروازہ کھولا اور خوش دلی سے اس سے بےبی کے بارے میں باتیں کرتے اوپر آ گئے۔ مسز ملک بےبی گرل کے ہمراہ واپس آ چکیں تھیں اور اپنے کمرے میں تھیں۔ بچے بھی اسی کمرے میں تھے۔ ملک صاحب نے انہیں آواز دی کہ بستے لے آئیں، سر آ گئے ہیں۔ وہ خالد کے پاس ہی ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ بےبی کی باتیں ہوتی رہیں کہ اللہ کا شکر ہے، ڈاکڑوں کے مطابق بےبی نارمل ہے، پیازی سی ہے، خوبصورت بھی لگتی ہے لیکن نہ ماں پر ہے نہ مجھ پر، پتہ نہیں کس پر گئی ہے۔ ملک صاحب واجبی سے تھے۔ پھر بولے میں تو ایویں سا ہوں، شاید دادی پر نکلے، وہ خوش شکل تھیں۔ اِس اثنا میں بچے بستے تو لے آئے اور میز پر رکھ بھی دئیے لیکن پڑھنے کے لئے بیٹھنے کی بجائے خالد کو کہنے لگے کہ آئیں پہلے ہماری بہنا دیکھیں۔ سلیم ایک طرف اور ہارون دوسری طرف سے اسے کھینچ رہا تھا۔ خالد نے ملک صاحب کی طرف دیکھا جیسے اُن کے بیڈ روم میں جانے کی اجازت مانگ رہا ہو۔ ملک صاحب سمجھ گئے، بولے؛
” ہاں ہاں جاوٗ دیکھ آوٗ اور غور سے دیکھنا کہ ماں پر ہے یا مجھ سے بھی کوئی نین نقش لیا ہے۔”
بچے اسی طرح اس کے ہاتھ تھامے اسے ماں کے پاس لے گئے۔ مسز ملک بستر پر لیٹی ہوئی تھیں اور بےبی گرل ساتھ پڑی کوّٹ میں سوئی، نیند میں منہ بسور رہی تھی۔ کمرے میں مسز اکرام بھی تھیں جو خالد کو دیکھ کر ذرا سمٹ کر بیٹھ گئیں اور اپنے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے اسے سلام کیا۔ خالد کو دیکھ کر مسز ملک مسکرائیں اور تکیے کے سہارے تھوڑی سی اونچی ہو کر پلنگ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔
” کیسی ہیں آپ ؟ اور یہ کوّٹ کب آئی، پرسوں تک تو نہیں تھی۔ ”
” یہ ملک صاحب آج میرے گھر آنے سے پہلے ہی ‘ ممی اینڈ ممی سے لے کر آئے ہیں۔ نزدیک آئیں نا اور بےبی کو دیکھیں کتنی کیوٹ ہے۔ ”
خالد کوٹ کے پاس گیا اور چھک کر بےبی کو دیکھنے لگا۔ مسز ملک نے سرگوشی میں کہا؛ ” بالکل آپ پر ہے۔”
جھالروں والے مُنے سے گلابی بستر پر وہ سوئی ہوئی پیازی سی گڑیا لگ رہی تھی۔
” ماشا اللہ بہت کیوٹ ہے۔ ” خالد اتنا ہی کہہ سکا۔
“بس کیوٹ ہے ، نین نقش تو دیکھیں ذرا اس کے، پری لگ رہی ہے۔ گود میں اٹھا کر دیکھیں پھر صحیح نظر آئے گی آپ کو۔ ” مسز ملک بولیں، بچے بھی اصرار کرنے لگے، خود اس کا اپنا دل بھی اسے اٹھانے کو کر رہا تھا لیکن یہ کہتے ہوئے اس نے بےبی کو اٹھا ہی لیا کہ اسے اتنے چھوٹے بچے کو اٹھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اٹھانے پر بےبی کسمسائی اور پھر نیند میں کھو گئی۔ وہ اور تو کچھ نوٹ نہیں کر پایا البتہ اسے اس کی آنکھیں بڑی لگیں جو کسی طور نہ ماں پر تھیں اور نہ ملک صاحب پر۔ اس کی اپنی آنکھیں البتہ بڑی تھیں۔ اس نے باری باری اس کے منے سے ہاتھوں کو غور سے دیکھا تو حیران ہوا کہ اس کی انگلیاں اس کے اپنی انگلیوں جیسی لمبی تھیں اور ناخنوں کی شیپ بھی ویسی ہی تھی۔ اس نے اس کی گالوں پر آہستگی سے بوسے لئے اور یہ کہتے ہوئے اسے واپس کوّٹ میں لٹا دیا کہ اتنے چھوٹے بچے کئی رنگ بدلتے ہیں ۔ یہ کس پر نکلے گی اس کا صیحیح اندازہ کچھ عرصے بعد چلے گا۔ ساتھ پانچ سو کا ایک نوٹ بھی کوّٹ میں رکھ دیا۔ مسز اکرام اس کی اس بات پر مسکرا کر بولیں؛
“بات تو آپ نے ایسے پتے کی، کی ہے جیسے آپ خود دو تین بچوں کے باپ ہوں۔
خالد نے جواباً ہنس کر کہا؛ ” خود تو پیدا نہیں کئے ابھی لیکن بڑی بہنوں اور بھائی کے بچوں کو تو رنگ اور شکلیں بدلتے دیکھا ہے۔ ”
پھر وہ مسز ملک کو مبارک دیتے ہوئے باہر نکل آیا، اس کے کانوں میں مسز اکرام کی آواز آ رہی تھی؛ ” تمہارے بچوں کا ماسٹر ہے تو خود بھی بچہ سا لیکن نظر کا تیز ہے۔”
” جس طرح بچوں کو اس نے پڑھائی کی ڈگر پر ڈالا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ وہ لائق بھی بہت ہے۔ میں تو انہی سے پوچھ کر اپنی گڑیا کا نام رکھوں گی۔ ” یہ مسز ملک کی آواز تھی ۔ ملک صاحب دو تین روز بعد اپنی روزی روٹی کے چکر میں نکل پڑے۔ جانے سے پہلے البتہ بےبی کا نام ‘ماہ جبیں’ فائنل ہو گیا جو خالد کا ہی تجویز کردہ تھا اور مسز ملک اب کیوٹو کو لئے ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھنے لگیں۔ سلیم اور ہارون بےبی کو کیوٹ سے ‘کیوٹو’ بنا دیا تھا ۔ خالد بھی کیوٹو کو گود لے کر کِھلانے لگا۔ جیسے ہی وہ اسے گود میں لیتا کیوٹو کے چہرے پر مسکان سی آ جاتی۔ ایک بار کیوٹو کے رونے پر جب ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھے بیٹھے مسز ملک نے اپنا گریبان کھول کر ایک چھاتی اس کے منہ میں دی تو خالد کو وہ نارمل سائز سے ڈبل سی لگی۔ لگتا تھا کہ دودھ بھر کر اترا تھا۔ اس سے نہ رہا گیا وہ ان سے پوچھ ہی بیٹھا؛
” دودھ بھی بھر کر اترا لگتا ہے۔” ایسے میں بچی نے دودھ چھوڑ مڑ کر خالد کو ایک نظر دیکھا اور پھر سے دودھ پینے لگی۔ وہ جھینپ کر صرف ‘ جی ‘ ہی کہہ سکیں۔
اس کے بعد سے انہوں نے
Be First to Comment