Skip to content

اداکار

عالمی افسانہ میلہ 2020

افسانہ نمبر 3

اداکار

محمد نعمان ہاشمی

گوجرانوالہ ، پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے پھولو ں پر محبت بھری نگاہ ڈالی ۔ ۔ ۔ ایک تازہ اور خوبصورت کلی کا انتخاب کیا اور گھر کو چل دیا ۔ ۔ ۔ سارے راستے وہ لفظوں کا چناؤ کرتا رہا ۔ ۔ ۔ بالکل ایسے جیسے اس نے پھولو ں کی دکان سے کلی منتخب کی تھی ۔ ۔ ۔ ایک ایک لفظ خاص اور خوبصورت ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔

میں آج اپنی محبت کا اظہار کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے خود کلامی کی اور اس کا سارا وجود محبت کی لہر سے جھوم اٹھا ۔ ۔ ۔

رات دس بجے گھر پہنچا اور پھر بارہ بجے تک کچن میں مگن ہو گیا ۔ ۔ ۔ اسے خاص موقعوں کو مزید خاص بنانا آتا تھا ۔ ۔ اسی لئے آج وہ دونوں کے لئے رات کا کھانا خود تیار کررہا تھا ۔ ۔ ۔ جبکہ ماہ نور کمرے میں اس کے لئے تیار ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔

“جناب والا ۔ ۔ ۔ اگر آپ چاہیں تو میری مدد لے سکتے ہیں ۔ ۔ میرے ہاتھ لگنے سے آپکے کھانے کا ذائقہ کم نہیں ہو گا”‘ ۔ نور نے اندر سے آواز دی ۔ ۔

محترمہ آپ اپنی تیاری کریں میں اپنی تیاری کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور دیکھتے ہیں آج کونسا ذائقہ بہتر بنتا ہے ۔ ۔ میرے ہاتھ کا۔ ۔ ۔ یا ۔۔۔۔ آپکے ہونٹوں کا ۔ ۔ ۔

اس نے کچن سے جواب دیا اور نور شرما کر ہنس پڑی ۔ ۔ ۔

آپ کے ہاتھ کا ذائقہ جیت جائے گا ۔ ۔ ۔ کمرے سے آواز آئی۔۔

اتنی جلدی شکست تسلیم نہیں کرتے۔ حوصلہ رکھو ۔ ۔ محنت کرو ۔ اور خوب تیاری کرو ۔ ۔ بارہ بجے ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ پھر دیکھتے ہیں۔۔

جو حکم جناب۔۔۔۔ اند ر سے جواب آیا۔۔۔

اس نے کھانا بنایا اور پھر ٹیبل پہ خوبصورتی سے سجا دیا ۔ ۔ ۔ ٹیبل کے درمیان کینڈل سٹینڈ پر گلابی موم بتی جلائی اور بارہ بجنے کا انتظار کرنے لگا ۔ ۔ ۔

وقت مقرر سے پانچ منٹ پہلے وہ نور کو کمرے سے لینے گیا ۔ ۔ ۔ کمرے میں داخل ہوتی ہی اسے لگا جیسے پورا کمرا اسکی خوشبو سے معطر ہو۔ ۔ اسکی جانب سے تحفے میں دی گئی کالی ساڑھی زیب تن کئے وہ شیشے کے سامنے کھڑی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ اس نے آئینے میں دونوں کا عکس دیکھا ۔ ۔ ۔ اور بے اختیار کہہ اٹھا ۔ ۔ ۔

تمہارا ذائقہ آج جیت جائے گا ۔ ۔ ۔

نور شرما تے ہوئے مسکرائی ۔ ۔ ۔ اور بولی ۔ ۔ ۔

محترم جناب رومان صاحب ۔ ۔ اتنی جلدی شکست تسلیم نہ کیجئے ۔ اپنی محنت پر یقین رکھئے۔۔۔ آپکی محنت کا ذائقہ چکھنا ابھی باقی ہے ۔ ۔ ۔

پہلے یہ ذائقہ نہ چکھ لیں ۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے وہ اس کی طرف لپکا ۔ ۔ ۔ جسے نور نے اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر روک دیا ۔ ۔ ۔ اور کلاک کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ بارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھے ۔ ۔ ۔ دونوں مسکرائے اور دوسرے کمرے کی طرف چل دئیے ۔ ۔

خوشبو بتا رہی ہے کہ کھانے لذیذ ہیں ۔ ۔ ۔ نور نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا ۔ ۔ ۔

اسے میں اپنی کامیابی سمجھوں ؟۔ اس نے نور کے لئے کرسی پیچھے کر کے اس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ۔

جی اب ایسی بھی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ہمیں بھی اپنے آپ پر پورا مان ہے ۔ ۔ ۔

اس نے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہا اور رومان کا دل پورے زورسے دھڑکا ۔ ۔ ۔ ایسے حملے نہیں کرتے ۔ ۔ اور وہ بھی اچانک سے ۔ ۔ کمزور دل کے لوگ ہیں کہیں نقصان ہی نہ کر بیٹھیں ۔ ۔ ۔

ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ بس اتنی جلدی دل ہتھیلی پہ آ گیا ۔ ابھی تو بہت امتحان لینے ہیں اس دل سے ۔ ۔ ۔ اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا اور دونوں ہنس دیئے ۔ ۔ اچھا چلیں کیک کاٹتے ہیں ۔ بارہ بج گئے ہیں ۔ ۔ نور نے دوبارہ یاد دلایا ۔ ۔

شادی کہ پہلی سالگرہ مبارک ہو ۔ ۔ ۔ رومان نے کیک کاٹتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔

آپکو بھی شادی کی پہلی سالگرہ بہت مبارک ہو ۔ ۔ ۔

کیک کھلاتے ہوئے اس کی انگلیوں نے ہونٹوں کو چھوا اور جھوٹے کیک کا ذائقہ مزید میٹھا ہو گیا ۔ ۔ ۔

کھانا انتہائی لذیذ تھا ۔ ۔ ۔ ایک ایک چیز رومان نے دل سے بنائی تھی ۔ ۔ ۔ اور زبان پہ پہنچتے ہی دل واہ واہ کرنے لگتا تھا ۔ ۔ ۔ تکہ بریانی ہو چکن دابو یا پھر کباب ۔ ۔ ۔ ہر چیز داد طلب تھی ۔ ۔ ۔ ۔ نور نے دل کھول کر داد دی ۔ ۔ ۔ ایک ایک نوالے سے دونوں بھرپور لطف اندوز ہوئے ۔ ۔ ۔ دونوں ایک ساتھ ہنستے تو موم بتی کو اپنی لو دھیمی کرنی پڑتی کہ کمرے میں روشنی زیادہ نہ ہو ۔ ایک دوسرے سے آنکھیں ملتیں تو نوالے منہ کے پاس ہی رک جاتے۔۔ ۔

رومان صاحب خالی کھانے سے کام نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ کوئی تحفہ بھی تو ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔ کہیں بھول تو نہیں گئے ۔ ۔ ۔ بھلکڑ ہے تو نہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ تو لائے ہوں گے۔۔۔

گٖفٹ تو نہیں لایا میں ۔ ۔ ۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔

اچھا تو پھر ۔ ۔ ۔ کیا بس کھانے پہ ہی گزارا کرنا پڑے گا؟ ویسے اتنا برا بھی نہیں ہے گزارا کرنا بھی پڑا تو ہو جائے گا ۔ ۔

میں تو اتنے دنوں سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ آپ نے نہ جانے کیا سرپرائز تیار کر رکھا ہو گا ۔ دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔۔۔ ایک ہفتے سے تو تجسس کے مارے آپکے دراز کئی بار کھول کر دیکھ لئے۔۔۔لیکن چلو خیر۔۔ اس نے کندھے اچکائے۔۔ اور رومان صرف مسکرا دیا۔۔۔

۔ ۔ ویسے ایسا ہو نہیں سکتا کہ آج سرپرائز نہ ہو ۔ ۔ ۔ نور توقف کے بعد دوبارہ بولی۔ ۔ ۔

نہیں ا ٓج کوئی سرپرائز نہیں ہے ۔ ۔ ۔ نہ ہی کوئی تحفہ لایا ہوں ۔ ۔ اور سمجھو کہ یہی سرپرائز ہے۔۔۔ ۔

اپنی آواز میں گانا ہی سنا دیں ۔ ۔ ۔ دیکھیں اب اتنے بھی بورنگ نہ بنیں ۔ ۔ ۔ تحفے کے بغیر چلو گزارا ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ لیکن گانا تو میں سنوں گی آپ سے ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی دل دیاں گلاں ۔ ۔ ۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں فرمائش کی ۔ ۔ ۔

رومان یہ گانا بڑی محبت سے گاتا تھا ۔ ۔ ۔ اسکی آواز اور روح میں سُر تھے ۔ ۔ ۔ مگر آج اس کا گانے کا بالکل موڈ نہیں تھا ۔ ۔ ۔

نور ۔ ۔ ۔ آج نہ کوئی تحفہ ہے ۔ ۔ ۔ نہ سرپرائز ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی گانا سنانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں ۔ ۔ ۔

کہانی۔۔!؟؟؟۔۔۔۔ یہ داستاں گو کب سے بن گئے آپ ۔ ۔ ۔ صبح تو اچھے بھلے گئے تھے ۔ ۔ ۔ دن میں کیا ہو گیا آپکو؟؟ کہیں کوئی نئی محفل تو آباد نہیں کر لی؟ نور نے فورا روائتی بیوی کی طرح پینترا بدلا۔۔۔;

آج تو کچھ نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ ہاں پچھلے ایک سال میں بہت کچھ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ اور جو کچھ بھی ہوا ہے ۔ ۔ ۔ وہ آج کے دن ہی شروع ہوا تھا ۔ ۔ ۔

کیا مطلب ۔ ۔ ۔ کیا ہوا تھا ۔ ۔ ؟؟؟۔۔۔۔میں سمجھی نہیں ۔ ۔ ۔

آج کے دن ہماری شادی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

لو جی ۔ ۔ ۔ تو یہ جو ہم تب سے کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ آج کے دن ہماری شادی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔

نور یہ صرف شادی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ یہ اک امتحان تھا ہمارے لئے ۔ ۔ ۔ ہم ایک دوسرے کے لئے انجان تھے ۔ ۔ ۔ پھر ایسے اچانک بیاہ دئیے گئے ۔ ۔ اور ایک دوسرے کو سونپ دئے گئے ۔ ۔ ۔ مجھے لگتا تھا میں آوارہ مزاج انسان کسی کے بس میں نہیں آ سکتا ۔ ۔ ۔ شادی کے نام پہ بھاگنے والا ایک ڈور سے باندھ دیا گیا ۔ ۔۔ سدا کا محبت کو ترسا ہوا ایک تنہائی پسند، خاموش طبع، اجاڑ حال شخص ایک انجان کے پلے باندھ دیا گیا تھا ۔ عجیب بات تھی ۔ ۔ ۔ تم نے جسے کبھی دیکھا تک نہیں تھا اس کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے قول لے لئے گئے ۔ قبول قبول کہتے ہوئے میرے ہونٹ اور دل دیر تک آپس میں الجھتے رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار تمہارا ہاتھ تھام کر تمہیں اسٹیج پر چڑھایا تھا ۔ تب میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔ ۔ ۔ ۔ اور اسکے بعد ۔ ۔ ۔ تم نے اس ہاتھ کو اس قدر احسن طریقے سے سنبھالا کہ رات کو دیر تک دوستوں کی محفل میں سگریٹ سلگانے والا شام ڈھلتے ہی گھر آنے لگا ۔ بکھرے بالوں والا بے ترتیب شخص ٹائی لگا کر آفس جانے لگا ۔ میں شروع شروع میں گھر آنے سے کتراتا تھا ۔ ۔ ۔ مجھے عجیب وحشت ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ تمہارا وجود اس گھر میں کہ جس میں ، میں دو سال سے اکیلا رہ رہا تھا غیر مانوس لگتا تھا ۔ تنہائی میرے وجود کا حصہ بن چکی تھی۔۔۔ گھر آ کر ہمیشہ اپنے کمرے میں خاموش لیٹے والے کو بولنا پڑتا تھا ۔ ۔ ۔ بہت عجیب لگتا تھا ۔ ۔ ۔ پھر آہستہ آہستہ۔ دوستوں کی محفل چھوڑ کر صرف اس لئے واپس آتا کہ تم گھر اکیلی ہو ۔ تم پہ ترس آتا تھا کہ تمہارا کیا قصور ہے۔۔۔ ۔ ۔ لیکن پھر وقت بدلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے گھر ۔ ۔ ۔ گھر لگنے لگا ۔ ۔ مجھے ان کہی محبت ملنے لگی چاہے اس کی سوہ نہیں تھی جومیں چاہتا تھا۔۔۔

تم نے پہلے دن سے آج تک مجھے کوئی گلہ، کوئی شکوہ کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ ۔ ۔ صبح آفس جانے سے پہلے ناشتے سمیت میرا سب کچھ ترتیب سے ملنے لگا ۔ ۔ ۔ اور اس ترتیب میں تمہارے ہوتے ہوئے کبھی بے ترتیبی نہیں آئی ۔ ۔ ۔ ۔ آفس سے واپس آتے گھر کے راستے سے بھاگنے والا سیدھا تمہاری آغوش میں آنے لگا ۔ ۔ ۔ تمہاری گود میں سر رکھ کر لیٹنے سے مجھے سکون ملنے لگا ۔ ۔ ۔ میری تھکاوٹ منٹوں میں دور ہو جاتی تھی ۔ ۔ ۔ گھر میں ہر چیز امی کے جانے کے بعد پہلی بار سلیقے سے سجی دکھائی دی ۔ تم نے ایش ٹرے کہ جگہ گلدان سجائے۔ آہستہ آہستہ ہمارے درمیان جھجھک دور ہوتی گئی ۔ ۔ ۔ مگر بے تکلفی میں بھی تم نے کبھی میرے مرتبے میں کمی نہیں آنے دی ۔ ۔ ۔

مجھے دھیرے دھیرے احساس ہونے لگا کہ کہانیوں میں لکھی محبت اور حقیقت میں ، کی گئی محبت بہت مختلف ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ خیالی محبوبہ اور حقیقی محبوبہ میں فرق ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ فرق سمجھتے مجھے بہت وقت لگ گیا ۔ ۔ ۔ لیکن میں یہ فرق جان گیا ہوں ۔ ۔ ۔ میرے دل میں بسی کسی کی محبت اور اسکی یادیں تمہاری محبت کے سامنے ڈھیر ہو گئیں ۔ ۔ ۔ اور مجھے تم سے محبت ہونے لگی ۔ ۔ ۔

اس نے کوٹ کی اندرونی جیب سے پھول نکالا اور گٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے پھول پیش کرتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔

میں ا ٓج اس خوبصورت شام میں تمہارے رو برو بیٹھے یہ اقرار کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ کہ قلب رو مان آج سے صرف تم سے محبت کرے گا ۔ ۔ ۔

میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں نور ۔ ۔ ۔ اور تم میری ساری محبت کی حقدار ہو ۔ ۔ ۔

محبت کا اظہار کرتے فر ط جذبات میں اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔ ۔ ۔ ۔

نور نے اس سے کلی پکڑی اور زور سے گلے لگا لیا ۔ ۔ ۔

“میں تو بن پوچھے بیاہی گئی تھی ۔ ۔ ۔ قبول کہتے ہوئے ایک لکھی ہوئی کہانی مجھے جہیز میں سونپ دی گئی۔

رومان ۔ ! ۔۔ سچ کہوں تو میں صرف پُرکھوں کی لکھی اُس کہانی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوں۔مجھے جیسا سمجھایا گیا تھا میں صرف ویسا کرتی رہی ہوں۔۔ کہ کردار کو کہانی پہ انگلی اٹھانے کا اختیار نہیں ہوتا ۔ اس لئے تم سے نہ کبھی کوئی گلہ کیا۔۔ اور نہ خواہش کا اظہار۔ ۔”

اس کردار میں مجھے صرف ایک چیز دلچسپ لگتی تھی اور وہ یہ کہ۔ مجھے تم میں اس کی جھلک نظر آتی تھی ۔ میں نے ہر وہ کام کیا جو اُسے پسند تھا ۔ ۔ ۔ ۔ شائد ہر مرد کی پسند ایک جیسی ہوتی ہے ۔ اسی لئے تمہیں یہ سب پسند آ گیا ۔ لیکن رومان ۔۔۔ یہ دل ہمیشہ اسی کا تھا ۔ ہے ۔ ۔ اور رہے گا ۔ ۔ یہ کبھی تم سے محبت نہیں کر سکے گا۔۔ ۔ “

اس کے اندر جواب گونجامگر لفظ زبان کی بجائے صرف آنکھوں سے ادا ہوئے۔۔۔ کہ زبان کو اس کی اجازت نہیں تھی۔۔۔

اور زبان صرف اُتنا بول سکی۔۔ جتنا اِسے بولنے کے لئے کہا گیا تھا۔۔۔

“’رومان میں ہمیشہ اس سے بہتر اور اچھی بیوی بننے کی کوشش کرتی رہوں ۔۔‘”

اک دوسرے کے گرد بازووں کا حصار مضبوط ہوا ۔ ۔ ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ ۔اور ۔موم بتی کی لو بجھا دی گئی۔۔۔

Published inعالمی افسانہ فورمنعمان ہاشمی

Comments are closed.