عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر14
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہر آرزو
ایس اے عمران نقوی
بہاول نگر ۔ پاکستان
” ابھی آئی” ۔۔۔۔۔!
کچن سے اُڑتی ہوئی آواز نکلی اور میر ے کانوں کے پردے پر آبیٹھی ۔میری مبہوتی نظر ابھی تک اس کے پنجے پر ہی اٹکی تھی۔ تلاش کے سبھی راستے تو مسدود ہوچکے تھے۔ مگر متشکک سوچیں ابھی تک وہم کی راہ داریوں سے نہیں پلٹی تھیں۔
میں پرندوں کی چوں چکار میں صبح معمول کے مطابق بیدار ہوا تھا۔ میرا پہلا کام ان کو دانہ پانی دینا تھا۔ سو اس غرض سے میں اپنے گھر کے پچھلے حصے میں گیا ۔ جہاں ان کے پنجر ے ، ڈربے اور باکس رکھے تھے۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا خوش گوار تاثر دے رہی تھی ۔ میں پہلے کوکٹیل کے پنجرے کے پاس گیا ۔ کچھ دیر انہیں چہکتا ، پُھدکتا اور پرواز بھرتے دیکھتا رہا۔ پھر سورج مکھی کے بیج اُٹھائے اور ان کے برتن میں ڈال دئیے، پانی رکھا اور کھڑکی بند کردی ۔ پھر روزیلہ ، لوبرڈ اور فیشر کو مکئی کے بھٹے ، باجرہ اور پانی دیا اور اسٹریلین طوطوں کو باجرہ اور کنگنی ڈال کر فرنچ چڑیوں اور البینو کو اُن کا رزق ان کی دہلیز پر رکھتے سمے فاختہ کے پنجرے کی جانب بڑھا ، یہ کیا ؟۔۔۔۔۔
حیرت ۔۔۔۔۔تشویش۔۔۔۔۔ اور پریشانی کے کئی رنگ چہر ے پر آئے ، گئے، فاختہ پنجرے میں نہیں تھی اور کھڑکی کھلی تھی۔
“یہ کھڑکی کس نے کھول دی “؟ میں چلایا ۔جلدی سے تمام پنجروں کے آس پاس اوپر نیچے جھانک آیا۔ فاختہ نہیں تھی۔
“اس پنجر ے کی کھڑکی کس نے کھولی ؟ “میں قدرِ اونچا چیخا ۔بیگم تیز ی سے میری آواز کی سمت دوڑی ۔
“کس پنجرے کی ؟” وہ میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور خالی پنجرے کو تجسس بھری نظروں سے دیکھنے لگی
“یہ پنجرہ تو روز خالی ہوتا ہے” وہ بولی۔
” ہاں! مگر میں نے رات ہی اس میں فاختہ کو منتقل کیا تھا” مگر فاختہ تو اس آسٹریلین کے پنجرے میں نہیں تھی؟ اس نے پھر پوچھا ۔
” یار تھی تو اس میں ہی” میں نے نیم وحشت میں کہا ۔” آسٹریلین طوطوں نے اس کو مار مار کر زخمی کر دیا تھاتو میں نے رات ہی اس کو نکال کر الگ کردیا تھا” وہ بھی حیران تھی کہنے لگی
” ہوسکتا ہے آپ اس کی کھڑکی بند کرنا بھول گئے ہوں ”
پھر وہ میرے ساتھ گھر بھر میں اس کو ڈھونڈتی پھری ۔ پاس پڑوس کی دیواروں ، کوٹھوں ، صحنوں میں بھی جھانکا۔ پر ندارد۔
میں نے دو گھونٹ چائے کے حلق میں اُتارے اور دفتر روانہ ہونے لگا ۔
فاختہ کہا ں جاسکتی ہے؟ میرا زہن شکوک و وہم سے بھرے سوالات جنم دینے لگا۔
ہوسکتا ہے میں واقعی کھڑکی بند کرنا بھول گیا۔۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔۔ شاہد ۔۔۔۔۔بند کردی ہوگی ، کوئی پرند چور لے گیا ہوگا۔۔۔۔۔ مگر فاختہ ہی کیوں؟۔۔۔۔۔ دیگر کیوں نہیں ۔۔۔۔۔
مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ جب اس کو نکالا تو اس کے پچھلے پنجے کاناخن اسٹریلین نوچ چکے تھے۔ یہ سر نہوڑے پانی کے پیالے پر بیٹھی تھی۔ تب اس کو الگ کر کے پنجرے کی کھڑکی اچھی طرح بند کردی تھی۔۔۔۔۔ پھر کھلی کیسے ؟ ۔۔۔۔۔
عون بھی ابھی چھوٹا ہے۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے مجھے لگا ہوکہ کھڑکی بند ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ نہ بند ہوئی ہو۔۔۔۔۔
میں نے اپنا سر کھجاتے چاروں اور دیکھا۔ ٹریفک سے بھری سڑک پر سناٹا گونج رہا تھا ۔ گاڑیاں ساکت ۔ لوگ موٹرسا ئیکلوں ، سائیکلوں ، سکول کے بچے ، کاروں ، رکشوں میں تاثراتی چہرے لئے بُت بنے بیٹھے تھے۔ ہر شے ٹھہری ہوئی تھی۔ بندے بھی موٹروں کے انجن بھی ۔
ایک کوا زمین کی جانب حالت پرواز میں معلق تھا۔ پا پیادہ مجسمہ تھے ۔ جیسے ایک آواز آئی ہو۔۔۔۔۔
سٹاپ !۔۔۔۔۔اور پوراشہر ساکت و جامد۔۔۔۔۔ مجھے یو ں لگا جیسے میں سوئے ہوئے محل میں آگیا ۔۔۔۔۔ میں سہم گیا ۔ حیرت و ہیبت میں گنگ ۔۔۔۔۔ تیز تیز قدم اُٹھاتا دفتر پہنچا۔
“سوری ! مجھے دفتر آنے میں دیر ہوگئی، میری فاختہ کہیں گم ہوگئی تھی، میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا” میں نے جلدی سے اپنی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے کہا ۔ پر کس سے ؟۔۔۔۔۔میرا مخاطب کون تھا؟۔۔۔۔۔یہاں تو سب ایک دم مصروف ۔۔۔۔۔ گھڑی کی سوئی کی طرح متحرک ۔
میں نے ٹیبل پر پڑی ایک گرد آلود فائل اُٹھائی ، اُسے جھاڑا اور ٹیبل کی دراز میں رکھ دیا۔ جانے یہ کس کا پرندہ تھا جسے پنجرے میں تاڑ دیا ۔ میں پھر کسی سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔یا نہیں ۔ کوئی میرے پاس آیا ، یا نہیں۔۔۔۔۔ میں اپنے حواس بھی ان گنت الماریوں میں پڑی بے شمار فائلوں کی طرح کسی الماری میں رکھ کر بھول گیا۔
ایک گھوڑا میری آنکھوں کی پھیلی ہوئی پتلیوں سے سرپٹ دوڑتا ، گرد کے بادل اُڑاتا گزر گیا ۔ میں نے عجلت میں ایک درخواست لکھی اور اپنے افسر کے ٹیبل پر چھوڑ دی ۔ واپس اپنی کرسی پر بیٹھا تو ٹیبل کی دراز میں کچھ پھڑپھڑاہٹ ہوئی ۔۔ پھر ہر فائل خود باخود کھلی اور کاغذات پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہوا میں اُڑنے لگے ، کمرہ اُڑتے کاغذات سے بھر گیا ۔ ٹائپسٹ کچھ ٹائپ کررہا تھا ، میں نے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کی پوروں سے خون بہہ رہا تھا۔ ناخن سُرخ ۔۔۔۔۔وہ بڑی سرت سے ٹائپ کئے جارہا تھا۔جو کاغذ بھی ٹائپ رائٹر کے پنجرے سے نکلتا ، اُڑ جاتا ۔۔۔۔۔کاغذات اُڑچکے تو۔۔۔۔۔ الفاظ اُڑنے لگے ۔۔۔۔۔ میں بھا گا۔۔۔۔۔ بے تہاشا بھاگا۔۔۔۔۔ گھر پہنچا ۔بیگم سے کچھ بات نہ کی ۔ میرا چہرہ دیکھ کروہ اور پریشان ہوگئی ۔اس نے کئی سوال داغے ، میں چپ رہا۔ بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ پھر صبح تک کوئی قابل ذکر واقعہ نہ ہوا۔
میں اگلے دن ایک شکاری کے ساتھ شہر کے مضافات میں نکل گیا۔ وہ بہت باتونی تھا۔ اس نے اپنے شکار نامے بیان کیے کہ کس طرح اس نے غلیل سے شکار شروع کیا۔ ایک نشانہ باندھتا اور اُڑتا پرندہ چکرا کر گر پڑتا۔ اس نے کئی مرغابیاں ، بولے ، دوسہیڑ ، فاختائیں اور تلیر جیسے کئی پرندے اپنی چرب زبانی سے شکار کر ڈالے ۔ اس نے مجھے بتا یا کہ ملک نہر کے پاس درختوں کے جھنڈ میں فاختہ مل جائے گی۔ بہت ڈھونڈا پر نہ ملی ۔ کسی نے کہا کہ فاختہ کا ایک جوڑا کچھ دن پہلے تک اسی علاقے میں تھا اب معلوم نہیں وہ شکار ہو گیا یا ہجرت کرگیا ۔ مایوسی نے اپنے بال کھولے اور دھمال ڈالی ۔
میں پھر وائلڈ لائف پارک چلا گیا ۔ ان کے آفیسر سے ملا ۔ اسے بتا یا کہ مجھے ایک فاختہ چاہیے ۔ میری فاختہ کہیں کھو گئی ہے۔ اس کا ہونا اپنے گھر ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کی آنکھیں مسکرائیں ، میں بولتا گیا “اُس کی آواز میں سحر ہے ، دل کشی ہے ، مجذوبیت ہے”۔
وہ یہ سن کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔منہ میں کچھ بڑبڑایا ۔ پھر کھلکھلا کر ہنسا ، معلوم نہیں کیوں؟ ۔۔۔۔۔ اس نے پھر اپنا موبائل نکالا ۔ بٹنوں سے کھیلا ۔ زیر لب مسکرایا ۔ پھر موبائل جیب میں رکھ لیا ۔ کچھ دیر خاموشی گویا رہی ۔ پھر ایک شخص آیا اور مجھے اپنے ساتھ پارک کے پرندے دکھانے لے گیا ۔ اس نے کئی نایا ب نسل کے ملکی و غیر ملکی پرندے دکھائے۔ تذبذب بڑھا تو میں نے پوچھا !
“فاختہ کا بھی کو ئی پنجرہ ہے؟ ”
وہ بھی یہ سن کر ہنس پڑا ۔ اب پرندوں کی چہکار بھی مجھے خود پر قہقہے لگے ۔ خاموشی خودرو جھاڑیو ں کی طرح اُگتی گئی۔ گیٹ تک آتے آتے اس نے میرے کان کے قریب آکر کہا اور منہ لٹکا لیا ۔
“فاختہ شہر بھر میں نہیں ہے”۔
چپ کا سانپ میرے ہونٹوں پر رینگ گیا ۔
اس مخمصے اور اضطراری کامرض مجھے کچھ دنوں تک شدت سے رہا ۔ پھر زرا کمی محسوس ہوئی لیکن طبیعت معمول پر نہ آسکی۔
خود کو دیوانہ وار جنگلوں میں بھاگتے ہوئے پاتا ۔ چڑھی ہوئی سانسوں سے پلٹ آتا ۔ پاس پڑی شے کا احساس تک جاتا رہتا ۔ برتنوں کے کھڑکنے سے چونک جاتا ۔ دفتری معاملات بھی تعطل کا شکار ہونے لگے ۔ بیوی تعویز گنڈوں کے چکر میں پڑ گئی۔
مجھے تو خوف آنے لگا کہ شہر بھر میں فاختہ نہیں ۔ اپنی جان پچھان کے ہر شخص سے اس بابت بات کر چکا تھا ۔
ایک دن دفتر سے گھر کی جانب نکلا تو باہر کی دُنیا ہی کچھ اور لگی۔
روبوٹ پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کوئی انسان نظر نہ آیا ۔ یوں لگا جیسے سب نے روبوٹی ملبوس زیب تن کیا ہوا ہے۔ یا جیسے لوگ گھر میں بیٹھ کر انھیں ہدایات دے رہے ہوں۔ یا یہ سب کٹھ پتلیاں ہوں ۔۔۔۔۔ میں نے انھیں آپس میں بری طرح الجھتے اور ٹکراتے دیکھا ۔
میرے محسوسات کا شاید توازن بگڑ گیا ۔
چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ بدن سنسنا گیا ۔ دھڑکن بے ترتیب ہوئی ۔ دل بیٹھنے لگا ۔ اپنا وجود گنے کا چھلکا لگا جو ویلنے سے نکلا ہو اور خشک ہوکر ہوا میں اُڑتا پھرے ۔ من من کے پائوں اُٹھ نہیں رہے تھے۔
گھر پہنچتے رات ہوگئی ۔ بیگم کروٹ لیے سورہی تھی ۔ جلدی سے بوٹ اور جرابیں اُتاریں ، سامنے صوفہ پر پھینکیں اور اس کے ساتھ بیڈ پر دراز ہو گیا ۔ کچھ دیر اس نے کروٹ نہ لی تو میں نے ایک چٹکی اس کے کولہے پر کاٹی ۔ وہ کرب سے پلٹی “پاگل ہوگئے ہوکیا” وہ چیخی ، میں مطمئن ہوگیا۔
کوئی بے شکلا پرندہ کمرے میں دیر تک پھڑپھڑاتا رہا ۔ اس کے پروں کو سمیٹنے اور پھیلانے تک کی آواز گھڑی کی ٹک ٹک سے زیادہ محسوس ہوئی ۔
فاختہ ۔۔۔۔۔آسٹریلین طوطے۔۔۔۔۔ دفتر ۔۔۔۔۔وائلڈ لائف پارک۔۔۔۔۔ شکاری۔۔۔۔۔ شہر۔۔۔۔۔ روبوٹ۔۔۔۔۔ میری آنکھیں بند ہوگئیں ۔
صبح بیڈ ٹی کی ساتھ بیداری ہوئی۔
” رات کیا ہو گیا تھا تمیں ہاں!؟” ۔۔۔۔۔” چٹکی کیو ں کاٹی ؟”
میں جواب دیتا کہ سامنے کارنس پر حنوط شدہ فاختہ پر نظر پڑی ۔۔۔۔۔چونک گیا۔۔۔۔۔ بیوی کی طرف دیکھا تو وہ زیر لب مسکرائی اور کمرے سے برتن سمیٹتی کچن میں رینگ گئی۔
میں فاختہ کو دیر تک کھڑا دیکھتا رہا ۔ پھر قریب ہوا اور حیرانی سے اُچھل کر پرے ہوا ۔ بیگم کو چلا کر پکارا ۔
“ابھی آئی ” ۔۔۔۔۔
حیرت ،تجسس اور شکوک کے کئی رنگ چہرے پر آئے ، گئے ۔
میری مبہوتی نظر اس کے پنجے میں اٹکی تھی ۔ اس کا ایک ناخن نہیں تھا۔