عالمی افسانہ میلہ2019
افسانہ نمبر97
عنوان. آہ کو چاہئے اک عمر
ثمینہ سید. لاہور, پاکستان
“دادو ، آپ کو کچھ چاہئے تو بتائیں ، میں کالج جا رہی تھی ، سوچا پوچھ لوں “
دیا نے حیات خان کے کمرے میں جھانکا تو وہ بمشکل ہلے اور مسکرا کے نفی میں سر ہلا دیا ، پھر منہ میں کچھ پڑھنے لگے تو وہ چپ چاپ کھڑی ان کو دیکھتی رہی جب انہوں نے دیا کی طرف پڑھ کر پھونک دیا تو وہ مسکراتی ہوئی سرشار سی چلی گئی ۔
وہ ایسی ہی تھی ، معصوم سی ، سرخ و سفید ، دیا نصیر احمد ، حیات خان کی پوتی ایم فل کی طالبہ تھی ۔ حیات خان کی دوسری نسل ، سات بہنیں اور ساتوں ذہین فطین ، خوبصورت۔ حیات خان دیا کو سوچتے ہوئے زیر لب مسکرائے جا رہے تھے ۔ تبھی باہر سے آتی آوازیں انہیں متوجہ کرنے لگیں ، کوئی زور زور سے چلا رہا تھا ، حیات خان اٹھے اور ادھر ادھر ہاتھ مار کر اپنی چھڑی ڈھونڈی اور تھکے تھکے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اعصاب تو اعصاب ، کان اور آنکھیں بھی ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے ۔ بہت غور کرتے تو بات سمجھ آتی اور کبھی کبھی تو پھر بھی سمجھ نہ آتی تو آنکھیں بھر آتیں ، بے بسی کی انتہاؤں میں گھرے وہ چپ چاپ پچھتاووں میں گھر جاتے ، بے آواز روتے رہتے ۔ حیات خان کی تین بہنیں تھیں ، ایک تو ان کی جڑواں بھی تھی جس میں ان کی جان اٹکی رہتی تھی ، دوسری دونوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے ، مگر کیا ہوا ؟ ۔ اس پیار کا وہ جب جب سوچتے آنکھیں لہو رونے لگتیں ۔ وہ دروازے میں آ کر کھڑے ہو گئے اور باہر دیکھنے لگے ۔ ان کی پوتیاں ، بیٹیاں ، بہوئیں سب ہی عورتیں گھر میں تھیں ، سب دیا سے بڑی عبا پر چلا رہی تھیں ۔ وہ اب گھر آئی تھی ، نشے میں دھت ، صوفے پر بے سدھ پڑی تھی ۔ حیات خان کو کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا ، بس ساری بات ۔ ساری اذیت ناک بات سمجھ آ گئی تو واپس اندر پلٹ آئے ۔ “کیا کروں گا جا کر ، کس کو کیا سمجھاؤں؟” وہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگے ۔ حیات خان کی چار بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا نصیر احمد خان ، دو بیٹیوں کی شادیاں کر سکے تھے ۔ بہت کوشش کی لیکن ان کی بیٹیاں بہت خود سر تھیں ، انہیں اپنے معیار کا کوئی لگتا ہی نہ تھا ۔ عالیشان سے “حیات ولاز” سے دنیا بہت ہی چھوٹی اور حقیر سی نظر آتی تھی ۔ کچھ ہی سالوں بعد ایک طلاق لے کر اور دوسری بیوہ ہو کر دو بیٹیوں کے ساتھ حیات ولاز آ گئیں ۔تبھی حیات خان کو اچھنبا ہوا تھا ،وہ کھلی آنکھوں سے وقت کو الٹا چلتےدیکھ رہے تھے ، اور پھر بے بس سے بے بس ہوتے چلے گئے ۔
جب نصیر احمد کا ایک ہی بیٹا ہوا اور سات بیٹیاں ہو گئیں مگر دوسرا بیٹا نہ ہو سکا تو حیات خان نے بیٹے کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے “بس نصیر احمد ، اب اور بیٹیاں پیدا نہ کر ، میرے بچے، ہماری اتنی سزا ہی بہت ہے ۔کئی نسلوں تک یہ سزا ہی کافی ہے “۔ حیات خان دیا کی پیدائش پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، پھر تو یہ آنسو تواتر سے جاری رہتے ۔ کبھی مصلے پر خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر تو کبھی نیند کے انتظار میں کئی کئی راتیں جاگنے کے بعد صبر کے بند ٹوٹ جاتے تو وہ روتے چلے جاتے ۔ در اصل بیٹیاں تکلیف کا باعث نہ تھیں ۔ تکلیف کا باعث تو وہ یادیں تھیں جو پرانی ہوتی ہی نہ تھیں ۔
“دادو، بڑی پھپھو ایران جا رہی ہیں ” دیا ان کے گھٹنوں کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور روز کی طرح شروع ہو گئی ، انہوں نے چونک کر دیکھا مگر چپ رہے ۔
“دادو، زینب پھپھو اور ان کی بیٹی اسلام آباد گئی ہیں ، آپ کو پتا ہے ؟ عکاشہ کا وہاں فیشن شو ہے ، دادو، انٹر نیشنل فیشن شو ہے ، وہ بہت مشہور ماڈل ہے ، آپ کبھی تو اس کو دیکھیں وہ ماڈلنگ کرتی ہوئی اتنی پیاری لگتی ہے “
حیات خان نے پہلو بدلا ۔ انہیں یاد کے ناگ پھر ڈسنے کو سر اٹھانے لگے ، وہ دیا کو کیا بتاتے ، وہ اس درد پر خوشیاں نہیں منا سکتے ، بھنگڑے نہیں ڈال سکتے ۔
“دادو، سیفی بھائی نے امریکہ میں شادی کر لی ہے ، ہندو لڑکی ہے ” “دادو، زینیا کو فلم میں کام مل گیا ہے ۔ لوگ اس کی اتنی تعریفیں کرتے ہیں ۔ دادو، اتنی تعریفیں کہ بس ، کچھ مت پوچھیں سب کہتے ہیں اس کی شکل ریشماں پھپھو سے ملتی ہے اس لیئے اسے اتنی شہرت ملی ۔ دادو جی ایک بات تو بتائیں ، آپ نے پھپھو کو اداکاری کی اجازت کیسے دے دی تھی ؟” دیا حسب عادت بولتی جاتی اور معصوم سی بے رحمی سے حیات خان کے زخموں کے کھرنڈ اتار دیتی ۔ ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں تو دیا فوراََ سنبھل گئی “میں چائے لاؤں ؟”
“ہاں ” وہ دھیرے سے بولے ۔
ان کی بیٹی ریشماں ماضی کی معروف اداکارہ تھی ، انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا ، وہ نہ جانے کیسے اور کہاں رہتی تھی ۔ حیات خان کو کچھ خبر نہ ہو سکی کہ وہ کس طرح کی زندگی گزار رہی ہے مگر ایک دن انہیں اس کی موت کی خبر ملی تھی اس کی لاش کے ساتھ ، تب بھی انہوں نے خاموشی سے بس آسمان کی طرف دیکھا تھا ۔
“کاش یہ پیدا ہوتے ہی مر جاتی ” ان کی آنکھوں میں یہ شکوہ شدت سے در آیا تھا ۔ اور اب ان کی بیٹیاں اور پوتیاں فیشن ڈیزائنر ، ماڈلز ، اداکارائیں ، این جی اوز کی مالکان ، پڑھی لکھی خواتین ہونے کے باوجود بدقسمت اور نامراد تھیں ۔ سارا زمانہ ان کے گھر کو حیرت سے دیکھتا کہ ان کے گھرانے میں کتنا پیسہ ہے ۔ کس قدر صلاحیتیں ہیں ، مگر عزت اور قسمت جیسے کوسوں دور رہ گئیں ، اور اب ادھر کا راستہ ہی بھول گئی ہیں ۔ “کبھی تو میری بچیوں کے بخت جاگیں گے ” حیات خان نے حیرت سے سوچا اور ٹھنڈی آہ سینے کی جکڑن سے آزاد کی ۔
گھر میں کہرام مچا تھا ۔ “نہ جانے آج کیا ہوا ؟ ” حیات خان کا پورا وجود فرط غم سے لرز رہا تھا ، اٹھ کر باہر آنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی ۔ تبھی روتی چلاتی دیا چلی آئی تو وہ شدت سے کانپنے لگے انہوں نے دیا کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا ، وہ حسب عادت ان کے قریب آ بیٹھی ۔
“ہما نے اپنے کرسچئین کولیگ سے شادی کر لی ہے اور دادو جی ، بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ، بہت شدید “
دیا بہن کی شادی کا بتا کر اور بابا جان کے ہارٹ اٹیک کا ذکر کر کے شدت سے رونے لگ گئی ۔ وہ بھی رونے لگے ، آج تو دیا کو پیار دے سکے نہ تسلی ۔
“میرے مولا ، مجھے معاف کر دے ، رحم کر ، رحم کر ، رحم کر مجھ پر ۔ کہ تو بلا شبہ قہار ہے ، غفار بھی تو ہے مولا ، بس ختم کر دے میری سزا ، میرے اکلوتے بیٹے کو زندگی بخش دے “
حیات خان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، دیا کے لیئے انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔
“دادو، آپ تو جیسے کسی آہ کے اثر میں ہیں ” وہ روتے روتے بولی
” وہ کس کی آہ ہے دادو، جو ہماری نسلوں کو کھا گئی ۔ کون سا جرم ہے دادو، جس کی سزا اس قدر تکلیف دہ ہے ، دادو، مجھے تو بتائیں ہم کس کی بد دعا کے حصار میں ہیں “دیا پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوے بول رہی تھی اور وہ سر جھکائے نہایت ندامت زدہ بیٹھے تھے ۔ تسبیح اٹھا کر ” يا حي يا قيوم ، برحمتك أستغيث” کا ورد کرنے لگے ، تو دیا بھی ہاتھ اٹھا کر اپنے بابا جان کی خیریت کی دعا کرنے لگی ۔
نجانے رات کا کونسا پہر تھا جب نصیر احمد کی لاش گھر میں آئی تو ایک قیامت برپا ہو گئی ۔ کیسی قیامت تھی کہ حیات خان اپنے اکلوتے بیٹے اپنے واحد سرپرست کا پرسہ لے رہے تھے اور زندہ تھے ، انہیں پورا یقین ہو گیا کہ ان کے لیئے مغفرت کے سبھی در مقفل ہو چکے ہیں ” نہ جانے موت کب آئے گی ، کہ یہ سزا اسی طور ہی ختم ہو جائے ” وہ بے حال سے بستر پر پڑے تھے ، نیم جان اور غم و آلام کی اتھاؤں میں گھرے ہوئے تھے ۔ تبھی دیا چلی آئی ، ان کے کمرے میں صرف دیا ہی آتی تھی ۔ ٹرے میں چائے اور ناشتہ لیے وہ ان کے پیروں کے پاس آ بیٹھی ۔
“اٹھیں دادو جی” وہ دلار سے بولی ، جانتی تھی ، اس وقت وہ درد کی کس حد پر ہیں ، سانس سزا کی صورت سینے میں گرج برس رہی ہے۔ تبھی اس نے سنا ، دادو کہہ رہے تھے ۔
“دیا ہم چار بہن بھائی تھے ، میں اور میری تین بہنیں ، ابا جان دلی میں کلکٹر تھے مگر بہت ایماندار افسر ، ان کا ایمان تھا کہ اولاد کو حرام کا ایک نوالہ بھی نہیں کھلانا تا کہ ان کی اولاد نیک اور فرمانبردار ہو “
حیات خان سانس لینے کو رکے تو دیا ان کے سر کی طرف آ بیٹھی اور آہستہ آہستہ سر دبانے لگی ۔
“ہماری زندگی بہت خوشحال تھی ، رونقیں ہی رونقیں ، خوشیاں اور قہقہے جیسے ہمارے آنگن کی مٹی سے پھوٹتے تھے ۔ انہی دنوں ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔ ملازمتیں ، سکول ، کالج ، سبھی کچھ اس طوفان کی لپیٹ میں آ رہا تھا ۔ دیا ، تب میں نے صرف ایف اے کیا تھا ، اور میری بہنیں ، ایک دسویں میں تھی ، ایک آٹھویں میں اور تیسری پانچویں میں ۔ ساری فضا اس کہرام سے تہس نہس ہو رہی تھی ۔ عزتیں محفوظ تھیں نہ زندگیاں ” حیات خان درد سے کراہے اور زرا سا پہلو بدلا تو دیا اور زور سے دبانے لگی ۔ وہ پھر سلسلہ کلام جوڑتے ہوئےبولے “دیا، گھر اجڑ گئے ، لٹ پٹ کر لوگ ایک دوسرے کو نوچ رہے تھے ۔ تبھی ایک رات اماں بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئیں ، ہم تو جیسے برباد ہو گئے ، میں اور ابا تین لڑکیوں کو چھپانے ، بچانے میں ہلکان ہو رہے تھے ، ہاتھ کو ہاتھ کھا رہا تھا ۔ سالہا سال سے گھروں سے گھر جڑے تھے ، اب ان میں دراڑیں پڑ گئیں ۔ وہ جو سب آپس میں مامے ، چاچے ، خالو ، بھانجے ، بھتیجے تھے ، وہ سب ہندو ، سکھ ، عیسائی اور مسلمان بن گئے ۔ دیا، میری جان ، خون کی ہولی جاری تھی ۔ روز سینکڑوں لوگ قافلوں کی صورت میں ہندوستان سے اس نوزائدہ مملکت میں آ رہے تھے اور ادھر سے ادھر جا رہے تھے ۔ اس بھاگم بھاگ میں ایک دوسرے کے مال اسباب لوٹ رہے تھے ۔ عزتیں تک محفوظ نہ تھیں ۔ ایسے ہی ایک قافلے میں ہم بھی تھے ، میں ، میری بہنیں اور میرے ابا جان ” حیات خان پھر درد کی شدت سے کراہے اور زرا سے اونچے ہو بیٹھے ۔ جھکے ہوئے کندھے پچھلے ایک ہفتے میں اور جھک گئے تھے ۔
” دیا ، ہم ایک عذاب میں مبتلا تھے ، میری بچی ، ایک ناقابل بیان اذیت میں تھے ہم ۔ اس وقت میں رات بھر جاگ کر بہنوں کی حفاظت کرتا تو دن میں کچھ پل سو جاتا تو بابا ان کی حفاظت کرتے ۔ پھر بھی روز کئی گندی نظروں سے الجھنا پڑتا تو کبھی کسی کے گندے غلیظ پنجوں سے بمشکل بہنوں کو بچا پاتا ۔ تھک گیا تھا میں ، اور ابا تو جیسے ہمت ہی ہار گئے ۔ اور پھر ہمارے پاس پیسہ ، زیور ، راشن سب ختم ہو گیا ۔ ہم لوگ ایک بہت بڑے کنویں کی اوٹ میں لڑکیوں کو سلا کر خود جاگتے تھے اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ کچھ پل ساکت ہو گئے ، آنکھیں پھٹنے لگیں ، دیا نے محبت سے ان کے ہاتھ دبائے اور چوم لیے تو وہ سسک پڑے ۔
” مجھے میری بہنوں سے بہت پیار تھا دیا ، میں نے خود کو ان کے بغیر کبھی نہیں سوچا تھا مگر ۔۔۔۔” وہ کھانسنے لگے ، آنسو تواتر سے بہتے جا رہے تھے ۔
” نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب میں نے کنویں کے اندر جھانکا ، وہ بہت گہرا تھا ، بے حد گہرا ” حیات خان نے جھرجھری سی لی ، دیا کا پورا وجود سرد ہونے لگا ۔ اس نے دادو کے ہاتھ چھوڑ دیئے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی ۔
“میں نے بہنوں کو اٹھایا اور کہا کہ آؤ باتیں کرتے ہیں ، وہ اٹھ بیٹھیں ، میں ان سے باتیں کرتا جاتا تھا اور کنویں میں جھانکتا جاتا تھا ۔ ویران خشک کنویں میں سانپ اور بچھو شوکتے پھرتے تھے ، بہت ، بہت زیادہ گہرائی سے آوازیں آ رہی تھیں ۔ تب میں نے آنکھیں میچ لیں اور بہنوں کو کنویں میں دھکا دے دیا ۔ تیسرے نمبر والی نے مجھے ، حیرت، محبت اور پھر نفرت سے دیکھا تھا ۔ ہاں دیا ، دو کو تو پتا بھی نہ چلا کہ میں ایسے کر سکتا ہوں ، ان کو ، اپنے خون کو ، اپنی لاڈلیوں کو سینکڑوں فٹ گہرے کنویں میں پھینک سکتا ہوں ؟”
وہ رو رہے تھے اور دیا شدت سے کانپ رہی تھی ، انہوں نے اسے بازو کے حصار میں لے لیا اور پہلی بار اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
“ابا اور میں پاکستان آ گئے ، ہمیں بڑے عہدے مل گئے ۔ زمین جائداد بھی ہم نے دھوکے سے ہتھیا لی ۔ ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے ایک نواب فیملی میں میں نے شادی کر لی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، پھر وقت الٹا چلنے لگا ، ایک خوشی کے ساتھ چار غم لپٹے چلے آتے ، ہماری عزت ، وقار اور اقتدار کچھ بھی تو خالص نہ رہا ۔ ابا کی اور میری آنکھوں نے بیٹیاں ہی بیٹیاں اور ان کے مقدروں سے لپٹی ہماری سزا کی ہر حد دیکھ لی ہے ، دیا ، میرا اللہ غفور الرحیم ہے ۔ مجھے معاف فرما دے ، میری جان آسانی سے نکال دے تو اس کا کرم ہو گا مجھ پر “
“دادو ، ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے ” دروازہ کھول کر عبا ، دعا ، زینیا ، ان کی نواسیاں اور حیات خان کی غم سے نڈھال بیٹیاں ان کے پاس آ بیٹھیں تو وہ مسکرا دئیے ۔
” میرا اللہ مجھے معاف فرما دے اور تم لوگوں کے بخت بلند فرمائے ، بس اب تو یہی دعا ہے ” وہ سنبھلنے کی کوشش کرنے لگے ۔ “دادو، بھائی بھی امریکہ سے آ رہے ہیں ، رات کو انہوں نے بابا جانی کی وفات پر بہت رو رو کر افسوس کیا ، اور آنے کا بھی بتایا ” دیا سے بڑی عبا نے بتایا ” اس نے بتایا ہے وہ ہمارے بغیرنہیں رہ سکتا ” حیات خان کی بہو خوشی سے چلا کر بتا رہی تھی تو جیسے رگوں میں لہو کی روانی پھر سے بڑھنے لگی ۔ ” شاید میری مغفرت ہو جائے ” انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور اٹھ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔
” ابا جان سیفی تو ماشاء اللہ بہت ذمے دار ثابت ہوا ، کہہ رہا تھا ، میرے گھر اور میری ماں بہنوں کو میری ضرورت ہے ، اس لیئے واپس آ رہا ہوں “
حیات خان سیدھے ہو کر لیٹ گئے اور شکر گزار نظروں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔ “وہ کہہ رہا تھا ، میرے دادا بہت اکیلے ہو گئے ہوں گے میں آ رہا ہوں آپ لوگوں کے پاس ہمیشہ کے لیئے “
حیات خان کے آنسو روانی سے بہنے لگے
“میرے مولا میری مغفرت فرما ، میرے گناہ بخش دے ، میں نے اپنی خطاؤں کی بہت کڑی سزا پا لی ہے ، بس پاک پروردگار ، میریاگلی نسلوں کو اس سے محفوظ فرما ۔ میری بٹیوں کے نصیب اچھے کر ، میں ہار گیا ہوں ، اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے میں نے بڑی سزا پائی ہے “
” میری وصیت ہے کہ میری پوتیوں ، نواسیوں کو ذات پات کی بھینٹ نہ چڑھانا ۔ بس اچھے گھرانے دیکھ کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جانا.بیٹیوں سے پیار کرنا یہ آزمائش نہیں ہیں ہمیں کرنی ہی بھرنی پڑی ” وہ بہو سے کہنے لگے ۔
حیات خان نے تکئیے کے سہارے نیم دراز ہو کر آنکھیں موند لیں ۔ وہ بہت تھک چکے تھے اب آرام چاہتے تھے ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس ۔۔۔۔۔۔۔۔ اثر سے چھٹکارہ ۔ معافی کی طلب آنکھوں میں لیئے آسمان کی طرف دیکھنے لگے کہ شاید آہ کا اثر ختم ہو جائے ۔ شاید ان کی بہنیں انہیں معاف کر دیں
” میں بہت مجبور تھا ” انہوں نے بہنوں کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے ، بند آنکھوں کے پیچھے وہ تینوں مسکراتی ہوئی آ گئی تھیں ، بازو کھولے اپنے پیارے بھائی کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں ۔ حیات خان کے رگ و پے میں سکون اترنے لگا ۔ انہوں نے مسکرا کر ہاتھ پاؤں سیدھے کر لیئے