عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 116
آٹزم
ڈاکٹر عرفان مجید راجہ ، بارسلونا ، سپین
اُس نے پڑھا
ماتھے کی لوح پر وہ پڑھ لیا میں نے
ہاتھوں میں عُمر کا جو باب لکھا ہے
اُس نے پڑھا کہ آدھے چاند کی خنک رات میں دُور سے کُتوں اور گیدڑوں کی جو ملی جُلی آوازیں آ رہی تھیں اُن پر کان نہیں دھرنا۔ دُور کی آوازیں مسافر کو اپنی اور بلاتی ہیں۔ کسی آواز پر توجہ نہیں دینی، یہ راہ سے بھٹکاتی ہیں۔ دور کی ہو یا قریب کی، ہوتی تو آواز ہی ہے۔ پھر اُس نے پڑھا کہ اپنے اندر کی آواز پر توجہ رکھو تو باہر کی آوازیں دم توڑ جاتی ہیں۔ اندر کی آوازیں؟ کھال کے اندر جو نظام تہہ درد تہہ ترتیب دیا گیا ہے اس سے آنے والی آوازیں۔ دشت کی ِاس تنہائی میں وہ لکھتا اور اپنا لکھا پڑھتا۔
غیور اختر اکلوتا تو تھا ہی مگر جتنا اکلوتا تھا اتنا ہی تنہا بھی تھا۔ دوسروں سے واجبی میل جول جو جوانی کی اس حد پر بھی ساتھ تھا جس سے آگے والدین بہو کے خواب دیکھنا شروع ہوتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کا سوچتے ہیں۔ سارے گھر میں ایک کمرہ جو صرف اُس کا تھا۔ دیواروں پر نیلا پیلا اور چھت آسمانی رنگ کا تھا۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی جو سارا سال ادھ کھلی رہتی تھی۔ میز اور شیلف کتابوں سے بھرے رہتے اور اُن کے درمیان ایک گُڈا اور گُڑیا آپس میں محو کلام رہتے۔ سوائے بستر کے ہر شے میں سلیقہ تھا۔ بستر امی جی بنا دیا کرتیں اور ساتھ ہمیشہ یہی تاکید کہ اب یہ کام تیرے کرنے کے ہیں۔ وہ اچھا اماں کہہ کر خاموش ہو جاتا۔
گھر کیا تھا؟ پانچ مرلے کے ایک پلاٹ پر تین کمرے، ایک بیٹھک اور رسوئی جسے اب وہ کچن کہنا شروع ہو گئے تھے۔چھوٹا سا صحن اور ساتھ ایک غسل خانہ۔ باقی دو مرلے پر دوکان تھی۔ صوبیدار محمد اختر کی اکلوتی اولاد غیور اختر جس کے پیدا ہونے کے پانچ سال بعد تک امی جی نے گلی گلی بھیک مانگی اور جو بھیک میں آٹا ملتا وہ سلمان فارس جہاں دریائے جہلم نسبتا زیادہ چڑھ آتا تھا، کی نذر کر آتیں اور جو پیسے اکھٹے ہوتے وہ سائیں صاحب کے مزار پر رکھ آتیں۔ منتوں اور مرادوں کے پورے چھ سال بعد غیور اختر پیدا ہوا۔ پہلے سال ہی گھٹنوں سے ہوتا ہوا پاؤں پر کھڑا ہو گیا، ہر وقت چہچہاتا رہتا۔ صوبیدار صاحب کی آنکھ کا تارا، اماں کا چاند شہر کے بہترین سکول میں داخل ہوا۔
مخلُوط تعلیمی ماحول میں تعلیم کا ایک سال پورا ہوا۔ سکول میں ایک بچی سے غیور کی دوستی ہو گئی۔ ایک دن وہ بچی سکول نہیں آئی، پھر کئی دن۔ ایک دن امی نے غیور کو بتایا کہ وہ اپنے ممی پپا کے ساتھ ولایت چلی گئی ہے۔ اُس کے جانے کے بعد غیور اختر کی کسی سے دوستی نہ ہو سکی۔ وہ اکیلا رہتا، اکیلا کھیلتا، اکیلا کھاتا پیتا۔ سکول سے کالج اور پھر جامعہ پنجاب کا آخری سال۔
صوبیدار صاحب نے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد لاہور کا رُخ کیا تھا اور پھر لاہور ہی میں ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کی پھر وہ بھی چھوڑ دی اور دکان بنا لی، غیور سُپر سٹور۔ سکول میں اساتذہ نے انہیں بارہا اطلاع دی کہ اُن کے بچے کو کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے مگر صوبیدار صاحب مان کے نہ دیتے تھے۔امی جی ایک ہمسائی کے ساتھ اُسے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس ضرور لے کے گئیں جس نے کافی رقم خرچ کروانے کے بعد اُنہیں بتایا کہ اُن کے بیٹے کو آٹزم ہے پھر یوں ہی مہ و سال گزرتے گئے۔ اُنہوں نے ورکرز کالونی کوٹ لکھپت میں بھلے وقتوں گھر بنا لیا تھا۔ فوج کی پنشن اور دوکان سے پہلے پہل تو گزارا ہی ہوتا تھا مگر پھر وقت کی رفتار اور قلابازیوں کے ساتھ خوش حال ہوتے گئے۔
امی جی کو بہو لانے کی فکر تھی اور صوبیدار صاحب کو وارث کی۔ ایک بیٹا اور وہ بھی تنہائی پسند۔ جب غیور اختر نے جامعہ جانا شروع کیا تو وہ تنہا ہی تھا پھر اچانک اُس کے حالات بدل گئے۔ کمرے کی بندش سے زیادہ اُسے جامعہ کی لائبریری سے لگاؤ ہو گیا۔ صوبیدار صاحب اول اول خوش ہوئے پھر لائیبریری پر بھی سوالات اُٹھنا شُروع ہو گئے۔ غیور اختر کو سوالات سُننے کی عادت تو تھی مگر جواب دینے کی نہیں۔ پہلے وہ خاموش رہا پھر ایک دن جواب دے ہی دیا۔ صوبیدار صاحب جواب سُن کر پہلے تو ہاتھ پاؤں سُن کروا بیٹھے پھر سنبھل کر بولے، بیٹا بہتر ہے تُو اپنے کمرے میں ہی رہا کر۔
غیور اختر نے دوبارہ کمرے میں رہنے کی کوشش ضرور کی مگر جامعہ کی لائبریری کی بات کُچھ اور تھی۔ جامعہ پنجاب کا نیو کیمپس، نہر اور وہ تھی جس نے کافی محنت کے بعد اُسے نہر کنارے بیٹھنے پر بہر حال مجبور کر دیا تھا۔ دونوں نفسیات کی فیکلٹی میں تھے مگر اُس کی خاموشی نورین کے لیے جان لیوا حد تک پُر کشش ثابت ہوئی۔ محبت میں جیت اُسی کی ہوتی ہے جو زیادہ خاموش ہوتا ہے اور وہ تو بچپن سے خاموش تھا۔ یہ بھی محبت کا کرشمہ ہے کہ محبت میں دونوں جیت جاتے ہیں اور ہار بھی دونوں ہی کی ہوتی ہے، یہ یک طرفہ ٹریفک نہیں، اُس نے پڑھ رکھا تھا۔ جس دن سے اُس نے والد کو جواب دیا تھا اُس سے پہلے کتنے ہی دن اُسے جواب بُننے میں لگے تھے۔ بابا! میں جامعہ کی لائبریری میں کم اور نورین کے ساتھ زیادہ ہوتا ہوں اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ بجائے روز سوال کرنے کے اُس کے والدین سے بات کیوں نہیں کرتے؟ یوں میں بھی دوبارہ کمرے کا ہو جاؤں گا۔
اُس نے پڑھ رکھا تھا کہ مکان تعمیر کیا جاتا ہے، گھر بسایا جاتے ہے۔ جو مکان بستا ہو وہ گھر کہلاتا ہے۔
ماں کے کان میں باپ بیٹے کا سوال جواب پڑا تو اُنہوں نے صوبیدار صاحب سے بات کی۔
آپ مان کیوں نہیں جاتے؟ میرے غیور کو خواہ مخواہ بلوایا۔
بھلی مانس، صوبیدار صاحب نے گہری سانس بھری، اس نے کوئی چاند چڑھا دیا تو پھر ؟ وہ رُکے، سوچتا ہوں کیا کریں گے۔
تو کر دیتے ہیں اس کی شادی اُس کے ساتھ، امی جی نے بات ختم کر دی۔
پھر یُوں ہی ایک دن، دونوں میاں بیوی نے غیور اختر سے لڑکی کے والدین کا پتہ مانگا۔ دونوں اُس کے بغیر ہی لڑکی کے والدین سے ملے۔ لڑکی کے والدین اُسے مزید پڑھنے کے لیے ولایت بھیجنا چاہتے تھے۔ مگر بیس سال بعد نورین دوبارہ ولایت جانے کو تیار نہ تھی۔
شب کے اُس پہر جب دو رُوحوں کا ملن قریب تر ہوتا ہے اور وصل کا پورا چاند اپنے جوبن پر، ایسے میں ایک سرگوشی اُبھری۔
سُنو غیور
کہو نورین
وہ تمہاری نظم پڑھی تھی میں نے
پھر وہ خود ہی نظم پڑھنے لگی
ماتھے کی لوح پر وہ پڑھ لیا میں نے
ہاتھوں میں عُمر کا جو باب لکھا ہے
میں نے پڑھ رکھا ہے ، سب ہاتھوں کا لکھا
ماتھے میں نقش ہو جاتا ہے جا کر سب
اور یہ الہام مجھ پر تب ہوا تھا جب
صحرا سے اُٹھتی تپتی پھن اُٹھاتی لُو
اُن شبستانوں کی اور رینگتی، جن میں
کُچھ نو بیاہتا جوڑے قافلے میں تھے
وصل کی راحتیں، ارمانوں کی دُنیا
اور سرابوں سے رِستے خوابوں کی دُنیا
ریت کے ایک طُوفاں کی نظر کر کے
میں وہی تو ہوں جو اُس رات بچ نکلا
اُن شبستانوں کی رنگینیوں سے دور
میں یہ رُوداد لکھنے کے لیے بھٹکا
اور اِک روز تمہیں جس کو پڑھنا تھا
غیور نے ہلکے سے کہا، بیس سال میں یہ ایک نظم لکھی گئی۔
چاند اپنی آخری منازل پر تھا، آسمان پر ستارے بھی سونے کی تیاری کر رہے تھے، ہوا اور بادل کہیں کہیں گھتم گتھا ہو جاتے پھر صلح کر لیتے۔ صوبیدار صاحب اور امی جی سو چکے تھے، رات خاموش تھی اور اس سے پہلے کہ صبح کاذب انگڑائی لیتی،اسی خاموشی میں اُس نے نورین کے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر اُس کو اپنی خاموشی کا رازداں بنا لیا۔