Skip to content

آخر کب تک

عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 23
آخر کب تک
ڈاکٹر نعیمہ جعفری ۔نئی دہلی ۔انڈیا
وہ اتوار کی ایک سست سی کاہل سی صبح تھی۔ اتوار کا دن ہفتے کا وہ اکلوتا دن ہوتا ہے جب دہلی جیسے جیٹ کی رفتار سے بھاگتے دوڑتے شہر کی زندگی بھی اپنی رفتار کھودیتی ہے جیسے کسی نے اس برق رفتار گھوڑے پر مہمیز لگا دی ہو۔ لوگ اپنے بستروں سے دیر میں نکلتے ہیں، اخبار بھی دیر سے آتا ہے ، دودھ والا لڑکا بھی اطمینان سے نو بجے صورت دکھاتا ہے اورگھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں بھی سامنے پارک میں بیٹھ کر گپیں ہانکتی رہتی ہیں اور دن چڑھے کام پر آتی ہیں۔ لیکن میری نیند تو صبح پانچ بجے ہی کھل جاتی ہے چاہے کوئی دن ہو اور کوئی موسم ہو اور ایک بار آنکھ کھل جائے تو میرے لیے بستر پر پڑے رہنا ناممکن ہوتا ہے اس دن بھی میں اپنے وقت پر اٹھ گئی تھی نماز اور دوسری ضروریات سے فارغ ہوکر میں نے اپنے لیے چائے بنائی اور چائے کا مگ اٹھائے بالکنی میں آکر کھڑی ہوگئی۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا لیکن آسمان کے مشرقی کنارے پر نارنجی رنگ کا عکس لہریں لینے لگا تھا۔ ماحول میں چڑیوں کی چہچہاہٹ سے زندگی بیدار ہوگئی تھی۔ مارچ کے مہینے کی گلابی، خوشگوار اور خوبصورت صبح دھیرے دھیرے اپنے پر کھول رہی تھی۔ سامنے کے پارک میں چند بزرگ لوگ چہل قدمی کررہے تھے۔ آج مجھے وہاں ہمارے پڑوسی منظور صاحب نظر نہیں آئے۔ وہ تو بے حد پابندی کے ساتھ اس وقت جاگنگ کرتے نظر آتے تھے۔ تب ہی نیچے بلڈنگ کے پاس کسی گاڑی کے بریک چرچرائے۔ میں نے چونک کر نیچے دیکھا اس نیلی گاڑی کو میں اچھی طرح پہچانتی تھی۔ منظور صاحب کی بیٹی اور داماد بڑی عجلت کے ساتھ نکلے اور تیزی سے زینوں کی طرف بڑھ گئے۔ یہ لوگ اتنی صبح کیسے؟؟ میں الجھن میں پڑگئی۔ ذرا ہی دیر میں دوسری گاڑی رکی اور منظور صاحب کی سن رسیدہ بہن چھڑی ٹیک کر باہر نکلیں۔ ڈرائیور ان کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ میرا دل دھڑک گیا۔ الٰہی خیر۔ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ پتہ نہیں رابعہ کیسی ہے۔ میں ہمیشہ رابعہ کی طرف سے فکرمند رہتی ہوں۔ ابھی میں سوچ رہی تھی کہ مجھے جاکر اس کی خیریت معلوم کرنی چاہیے کہ میرے دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجی۔ میں نے تقریبا دوڑتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ منظور صاحب اور رابعہ کی بیٹی نازو سامنے کھڑی تھی۔ آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے اورناک کی نوک سرخ ہورہی تھی۔ چھوٹتے ہی میرے گلے سے لپٹ گئی۔
’آنٹی ۔ پاپا نہیں رہے‘۔
’ارے ! کیسے ؟ کب ؟ میں صرف اتنا ہی کہہ پائی۔
’صبح چار بجے ممی کا فون آیاتھا کہ ساڑھے تین بجے انھوں نے ممی کے بیڈروم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان کے سینے میں درد ہورہا تھا۔ ممی نے انہیں ان کے بستر پر لٹایا، پانی پلایا اور ان کی دوا تلاش کررہی تھیں کہ انہیں ایک ہچکی آئی اور وہ ختم ہوگئے۔‘
اس کی آواز میں آنسوئوں کی لرزش تھی۔ میں سناٹے میں آگئی۔ میں نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا، تمہاری ممی کہاں ہیں؟‘
ان ہی کی تو فکر ہے۔انھوں نے اپنے آپ کو اپنے بیڈ روم میں بند کرلیا ہے نہ دروازہ کھولتی ہیں اور نہ جواب دیتی ہیں۔‘
’تمہارے لیے دروازہ کس نے کھولا۔ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
دروازہ کھلاہی تھا آنٹی۔ پھپی اماں بھی آگئی ہیں۔ انہیں بھی ممی نے ہی اطلاع دی تھی۔ لیکن اب ان کی آواز پر بھی دروازہ نہیں کھول رہیں۔ پھپی اماں کی حالت تو یونہی بہت خراب ہے۔ پلیز آنٹی آپ آجائیں کہیں ممی کچھ کر نہ بیٹھیں۔
میں نے اسے تسلی دی۔ تم چلو میں دو منٹ میں آتی ہوں۔ میں ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی۔ میں نے جلدی جلدی لباس تبدیل کیا، اپنے شوہر ناصر کو جگایا اور موبائل اٹھاکر نمبر ملایا۔ دو مرتبہ گھنٹی بج بج کر خاموش ہوگئی۔ تیسری مرتبہ اس نے فون اٹھالیا۔
نکہت فکر نہ کرو۔ میں خودکشی نہیں کروں گی۔ بس تھوڑی دیر تنہا رہنا چاہتی ہوں۔ تم نازوسمجھادو۔ اب میں فون بند کررہی ہوں۔
مجھے یک گونہ اطمینان ہوگیا۔ میں فوراً ہی ان کے گھر پہنچ گئی۔ میرے دروازے کے سامنے ہی ان کا دروازہ تھا جوکھلا ہوا تھا۔ باجی کی حالت بہت خراب تھی۔ ان کی آنکھ سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میت کی پٹی سے سر ٹکائے ’ہائے منظور ہائے‘ کا ورد کررہی تھیں۔ آخر تو وہ ان کے اکلوتے چھوٹے بھائی تھے جنہیں انھوں نے ماں کی موت کے بعد اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔ دروازے پر ناز و حیران پریشان کھڑی تھی۔ اس کا شوہر ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ میں نے نازو کو ایک طرف لے جا کر سمجھایا ، پریشان نہ ہو۔ تمہاری مما ٹھیک ہیں۔ میری ان سے فون پر بات ہوگئی ہے۔ وہ تھوڑی دیر تنہا رہنا چاہتی ہیں۔ تم اپنے رشتہ داروں اور پاپا کے دوستوں کو اطلاع کردو۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی لہرسی دوڑ گئی اوروہ فون لے کر ایک کونے میں چلی گئی۔ اتنی دیر میں ناصر بھی وہاں آگئے تھے اور نازو کے شوہر کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے باجی کو وہاں سے اٹھایا۔ پانی پلایا اور تسلی دینے لگی۔ تھوڑی دیر میں گھر لوگوں سے بھرنے لگا۔ ہر آنے والا رابعہ کے بارے میں پوچھتا اور اس کے اس طرح کمرے میں بند ہوجانے پر طرح طرح کے خدشات کااظہار کرتا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ناصر نازو کے شوہر طاہر کے ساتھ آخری رسومات کی تیاری کے لیے جاچکے تھے۔ منظور صاحب کے سبھی رشتہ دار ، دوست اور کولیگ میرے لیے اجنبی تھے انھوں نے باجی اورنازو کو گھیر رکھا تھا اور وہ بھی ان کے درمیان پرسکون محسوس کررہی تھیں تو میں کچھ دیر کے لیے اپنے گھر چلی آئی۔ نوکرانی اپنے کام میں مصروف تھی اور میں آنکھیں بند کرکے ماضی کے اوراق پلٹنے لگی۔
آج سے تقریباً تیس سال پہلے جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وسنت کنج کی یہ سوسائٹی بھی نئی ہی بسی تھی۔ ڈی ڈی اے فلیٹ کی قرعہ اندازی میں فلیٹ ہمیں ملا تھا۔ ابھی کالونی پوری طرح آباد بھی نہیں ہوئی تھی لیکن ہم فوراً ہی کرائے کا مکان چھوڑ کر یہاں شفٹ ہوگئے تھے۔ ہمارے سامنے کا فلیٹ جن کے نام نکلا تھا انہیں ہم نے شاذ و نادر ہی دیکھا تھا۔ زیادہ تر فلیٹ میں تالا لگا رہتا۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ پڑوس میں کوئی اچھا سا خاندان آئے تاکہ میری تنہائی رفع ہوسکے۔ پھر ایک دن ایک عمررسیدہ اور باوقار سی خاتون نظرآئیں۔ انھوں نے گھر کی صفائی کروائی۔ سامان کا ٹرک آیا اور مکان فرنش ہونے لگا۔ میں ان کے لیے چائے اور لوازمات ٹرے میں سجا کر لے گئی۔ بہت پیار سے ملیں۔ یہ باجی تھیں انھوں نے بتایا یہ ان کے چھوٹے بھائی کا فلیٹ ہے جو کسی بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ تنہا تھے اس لیے سرکاری گیسٹ ہائوس میں ہی رہتے تھے۔ والدین کا سایہ برسوں پہلے سر سے اٹھ گیاتھا۔ باجی نے ہی انہیں اولاد کی طرح پالا تھا۔ اب اگلے ہفتے ان کی شادی تھی اسی لیے فلیٹ نئی دلہن کے لیے تیارکروا رہی تھیں۔ اگلے ہفتے منطور صاحب کی بہن جنہیں میں باجی کہنے لگی تھی۔ چار پانچ لڑکیوں کے ساتھ بغیر کسی تام جھام کے نئی دلہن کو لے کر آگئیں۔ رات کی اولین ساعتوں میں سب لوگ رخصت ہوگئے۔ لیکن منظور صاحب کہیں نظر نہیں آئے۔اگلے دن دوپہر کو میں ان کے گھر جا پہنچی۔ وہ ۲۴۔ ۲۳ سال کی ایک دلکش سی اداس آنکھوں والی لڑکی تھی۔ سلک کا گلابی سوٹ پہن رکھا تھا لیکن نئی دلہن والی کوئی بات نہیں تھی۔ بہت خاموش سی تھی۔ بات چیت کے دوران صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ یوپی کے ایک چھوٹے شہر کی رہنے والی تھی۔ والد کا انتقال ہوچکاتھا ماں اور دوچھوٹی بہنیں کل ملا کر اس کا میکہ تھا۔ منظور صاحب کی بہن نے یہ شادی کروائی تھی۔
دھیرے دھیرے ہماری دوستی ہوگئی۔ اب وہ بے تکلفی سے مجھ سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دیتی تھی۔ تب مجھے اس کی آنکھوں کی اداسی کی وجہ معلوم ہوئی۔ کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی منظور صاحب نے اس کے ساتھ کوئی ازدواجی رشتہ قائم نہیں کیا تھا۔ انھوں نے شادی کی پہلی رات ہی کہہ دیاتھا کہ وہ اپنی کلاس فیلو سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ ان کے درمیان مذہب کی دیوار تھی اور باجی ، جن کا ہر حکم ماننا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، اس رشتے کے لیے وہ قطعی تیار نہیں تھیں۔ ان کے اور کرن کے درمیان Live in relationship بہت مضبوط تھی۔ وہ اسی کے ساتھ رہتے تھے باجی کے زور دینے پر انہیں شادی کرنی پڑی۔ انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ گھر تمہارا ہے۔ اس کی چیز تمہاری ہے۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی جائے گی۔ لوگ باتیں نہ بنائیں اس لیے میں رات یہیں گزارا کروں گا۔ اس سے زیادہ کی توقع مجھ سے نہ رکھنا۔ اب وہ دیر رات کو گھر آجاتے ہیں۔ ان کا بیڈروم الگ ہے۔ صبح آفس چلے جاتے ہیں۔
میں سب سن کر اندر سے کھولتی رہی۔ میں نے کہا ، چھوڑو اس منحوس کو۔ پڑھی لکھی ہو اپنی امی کے گھر جاکررہو۔
اس نے بے چارگی سے کہاوالد کے انتقال کے بعد چچائوں نے گھر اور کاروبار پر قبضہ جمالیا ۔ رحم کرکے دو کمروں کاایک پرانا مکان ہمیں دے دیا۔ میری ماں پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ انھوں نے محنت مزدوری کرکے ہم تینوں بہنوں کو پالا پڑھایالکھایا میں نے سوچا تھا کہ میں نوکری کرکے امی کا سہارا بنوں گی کہ غیر متوقع طور پر منظور کا رشتہ آگیا۔ اچھا گھر اچھا لڑکا۔ جہیز کے نام پر ایک بھی پیسہ لینے کے بجائے باجی نے دولاکھ کا چیک دیا کہ بارات کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ رہے۔ امی پھولی نہ سماتی تھیں کہ ایک لڑکی تو نبٹ گئی۔ رخصت کے وقت انھوں نے کہا تھا، جیسے بھی ہو وہیں نباہ کرنا۔ میرے سر ابھی دو بوجھ باقی ہیں۔ بتائو نکہت میں ان سے کیا کہتی اور کیسے جاتی۔ دنیا کی نظر میں میں بہت خوش قسمت ہوں۔ لوگ الٹا مجھے ہی الزام دیتے اور میری بہنوں کے لیے اور پریشانیاں کھڑی ہوجاتیں۔
عورت ذات کی اس مجبوری پر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں دل سے اس کی ہمت اور حوصلے کی قائل ہوگئی۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا، نکہت میرے ساتھ چلو۔ مجھے کچھ کپڑے خریدنے ہیں۔ میں نے حیرت سے کہا۔ ابھی تو تمہارے پاس شادی کے ہی بہت کپڑے ہوں گے۔
اس نے مجھے اپنی الماری کھول کر دکھائی جو لال اورگلابی رنگ کے مختلف شیڈز سے بھری پڑی تھی۔ گلابی میرا پسندیدہ رنگ ہے۔ لیکن منظور کہتے ہیں کہ انہیں اس رنگ سے نفرت ہے۔ گلابی رنگ میں نہ پہناکروں۔
میں جل ہی تو گئی۔ جب کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو یہ پابندی کیوں، لیکن وہ نہیں مانی۔ منظور کی طرف سے اس پر اور کوئی پابندی نہیں تھی اس لیے دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بینک میں نوکری کرلی۔ دن تو گزر جاتا لیکن راتیں کروٹیں بدلتے ہوئے کٹتیں۔عمر کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، لمبی کالی راتوں میں اس کا وجود کسی کی باہوں کے لیے ترستا۔ یہ احساس اور ڈس جاتا کہ اس کا شوہر برابر والے کمرے میں پوری طرح مطمئن خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے اور وہ سہاگن ہوکر بھی بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ منظور دیر رات کو نشے میں چور آتے اور کمرہ بند کرکے سوجاتے۔ اس کی شادی کو چارسال گزر چکے تھے۔
وہ جون کی ایک عام صبح تھی، تپتی اور قہر برساتی ۔ صبح ہی سے سورج کی قہر سامانی قیامت ڈھارہی تھی۔ چرند و پرند اور انسان ٹھنڈی چھائوں کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ پیاسی دھرتی پانی کی ایک بوند کو ترس رہی تھی۔ مہینے کا چوتھا سنیچر ہونے کی وجہ سے بینک کی چھٹی تھی۔ ملازمہ کے جانے کے بعد رابعہ نے اپنے کمرے سے قدم بھی باہر نہیں نکالا تھا۔ سوچاتھا کہ آج کا دن وہ اپنی پسند کی کوئی کتاب پڑھ کر گزارے گی لیکن کتاب کھول کر وہ خیالات میں ایسی الجھی کہ ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکی۔ ساری دوپہر اپنی زندگی کے اوراق پلٹتی رہی۔ خود احتسابی میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ شام چھہ بجے جب کمرے سے باہر نکل کر بالکونی میں جھانکا تو پتہ چلا کہ اس عام سی صبح کی شام تو بہت خاص بن گئی ہے۔ آسمان کالے بادلوں سے ڈھک گیاتھااور جھلسادینے والی لو کے تھپیڑوں کی جگہ ٹھنڈی ہوا کے مست جھونکوں نے لے لی تھی۔ وہ بالکونی میں نکل آئی۔ موسم کی اس اچانک تبدیلی نے اس کے موڈ کو خود بخودہی بحال کردیاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے موٹی موٹی بوندیں پڑنے لگیں اور تیز بارش میں بدل گئیں۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بالکونی میں بارش کی تیز پھواریں آرہی تھیں۔ رابعہ سر تا پا بھیگ گئی۔ بچپن سے ہی اسے بارش میں بھیگنا اچھا لگتا تھا۔ ادھربوندیں گرنی شروع ہوئیں اور ادھر وہ اپنے گھر کے کچے آنگن میں اتری۔ امی لاکھ چلاتیں، اے جنم جلی بیمار پڑجائے گی۔ اندرآجا۔ دوا دارو کا خرچہ بڑھائے گی کیا؟ لیکن رابعہ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ تو مہاوٹوں میں بھی بھیگ لیتی تھی اور سخت جان اتنی تھی کبھی بیمار بھی نہیں پڑی۔ لیکن شادی شدہ زندگی کے گزشتہ چارسال ایسی قحط سالی میں گزرے کہ وہ سب کچھ بھول گئی۔ لیکن آج نہ جانے کیا ہوا کہ من کا پاگل پنچھی گنگنا اٹھا۔ وہ جی بھر کر بھیگی یہاں تک کہ بارش کا زور کم ہوگیا اور بالکونی میں آنے والی پھوار رک گئی۔ غسل کر کے اس نے اپنی پسند کا گلابی لباس زیب تن کیا، کلائیوں میں ہرے رنگ کی چوڑیاں پہنیں اور لمبے گھنے بالوں کو سوکھنے کے لیے پشت پر کھلا چھوڑ دیا۔ وہ کچن میں آگئی۔ رات گہری ہوگئی تھی۔ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایاتھا۔ کھانا گرم کیا، چائے بنائی اور ڈائنگ روم کی طرف آتے ہوئے دیوار پر لگے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ بنا میک اپ کے چہرے پر بھی کیسا روپ تھا۔ یہ سب کس کے لیے؟؟؟ منظور تو کبھی آنکھ اٹھاکر دیکھتے بھی نہیں! پھر یہ سجنا سنورنا کیامعنی؟ اپنے لیے اس کے دل سے آواز آئی۔کیا میں خود اپنے لیے نہیں سنورسکتی؟ کیا میرا اپنا کوئی وجود نہیں ہے؟ کیا چھبیس سال کی عمر میں میرے سارے ارمان مرچکے ہیں۔
نہیں ، آئینے سے آواز آئی۔ میں ابھی زندہ ہوں اور ہر ذی روح کو اپنی خواہشات پوری کرنے کا حق ہے۔
اسی وقت میں نے گرم گرم پکوڑوں کی پلیٹ کے ساتھ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، کچھ حیرت اور کچھ خوشی کے ساتھ اُس کے اِس رُوپ کودیکھا تو وہ جھیپ سی گئی اور بارش کولے کر اپنی دیوانگی کا ذکر کرنے لگی، تفصیل کا وقت نہیں تھا، ناصر چائے پر میرا انتظار کررہے تھے تو میں فوراً ہی واپس آگئی۔
اپنے خیالات سے جوجھتے ہوئے نہ جانے کب کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبجے کے قریب ہڑبڑا کر آنکھ کھلی۔ کوئی لگاتار دروازے کی گھنٹی بجارہاتھا۔ منظور کے پاس تو دروازے کی دوسری چابی رہتی تھی پھر یہ ڈور بیل کیوں، اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ سامنے منظور نشے میں دھت کھڑے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں سنبھال رکھا تھا۔ اس نے انہیں بازوئوں کا سہارا دے کر ان کے بیڈ روم میں پہنچایا۔ ان کے جوتے اور موزے اتارے اور چادر اوڑھا کر لوٹ رہی تھی کہ منظور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکادیا اور وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح ان کے سینے پر جا پڑی وہ پہلی اور آخری رات تھی جو اس نے منظور کے بیڈ روم میں گزاری۔ صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ انگ انگ ایک عجیب سے سرور سے سرشارتھا۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے اور من گنگنارہاتھا، آخر پتھر پگھل گیا منظور اٹھ چکے تھے اور شاید واش روم میں تھے۔ وہ جلدی سے اٹھی، بال سمیٹے ٹوٹی چوڑیوں کے ٹکڑے بستر سے سمیٹے اورجلدی سے باورچی خانے میں گھس گئی کہ کہیں وہ بغیر ناشتہ کیے دفتر نہ چلے جائیں۔ ناشتے کی ٹرے لے کر جب وہ ڈائنگ روم میں پہنچی تو وہ ہاتھ میں اخبار لیے بیٹھے تھے۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔ انھوں نے اس کی طرف دیکھے بغیردھیمے لہجے میں کہا۔
آئی ایم سوری۔ رات جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھے۔ میں نشے میں تھا۔ وہ ہکا بکا سی کھڑی رہ گئی۔ انھوں نے صرف چائے لی اور دروازے سے نکلتے ہوئے مڑکر بولے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں یہ گلابی رنگ اور سبز چوڑیاں نہ پہنا کر یں۔ نفرت ہے مجھے ان سے۔
اس دن میرے گھر آکر رابعہ مجھ سے لپٹ کر بہت روئی تھی۔
پھر دو ماہ بعد پتہ چلا کہ اس رات کی منظور کی غلطی کی نشانی اس کے اندر پنپنے لگی ہے تو اس نے اس امید پر منظور کویہ خوش خبر سنائی کہ شاید اب برف پگھل جائے۔ لیکن اس کے برعکس منظور گھبرا گئے اور بولے۔ ’’مجھے افسوس ہے میری ایک رات کی غلطی کی آپ کو سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔ آپ چاہیں تو اس مصیبت سے نجات حاصل کرلیں۔ جو خرچ ہو، میں دینے کو تیار ہوں۔ جہاں دستخط کرنے ہوں، میں کردوں گا۔‘‘
اس دن پہلی بار رابعہ پھٹ پڑی۔ آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا۔ یہ کوئی ناجائز بچہ نہیں ہے۔ یہ میری چار سالہ شادی شدہ زندگی کا سب سے خوشگوار واقعہ ہے۔ میں اسے جنم دوں گی۔
منظور نے غیرجذباتی سپاٹ لہجے میں کہا، آپ کی مرضی لیکن اس بچے کی پیدائش اور پرورش میں آپ کو مجھ سے کوئی تعاون نہیں ملے گا سوائے مالی امداد کے۔
مجھے آپ کی کوئی مدد نہیں چاہیے۔ یہ میرا بچہ ہوگا اور اس کی ساری ذمہ داریاں میں اٹھائوں گی۔
اس کے بعد ان دونوں کے درمیان اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہاں جب کسی رات کو منظور زیادہ نشے میں واپس آتے تو دروازے میں چابی گھومتی، گلابی آنچل لہراتا، سبز چوڑیاں کھنکتیں اورمنظور کو اندرڈھکیل دیاجاتا۔ البتہ باجی نے سناتو نہال ہوگئیں۔ ہفتے میں دوبار آتیں ، صدقے واری جاتیں اور دوا و غذا کی تاکید کرتیں اور خوش رہنے کی تلقین کرتیں۔
رابعہ نے ایک خوبصورت سی تندرست بچی کو جنم دیا جو ہوبہو باپ کی شکل تھی۔ منظور اسے دیکھنے اسپتال بھی نہیں آئے۔ ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ سرکاری کام سے باہر چلے جاتے تھے۔
رابعہ کی بیٹی نازو میرے بچوں کے ساتھ پل کر بڑی ہوئی۔ ایک سنگل پیر نٹ کی طرح رابعہ نے اس کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داریاں نبھائیں۔ منظور باجی کے اصرار پر صرف بچی کے اسکول میں داخلے کے وقت ساتھ گئے اور اس کے بعد ننھی نازو ہر PTM پر پاپا کا انتظار ہی کرتی رہی لیکن وہ کبھی نہیں آئے۔
وقت دن اور رات کے پنکھ لگا کر اڑتا رہا ہے۔ نازو نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کی شادی کا وقت آگیا۔ منظور نے رابعہ کی درخواست اوردنیا والوں کا واسطہ دے کر صرف اتنا احسان کیا کہ نکاح اور ولیمے میں اپنی حاضری درج کرادی۔ تحفے کے طور پر جب دس لاکھ کا چیک بیٹی کو دیاتو نازونے آنکھوں میں آنسو بھر کر واپس ان کی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔
پاپا لوٹاسکتے ہیں تو مجھے میرے بچپن کے وہ پل لوٹا دیجیے جب ہر گھڑی، ہرپل، برتھ ڈے پر، گھر پر، اسکول میں PTM پر میں نے آپ کو تلاشا لیکن آپ کبھی نہیں ملے۔ میرا بچپن باپ کی شفقت کے بغیر محرومی کے شدید احساس کے ساتھ پروان چڑھا۔
منظور کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے ایک تاریک سا سایہ لہرایا اوروہ سرجھکا کرہال سے نکل گئے۔
ناصر دروازہ کھول کر اندر آئے تو میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آئی۔ ناصر کہہ رہے تھے۔
تم ابھی تک یہیں ہو۔ سب انتظام ہوگیا ہے۔ میت کو غسل دیا جارہا ہے۔ مجھے جلدی سے ایک پیالی چائے دے دو۔ پھر قبرستان جانا ہے، میں نے انہیں چائے بناکر دی۔ ملازمہ کام نبٹا چکی تھی، اسے رخصت کیا اورناصر کے ساتھ ہی رابعہ کے گھر آگئی۔ باہر تک لوگ کھڑے تھے۔ میت آخری سفر کے لیے تیار تھی رابعہ نے اب تک دروازہ نہیں کھولاتھا سب ہی کوششیں کرکے ہار چکے تھے اور یہ سرگوشیاں ہورہی تھیں کہ کہیں ایک اور میت نہ اٹھانی پڑے دروازہ توڑنے کی بھی بات ہورہی تھی۔نازو نے اس کے بیڈ روم کا دروازہ آخری مرتبہ کھٹکھٹایا اورآنسوئوں میں دوبی ہوئی آواز میں کہا، مما پاپا ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہے ہیں۔ اب تو دروازہ کھول دیجیے۔
چٹخنی گرنے کی آوازآئی۔ دھیرے دھیرے دروازے کے پٹ کھلے۔ دروازے کے بیجوں بیچ رابعہ کھڑی تھی۔ اس نے گلابی رنگ کی ساڑی پہن رکھی تھی، ہاتھوں میں سبز چوڑیاں تھیں، بال کھلے ہوئے تھے اور کاجل لگی سرخ آنکھوں کے کٹورے آنسوئوں سے لبریز تھے۔

Published inعالمی افسانہ فورمنعیمہ جعفری پاشا

Comments are closed.