عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 31
آخری گدھ
افضال انصاری، مالیگاؤں، مہاراشٹر، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں تو ابھی زندہ ہوں___میری آنکھیں بھی ٹھیک ٹھیک دیکھ رہی ہیں اور سماعت بھی درست ہے ۔۔۔۔ پھر یہ گدھ میرے چاروں جانب کیوں جمع ہو رہے ہیں؟؟“
یہ گدھ میرے چاروں جانب پھیلے ہوئے ہیں ان کی کریہہ آوازیں میرے کانوں میں آ رہی ہیں، ان کی زرد اور مکروہ آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی ہیں، ان کی پروں سے بے نیاز ویران اور خالی گردنیں، ان کی لمبی خمدار چونچ، ان کا آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنا، میری آنکھیں سارے منظر دیکھ رہی ہیں۔ میری آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ امریکہ نے عالمی معیشت کو کنٹرول کر رکھا ہے اور بازار اس کے اشارے پر ہیں، سرمایہ کا بہاؤ مرکزیت لئے ہوئے ہے، دو فیصد لوگوں کے پاس اٹھانوے فیصد سرمایہ ہے اور اٹھانوے فیصد لوگوں کے پاس عالمی دولت کا دو فیصد سرمایہ ہے، ایک طرف ہزاروں لاکھوں ٹن غذا ضائع کی جا رہی ہے اور دوسری طرف نان شبینہ کے لئے بھی لوگ ترس رہے ہیں، قدرتی وسائل کی بندر بانٹ کی جا رہی ہے، انگلیوں پر گنے جانے والے ممالک نے قدرتی وسائل کے تقریباً پچھتر فی صد حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور سینکڑوں دیگر ممالک کے حصے میں وسائل کا صرف پچیس فیصد موجود ہے۔ یہ کیا میرے آس پاس تو بہت سے لوگ موجود ہیں، جو دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں مگر نہ بول سکتے نہ جنبش کر سکتے ہیں بالکل میری طرح۔ لاتعداد گدھوں نے انہیں بھی گھیر رکھا ہے اور مسلسل ان کے جسموں سے گوشت ادھیڑ رہے ہیں آہ!!!! ۔۔۔ ایک گدھ مجھ تک پہنچ چکا ہے، میرے جسم سے شاید کچھ گوشت نوچ لیا گیا ہے، میں بولنا چاہتا ہوں مگر میرے لبوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔ میری نگاہوں کے سامنے پھر کچھ منظر ابھرتے ہیں۔۔۔۔ یہ عرب کے صحرائی علاقے ہیں جہاں میلوں تک ریت کی خوبصورت اور جان لیوا چادر پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ عرب کے ریگزار لہو زار ہیں۔۔۔۔۔ عرب پر پھر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہیں، عوام باہم دست و گریباں ہیں، زمیں لہو رنگ ہے، اس رنگ میں تو میرا اپنا رنگ بھی شامل ہے، اس لہو کا رنگ بھی میرے جسم سے بہتے ہوئے لہو کی مانند ہے، یہاں تو شاید سارے ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں، مگر یہاں بھی خون برسوں سے بہتا آیا ہے، اس مذہب کے پیروکاروں نے اپنی الگ الگ ٹکڑیاں بنا رکھی ہیں اور ایک ٹکڑی یا فرقہ دوسرے کے خون کا پیاسا ہے، اور یہ پیاس صدیوں سے لاکھوں انسانوں کا خون پینے کے بعد بھی بجھ نہیں رہی ہے بلکہ اس پیاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔ کچھ بڑے گدھ میرے نزدیک، بہت نزدیک موجود ہیں۔
آففففف یہ تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ گدھوں نے کچھ بوٹیاں جسم سے شاید پھر اڑا لی ہیں، میں چیخ کر اپنا گلا چھیل لینا چاہتا ہوں، مگر آواز گلے کی پنہائیوں میں گم ہوئی جا رہی ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں میری نگاہوں کے سامنے اب دوسرا منظر ہے، صنعتی انقلاب کا… اس انقلاب کے نام پر درختوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے، فیکٹریوں کے ذریعے ہوا اور پانی میں زہر گھولا جا رہا ہے، نتیجتاً دنیا گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے، موسموں نے اپنے مزاج بدل لیے ہیں، کہیں سورج آنکھیں دکھا رہا ہے تو کہیں دریاؤں کا پانی سر چڑھ رہا ہے۔ تیز رفتاری سے پیداوار بڑھانے کے لئے فصلوں پر نئے نئے اور زہریلے تجربے کیے جا رہے ہیں، چیزیں ہائبریڈائز کی جا رہی ہیں، تیز رفتار زندگی کا ساتھ دینے کے لئے فاسٹ فوڈ کلچر عام ہوتا جا رہا ہے نتیجتاً ہر روز نت نئی بیماریاں انسانوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں، فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے وارے نیارے ہیں، چند روپیوں میں تیار ہونے والی دواؤں کو بازار میں مجبور اور بےبس لوگوں کے ہاتھوں سینکڑوں، ہزاروں اور بسا اوقات لاکھوں روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
جسم کی کچھ بوٹیاں گِد%
Comments are closed.