عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 19
آئیڈیا
انس اقبال احمد، لاہور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس نے میرے باغیانہ خیالات سنے تو کچھ دیر خاموشی سے دیکھتا رہا۔۔۔۔پھر بھرائے لہجے میں مخاطب ہوا: ’’اورجو ہم اپنے حصے کا کام نہیں کررہے۔۔۔ضروری نہیں کہ ہم قوم کی فلاح و بہبود صرف غلط عناصر سے ہی توقع کریں۔ اگر آپ اتنے ہی مخلص ہیں تو قدم بڑھائیے۔۔۔۔۔اپنے حصے کی ذمے داری نبھائیے! وہ کام ۔۔۔ وہ معاملات جو غلط لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔۔۔ طریقے سے انہیں اپنے ہاتھوں میں لیجئے ۔۔۔ اگر تب بھی آپ کو ناکامی ہوتی ہے ۔۔۔ اپنا پورا خلوص اور جذبہ لگا کر بھی آپ اس غلط منزل کی جانب رواں معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکے تو پھر آپ کو اختیار ہے کہ چپ چاپ ایک کونے میں پڑے رہ کر ۔۔۔ یا چند لوگوں کو اردگرد بٹھا کر جتنے چاہے لوگوں کا نقاب کھینچئے ۔۔۔۔ جتنے بھی معاملات پر نکتہ چینی کیجئے میں آپ کو غلط نہیں کہونگا۔۔۔۔‘‘
کچھ اس کی آنکھوں کی نمی ،کچھ اس کے الفاظ کی پیوند کاری ۔۔۔ کہ کئی ردِ دلائل ۔۔۔ کئی نکات رکھنے کے باوجود میں کچھ نہیں بولا۔ میں اپنے کالج کے زمانہ کے ایک دوست کو ملنے کچہری آیا تھا ۔۔۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ وکیل صاحب اپنے کسی دوست کے چیمبر تک گئے ہیں ۔۔۔ بہرحال میں بھی پہنچ گیا۔ پھر کالے کوٹوں میں چھپی اس قوم کے ساتھ گپیں ہانکتے ہانکتے معاشرتی روح تک آگیا تھا۔
’’پھر آپ نے بھی کچھ سوچا ہے ۔۔۔۔ کوئی طریقہ!!! جو اس بپھرے اور غلط جانب رواں معاشرے کو سیدھی راہ پر لے آئے‘‘۔
میں نے اسکے خوبصورت دفتر کا جائزہ لیتے ہوئے اور اسکی پشت پر کتابوں سے بھرے شیلف میں سجی کتابیں گنتے گنتے پوچھا۔
’’جی ۔۔۔ میں تو کام شروع بھی کر چکا ہوں ۔۔۔ ایک این.جی.او بھی بنائی ہے ۔۔۔۔ بس مجھے ارواح کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ سچائی اور جذبے میں گندھی ۔۔۔۔! ’مثلاََ۔۔۔!‘۔ میں نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا۔ مثلاََ۔۔۔مثلاََ وہ لوگ میرے کارواں کے ساتھی ہونگے جو ۔۔۔ صرف چند خوبصورت مقاصد کے چمکیلے بینر لئے پرل کانٹی نینٹل میں چائے پارٹی نہیں کریں گے ۔۔۔ جو ٹی وی کی سکرین پہ آ کر آنسو بہا کر سستی شہرت کے خواہاں نہیں ہوں گے۔ وہ روحیں چاہتا ہوں جو ائرکنڈیشنڈ دفاتر میں چھپ کر اپنے مقاصد کی راہنمائی نہیں کریں گی۔ بلکہ گلیوں میں نکل کر ۔۔۔۔ عام لوگوں میں شامل ہو کر، انکے جھنجھلائے ہوئے ذہنوں میں اتر کر۔۔۔۔ انکی سوچوں کو مثبت طریقے سے بدلنے والے ہوں گے۔ شیخ صاحب ۔۔۔۔ آپ جیسے لوگ جو جدید علوم سے بہرہ ور ہیں، اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔۔۔کمپیوٹر کے ماہر ہیں، آپ جیسے لوگ تو دنوں میں اس نیک اور اخلاقی مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔۔۔!‘‘ اس نے مجھے ڈائرکٹ کردیا۔’’ہوں!!!۔۔وہ کیسے؟‘‘۔میں نے پوچھا۔’’جیسے۔۔۔۔جیسے۔۔ہاں!جیسے آج کل گلوبل میڈیا کا دور ہے۔۔۔انٹرنیٹ و موبائل عام ہیں۔ہر دور میں اس معاشرے میں پنپتے رحجانات کو معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک کامیاب مصلح کی کامیابی کا راز ایک بگڑے رحجان کو پکڑ کر لوگوں کی مثبت سوچوں تک پہنچنا ہے۔۔۔مثال کے طور پر جب معاشرے میں موسیقی عام ہوئی تو اس وقت کے صوفیوں،ولیوں اور بزرگوں نے قوالی جیسے فن کا استعمال کیابگڑے طور طریقوں ۔۔۔بے ڈھنگی شکلوں کو کھینچ تان کر ایک ڈھنگ دیا اور ذہنوں کو تبدیل کر دیا۔۔۔!آپ بھی دیکھیں یہ وائرلیس میڈیا کا دور ہے۔۔۔لوگ اپنی فرسٹریشن ختم کرنے کے لئے فضول چیٹنگ، بے مقصدڈسکشن فورم میں حصہ لیتے ہیں، چینلز کا رحجان ہے۔ لوگ ان کا استعمال بے راہ روی کے لئے کر رہے ہیں۔اگر انہی عوامل کا استعمال مثبت طریقے سے کیا جائے تو ۔۔۔۔ سوچئے لوگوں کی ذہنی ترقی، مثبت ھم آہنگی اور اصلاح نہیں ہو سکتی ۔۔۔؟ میں کہتا ہوں کیوں نہیں ہو سکتی! ہم کر سکتے ہیں ۔۔۔ جناب میرے پاس بہت سے آئیڈیاز ہیں ۔۔ آپکا تجربہ اور میرے آئیڈیاز ۔۔۔ یہ مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔۔۔ منجمد ذہنوں کو انکی فسوں زدہ آنکھوں کے راستے جھنجھوڑ سکتے ہیں!!! ان کی سوچوں کو بدل سکتے ہیں۔۔۔۔جناب ایک ایسا چینل لانچ کیا جا سکتا ہے جو آجکل کے رحجانات کے مطابق اصلاحی پیغامات لوگوں کے دلوں تک پہنچا سکے ۔۔۔ تاکہ کل ہماری نسلیں ہمارا گریبان تو نہ پکڑ سکیں!!! کہ ہم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔ کہ ہم بھی اس منجمد معاشرے کا حصہ۔۔۔۔‘‘۔ اس کی آواز پھر سے ڈبڈبا گئی۔ میں نے سوچا یہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے ایک ترقیاتی مخلص رو ملنے کی امید کی جا سکتی ہے ۔۔۔ ضرور کچھ کرنا چاہئے۔ اس نے جاتے ہوئے مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا ۔۔۔ کافی سادہ مگر خوبصورت تھا، سیاہ کارڈ ۔۔۔جس میں این.جی.او کا اور اس کا نام سفید فونٹ میں اس طرح تھا جیسے اندھیری رات میں روشنی ۔۔۔جس طرح مایوسی میں امید کی کرن! میں نے دن رات ایک کر کے ایک ویب پورٹل لانچ کردیا۔ پوری جدت کے ساتھ یہ ایک مثالی سائٹ تھی ۔۔۔ این.جی.او کے مقاصد اینیمیشن کے ساتھ اور علامتی انداز میں بہت موثر تھے۔ ڈسکشن فورم بھی دیا گیا تھا ۔۔۔ جس کے عنوانات اور موضوعات بہت چنے ہوئے تھے۔ میں کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ خدا کا ایسا کرنا ہوا کہ چند دنوں کے بعد مجھے کینیڈا میں ایک اچھی نوکری مل گئی اور میں کینیڈا چلا گیا، آخری دفعہ جب میں نے ویب سائٹ چیک کی تو اسے اچھے خاصے اشتہارات مل چکے تھے۔’’آل ٹائم ریکارڈ وزٹڈ ویب سائٹس‘‘ میں یہ سرفہرست بن چکی تھی۔ مجھے مزید اطیمنان ہوا۔وقت کچھ ایسا تیز بھاگا کہ کب تین سال گزرے ۔۔۔۔ کیسے گزرے پتہ ہی نہ چلا!!! تین سال بعد ہی وطن آ سکا۔ ایک دن سوچا چلو دیکھیں این.جی.او کے کیا حالات ہیں۔ کچہری گیا تو معلوم ہوا دفتر بدل کر گلبرگ چلا گیا ہے۔ بہرحال وہاں پہنچا۔ دیکھا کہ ایک عالیشان عمارت ہے جو کہ پوری اس این.جی.او جو کہ اب ایک انٹرپرائز اور لمیٹڈ بن چکی ہے، کے تسلط میں ہے۔ مزید معلومات جو کہ اندر جا کر ملیں۔۔۔یہ تھیں کہ یہ انٹرپرائز ایک سا فٹ وئر ہاوٗس ، سروس پرووائڈر اور لاء کنسلٹینسی فرم وغیرہ پر مشتمل ہے۔ دفتر ایسا تھا کہ کینیڈا میں بھی مثال نہ ملے!!! بلاآخر پوچھتے پوچھتے جناب کے دفتر تک رسائی ملی۔ کافی شاہانہ انداز تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ پہلے ٹھٹھکا ۔۔۔ پھر اخلاص میں لپٹی شاطرانہ مسکراہٹ ہونٹوں تک لائی گئی ۔۔۔ فرمایا ۔۔۔’’یار کہاں تھے کئی بار رابطہ کیا ۔۔۔۔ آخر معلوم ہوا کہ کینیڈا چلے گئے ہو ۔۔۔۔ اچھا ہوا آ گئے۔ اب مت جانا!!! وہاں سے زیادہ یہاں کمائی ہے۔ میرے آئیڈیاز۔۔۔‘‘۔پھر مجھے دفتر کا جائزہ لیتے دیکھ کر مسکرا دیا ۔’’ویسے ان سب میں تمہارا بھی حصہ ہے۔ مطمئن رہو!۔۔۔ہاں مگر ۳۰ فیصد ۔۔۔ کیونکہ آئیڈیاز کی قیمت زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور آئیڈیا تو میرا تھا۔۔۔ نا!‘‘ واپسی میں میرا گزر ایک گندے نالے کے قریب سے ہوا۔ اس کے پانی کی سیاہی دیکھ کر مجھے اسکا وزیٹنگ کارڈ یاد آیا جو میں انسپریشن کے لئے ہمیشہ اپنے پرس میں رکھتا تھا۔ میں نے وہ کارڈ نکالا ۔۔۔ اس کی سیاہی کا موازنہ نالے کے پانی سے کیا ۔۔۔ مگر ایک چیز مجھے کھٹک رہی تھی ۔۔۔ وہ تھا کارڈ کے سیاہ رنگ میں سفیدی کا داغ!!! میں نے وہ د ھبہ ختم کرنے کے لئے کارڈ نالے میں پھینک دیا!!!